Incest Ganda Khandan

Member
167
64
28
گندا خاندان
قسط 1
(ایک انسیسٹ گھریلو کہانی)
یہ دسمبر 2002۶ کی ایک سرد رات تھی ،، جب میں کام سے واپسی پر گھر پہنچا ۔۔
اسوقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
دروازہ بجانے پر میری چھوٹی بہن زرین نے گیٹ کھولا۔
میں سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں جانے لگا تو مجھے امی کے کمرے سے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں ۔
کسی کی درد سے کراہنے کی آوازیں ، میرے دماغ نے ایک دم سے جھٹکا کھایا اور سوچا کہ اسوقت امی کے کمرے میں امی ہی ہوسکتیں ہیں اور کون ہوسکتا ہے؟
میرے اندر کا تجسّس اب غصے کی صورت اختیار کر گیا تھا کیونکہ میں جانتا تھا یہ اسطرح کی آوازیں کسی کی جنسی چدائی کی آوازیں ہیں ۔
اور وہ میری ماں ؟
نہیں نہیں ابو کو وفات پائے ڈیڑھ سال ہوگیا تھا پھر یہ امی کس کے ساتھ ؟
اسی سوچ نے میرے دماغ کے پرخچے اڑا دیے اور میں اندر کمرے میں جھانکنے کی اور کوئی سوراخ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا ۔
میں نے ایک ترکیب سوچی اور پیچھے جاکر سیڑھیوں پر نیچے کی طرف ہو کر لیٹ گیا تاکہ کسی کو نظر نہ آسکوں ۔
تھوڑی دیر بعد مجھے فہد بھائی امی کے کمرے سے نکلتے ہوئے نظر آیا ۔
فہد بھائی کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا اور میری سوچ کے پیمانے ایک دوسرے سے سوالات کرنے لگی؟
فہد بھائی امی کے ساتھ ۔؟
یعنی امی فہد کے ساتھ وہ سب۔۔۔؟
مجھے اب تلک یقین نہیں آرہا تھا۔
ہوسکتا ہے اندر ایسا ویسا کچھ نہ ہورہا ہو۔
لیکن اسطرح کی سسکیاں تو سیکس میں ہی ہوسکتیں ہیں ؟
فہد بھائی جب امی کی کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں گیا تو امی نے دروازہ بند کرلیا۔
میں سیڑھیوں سے اٹھا اور جاکر اپنے کمرے میں بیڈ پر رضائی لے کر سوچنے لگا۔
میری آنکھوں سے نیند بالکل غائب ہوچکی تھی۔۔
ابھی ابھی جو کچھ میں نے اپنے کانوں سے سنا ۔
وہ سسکیوں کی آوازیں وہ کراہنے کی آوازیں ۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا امی اور فہد آپس میں اتنا گندا کھیل کھیلیں گے۔
لیکن اگلے ہی لمحے میرے ذہن کی سوچوں نے دستک دی کہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لو کانوں کے سنے ہوئے پر یقین نہ کرو۔
چناچہ میں نے جانچ پڑتال کرنے کا فیصلہ بنایا۔
یہی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔

تو دوستوں یہ تھی کہانی کی شروعات !
یہ میری سچی آپ بیتی ھے ، بعض لوگ انسیسٹ یعنی گھریلو رشتوں کے مابین سیکس کو تسلیم نہیں کرتے ،، لیکن وہ نہیں جانتے ایسے کتنے ہی گھر اس مشرقی معاشرے میں اندرونِ خانہ ان ناجائز تعلقات میں گھرے ہوئےہیں جو کہ منظرعام پر ایک فیصد بھی نہیں آتے ۔۔ اسلئے لوگ اس چیز کو جھوٹ سمجھتےہیں لیکن دوستوں کسی کے جھوٹ سمجھ لینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی،، معاشرتی حقائق بدل نہیں جاتے۔۔۔
آس پاس نظر دوڑائیں ، قریب سے دیکھیں پرکھیں ۔
کہیں نہ کہیں اسطرح کے تعلقات کی بھنک ضرور دکھے گی ، اور جب انسان خود ان چیزوں میں ملوث ہوجائے تو انکار کا پھر کوئی جواز نہیں بچتا کہ ایسا نہیں ہوتا یا ویسا نھیں ہوتا۔۔
انسیسٹ کہانیاں عموماً سچی ہی ہوتی ہیں بعض اوقات رائٹر تھوڑا مرچ مصالحہ لگا کر اسکو قارئین کی تفریح کےلئے اسکو یہ رنگ دے دیتا ہے۔
تو دوستوں آئیے اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد چلتے ہیں آپ بیتی کی طرف !

میرا نام رافع ہے جسوقت سے یہ واقعہ شروع کرنے لگا ہوں اسوقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔
ہم ٹوٹل چھ بہن بھائی تھے۔
دو بڑی بہنیں جنکی شادی ھوچکی ہے ۔
اس سے چھوٹا ایک بھائی فہد پھر ایک اور چھوٹی بہن پھر میں اور سب سے آخر میں زرین ۔
عالیہ ( سب سے بڑی بہن ) عمر 28 سال ، شادی کو پانچ سال ہوگئے ، تین بچے ہیں ۔
زنیرہ ( دوسرے نمبر والی بہن ) عمر 26 سال ، شادی کو تین سال ہوگئے ، دو بچے ہیں ۔

فہد بھائی ( عمر 23 سال ،، پڑھائی مکمّل کرلی اب جاب کرتےہیں ۔
ماہم ( عمر 21 سال ، یونیورسٹی میں پڑھتی ھیں ، ایک اسکول میں پڑھاتی بھی ہیں ۔
میں رافع ( عمر اٹھارہ سال، کالج کے سیکنڈ ائیر میں ہوں ، کال سینٹر میں کام بھی کرتا ہوں گھر والوں کا خرچوں کا بوجھ ہلکا کرنے کےلیے ۔
زرین ( سب سے چھوٹی سب کی لاڈلی) عمر سولہ سال ، میٹرک میں پڑھ رہی ہے۔۔۔۔

نازیہ ( امی ) : عمر چھیالیس (46) سال ، ایک ہاؤس وائف ہیں ۔
میرے ابو کا نام زبیر تھا انکی عمر پچاس سال تھی ڈیڑھ سال پہلے جون 2001۶ میں ایک دن وہ گھر پر ہی تھے کہ اچانک بیٹھے بیٹھے انکو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
ہماری زندگی بہت اچھی چل رہی تھی،، میرے ابو کی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں جاب تھی اور ایک بڑا عہدہ تھا، اسلئے کراچی میں سن 80۶ کی دہائی میں میرے ابو نے گلستانِ جوہر میں ایک اچھا زمینی گھر لے لیا تھا۔۔۔
ہمارے گھر میں ٹوٹل پانچ کمرے تھے۔۔
اور دو پورشن تھے، ایک اوپر ایک نیچے ۔
اوپر والے پورشن میں تین کمرے جبکہ نیچے والے پورشن میں دو کمرے تھے،، بڑا سا صحن اور چھوٹا سا گارڈن بھی تھا۔۔۔
ابو کی اچانک موت نے ہم کو جھنجھوڑ کر رکھدیا تھا۔۔
ابو کی وفات کے بعد انکے ادارے والوں نے میرے بڑے بھائی فہد کو گھر کا بڑا چشم و چراغ گردانتے ہوئے انکو اپنے ادارے میں نوکری دے دی، میں نے بھی مجبوری میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنا خرچہ سنبھالنے کےلیے نوکری شروع کردی کال سینٹر میں۔۔
اسطرح اب گھر کا گزر بسر ہونے لگا۔۔۔
ہمارا ایک اور گھر گاؤں رحیم یار خان میں تھا جو ھمارے دادا کی وراثت میں ملا تھا،، اسکا ایک پورشن ہم نے کرائے پر دے رکھا تھا،، اسکا ماہانہ کرایا آجاتا تھا،، گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی ،، بس کمی تھی تو باپ کی لیکن مجھے لگتا تھا جیسے فہد بھائی کو یہ کمی زیادہ نہیں تھی اور وہ اپنی مستی میں مست تھا۔۔۔
بعد میں آنے والے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ بتاؤنگا ۔
میں رات کو لیٹا لیٹا سو گیا ۔ اگلے روز میری آنکھ کھلی میں کالج جانے کےلئے تیار ہونے لگا ،، کالج میں کم ہی جاتا تھا جیسے کہ کراچی میں اکثریت گورمنٹ کالجوں کا یہی حال ہےکہ وہاں روٹین میں بچے کم ہی آتےہیں شام کو کوچنگ زیادہ پڑھتے ہیں ۔
خیر میں کالج جانے کے لئے تیار ہونے لگا ، تو امی آج پہلے کی نسبتاً عموماً کھلی کھلی خوش لگ رہیں تھیں جو کہ عموماً ہی ہوتا تھا لیکن میں رات کے ہوئے واقعے کی وجہ سے چور نظروں سے غور غور سے دیکھ رہا تھا ،، اندر ہی اندر غصّہ بھی تھا۔۔
اتنے میں فہد بھائی بھی آگئے ناشتے کی ٹیبل پر وہ بھی ناشتہ کرنے لگے ، میں نے دیکھا کہ جب فہد بھائی تو امی نے انکو مسکرا کر دیکھا اور فہد بھائی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔
مجھے اندر ہی اندر یہ بات کڑھ رہی تھی ،، میں نے حقیقت کو پتہ چلانے کا فیصلہ لگا لیا تھا،، میں جانتا تھا اگر میری امی اور بھائی اس گندے رشتے میں ملوث ہیں تو یہ کام یہ لوگ اکثر ہی کرتے ہونگے، بار بار کرتے ہونگے،، اور دوبارہ مجھے یہ سین دیکھنے کو ضرور ملے گا ۔۔۔
تین چار روز معمول کے مطابق گزر گئے اور کچھ بھی ایسا ویسا دیکھنے کو نہ ملا۔۔۔
میں یہ ترکیبیں سوچ رھا تھا کہ کیسے اندر کا نظارہ کیا جائے ؟ جس سے کہ مجھے یقین ہوجائے اندر کیا چل رہا ہے؟
اوپر والے تین کمرے امی میرے اور فہد بھائی کے تھے جبکہ نیچے والوں میں ماہم اور زرین سوتی تھیں ۔
آج میں ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔۔۔
رات کو گیارہ بجے جب چھٹی ملی تو میں بائیک نکال کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔
