- 2,376
- 1,850
- 143
"ڈرپوک"
(افسانہ)
============================================
خبر اتنی اہم نہ تھی... ناصر بھائی سنا کر چپ چاپ استری سامنے بچھی چادر پہ پھیرنے لگے۔
جبکہ میں سناٹے میں رہ گیا۔ کانوں پہ یقین نہ آیا۔ نظریں زمیں میں گڑ گئیں. جیسے منوں وزن پلکوں پہ لاد دیا گیا ہو... میں نے آنکھیں پھاڑ کر ناصر بھائی کو دیکھنا چاہا لیکن سامنے منڈلاتی صورت کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔
کک کون؟؟؟ کون؟؟؟ میرے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔
ارے شبینہ بیگم !! حمید چرسی کی گھر والی۔ اس نے زہر پی لیا کل رات۔
بھلا بتاؤ کل ہی تو یہ چادریں دھلنے ڈال کر گئی تھی اور آج اوپر ہی پہنچ گئی۔
میں نے پہلے تو ہونقوں کی طرح گردن گھما کر ناصر بھائی کو دیکھا۔ پھر اچانک مجھے جھونٹا سا آیا۔
ہاتھ میں پکڑا کپڑوں کا شاپر دھم سے گرا اور میں اکڑوں بیٹھتا چلا گیا۔
ارے، ارے کیا ہوا سرجی؟؟ ارے کلو پانی لا۔ ارے اٹھئیے،،
کلو دوڑ کر پانی لایا اور مجھے تھما دیا۔ دو تین سیکنڈ بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے بغیر کچھ کہے گھر کی راہ لی۔
اپنی گلی کی مغربی جانب نہ چاہتے ہوئے بھی نگاہ اٹھ ہی گئی۔ قنات لگی ہوئی تھی اور اکا دکا لوگ کھڑے تھے..
دبے پاؤں میں بھی قنات کیطرف چل دیا۔
ایکطرف ایک نوجوان کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ لوگ اسکو دلاسے دے رہے تھے اور وہ کھوئے کھوئے لہجے میں آہستہ آہستہ سر ہلارہا تھا۔
ذرا دیر بعد جنازہ اٹھا اور شبینہ بیگم کے ذاتی مکان کیطرف چل دیا۔ وہ مکان جہاں اسکو سکون بھری ابدی نیند لینی تھی۔
---***---
شبو یعنی شبینہ دو گلی چھوڑ کر رہتی تھی۔ باپ مسلمان، ماں ہندو۔ یہ خاندان کراچی شہر کے مختلف کرائے کی کھولیوں سے دھکے کھاتا یہاں اس محلے آ پہنچا تھا اور کورنگی کے اس سستے علاقے میں کسی نیک وقت کی دعا کا ثمرہ پاکر دو کمرے کا مکان کرائے پہ لے لیا تھا۔
شبو کا شوہر ایسا تھا کہ اس سے نہ ہونا اچھا۔ جوے میں مال و اسباب اور نشے میں صحت ہار کر وہ بھی اس خاندان کیساتھ ہی چلا آیا تھا۔
شبو اچھی خاصی کوئی تیس سال کی عورت رہی ہوگی۔ اسکا ایک چھوٹا سا بیٹا شکیل بھی تھا جبکہ میری عمر بائیس سال تھی۔ شفقت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا۔ پیشے کا نائی تھا۔ فٹ پاتھ پہ ایک ٹوٹی گھومنے والی کرسی اور آئینہ رکھ کر کام شروع کردیا تھا۔ شبو سے مڈبھیڑ تک میں اسے جانتا تک نہ تھا، محلے کے لوگ بھی بس شیو بنوانے کی حد تک جانتے ہونگے۔
ایک دن میں لائبریری سے کچھ کتابیں لیکر سائیکل پہ اس گلی سے گزر رہا تھا۔
میں کتابوں میں مگن تھا یا پھر شبو نجانے کس دھن میں گنگناتی گزر رہی تھی، اچانک اسکا دھیان بھٹکا اور سائیکل کے سامنے آگئی۔ بچتے بچاتے بھی اسکو ہلکا سا دھکا لگا اور اسکے ہاتھ سے دودھ کا شاپر نکل کر سڑک پہ سفیدہ مل گیا۔ جے رام جی کی!! گرتے ہوئے اسکے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی۔ میں بے حد بوکھلا گیا تھا۔ جلدی سے اترا اور اس کو اٹھا کر اسکے گھٹنے سہلانے لگا۔