میرے دل میں اشتیاق کی وجہ سے دھڑکن تیز تر ہوتی جارہی تھے۔۔۔
میں جلدی جلدی گھر پہنچ کر دروازہ بجایا ،، موٹرسائیکل باہر ہی کھڑی کی تو زرین بولی کیا ہوا بھائی اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
میں اس کے سوال کو اگنور کرتےہوئے سیڑھیوں پر چڑھتے چڑھتے امی کے کمرے کے باہر پہنچا ،، اتفاق سے کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی لیکن بیچ میں جالی کی وجہ سے نظر ٹھیک سے نہیں آرہا تھا،، لیکن یہ ضرور دیکھ کر پتہ چلایا جاسکتا تھا کہ اندر چدائی ہورہی ہے ، جہاں ایک عورت جو کہ میری ماں تھی بیڈ پر گھوڑی بنے ہوئے تھے اور میرا بھائی فہد پیچھے سے آگے پیچھے ہو کر دھکے مار رہا تھا۔
یہ دیکھ کر میرا پارہ چڑھ گیا آور دماغ گھوم گیا ۔
غصے کے عالم میں تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا۔
مجھے پتہ نہیں چلا میں کب سوگیا ۔
اگلے دن میں کالج نہیں گیا میری آنکھ تب کھلی جب امی مجھے جگا رہے تھی ،، رافع بیٹا اٹھو کالج نہیں جانا کیا ،، امی کو دیکھ کر مجھے پھر سخت غصّہ آیا ۔ اور دل ہی دل میں انکو رنڈی کنجری اور طوائف کہنے لگا ۔۔۔
امی بستر سمیٹ رہی تھی میرے اوپر سے رضائی ہٹانے لگی اور پیار سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو یکدم انہوں نے کہا رافع بیٹا تمہیں تو بخار ہے ؟
کیا ہوا مجھے کیوں نہیں بتایا۔
میں نے امی کا ہاتھ جھٹک دیا اور غصے سے کہا ہاتھ مت لگائیے مجھے۔
امی مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
امی : کیا ہوگیا رافع یہ کسطرح بات کررہے ہو؟
رافع : آپ کےلئے کچھ ہوگا بھی کیوں ؟
آپ تو بہت خوش ہونگی نا ابو کے مرنے کے بعد کیونکہ آپکی ناختم ہونے والی گندی خواہشات تو پوری ہورہی ہیں ۔
میری یہ بات سن کر امی کی آنکھیں نم ہوگئیں ، صاف ظاہر تھا کہ وہ میری باتیں سن کر چونک گئی ہیں اور کپکپاتے ہوئہ ناراضگی سے بولی : رافععع یہ تمم کسطرح بات کررہے ہو ایسا کیا کردیا ہے میں نے ؟
رافع : تم نے تو ابھے تک کچھ کیا ہی نہیں امی؟
بس سب کچھ خود بخود ہورہا ہے؟
رات کو آپ اور فہد بھائی کمرے میں جو کرتے ہو وہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ذرا بھی شرم نہیں آتی آپ لوگوں کو ۔
ماں بیٹے کے رشتے کو ہی داغدار کردیا آپ لوگوں نے۔
میں نے یہ بات ایک سانس میں کہی ، امی یہ بات سن اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔
رافع : اب یہ ڈرامہ میرے سامنے مت کریں چلی جائیں میرے کمرے سے ، میرا اور آپکا کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی مجھے آج کے بعد بیٹا بلائیے گا۔۔
یہ بات سنتے ہی امی روتے روتے نیچے بیٹھ گئیں اور میرے قریب آتے ہوئے میرے پاؤں پکڑ کر اس پر سر رکھ لیا اور دھاڑیں مار مار کر کہنے لگیں : رافعع بیٹا مجھے معاف کردو ، یہ سب میری غلطی مکمّل طور پر نہیں تھی۔
رافع : ہاں میں جانتا ہوں آدھی بھائی کی بھی ہوگی ورنہ اتنا غلیظ کام اور اتنے طریقے سے ایک طرف کی راضی سے تو نہیں ہوسکتا۔
امی نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا اور میرے سامنے آکر میرا چہرا ہاتھوں میں تھاما اور کہا : رافع بیٹا اپنی ماں سے اتنی نفرت مت کر۔
میں تمہیں سب سچ سچ بتاؤنگی ،، میرا غصّہ اب بھی کم نہیں ہورہا تھا میں نے امی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر سے ہٹائے اور کہا : اب کیا سچ بتانا ہے امی ؟
جو میں نے دیکھا کیا وہ جھوٹ تھا؟
امی : بیٹا دیکھے ہوئے کہ پیچھے اکثر لوگ اسکی وجوہات نہیں جانتے اسلئے طعنہ زنی کرتے ہیں ۔
تو اب سنو میں تمہیں بتاتی ہوں۔
شاید یہ سن کر تمہیں اپنے سگے رشتوں پر بہت غصّہ آئے گا اور تم کسی کے ساتھ بھی وفادار نہ رہ سکو گے لیکن حقیقت یہی ہے جو میں بتانے جارہی ہوں۔
یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے ۔
جب میں نے تمہاری بڑی بہن اور ابو کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔
میں یہ بات سن کر حیرت زدہ نظروں سے امی کی طرف دیکھنے لگا؟
امی : ہاں بیٹا ، تمہارے باپ اور تمہاری بڑی باجی عالیہ اس ناجائز رشتے کی شروعات میں پیش پیش تھے جب تم محض گیارہ بارہ سال کے تھے، فہد کالج میں تھا تم باقی سب اسکول میں تھے ،، عالیہ کی یونیورسٹی کے آخری دن چل رہے تھے وہ یونیورسٹی کم ہی جاتی تھی ۔
زنیرہ بھی یونیورسٹی میں گئی ہوتی تھی۔
لیکن یہ بات آخر کبھی نہ کبھی تو پتہ چلنی ہی تھی۔
اور اس دن کو بھی اتفاق ہی سجھ لو۔۔
میں پڑوس میں ایک فرحین انٹی کے گھر گئی ہوئی تھی، ہمارے گھر پر اس دن صبح صرف ابو اور عالیہ تھے ۔
تھوڑی دیر بعد جب میں واپس آئی تو میں نے جو دیکھا اسکو دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔
تمہارا باپ اور تمہاری بڑی بہن عالیہ بالکل ننگے ہو کر کمرے میں وہی کام کررہے تھے جو کہ تنہائی میں صرف میاں بیوی ہی کرتےہیں ۔
امی کی یہ بات سن کر میرا دل زور زور سے دھڑکا ۔
میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
امی نے بھی میری حالت کا اندازہ لگا لیا تھا اور انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھا۔
امی : پھر میں نے یکدم یہ دیکھ کر ایک زوردار چیخ ماری اور وہ دونوں کمرے کے اندر میری یہ چیخ سن کر ڈر گئے۔
مارے ڈر کے وہ دونوں ایک دوسرے کو ڈھانپنے لگے۔
تمہاری بہن اور باپ دونوں بالکل برہنہ ایک دوسرے کو چوم چاٹ رہے تھے۔
عالیہ نے جلدی سے اپنے کپڑے اٹھائے اور میری آنکھوں کے سامنے سے نکل کر دوسرے کمرے میں بھاگ کر دروازہ بند کرلیا۔۔۔
زبیر کو جب میں نے دیکھا تو اندر جا کر انکے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کردی۔
میں نے کبھی تمہاری باپ کے آگے زبان نہیں چلائی تھی لیکن اس دن میرے ہاتھ بھی خود بخود چلنے لگے۔
زبیر نے یکدم میرے ہاتھ روکے اور غصے سے کہا : ہوش میں تو ہو تم؟
میں نے انکو دھکا دے کر اپنا آپ چھڑایا اور غصے سے کہا : ہوش میں تو آپ نہیں ہیں ۔
شرم نہیں آئی اپنی ہی بیٹی کے ساتھ اتنی گھٹیا حرکت کرتے ہوئے اور وہ عالیہ ؟وہ بھی بے شرموں کی طرح یہ سب ؟
آخر یہ گندا کھیل میرے پیٹھ پیچھے کب سے کھیلا جارہا ہے؟
تمہارے باپ زبیر نے بجائے خوفزدہ ہونے کے روایتی مردوں کی طرح اپنا رعب و دبدبہ جمانے کےلئے میرے بال پکڑے اور کہا : پچھلے چار مہینے سے میرا اور اسکا یہ چکر چل رہا ہے،، وہ بھی راضی میں بھی راضی
تو کیا کرے گا قاضی؟
زبیر کی آنکھوں میں میں نے غصے سے دیکھا لیکن وہاں ایک۔شیطانی ہسنی تھی،، زبیر نے پھر ایک ہاتھ سے میرا منہ پکڑتے ہوئے اور ہاتھ سے میرے بال پکڑتے ہوئے مجھے شیطانی انداز میں کہا : سن کتیا ہماری بیٹی بڑی سیکسی ہے،، وہ بھی اس میں راضی ہے،، جب چاہے ہم دونوں پیار کریں گے اور اگر تو نے کسی کو بھی بتایا تو تو تجھے طلاق دے دونگا ،، تجھے ہر چیز سے بے دخل کردونگا۔ پیسہ جائیداد کچھ نہیں ملے گا تجھے،، تجھے تیرے باقی بچوں سمیت گھر سے نکال دونگا۔
پھر پھرتی رہنا اکیلے پانچ بچوں کو لے کر ماری ماری۔
تمہارے باپ زبیر کی یہ دیدہ دلیری دیکھ کر میں اندر سے ڈر گئی اور۔تمہارے باپ کی کمینگی پر اس قدر غصّہ آیا کہ لعنت ہو ایسے شخص سے شادی ہونے پر آج یہ دن دیکھنا پڑا ،، جسکو اپنے گناہ پر پشیمان ہونے کے بجائے اس پر ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے۔۔
زبیر نے یہ بات کہہ کر مجھے دھکا دیا اور کپڑے پہن کر باہر نکل گیا۔
میں یہ سوچ کر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے سسک سسک کر روتی رہی۔
امی کی یہ باتیں سن کر میرا دماغ چکرا رہا تھا ،،میری بھی آنکھیں تھوڑی نم ہونے لگیں تھیں لیکن مجھے اپنے مرے ہوئے باپ زبیر پر سخت غصّہ آنے لگا۔
اگلے ہی لمحے دماغ نے کہا کہ باپ ہے مر گیا تو اب دل میں برائی نہیں رکھتے۔
خیر !
پھر امی چپ ہوگئیں میں نے پھر اشتیاق سے پوچھا : امی پھر کیا ہوا اس کے بعد؟
امی : اس دن کے بعد سے میں نے تمہارے باپ اور عالیہ سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔
ایک زندہ لاش بن چکی تھی۔ تم لوگ جب بھی گھر پر نہ ہوتے اکثر تمہرا باپ آفس سے چھٹی کرکے میری موجودگی میں ہی عالیہ کے ساتھ یہ گندا کھیل کھیلتا رہا ،، اور تمہاری بڑی بہن بھی اس قدر بے شرم ہوچکی تھی کہ اسکو بھی نہ شرم تھی نہ کسی کا ڈر خوف، کیونکہ تمہارا باپ زبیر بھی اسکو کہہ چکا تھا کہ ماں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اسکو میں سیدھا کردونگا۔۔۔
اسی دوران تمہاری بہن عالیہ پریگنینٹ ہوگئی ،، یہ ساری سچویشن میرے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی،، دل کرتا تھا پھانسی پر چڑھا لوں یا خود کشی کرلوں ۔۔۔۔
لیکن تم بچوں کا سوچتے ہوئے رکنا پڑا۔
تم لوگوں کےلئے جینا پڑا۔۔
اسی اثناء میں تمہارے باپ کے اصرار پر میں تمہارا باپ اور عالیہ ہسپتال میں عالیہ کا ابورشن یعنی بچہ گروانے گئے ۔۔۔
اور خیر سے عالیہ کے پیٹ میں پل رہا تمہارے باپ زبیر کا گناہ شکر سے ضائع ہوگیا ورنہ زمانے بھر میں ہماری بہت بدنامی ہوتی۔۔۔
اب جلد سے جلد میں عالیہ کی شادی کروانا چاہتی تھی۔۔۔
زبیر ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
میں تمہارے باپ زبیر سے نفرت تو بہت کرنے لگی تھی، لیکن رشتوں کا خیال رکھتے ہوئے وقتی ضرورت کے تحت بات کرنا پڑتی تھی۔۔۔
زبیر میرے بے حد اصرار کے بعد اس شرط پر مان گئے کہ شادی کے بعد بھی وہ عالیہ کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم رکھے گا جب کبھی وہ گھر پر آئے گی۔
چنانچہ ایک سال کے اندر اندر ہی تمہاری بہن عالیہ کا رشتہ کردیا گیا۔
اور شکر سے عالیہ کے سسرال والے اور تمہارے بہنوئی ضیغم بہت لبرل اور اوپن مائنڈڈ آدمی ثابت ہوئے ،، اگر وہ تنگ نظر دقیانوسی ہوتے تو عالیہ اور اسکا رشتہ تھوڑے عرصے بھی نہیں چلنا تھا۔۔۔
چنانچہ عالیہ شادی کے بعد ہر مہینے دو مہینے میں چکر لگاتی رہی،، لیکن میں اب دیکھتی تھی کہ تمہارے باپ کی گندی نظریں اب اپنی دوسری بیٹی زنیرہ پر تھیں ۔۔۔
مجھے یہ دیکھ کر اور بھی سخت غصّہ آیا۔۔۔
میں نے زبیر کو ایک دن غصے میں کہا : کچھ خوف کرلیں خدا کا۔
آپکو ذرا بھی خیال نہیں ، کوئی رشتوں کا لحاظ ہی نہیں ۔
زبیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میرے منہ پر دو تھپڑ جڑ کر مجھے بالوں سے نوچتے ہوئے کہا : تیری اتنی ہمت ہوگئی اب مجھے بتائے گی؟
تجھ میں اب ہے ہی کیا سالی؟
بگڑے ہوئے بدن والی۔
اگر زنیرہ کے ساتھ مجھے وہ سب نہیں کرنے دیکھنا چاہتی جو سب میں نے عالیہ کے ساتھ کیا تو جا باہر جا کر میرے لئے ایک خوبصورت لڑکی کا بندوبست کردے۔
تمہارے باپ کی یہ گندی خواہش سن کر میں اپنی قسمت پر رونے لگی کہ کس غلیظ آدمی سے پالا پڑا ہے میرا۔۔۔
اسی شش و پنج میں ایک دن زنیرہ نے مجھ سے تمہارے باپ کی شکایت کی جھجھکتے جھجھکتے سب کچھ بول گئی کہ ابو مجھے یہاں وہاں ہاتھ لگاتے ہیں گندی نظروں سے دیکھتے ہیں مجھے انکو ابو کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔
مجھے یہ بات سن کر بہت غصّہ چڑھا اور میں نے زبیر سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا ۔
اس شخص کو ایسی چوٹ پہنچاؤنگی یہ کہ اپنے پیدا ہونے پر افسوس کرے گا۔۔۔
انہی دنوں کی بات ہے تمہارا بڑا بھائی فہد یونیورسٹی جانے لگا تھ اور پارٹ ٹائم جب بھی کرتا تھا،، ایک دن وہ صبح گھر پر ہی تھا ،، تمہارا باپ آفس گیا ہوا تھا۔
باقی میں ، زنیرہ اور فہد گھر پر تھے۔
میں فہد کے کمرے میں گئی تو فہد ناشتہ کرکے کمرے میں مشت زنی کررہا تھا۔۔۔
میں نے اسکو کمرے کے باہر چپکے سے دیکھا اور پھر کمرے میں داخل ہوگئی۔
فہد ایک دم سے مجھے دیکھ کر ڈر گیا لیکن میں اسکے جسم کو دیکھنے لگی،، شاید یہ زبیر والے گناہ کا اثر تھا کہ اب میرے دل میں بھی اس شخص کو چت کرنے کےلئے اسی طرح کا گناہ کرنا تھا۔۔
فہد مجھے گھبرا کر دیکھنے لگا۔
میں نے دو چار سیکنڈ اسکو دیکھا اور کمرے سے نکل گئی۔
اپنے بیٹے کو یوں مشت زنی کرتے دییکھ کر مجھے ٹھوڑا عجیب تو لگا لیکن اسکی جوانی کو دیکھ کر میں بھی اسکی طرف مائل ہونے لگی۔
یہ وہ نہج ہوتی ہے جہاں آدمی صحیح غلط کی تمیز چھوڑ دیتا ہے۔۔۔
زبیر سے زیادہ نفرت میں نے اس دنیا میں کسی سے نہیں کی رافع۔۔۔
میں نے اب نوٹس کرنا شروع کیا کہ فہد بھی میری جانب مائل ہونے لگا ہے،، چنانچہ میں نے اسکے سامنے کھلے ڈھلے آنا شروع کردیا۔
جب کبھی کمرے میں اسکو ناشتہ دینے جاتی تو بناء دوپٹے کے جاتی ، کبھی کھلا گلا پہن کر جاتی۔
جس سے وہ میری طرف اٹریکٹ ہونے لگا۔
اور اب کچن میں کام۔کررہی ہوتی تو کبھی بہانے بہانے سے ٹچ کرکے پھر سوری بھی خود بخود بول دیتا ،۔
میں اندر ہی اندر فہد کی اس حرکت پر ہنس دیتی۔
فہد جب تمہارے جتنا ہی تھا۔۔۔
ہم دونوں کو بھی اندر ہی اندر اندازہ تھا کہ یہ سیکس کی بھوک ہی ہم دونوں کو ایک دوسرے کی جانب مائل کررہی ہے ،، پھر ایک دن جذبات میں آکر ہم دونوں یہ سب کر بیٹھے جب گھر میں کوئی نہیں تھا ،، اس بارے میں تمہیں نہیں بتا سکتی کہ یہ سب کیسے شروع ہوا۔
بس یوں سمجھ لو کے جسطرح زبیر اور تمہاری بہن عالیہ کا ہوا اسی طرح ہوگیا۔
اکثر و بیشتر پھر ہم گھر میں یہ گندا کھیل کھیلنے لگے۔
دؤسری طرف تمہارا باپ اب زنیرہ کے ساتھ ساتھ ماہم پر بھی گندی نظر رکھنے لگآ۔۔
رافعع تمہارے باپ سے زیادہ ٹھرکی انسان میں نے نہیں دیکھا ھوگا۔۔
لیکن اب سوچتی ہوں شاید زبیر اتنا بھی غلط نہیں تھا،، یہ جنسی آگ ہی ایسے ہوتی ہےکہ ہمیں کسی کی بھی بانہوں میں لے جاتی ہے۔
کسی کے بھی بستر تک پہنچادیتی ہے اور حرام حلال کی تمیز ختم کردیتی ہے۔
امی کی یہ بات سن کر میں غور غور سے انکو دیکھنے لگا،، یوں لگ رہا رھا تھا جیسے میرا دماغ پھٹ جائے گا۔۔
امی نے آگے بولنا شروع کیا۔
بس بیٹا پھر ایک دن تمہارے باپ نے فہد اور مجھے کچن میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیآ جب ہم دونوں کسنگ کررھے تھے،، تمہارے باپ نے فہد کو بالوں سے پکڑا میرے منہ پر تھپڑ مارے اور فہد کو بری طرح مارنے لگے ،، میں نے آگے بڑھ کر فہد کو زبیر کی گرفت سے چھڑایا آور غصے سے کہا : کیوں اب کیا ہوگیا آپکو؟
یہ آپکا بدلہ ہے جو میں چکا رہی ہوں۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی؟
خود تو آپ بہت نیک پارسا ہیں نا؟
اب کیوں غصّہ آرہا ہے ۔
خبردار جو آپنے میرے بیٹے کو ہاتھ بھی لگایا ،، پولیس میں کمپلین کردونگی اور ہر جر جگہ بدنام کردونگی کسطرح ہم پر ظلم کرتے ہو دن رات شراب پی کر ہنگامہ کرتے ہو۔
زبیر میری یہ دھمکی سن کر ڈر گئے۔
میں نے فہد کو اٹھایا اور اسکو لے کر فہد کے کمرے میں چلی گئی۔
اور دروازہ بند کردیا۔
اس دن کے بعد سے تمہارے باپ اور میرے بیچ اور بھی نفرت ہوگئی تھی،، لیکن میری دیدہ دلیری کے آگے اب وہ کوئی ایکشن لینے سے باز رہے آخر اس سب میں انکی خود کی بدنامی تھی۔۔۔
میں اور فہد پھر اکثر ہی یہ ہوس کا کھیل کھیلنے لگے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیار میں تبدیل ہوگیا۔
امی کی۔یہ بات سن کر مجھے سخت غصّہ آیا۔
لیکن میں کچھ نہیں بولا۔
امی : پھر جیسے تیسے کرکے سال ڈیڑھ کے اندر تمہارے باپ پر زور ڈال کر زنیرہ کی شادی بھی کردی گئے۔
عالیہ کو میرے اور فہد کے رشتے کے بارے میں پتہ چل چکا تھا جو کہ تمہارے باپ زبیر نے بتایا تھا اور اسکو اس بات سے کؤئی حیرانی بھی نہیں تھی اور ہوتی۔بھی کیسے ؟
وہ تو خود بری تھی۔
شادی کے بعد بھی جب بھی گھر آتی اپنے باپ کے بستر میں ضرور جاتی ۔
تمہارے باپ کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی تھی اسلئے وہ ویاگرا کھانے لگا۔
اب تم سوچو گے کہ ویاگرا کیا ہوتا ہے۔
وہ مردانہ طاقت کی گولیاں ہوتی ہیں اسکا وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن وہ سیدھا ہارٹ یعنی دل پر اثر کرتی ہے اور گردے ختم کردیتی ہے،، تمہارے باپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ،، عالیہ کا گھر قریب کراچی میں ہی ہے تو جب بھی وہ آتی تمہارا باپ ویاگرا کھا کر اس پر چڑھ جاتا ۔
تمہارے باپ کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی تھی ،، وہ ویاگرا کھانے سے باز نہیں آتا تھا۔۔