اس نے تلملا کر میرا ہاتھ جھٹکا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کیا کررہا ہوں۔ فوراً شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹا۔ جب تک وہ دو چار مغلظات کی باڑ مار چکی تھی۔ تاہم قصہ تمام ہوا اور میں سائیکل سنبھال کر گھر چلا آیا۔ اگلے روز میں شفقت نائی کے گھر چلا گیا۔ سوچا تھا کہ اس سے گزشتہ واقعے پہ معذرت کرلونگا۔
دروازہ شبو نے کھولا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔ پھر واپس مڑی اور دو لمحے بعد واپس پلٹی تو اسکے ہاتھ میں ایک افسانوں کا مجموعہ تھا۔
کل گرا گئے تھے تم، میں نے پڑھ لیا۔ کیا،،، اور مل سکتی ہے ایسی کتاب؟؟؟
آں ہاااں، میرے پاس ایک دو اور ہیں۔ شام کو لادونگا۔
اور اسطرح شام تک دو مزید کتابیں دیکر شناسائی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ یہ الگ بات کہ ان کتابوں کی واپسی کی کوئی سبیل نہ بنی اور مجھے دوگنا ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔
میرا کالج کا زمانہ تھا، شاعری کا چسکا تو تھا ہی، کسی برے مانس نے افسانہ گردانی کا شوق لگادیا تھا۔ بس صاحب اس سے ایسے چمٹے کہ بارھویں کی انگریزی فیل کر بیٹھے۔
شبو سے کتابوں کا لین دین شروع ہوا تو اسکا ہمارے گھر ایک آدھ دفعہ آنا بھی ہوگیا۔
پہلی ہی بار میں اماں نے مجھے اس زور سے جھاڑ پلائی کہ مجھے لگا جیسے مجھے زندہ درگور کردی ہو۔
کن گرے پڑے لوگوں کے چکر میں منہ کالا کرتا ہے منحوس، تو بھی انہی کیساتھ سڑک پہ گھسٹ جائے گا کل کو۔ اگر اب کسی کتاب کی ترسیل ہوئی تو گلا گھونٹ دونگی تیرا۔
اور میں چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن دل میں بجھی یا چھپی چنگاری کو ہوا لگ چکی تھی۔ تاہم اماں کا ڈر اب پہاڑ بن کر راہ میں حائل تھا۔ میں نے شبو کو گھر آنے سے منع کردیا اور پہلی بار اسکو چوری چھپے افسانہ بھیجا۔ واپسی میں افسانے کیساتھ اس نے ایک پرچی پہ شکریہ لکھ بھیجا اور مجھ کتابی کیڑے اور عورتوں سے کوسوں دور رہنے والے انسان میں کچھ ہلچل سی مچ گئی۔
(افسانہ)
============================================
خبر اتنی اہم نہ تھی... ناصر بھائی سنا کر چپ چاپ استری سامنے بچھی چادر پہ پھیرنے لگے۔
جبکہ میں سناٹے میں رہ گیا۔ کانوں پہ یقین نہ آیا۔ نظریں زمیں میں گڑ گئیں. جیسے منوں وزن پلکوں پہ لاد دیا گیا ہو... میں نے آنکھیں پھاڑ کر ناصر بھائی کو دیکھنا چاہا لیکن سامنے منڈلاتی صورت کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔
کک کون؟؟؟ کون؟؟؟ میرے منہ سے بوکھلاہٹ میں نکلا۔
ارے شبینہ بیگم !! حمید چرسی کی گھر والی۔ اس نے زہر پی لیا کل رات۔
بھلا بتاؤ کل ہی تو یہ چادریں دھلنے ڈال کر گئی تھی اور آج اوپر ہی پہنچ گئی۔
میں نے پہلے تو ہونقوں کی طرح گردن گھما کر ناصر بھائی کو دیکھا۔ پھر اچانک مجھے جھونٹا سا آیا۔
ہاتھ میں پکڑا کپڑوں کا شاپر دھم سے گرا اور میں اکڑوں بیٹھتا چلا گیا۔
ارے، ارے کیا ہوا سرجی؟؟ ارے کلو پانی لا۔ ارے اٹھئیے،،
کلو دوڑ کر پانی لایا اور مجھے تھما دیا۔ دو تین سیکنڈ بعد میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے بغیر کچھ کہے گھر کی راہ لی۔
اپنی گلی کی مغربی جانب نہ چاہتے ہوئے بھی نگاہ اٹھ ہی گئی۔ قنات لگی ہوئی تھی اور اکا دکا لوگ کھڑے تھے..