چنانچہ اسی طرح کرتے کرتے اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس فانی دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔۔
امی یہ باتیں کرکے چپ ہوگئیں ۔
میرا دماغ ایسا لگ رہا رھا تھا خالی ہوچکا ہے جیسے کچھ سمجھ نہ آرہا ہو۔
دماغ پر قفل لگ گئے ہوں،، اپنے مرے ہوئے باپ پر بھی سخت غصّہ آنے لگا۔
اپنے سامنے بیٹھی یہ روداد سناتی اپنی اس ماں پر بھی غصّہ آنے لگا۔۔۔
میرے پیٹھ پیچھے میرے گھر میں میرے سگے رشتے آپس میں یہ رنگ رلیاں مناتے رہے اور میں ان سب سے انجان رہا؟
آخر کیوں ؟
امی میری حالت کو سمجھتے ہوئے بولی : رافع بیٹا مجھے امید ہے تم یہ بات کسی کو نہیں کہو گے۔
ہمارے اس رشتے کے بارے میں صرف عالیہ جانتی ہے،، تمہاری باقی کی بہنیں انجان ہیں انکو کبھی مت بتانا۔۔
اور رشتے جیسے بھی ہوں زبردستی نبھانے پڑتے ہیں خون کے گھونٹ پی پی کر۔۔
مجھے پتہ ہے بیٹا تمہیں یہ سب سن کر اب بھے غصّہ آرہا ہوگا۔
لیکن یہ سب باتیں جو میں نے کی ہیں اس پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا اسکے پیچھے کی وجوہات کے بارےمیں سوچنا۔
اب میں چلتی۔ہوں۔
امی کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر چلی گئیں اور میں بیڈ پر رضائی لے کر پھر سے لیٹ گیا۔۔۔
اور دماغ پر زور نہیں دیا اور سوگیا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔







گندا خاندان
قسط 2
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )
Whatsapp
03140770721

انسانی ذہن بھی عجیب ہے ۔
دماغ کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ سوچتا ہے۔۔۔
میری آنکھ شام کو کھلی تو صبح کا واقعہ میرے دماغ میں گردش ہوا۔
میری ذہن کی سوچوں کو امی کی باتوں نے گھیر لیا تھا۔۔
میرے دل و دماغ کےلیے یہ یقین کرنا خاصہ مشکل تھا کہ میرے گھر میں ہی میرے پیٹھ پیچھے اتنے دھڑلے سے یہ کام ہوتا رہا اور مجھے پتہ بھی نہیں تھا۔
مجھے سچ میں امی ، فہد بھائی ، عالیہ باجی اور اپنے مرے ھوئے باپ زبیر سے کراہت اور نفرت ہونے لگی۔
امی مجھے سمجھا بجھا کر کمرے سے چلی تو گئیں تھیں لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں تھی کہ میں سب کچھ بھول کر امی کی باتوں کو اپنا لوں۔
اور ان تمام ہوس کے گندے کھیلوں کو قبول کرلوں ۔
میرے دماغ میں بہت ساری سوچیں گردش کرنے لگیں ۔
بچپن کے ہونے والے واقعات ،، وہ بچپن کی امی اور ابو کے درمیان ہونے والی تلخیاں ، لڑائیاں ، اب مجھے کچھ کچھ چیزیں سمجھ آنے لگیں کہ وہ کیوں ہوتا تھا۔
میں اپنے خاندان کے اس برے کاموں پر اس قدر شرمسار تھا کہ میں نے سوچا گھر سے دور بھاگ جاؤں یا گھر والوں کو مار ہی ڈالوں ۔
آخر کس منہ سے دوستوں یاروں سے سامنا کروں گا؟
لیکن اگلے ہی لمحے دماغ نے چپت لگائی کہ باہر کس کو معلوم گھر میں کیا ہورہا؟
لیکن پھر بھی ہے تو یہ بدنامی والی بات ہی؟
اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو ؟
نہیں نہیں میں کسی کو بھی پتہ نہیں لگنے دونگا۔۔۔
میں اپنی ذہن میں اٹھنے والے سوالات سے لڑنے لگا ۔
گھڑی پر ٹائم دیکھا تو چار بج رہے تھے،، اتنے میں امی کمرے میں آئیں اور مسکراتے ہوئے بولیں : اٹھ گیا میرا چاند ،، یہ لے چائے۔
امی نے چائے ٹیبل پر رکھی۔
لیکن میں امی کے اس رویے پر اس قدر حیران اور پریشان تھا اور بیک وقت اندر سے غصے میں بھی تھا کہ اس ماں کو دیکھو کوئے شرم احساس ہی نہیں ۔
یہ تو مجھ سے اسطرح نارمل انداز میں باتیں کررہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
سب کچھ بہت عام سی بات ہے اور اسطرح ہر دؤسرے گھر میں ہوتا ہو جیسے۔
میں سوچوں میں گم تھا کہ امی نے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا کہاں گم ہو چندا؟
میں نے امی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو انکی اداؤں کو دیکھ کر میں سکتے میں آگیا۔
امی اپنا نچلا والا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر مجھے دیکھ رہی تھی کہ اچانک میںری نظر غیر ارادی طور پر انکے سینے پر چلی گئی جہاں انکی بڑی بڑی چھاتیاں مجھے دعوتِ نظارہ دے رہیں تھیں ۔
عورت کی چھٹی حس بڑی تیز ہوتی ہے۔
امی نے ایک دم سے کھانسا اخھو اخھوں۔
میں ہڑبڑا کر نظریں ادھر کر لی۔
امی : تو نظریں کہاں ہیں میرے چندا جی کی؟
میں نے امی کا یہ رومانوی رویہ دیکھ کر نظریں اٹھا کر انکو غصّے سے دیکھا اور کہا : شرم تو آآ ہی نہیں رہی نہ آپکو۔۔
کوئی شرمندگی ہی نہیں ۔
اتنا سب پتہ چلنے کے بعد تو انسان ڈوب مرتا ہے کم سے کم سامنے نہیں آتا لیکن اب بے شرموں کی طرح ادھر بیٹھی مجھے یہ کیا کیا بول رہی ہیں ۔
امی ایک دم سے میرے منہ سے اتنی ساری باتیں سن کر سنجیدہ ہوگئیں اور میری طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
مجھے امی پر ابھی بھی سخت غصّہ تھا۔
میرا پارسا دماغ اس چیز کو اس گندے رشتوں کو قبول کرنے کےلئے ہرگز بھی تیار نہیں ہورہا تھا اور ہوتا بھی کیسے؟
یہ چیزیں گھر میں تو کیا معاشرے میں بھی کسی طور پر قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی۔
مجھے لگ رہا تھا میرا دماغ درد سے پھٹ جائے گا۔
میں اٹھا باتھ رو میں گھسا اور منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل گیا۔
باہر جاکر بائیک نکالی اور دور گلشنِ اقبال چائے کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پی کر آگے ہونے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاھئے ؟
جو بھی ہو رہنا تو مجھے گھر میں ہی تھا۔ اس گندے گھر میں ۔
پھر مجھے اپنی بہنوں ماہم اور زرین کا خیال آیا ، ان بیچاریوں کو چھوڑ کر کیسے جاؤں ؟
پیٹھ ییچھے امی اور فہد نے کچھ غلط کردیا انکے ساتھ تو پھر؟
اسی سوچ کے تحت میں کچھ سوچتے سوچتے بائیک نکال کر دوبارہ گھر کی طرف لوٹ پڑا۔
رات کو کمرے میں پڑھنے لگا لیکن اب دماغ کتابوں سے بھی غائب ہوچکا تھا انہی دنوں کمپیوٹر پر سی ڈیز وغیرہ پورن مووی لگا کر کبھی کبھار دیکھنا شروع کی تھے۔
میرے کمرے میں الگ کمپیوٹر تھا ، فہد کے کمرے میں الگ۔۔
میں نے دروازہ بند کیا اور سی ڈی لگا کر پورن مووی دیکھںے لگا۔
میں نے کبھی مٹھ نہیں لگائی تھی اور دماغ اتنا بچہ بھی نہیں تھا کہ کسی بارے میں معلوم ہی نہ ہو۔
سیکس کس چڑیا کا نام ہے یہ بھی پتہ نہ ہو۔۔
دؤستوں یاروں میں رہ کر ادمی اسطرح کی اوٹ پٹانگ والی باتیں سیکھ ہی جاتا اور لڑکیوں سے تو اکثر لڑکے جنسی تعلقات بھی استوار کرلیتے ہیں ، لیکن یہ سوچتے سوچتے جیسے ہی مجھے امی اور فہد کے گندے تعلقات ، باجی عالیہ اور ابو کے گندے تعلقات کا خیال ذہن میں آتا مجھ پر سخت لرزہ طاری ہوجاتا۔
میرا وجود اندر سے ہل کر رہ جاتا۔۔۔

دن تیزی سے گرزتے گئے۔
امی اور فہد اکثر رات کو یہ ہوس کا گندا کھیل کھیلا کرتے اور دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی اس گندی خواہش کی تکمیل میں مگن رہتے ۔
میں نے اب دونوں سے بات چیت کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔۔۔
ایک دن کی بات ہےکہ پتہ چلا عالیہ باجی آرہی ہیں سسرال سے ۔۔
عالیہ باجی کا سن کر پہلے مجھے خوشی ہوتی تھی لیکن اس بار انکے آنے کی مجھے بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی۔۔
میرے بہنوئی ضیغم عالیہ باجی کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔۔
باجی شاید ایک دو دن رہنے کےلئے آئیں تھیں ۔
میں نے بھی بس واجبی سا سلام کیا باجی کو ۔
باجی میرے اس رویے یر تھوڑا حیران بھی ہوئی۔
باجی کے تین بچے تھے
فریال ( عمر چار سال )
فروا ( عمر تین سال )
اور ایک سال کا چھوٹا بیٹا وقاص تھا۔۔۔
رات کو جب ہم سوئے میں نے جاسوسی کرنے کا پلان بنایا ۔۔
عالیہ باجی اور انکے بچے تو نیچے ہؤنے چاہیے تھے۔
لیکن گندگی کے ڈھیروں کا کیا بھروسہ ۔
جب رشتہ گندا ہوجائے پھر کوئی ماں بہن نہیں دیکھی جاتی۔
مجھے لگ رہا تھا عالیہ باجی کے بھی ضرور فہد بھائی سے جسمانی تعلقات ہونگے۔۔۔
میں نے اپنے کمرے کے باہر سے نکل کر چور قدموں سے ساتھ والے کمرے میں کان لگا کر آوازیں سنیں ۔
مجھے دو سے زیادہ لوگوں کے موجود ہونے کا احساس ہوا۔
میں بس جاننا چاہتا تھا کیا واقعی عالیہ باجی بھی اندر ہیں یا نہیں ۔۔۔
میرا دماغ پھر سے گھومنے لگا اور میں نے دروازہ زور زور سے بجانا شروع کیا۔
میں نے تقریباً کوئی آٹھ بار دروازہ بجایا ،، دروازے کی آواز سن کر اندر ان سب کو سانپ سونگھ گیا اور آوازیں بھی بند ہوگئیں ۔
لیکن میں نے دروازہ بجانا جاری رکھا۔۔۔
اندر سے فہد بھائی کی کپکپاتی آواز آئی : ککک کون ہے؟
میں نے جواب نہیں دیا لیکن دروازہ بجاتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا ۔
فہد بھائی میرے سامنے صرف انڈرویئر میں کھڑا تھا ۔۔
مجھے دیکھ کر فوراً سے ڈر گیا۔۔
میں نے کمرے کا تعاقب کرتے ہوئے نظریں ادھر ادھر گھمائیں تو کوئی نظر نہ آیا۔۔
میں سمجھ گیا یہ ضرور کہیں چھپی ہونگی۔۔۔
فہد غصّے سے : تو اسوقت یہاں کیا کررہا ہے۔
رافع : ابھی بتاتا ہوں کیا کرنے آیا ہوں۔
میں نے فہد بھائی کو دھکا مارا وہ نیچے جا گرا ۔۔
پھر میں نے کمرے میں داخل ہو کر ادھر ادھر نظر دوڑائی پھر بیڈ کے نیچے لٹک رہی بیڈ شیٹ اٹھائی تو نیچے کا منظر دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔
امی اور باجی عالیہ دونوں ننگی بیڈ کے نیچے گھسی ہؤئی تھی۔۔۔
امی تو اتنی حیران نہ ہوئی مجھے دیکھ کر لیکن باجی عالیہ اور سامنے کھڑے فہد دونوں پر خوف طاری ھوگیا۔
میں فہد کی طرف غصّے سے غراتے ہوئے دیکھ کر بولا : لعنت ہو تم جیسے بھائی پر ،، پھر عالیہ کی طرف دیکھ کر بولا : لعنت ہو ہو تم جیسی بہن اور امی تم پر بھی لعنت ۔۔۔
فہد نے یہ سن کر آگے بڑھ کر مجھے تین چار تھپڑ مارے میں نے بھی اسکو گردن سے پکڑ کر جھٹکا اور اپنے مضبوط ہاتھ اسکی گردن میں ڈال کر دبا لیا۔
فہد نے مجھے منہ پر مقا مارا میں نے بھی اسکے منہ پر دو چار مقے مارے۔
امی اور باجی عالیہ یہ سب دیکھ کر بیڈ کے نیچے سے نکل کر آئی ۔
ہم دونوں کو چھڑوانے اپنے ننگے بدن لیے اونچی اونچی چیخوں پکار کرنے لگی کہ کیا ہوگیا تم دونوں کو چھوڑ و ایک دؤسرے کو۔
یہ آوازیں باہر تک جارہی تھیں ۔
ہم دونوں نے زہر آلود نظروں سے ایک دؤسرے کو دیکھا اور بدستور ایک دؤسرے کو مارنا جاری رکھا ، اس مارا ماری میں امی اور عالیہ باجی کو بھی تین چار تھپڑ مقے غیر ارادی طور پر لگ گئے۔۔۔ اتنے میں جب نظریں اٹھیں تو میں نے زرین اور ماہم کو کمرے کے دروازے پر کھڑا پایا ۔۔۔۔
دونوں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے امی اور باجی عالیہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
لیکن انہوں نے ان کے ننگ پن سے زیادہ ہماری لڑائی چھڑانے کو ترجیح دی۔
اور آگے بڑھ کر زرین نے مجھے پیچھے کھینچا اور ماہم نے فہد کو تب جاکر ہم دونوں الگ ہوئے اور غصے میں ایک دوسرے کو گالیاں در گالیاں دینے لگے۔۔۔
صورتحال بھی کچھ ایسی تھی۔
زرین اور ماہم کی آنکھوں میں خوف اور وحشت سوار تھی،، دونوں کبھی امی اور باجی کو دیکھتیں اور کبھی فہد اور مجھے۔۔۔
امی اور باجی عالیہ نے شرم کے مارے اپنے اپنے کپڑے پہننا شروع کیے۔
ماہم کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ اسکو سچویشن سمجھ آرہی ہے یہاں کیا ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔
وہ روتے ہوئے کمرے سے باہر نیچے بھاگ گئی۔
جبکہ زرین مجھے پکڑتے ہوئے سب سےبچا کر اپنے کمرے میں لے گئی۔۔۔
( جاری ہے )




گندا خاندان
قسط 3
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )

زرین میرے کمرے میں لٹائے میرا سر دباتی رہی ، تھوڑی دیر بعد ماہم بھی کمرےمیں آگئی۔
ماہم مجھ سے تین سال بڑی تھی لیکن میں اسکو باجی نہیں ماہم ہی کہہ کر بلاتا تھا۔۔
ماہم نے کمرے میں آکر دروازہ بند کردیا۔
پھر بیڈ پر زرین کے ساتھ بیٹھ گئی۔
فہد نے مجھے مقے منہ پر مارے تھے جسکی وجہ سے میرے دانت میں اور سر میں شدید درد ہوگیا تھا لیکن اندر ہی اندر اس بات کی خوشی تھی کہ اس ذلیل بھائی کو میں نے بھی آگے سے مارا۔
آج تک میں نے کبھی فہد پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ہمیشہ بڑا بھائی ، بھائی جان ہی کہا۔
بچپن سے فہد مجھ پر رعب جماتا آیا تھا ہمیشہ مجھے مارا پیٹا کرتا تھا لیکن اب نہیں ۔
میں نے دل میں سوچ لیا تھا اب نہیں ۔
اب اس کتے کو اپنا بھائی ہرگز نہ سمجھونگا۔
اور اسکو اسکے کیے کی سزا دونگا۔
میں من ہی من یہ سب سوچ رہا تھا کہ ماہم نے میری آنکھوں کے آگے اشارہ کرکے مجھے جھنجھوڑا کہ کیا ہوا رافع؟
میں نے ماہم اور زرین کی طرف دیکھا۔
زرین کی آنکھوں میں بہت سارے سوالات تھے وہ پھر بھی چپ تھی لیکن ماہم کے چہرے سے لگتا تھا اسکو اس گھر میں ہورہے کرتوت کا سب کچھ پتہ ہے۔۔۔
ہمارے درمیان خاموشی تھی کہ زرین بول پڑی : بھائی آخر ایسا کیا ہوگیا تھا جو آپ اور فہد بھائی آپس میں اتنی بری طرح لڑ پڑے اور وہ امممیی اور ببب باجیی کے کپڑے کیوں اترے ہوئے تھے؟
زرین کے یہ سوال پر ماہم نے اور میں نے اسکی طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔
پھر ماہم سر نیچے کرتے ہؤئے اپنے ہاتھ ملتے ہوئے بولی : اس گھر میں ہورہے کرتوتوں کا مجھے پہلے سے ہی اندیشہ ہورہا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین بھی ہوگیا۔
زرین حیرت سے : کیا مطلب ماہم باجی؟؟؟
ماہم : زرین تم رہنے دو یہ سب جاننے کے بعد تمہیں بہت غصّہ آئے گا تم ابھی بچی ہو۔
میں ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے : تو کیا تمہیں معلوم تھا اس گھر میں ان کالے کرتوتوں کا؟
ماہم : ہاں رافع معلوم تھا ۔
میں حیرت سے: کب سے معلوم تھا؟
اور مجھے بتایا کیوں نہیں ؟
ماہم : بتادیتی تو آخر ہم کیا کرلیتے وہ سب بڑے ہیں ہم چھوٹے اسلئے انکو ہر طرح کے گناہ کی چھوٹ مل گئی ہے۔۔
زرین حیرت و سکتے کے عالم میں ہم دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے بولی : آخر کونسے کرتوت ماہم باجی ،،؟ بھائی آپ ہی بتاؤ نا ایسا کیا ہورہا ہے اس گھر میں ؟
ماہم : زرین رہنے دو کچھ باتوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔
ورنہ انکا پتہ چلنا انسان کو بہت درد و ازیت دیتا ہے۔۔۔
مجھے ماہم کی یہ باتیں دل پر جاکر لگیں " کہ کچھ باتوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے ورنہ انکا جاننا اندر ہی اندر تکلیف دیتا ہے " یہی حالت میری تھی پچھلے کچھ دنوں سے جب سے مجھے اپنے گھر میں ہورہے ان کالے کرتوتوں کا علم ہوا تھا میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں،، دماغ پر شدید غصّہ سوار کرلیتا ہوں ۔
اسی لئے تو اردو کے بے تاج بادشاہ شاعر جون ایلیاء نے کہا ہے

" آگہی مجھ کو کھا گئی
ورنہ میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک "
یعنی بعض چیزوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔
یہ آگہی بڑی جان لیوا ہوتی ہے۔
گھریلو رشتوں کے مابین اسطرح کی جنسی آگاہی سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھدیتی ہے۔۔۔
میں ان ہی سوچوں میں گم تھا۔۔۔
اتنے میں ماہم زرین کو بولی جاؤ تم اپنے کمرے میں جاؤ۔
زرین : لیکن باجی؟
ماہم : میں نے کہا نہ جاؤ ۔
زرین اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ماہم پھر سے دروازہ بند کرکے میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔
ماہم کے بیٹھتے ہی میں اس کو بولا : ماہم جب تمہیں معلوم تھا تؤ تم مجھے تو بتاتی
ماہم : کیسے بتاتی رافعع یہ بات ہی ایسی ہے بندہ اپنوں سے کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔۔۔
رافع : اچھا یہ بتاؤ تمہیں ان سب کا کب سے اور کیسے معلوم ہوا؟
ماہم : ابو کی وفات کے بعد ۔۔
میں نے اکثر امی کی کمرے میں رات کے پہر بھائی کو جاتے دیکھا اور سیڑھیوں سے چھپ کر دیکھتی تھی۔
فہد بھائی ہفتے میں دو تین بار لازمی امی کے کمرے میں رات کو جایا کرتے تھے ۔۔۔
مجھے پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن پھر رفتہ رفتہ میرے دماغ میں یہ باتیں گھومنے لگیں ہو نہ ہو فہد بھائی اور امی آپس میں انسیسٹ ریلیشن شپ میں ہیں ۔
رافعع : انسیسٹ ریلیشنشپ ؟؟
ماہم : ہاں رافع اسکے بارے میں میں نے پڑھ رکھا ہے۔۔۔
خیر اب یہ باتیں تم زرین کو نہیں بتانا بچی ہے وہ ۔
خدا جانے کچھ کر نہ لے اپنے ساتھ ۔۔
رافعع : ٹھیک ہے میں بھی نہیں بتاؤنگا۔۔۔
ماہم : اور ہاں فہد بھائی کے سامنے مت آنا اور اس سے بات مت کرنا اب ،، میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔
میں نے قدر ناراضگی سے ماہم کو دیکھتے ہوے کہا : تم اسکو بھائی کیسے کہو گی اب ماہم؟