دبے پاؤں میں بھی قنات کیطرف چل دیا۔
ایکطرف ایک نوجوان کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ لوگ اسکو دلاسے دے رہے تھے اور وہ کھوئے کھوئے لہجے میں آہستہ آہستہ سر ہلارہا تھا۔
ذرا دیر بعد جنازہ اٹھا اور شبینہ بیگم کے ذاتی مکان کیطرف چل دیا۔ وہ مکان جہاں اسکو سکون بھری ابدی نیند لینی تھی۔
---***---
شبو یعنی شبینہ دو گلی چھوڑ کر رہتی تھی۔ باپ مسلمان، ماں ہندو۔ یہ خاندان کراچی شہر کے مختلف کرائے کی کھولیوں سے دھکے کھاتا یہاں اس محلے آ پہنچا تھا اور کورنگی کے اس سستے علاقے میں کسی نیک وقت کی دعا کا ثمرہ پاکر دو کمرے کا مکان کرائے پہ لے لیا تھا۔
شبو کا شوہر ایسا تھا کہ اس سے نہ ہونا اچھا۔ جوے میں مال و اسباب اور نشے میں صحت ہار کر وہ بھی اس خاندان کیساتھ ہی چلا آیا تھا۔
شبو اچھی خاصی کوئی تیس سال کی عورت رہی ہوگی۔ اسکا ایک چھوٹا سا بیٹا شکیل بھی تھا جبکہ میری عمر بائیس سال تھی۔ شفقت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا۔ پیشے کا نائی تھا۔ فٹ پاتھ پہ ایک ٹوٹی گھومنے والی کرسی اور آئینہ رکھ کر کام شروع کردیا تھا۔ شبو سے مڈبھیڑ تک میں اسے جانتا تک نہ تھا، محلے کے لوگ بھی بس شیو بنوانے کی حد تک جانتے ہونگے۔
ایک دن میں لائبریری سے کچھ کتابیں لیکر سائیکل پہ اس گلی سے گزر رہا تھا۔
میں کتابوں میں مگن تھا یا پھر شبو نجانے کس دھن میں گنگناتی گزر رہی تھی، اچانک اسکا دھیان بھٹکا اور سائیکل کے سامنے آگئی۔ بچتے بچاتے بھی اسکو ہلکا سا دھکا لگا اور اسکے ہاتھ سے دودھ کا شاپر نکل کر سڑک پہ سفیدہ مل گیا۔ جے رام جی کی!! گرتے ہوئے اسکے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی۔ میں بے حد بوکھلا گیا تھا۔ جلدی سے اترا اور اس کو اٹھا کر اسکے گھٹنے سہلانے لگا۔
اس نے تلملا کر میرا ہاتھ جھٹکا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کیا کررہا ہوں۔ فوراً شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹا۔ جب تک وہ دو چار مغلظات کی باڑ مار چکی تھی۔ تاہم قصہ تمام ہوا اور میں سائیکل سنبھال کر گھر چلا آیا۔ اگلے روز میں شفقت نائی کے گھر چلا گیا۔ سوچا تھا کہ اس سے گزشتہ واقعے پہ معذرت کرلونگا۔
دروازہ شبو نے کھولا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔ پھر واپس مڑی اور دو لمحے بعد واپس پلٹی تو اسکے ہاتھ میں ایک افسانوں کا مجموعہ تھا۔
کل گرا گئے تھے تم، میں نے پڑھ لیا۔ کیا،،، اور مل سکتی ہے ایسی کتاب؟؟؟
آں ہاااں، میرے پاس ایک دو اور ہیں۔ شام کو لادونگا۔
اور اسطرح شام تک دو مزید کتابیں دیکر شناسائی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ یہ الگ بات کہ ان کتابوں کی واپسی کی کوئی سبیل نہ بنی اور مجھے دوگنا ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔
میرا کالج کا زمانہ تھا، شاعری کا چسکا تو تھا ہی، کسی برے مانس نے افسانہ گردانی کا شوق لگادیا تھا۔ بس صاحب اس سے ایسے چمٹے کہ بارھویں کی انگریزی فیل کر بیٹھے۔
شبو سے کتابوں کا لین دین شروع ہوا تو اسکا ہمارے گھر ایک آدھ دفعہ آنا بھی ہوگیا۔
پہلی ہی بار میں اماں نے مجھے اس زور سے جھاڑ پلائی کہ مجھے لگا جیسے مجھے زندہ درگور کردی ہو۔
کن گرے پڑے لوگوں کے چکر میں منہ کالا کرتا ہے منحوس، تو بھی انہی کیساتھ سڑک پہ گھسٹ جائے گا کل کو۔ اگر اب کسی کتاب کی ترسیل ہوئی تو گلا گھونٹ دونگی تیرا۔
اور میں چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن دل میں بجھی یا چھپی چنگاری کو ہوا لگ چکی تھی۔ تاہم اماں کا ڈر اب پہاڑ بن کر راہ میں حائل تھا۔ میں نے شبو کو گھر آنے سے منع کردیا اور پہلی بار اسکو چوری چھپے افسانہ بھیجا۔ واپسی میں افسانے کیساتھ اس نے ایک پرچی پہ شکریہ لکھ بھیجا اور مجھ کتابی کیڑے اور عورتوں سے کوسوں دور رہنے والے انسان میں کچھ ہلچل سی مچ گئی۔