ماہم : کیآ کروں رشتہ نبھانا ہی پڑتا ہے۔۔۔
اب اس سے نفرت کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔۔۔
میں خود بھی بات کرتی ہوں باجی عالیہ سے کچھ دن تک۔۔۔
چلو اب میں جارہی ہوں ۔
ماہم کے جانے کے بعد میں دیر تک کمرے کی دیوار اور پنکھے کو تکتا رہا اور آج ہوئے واقعے پر سوچنے لگا۔۔۔
صبح میری آنکھ اسوقت کھلی جب گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔
مجھے اپنے دروازہ کھلنے کا احساس ہوا تو کوئی شخص اندر آیا اور میرے پاؤں کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔
میں نے رضائی ہٹائی تو دیکھا عالیہ باجی تھی۔
میں نے اپنا پاؤں ان سے سائڈ کیا اور غصّے سے گھورتے ہوئے بولا : آپ کیوں آئیں ہیں یہاں میرے کمرے میں ؟
جائی دفع ہوجائیں یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپسے۔
عالیہ باجی کی آنکھیں نم تھی۔
واضح تھا کہ وہ رات کو بہت روئی ہیں ۔۔
وہ ہکلاتے ہوئے بولیں : رررر راففععع میرے بھائی بات تو سن لو۔
رافع : اور کیا سن لوں ؟
امی پہلے ہی سنا چکی ہیں آپکی اور ابو کے گندے تعلقات کی اسٹوری مجھے۔
اور رات کو جو دیکھا کیا وہ کافی نہیں ؟
عالیہ باجی میرے قریب آتے ہوئے : رافععع میرے بھائی ایک بار بہن ہونے کے ناطے میری بات سن لو، پھر چاہے مجھ سے جتنی مرضی نفرت کرلینا ، تم کہؤ گے تو میں اس گھر میں بھی دوبارہ نہیں آؤنگی۔۔۔
میں نے نظریں اٹھا کر انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا : کیا ضرورت پڑی تھی آپکو ابو کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکتیں کرنے کی ؟
اور ابو تو چھوڑیں اب بھائی کے ساتھ بھی؟
عالیہ : ضرورت نہیں مجبوری تھی جو کو بعدازاں ضرورت کی شکل اختیار کر گئی۔
رافع : کیسی مجبوری ؟
عالیہ : بتاتی ہوں ،، تمہیں امی نے میرے والا واقعہ تفصیل سے نہیں بتایا ہوگا،، کیا وجوہات تھیں ۔
تو سنو میں اسطرح کی لڑکی کبھی نہیں تھی اور نہ کبھی سوچاتھا کہ ایسی بنوںگی۔۔۔
جب میں یونیورسٹی جانا شروع ہوئی تھی تب ابو مجھے گاڑی میں چھوڑنے جاتے تھے ،، مجھے یونیورسٹی کے پہلے سال ہی اپنی کلاس کے ایک لڑکے سے محبت ہوگئی تھی،، ابو نے دو تین بار مجھے اس لڑکے کے ساتھ دیکھا یونیورسٹی کینٹین میں بیٹھا ہوا،، میں نے بتایا کہ میرا کلاس فیلو ہے۔۔
رافع ہمارے ابو اتنے تنگ نظر بھی نہیں تھے نہ ہی دقیانوسی تھے۔۔۔
میں دیکھتی تھی کہ ابو کی امی کے ساتھ اکثر و بیشتر لڑائی ہوتی تھی اور امی ابو کو جب مار رہے ہوتے تو میں امی کو بچا کر انکو انکے کمرے میں بھیج کر ابو کے ساتھ انکے کمرے میں آجاتی اور انکی طرف زیادہ متوجہ ہوتی تھی بنسبت امی کے۔۔۔
بعدازاں یہ متوجہ ہونا فطری کشش اختیار کر جاتی ہے۔۔
میں بھی جوان ہورہی تھی۔۔
عالیہ باجی بولے جارہی تھی اور میں انکو دیکھے جارہا تھا۔۔۔
پھر اس لڑکے نے مجھے دھوکہ دیا ۔۔ اور میں گھر پر آکر اکثر رویا کرتی تھی،، پھر ہوا یوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں تم لوگ نانا نانی کے گھر چلے گئے ۔
بس میں زنیرہ اور ابو ہی گھر پر ہوتے تھے، تم لوگ امی کے ساتھ ایک مہینے کےلئے رحیم یار خان گئے تھے۔۔
میں اکثر اس لڑکے کے بارے میں سوچ کر رویا کرتی تھی ،،انہی دنوں ابو نے مجھے روتے ہوئے ایک دن دیکھ لیا۔۔
میں ابو کی طرف زیادہ کشش رکھتی تھی تو میں نے انکو سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ اس لڑکے نے مجھے استعمال کرکے چھوڑ دیا۔۔
ابو نے کہا دفع کرو بیٹا ۔۔۔
میں ہوں نا۔۔
ان دنوں ابو نے مجھے بہت سہارا دیا اور ابو میری کمر پیٹھ سہلاتے ، کبھی میرا سر اپنی گود میں رکھتے میرے کندھے بھی دباتے مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔
پھر اسی طرح ایک دن جذبات میں بہہ کر میں ابو کے ساتھ یہ غلط کام کر بیٹھی ،، شروع میں تو پچھتاوا تھا لیکن ابو کی محبت اور میرے ساتھ شفقت بھرے رویے کو دیکھ کر میں نے انکو کبھی برا باپ نہیں سمجھا۔۔۔
وہ بہت اچھے باپ تھے،، غلطی میری بھی تھی،، مجھے شروع میں خود پر۔کنٹرول کرنا چاھئے تھا لیکن نہیں کر پائی۔۔۔
رافعع تمہیں تو امی نے صرف یہ بات بتائی ہے لیکن اگر اصل بات بتاؤں تو شاید تم اپنے ننھیال رحیم یار خان کبھی نہ جاؤ۔
میں باجی عالیہ کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا آخر کیوں؟
باجی عالیہ : رافعع وہاں ہمارے ددھیالی خاندان یعنی ابو کے خاندان کو لوگ گندا خاندان سمجھتے ہیں اور گندے خاندان کی نیت سے دیکھتے ہیں ۔
باجی کی یہ بات سن کر میں ورطہ حیرت اور پریشانی کے عالم میں انکو دیکھتے ہوئے بؤلا : گندا خاندان ؟؟؟
لیکن کیوں باجی؟
آخر کیوں گندا خاندان کہتےہیں ہمارے خاندان کو؟
باجی عالیہ کچھ دیر چپ رہ کر بولی : بس رافعع باتیں ہی کچھ ایسی ہیں ،، یہ سب ایک دم سے نہیں ہوا،، امی بھی شاید اتنی بات نہیں جانتی جتنی کہ ابو نے مجھے اپنے خاندان کی بتائی ہیں ۔۔۔
میں اشتیاق سے :وہ کیا؟
عالیہ : دیکھو رافع تم ایک سمجھدار لڑکے ہو اسی لئے تم کو بتا رہی ہوں کہ تم کسی سے بھی اسکا تذکرہ نہیں کروگے۔۔
میں : ٹھیک ہے۔۔۔
عالیہ : ہمارے ابؤ زبیر کے اپنے سے دس سال چھوٹی بہن زرینہ یعنی ہماری پھپھو کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات تھے۔
اور یہی نہیں ہمارے خاندان کا ماحول بہت اوپن تھا اور یہ چیز نسل در نسل ہے،، ہمارے دادا ابو بہت کھلے ڈھلے آدمی اور زمیندارے تھے ،، انکی بہت ساری زمینیں انکے آبائی گاؤں پتوکی میں تھی۔۔۔
جب ہماری امی اور ابو کا رشتہ جڑ رہا تھا تو امی کے خاندان کے بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراض تھا کہ انکا خاندان ایک گندا خاندان ہے یہاں رشتہ مت کرو،، چونکہ دور کی رشتہ داری اور زمینداری تھی اسلئے رشتہ جوڑ دیا گیا۔۔
لیکن مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے دادا کے بھی اپنی بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔
یہ سن کر میرا دماغ پھر جھٹکا کھایا اور سوچنے لگا شاید ہمارے خاندان کو گندا خاندان ٹھیک ہی کہتےہیں ۔
عالیہ : رافعع اب تم سوچ رہے ہوگے کہ ہمارا خاندان ٹھیک نہیں ۔
اس میں شاید ایک حد تک سچائی ضرور ہے۔۔
ہمارے دادا اپنے گاؤں کو چھوڑ کر 1960۶ کی دہائی میں پہلے تو مختلف شہروں میں پھرتے رہے اور پھر کراچی شفٹ ھوگئے یہاں انہوں نے اپنا چھوٹا سا کاروبار کیآ تھا ۔۔
اور اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد یہ جائیداد ملنے کے بعد ابو نے یہ گھر لیا تھا گلستانِ جوہر میں ۔۔
اور مجھے ابو نے یہ بھی بتایا تھا کہ ابو کے اپنے باپ یعنی دادا کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے تھے ،، دادا بھی اپنے خاندان والوں سے لڑ بھڑ کر مارے مارے پھرتے رہے دوسرے شہر۔۔
ہماری دونوں پھپھو اب رحیم یار خان میں ایک گاؤں میں رہتی ہیں جہاں انکی شادیاں ہوئیں تھیں ۔
چھوٹی والی پھپھو زرینہ ۔
اور بڑی والی پھپھو ثمینہ جو ابو کے برابر ہی ہونگی تقریباً ۔۔۔
اب کئیں سال ہوگئے ہیں ۔
خاندانی ناچاقیاں ہیں ، ہم اسی لئے پتوکی نہیں جاتے ،، اب رحیم یار خان گئے ہوئے بھی کئیں سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔
عالیہ : رافع دیکھو ہم سے اس بنیاد پر اتنی نفرت مت کرو ، اگر کروگے تو کوئی بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا،، میں نے اپنے باپ کے گناہ اور انکی بہن کے ساتھ جنسی تعلق کو قبول کرلیا تھا۔کبھی ان سے شکایت نہیں کی اگر شکایت کرتی تو کبھی رشتے نہیں نبھائے جاتے۔۔
میں نے باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچ کر بولا : لیکن پھر ابو کے ساتھ تھے تو فہد بھائی کے ساتھ کیوں جسمانی تعلقات استوار کیے؟
عالیہ باجی شرمندگی کے ساتھ بولی : دیکھو رافع شروع میں یہ سب غلط لگتا ہے ،، امی نے ابو کو چت کرنے کےلئے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کےلئے فہد سے یعنی اپنے بیٹے سے تعلقات استوار کرلیے، امی تو مجھ سے ناراض رہتی تھیں ،، رفتہ رفتہ میں نے انکو منا کر اپنے قریب کرلیا،، فہد کے بے حد اصرار پر امی کے کہنے پر ابو کی۔وفات کے تھوڑے مہینے بعد میں نے بھی امی کے ساتھ مل کر فہہد کے ساتھ وہ سب کرنا شروع کردیا۔۔۔۔
پھر یہ جنس کی بھوک ہی ایسی ہوتی ہے.
یہ کہتے کہتے عالیہ باجی رک گئی نظریں جھکا لیں ۔۔
اور اٹھتے ہؤئے کہنے لگیں : رافعع اب آگے تمہاری مرضی ہے تم جس سے چاہے نفرت کرو ، میں کچھ نہیں کہونگی۔۔۔
مجھے تم نے بہن سمجھنا ہے یا نہیں یہ بھی اب تم پر ہے۔۔۔
باجی عالیہ دروازہ بند کرکے چلی گئیں ۔۔
اور میں باجی عالیہ کے منہ سے سنے ہوئے اپنے خاندان والے کے کرتوتوں کے بارے میں سوچنے لگا کہ کس غلیظ خاندان میں پیدا ہوگیا میں ۔
لیکن باجی عالیہ کی کہی ہوئی کچھ باتیں میرے دل و۔دماغ میں گردش کررہی تھی جس نے میرا سوچنے سمجھنے کا انداز کافی حد تک تبدیل کردیا تھا اور یہی سؤچتے سوچتے میں اٹھا منہ ہاتھ دھوئے اتنے میں باجی عالیہ خود ناشتہ میرے کمرے میں ٹیبل پر رکھ کر باہر نکل گئیں ۔۔۔

(جاری ہے )





گندا خاندان
قسط 4
(ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )

اردو گرم کہانیاں اور دیسی ویڈیو گروپ جس پر ایک بار ہی فیس دینی پڑے گئی اور ہر قسم کی ویڈیو اور سٹوری اپلوڈ کی جائے گئی
350 فیس
03140770721 واٹسپ
جوان ہوتے انسان کو بچپن کی یادوں ، گزرے وقتوں کی تلخیوں ناچاقیوں ، خوشگوار لمحوں کی سوچیں بیک وقت ذہن میں آتی ہیں ۔
بعض اوقات ذہن ماضی کے دریچوں سے خوشگوار لمحات کریدنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوائے تلخیوں اور بری یادوں کے کچھ نہیں ملتا۔۔۔
عالیہ باجی کے چلے جانے کے کئیں دن بعد معاملاتِ زندگی روٹین کے لحاظ سے چلتے رہے۔
اب میرا اور فہد کآ سامنا بھی گھر میں کم ہی ہوتا تھا اگر ھوتا بھی تو ہم ایک دوسرے کو دیکھے بغیر گزر جاتے ۔۔
زرین اور ماہم فہد کی نسبت زیادہ مجھے ترجیح دیتی تھیں کیونکہ میں ان سے زیادہ قریب تھا دوسری طرف فہد کا رویہ جابرانہ ہوتا تھا ابو کی طرح اسلئے بہنیں اس سے زیادہ کلوز نہیں تھیں ۔
امی بھی اب مجھ سے میرے غصے کی وجہ سے بات چیت نہیں کررہی تھیں ۔۔۔
ناشتہ کھانا وغیرہ بھی مجھے کبھی ماہم اور زرین دینے آجایا کرتی تھیں کمرے میں ۔۔
فہد اور امی کی راتوں کی رنگ رلیاں بھی اب نہیں ہورہی تھیں جس دن سے گھر میں ہنگامہ ہوا تھا۔۔۔
مجھے عالیہ باجی کی کہی ہوئی بہت سی باتیں دماغ میں گردش کرتی تھیں ۔۔۔
لیکن بہت سارے ادھورے سوالات تھے جنکو جاننے کی جستجو ابھی بھی میرے اندر تھی۔۔۔
ابو کی وفات پر صرف زرینہ پھپھو اور چچا ہی آئے تھے گاؤں سے۔۔۔
ثمینہ باجی اور انکے شوہر نہیں آئے تھے۔۔۔
ہمیں رحیم یار خان اور پتوکی گئے ہوئے بھی کافی سال ہوچکے تھے۔۔۔
میرے زہن میں اٹھ رہے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کےلئے میں نے عالیہ باجی سے اور امی سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
میرے دل و دماغ میں امی سے اور عالیہ باجی سے بدتمیزی کرنے کی سخت شرمندگی بھی تھی افسوس طاری تھا۔۔۔
یہی سوچ کر ایک دن میں نے کالج سے چھٹی کی۔۔۔
ماہم یونیورسٹی جبکہ زرین کالج گئی ہوئی تھی۔
فہد اپنے کام پر گیا ہوا تھا۔۔
صبح ناشتہ امی میرے کمرے میں رکھ کر جا چکی تھی باوجود اسکے کہ امی اور میرے درمیان بول چال بند تھی۔۔۔
لیکن امی کو پھر بھی میرے کھانے پینے کا احساس تھا وہ اس میں دروغ نہیں کرتی تھیں ۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد میں نے امی کو ڈھونڈا امی اپنے کمرے میں نظر نہ آئیں تو میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے کچن میں گیا تو امی سامنے کھڑی کام کررہیں تھیں ۔
میرے قدموں کی آہٹ سے امی کو اندازہ ہوا تو انہوں نے ترچھی نظروں سے دیکھا اور آگے پھر سے برتن دھونے میں مشغول ہوگئیں ۔
کئیں دن کی ناراضگی اور شرمندگی میرے دل و دماغ پر طاری تھی۔
میں نے کچھ نہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ کر اپنے دونوں بازو امی کی گردن میں ڈال کر کہا : امی مجھے معاف کردیں ، آئی ایم سو سوری۔۔
امی ایک دم سے ہلیں اور آگے کھڑے کھڑے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور پیچھے مڑ کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
امی رو رہی تھیں ۔
میں نے بھی اپنے بانہیں کھول کر امی کی پیٹھ کو سہلانے لگا ۔
میری بھی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے اور میں بار بار انکو سوری بول رہا تھا ، امی نے مجھ سے الگ ہو کر میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھدیا اور کہا : تمہیں اپنی بدتمیزی کا احساس ہوگیا یہی کافی ہے رافعع۔
امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے روتے روتے کہا : امی میں بہت برا بیٹا ہوں نا؟
امی : نہیں میرے چندا تم بہت اچھے بیٹے ہو۔
روتے نہیں چلو اندر کمرے میں چلو۔۔۔
امی مجھے لے کر ماہم کے کمرے میں آگئیں ۔
ہم دونوں بیڈ پر بیٹھ گئے اور ہمارے درمیان کافی دیر خاموشی رہی ۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نے ہی بات کی شروعات کی : امی مجھے آپسے کچھ باتیں جاننی ہیں ؟
امی میری طرف دیکھتے ہوئے : کونسی باتیں رافع؟
رافع : امی ہم رحیم یار خان اور پتو کی کیوں نہیں جاتے کیا ہماری اپنے خاندان والوں سے کوئی لڑائی ہے؟
امی : نہیں رافعع لڑائی نہیں بس اندر ہی اندر کچھ تلخیاں ناراضگیاں ہوتی ہیں ۔
لیکن یہ رشتے جیسے بھی ہوں نبھانے پڑتے ہیں آخری وقت تک۔
میں نے امی کی طرف تجسس سے دیکھتے ہوئے کہا : امی ہماری پھپھو اور چچا وغیرہ ،، ننھیال ددھیال کے بارے میں تو کچھ بتائیں ۔
ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو اور چچا وغیرہ ؟
امی : تو تمہیں عالیہ نے کچھ باتیں بتائیں ہونگی ضرور ۔
رافع : ہاں امی بتائیں تھیں لیکن سوالات کے جوابات ابھی بھی ادھورے ہیں ۔
امی اشتیاق سے : تو کیا جاننا چاہتے ہو؟
رافع : امی سب کچھ ۔
امی : ٹھیک ہے رافعع لیکن پورے جوابات اس جگہ ہی جا کر مل سکتےہیں جہاں کا یہ خمیر ہے۔
میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن تم کسی بھی رشتے سے اگر اس بنیاد پر نفرت کرو گے تو کوئی رشتہ نہیں نبھا سکو گے۔
ان رشتوں میں برداشت کرنا پڑتا ہے ، جیسے میں نے کیا تھا شروع شروع میں ۔
کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں ۔
رافع اشتیاق سے : تو کیا امی آپکو ابو اور زرینہ پھپھو والا چکر پتہ تھا؟
امی : ہاں عالیہ نے بتایا تو تھا لیکن مجھے تو یہ بھی خاندان میں سننے کو ملا تھا کہ تمہارے باپ زبیر کے اپنی سے ایک سال بڑی بہن یا عمر میں انکے لگ بھگ ہی ہونگی ، ثمینہ کے ساتھ بھی ایسا کوئی چکر تھا۔
میں حیرت سے : کیاااا؟
امی : رافعع لیکن لوگ زیادہ بدنام کرتےہیں مسئلہ اتنا بڑا ہوتا نہیں ،، اوپر سے یہ خاندانی گہما گہمی اور محلے داریاں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ایک کی دس اور دس کی پچاس بنا کر سناتے ہیں ۔
تمہارے ابو اور زرینہ کا چکر بھی شادی سے بہت سال پہلے جوان عمری میں تھا اسکے بعد نہیں تھا۔۔۔
رافع : امی مجھے یہ بتاؤ آخری بار ہم رحیم یار خان کب گئے تھے؟
امی : جب تم نو سال کے تھے ، آج سے نو سال پہلے۔۔
رافع : تو امی اب کیوں نہیں جاتے؟ کیا آنا جانا بند ہونے کی وجہ ناراضگی ہے؟
امی : نہیں رافع ناراضگی نہیں ، بس یہ شہر کی زندگی ہماری بہت مختلف ہے دیہات کی زندگی سے ۔۔
تمہاری ایک پھپھو ثمینہ ضلح رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں رہتی ہے جبکہ چھوٹی والی پھپھو رحیم یار خان کی ہی تحصیل لیاقت پور میں رہتے ہیں ،، دونوں کی شادیاں قریب ہی ہوئیں تھیں ۔
اسلئے انکا وہاں آنا جانا آسان ہے،، ہم مصروفیت کے باعث نہیں جاتے اور ایک اور بھی وجہ ہے۔
رافع : کییا وجہ ہے امی؟
امی : انکے اور ہمارے ماحول میں بہت فرق ہے،، وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتےہیں ، پردہ داری کا خیال رکھتے ہیں ،، تمہارے باپ نے تو ہمیں شروع سے ہی کبھی برقعے یا حجاب نہیں پہنائے،، ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو کے شوہر اس چیز کا خاص خیال کرتےہیں ۔۔۔
رافع : اچھا تو یہ بات ہے۔۔
اچھا امی ہمارے کتنے چچا ہیں ، ابو لوگ کتنے بھائی تھے؟
امی : تمہہارا ایک چچا زولفقار ہے جو ابو سے دو سال چھوٹا ہے وہ پتو کی میں رہتےہیں ۔
جبکہ ابو کے ایک بڑے بھائی تھے جنکا انتقال بیس سال پہلے ہی ہوگیا تھا وہ بھی پتو کی میں ہی رہتے ہیں ۔
انکی بیوی بچے وہیں انکے چھوٹے بھائی کے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔
میں : امی کیا ہماری کوئی زمینیں بھی ہیں پتو کی میں ؟
امی : پہلے تھیں ، اسکے بعد تمہارے باپ نے اپنے حصے کی زمین بیچ دی تھی اپنے ہی بھائیوں کو۔
تمہارے باپ کے چاروں بہن بھائیوں نے دیہاتی پنڈ کے ماحول میں نشونما پائی ہے جبکہ تمہارے باپ نے شہر میں نشونما پائی ،، یہاں رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔۔۔
شروع میں جب تمہارے دادا یہاں آئے تھے تو اپنے سارے بچوں کو لائے تھے،، تمہارے تایا بس پتوکی میں تھے،، بعدازاں چاچا کو بھی یہاں کا ماحول کچھ راس نہ آیا اسلئے وہ بھی شادی کرکے پتوکی میں اپنے گاؤں میں سکونت اختیار کر گئے۔
اور پھپھو کی شادیاں بھی پھر وہی پنڈ دیہات کے ماحول میں ہوئی ہیں ۔۔۔
تمہارے ابو کا دماغ یہاں بہت جما انکو یہ ماحول راس آگیا تھا،، ماڈرن خیالات تھے۔
جبکہ باقی بہن بھائیوں میں اس قسم کی روش نہیں تھی۔۔۔
میں امی کی باتیں غور و تجسّس سے سن رہا تھا ، ہر نئی بات میرے لئے ایک سسپینس تھی۔
جاننے کا تجسّس ۔
جیسے انسانی دماغ کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اسکا خیال بھی نہ لایا جائے ۔
لیکن نہیں ۔
یہ انسانی دماغ ہے۔
امی کی باتیں سن کر میں نے ایک اور سوال داغا : کیا اب ہم پتوکی یا اپنی پھپھووؤں کے گھر رحیم یارخان نہیں جاسکتے ؟
امی میرے طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولیں : جاسکتے ہیں لیکن کیوں پوچھ رہے ہو؟
میں نے کہا : امی میں جانا چاہتا ہوں۔
مجھے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی خواہش ہے۔
کیا ہمارا وہاں کوئی گھر بھی ہے؟
امی : ہاں بیٹا گھر بھی ہے جو کہ ہمارا تھا اب وہ کرائے پر دے رکھا ہے کسی کو۔
اسکا ہر ماہ کا کرایہ تمہارے چاچو مجھے بھجوا دیتےہیں ۔۔۔
رافع : امی ٹھیک ہے میں آپکے ساتھ جانا چاھتا ہوں اپنے گاؤں پتو کی اور اپنی پھپھوؤں کے گھر۔۔۔
امی کچھ سوچتے ہوئے : اچھا ٹھیک ہے چلے جائیں گے کچھ سوچتی ہوں اس بارے میں ۔
اب تم لیٹ جاؤ ۔
آرام کرو۔
امی نے پیار سے میرا ماتھا چوما اور مجھے لٹا دیا۔۔
امی نے کہا : آج تم کالج کیوں نہیں گئے۔
میں : امی میں نے جان بوجھ کر چھٹی کی ، آپسے بدتمیزی کرکے اندر ہی اندر پچھتا رہا تھا ،، آپسے معافی مانگنی تھی۔
امی میرے طرف پیار سے دیکھتے ہوئے اور میرے بال سہلاتے ہوئے : میرے چندا تمہاری ماں ہوں آخر کب تک تم سے دور رہونگی۔
امی میرے اوپر ہوتے ہوئے میرے ماتھے کو چومنے کے لئے جھکی تو انکی چھاتیاں میرے سینے میں پیوست ہوگئیں جس سے میرے جسم میں جھرجھری سی ہوئی۔
یہ پہلی بار تھا کہ کسی عورت کے لمس کو میں نے اپنے جسم پر محسوس کیا۔
میرا ذہن مجھے کوسنے لگا۔
امی پھر میرے اوپر سے اٹھ کر باہر جانے کےلئے بیڈ سے اٹھیں تو یہ دیکھ کر مجھے ایک زور دار جھٹکا لگا کہ امی کی قمیض انکے بڑے بڑے کولہوں میں دھنسی ہوئی تھی۔
لیکن یہ منظر چند لمحوں کا ہی تھا پھر آنکھوں سے اوجھل ہوا اور امی کمرے سے رخصت ہوگئیں ۔
میرا اپنا آپ مجھے کوس رہا تھا یہ کیا بکواس باتیں میں سوچ رہا ہوں ، لعنت ہے مجھ پر۔
اسی اثناء میں میں نے دیکھا تو میرا لوڑا اپنے ٹراؤزر میں سر اٹھائے ہوئے تھا۔۔
میں نے اپنے لنڈ پر ہاتھ رکھ کر زور سے مسلا۔
اور اسکو بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی لیکن یہ سب نیچرل تھا ،، جب کسی عورت کے جسم کے نشیب و فراز اسطرح کے ہوں وہ مرد کو اپنی جانب مائل کرتےہیں ۔
شیطان نے میرے دماغ کو جھٹکا دیا تھا کہ وہ تمہارے لئے ایک عورت ہے، اگلے لمحے میرے پارسا دل نے کہا کہ نہیں نہیں وہ تمہاری ماں ہے اسکے بارے میں اسطرح کا سوچ بھی مت۔
پھر دماغ نے کہا : ماں ہے تو کیا ؟
بڑے بھائی کے ساتھ ، اپنے بیٹے کے ساتھ بھی تو کتنے عرصے سے یہ سب کچھ کررہی ہے۔
میرے دماغ پر ہوس غالب آچکی تھی۔
گھر کی تنہائی ۔
امی اور میرے علاوہ گھر پر کسی اور کے نہ ہونے کا خیال مجھے بار بار دعوتِ گناہ دے رہا تھا۔
ان سب میں جیت ہوس کی بالآخر ہونی تھی۔۔
میں نے بستر چھوڑا بیڈ سے اٹھا باتھ روم میں گھس کر منہ پانی مارا ،، باہر نکلا تو گھڑی پر ساڑھے گیارہ ہورہے تھے ، زرین کے اسکول سے آنے میں بہت ٹائم تھا۔۔۔
میں نے کمرے سے باہر نکل کر کمرے کی کچن کی طرف قدم بڑھائے جہاں امی کھڑی پھر سے برتن دھو رہی تھیں ۔
امی کو میری موجودگی کا احساس ہوا تو انہوں نے گردن گھما کر مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہا : کیا ہوا رافع؟
کچھ چاہیے کیا۔
پھر آگے کو مڑ گئیں ۔
امی کی قمیض اب تک انکے بڑے بڑے کولہوں میں پھنسی ہوئی تھی۔
میں اوپر سے نیچے تک امی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا۔
اوپر کندھوں کی دونوں جانب دوپٹے کا پلو۔
ٹائٹ قمیض میں پھنسی ہوئی انکی کمر ، جس میں سے جھانکتی ہوئی انکی بریزر کی اسٹرپ صاف دکھائی دے رہی تھے۔
سر پر بالوں کا بنا ہوا گول جوڑا۔
قمیض کے نچلے دامن سے تھوڑا اوپر انکی شلوار کا ناڑے والا حصہ اور اسکے عین نیچے انکے بڑے بڑے گول چوتڑ جس میں پھنسی ہوئی قمیض ، دونوں گول غباروں کو جدا کرتی بیچ کی لکیر مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھی۔
میرا لنڈ شلوار میں سر اٹھا چکا تھا ۔
میں اب تلک کچن کے دروازے پر کھڑا تھا۔
کہ امی نے پھر نظریں گھما کر مجھے دیکھا اس بار انہوں نے اس نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا کہ میں حیران ہوگیا، انکا نچلا ہونٹ انکے دانت میں پھنسا ہوا تھا ، اس ادا سے دیکھ کر امی پھر سے آگے کو مڑ گئیں ۔
اور میں نے دیر نہ کرتے ہوئے تین چار قدم آگے بڑھا کر آمی کو کس کے جپھی ڈال لی ۔
امی کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی۔۔۔
میں نے ہاتھ امی کے مموں پر لے جاکر آنکے دوپٹے کے اوپر سے انکے مموں کو زور زور سے بھینچنا شروع کردیا اور نیچے سے اپنا للا فل امی کے گول چوتڑوں سے جوڑ دیا۔۔
امی نے میرے اس لمس کا مزہ لیتے ہوئے میرے ہاتھوں کو اپنی چھاتیوں پر دبایا۔۔
اب ایک گناہ کی باقاعدہ شروعات ہوچکی تھی.
میں نے امی کی جسم کے ساتھ خود کو جوڑتے ہوئے جھٹکے مارنے والے انداز میں آگے پیچھے ہونے لگا جیسا کہ میں نے پورن ویڈیوز میں دیکھ رکھا تھا ۔
اچانک مجھے اپنے ٹراؤزر میں اڑے للے پر امی کا ہاتھ محسوس ہوا امی نے کس کر میر لنڈ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور شدت جذبات میں بہک کر میرے ہاتھ اپنی چھاتیوں پر سے ہٹا کر گھوم کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
مجھے امی کا یہ انداز بہت حیران کر گیا اور میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ انکی پیٹھ پر لے جاکر آہستہ آہستہ نیچے لے آیا۔۔
جہاں انکے بڑے بڑے چوتڑ میرے ہاتھوں کے لمس کا بے صبری سے انتظار کررہے تھے۔
امی بدستور میری گردن کو پیچھے سے چوم کر مجھے اپنی جانب دبا رہی تھیں جبکہ میں نے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے انکے چوتڑ پر لاکر بھرپور اوپر سے نیچے تک نشیب و فراز کا اندازہ لگایا۔
امی کے چوتڑ کوئی اڑتیس سائز کے ہونگے جسکی وجہ سے انکی گانڈ چلتی ہوئی تھرکتی تھی۔
جب امی چلتی تو چوتڑ ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنے وجود کا احساس دلاتے ۔
میں نے امی کے چوتڑوں کو مٹھی میں بھر بھر کر زور سے دبانا شروع کردیا ،، امی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں بھر رہی تھیں ۔
اور بدستور آہ سسسس سییی کرے جارہی تھی ۔۔۔
میں نے امی کے چوتڑوں کو جب زور سے دبایا تو امی نے دانتوں سے ہلکا سا میری گردن پر کاٹ دیا جس سے مجھے تھوڑا درد ہوا۔
ہم دنیا و مافیا سے بے خبر اس گندے رشتے کی شروعات میں مگن تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور اس دستک نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔۔۔
امی اور میرے سانسیں تھوڑی پھولی ہوئیں تھیں ، امی مجھ سے الگ ہو کر باہر گیٹ کھولنے چلی گئیں ۔۔۔
تو میں نے کچن سے باہر نکل کر دیکھا تو دودھ والا آیا تھا دودھ دینے۔۔۔
امی نے دودھ لے کر کچن میں آکر جلدی سے رکھا اور مجھے شہوت بھری نظروں سے دیکھنے لگی ،، امی کو اس گرمی میں بھی پسینہ آچکا تھا ،، میں سوچنے لگا امی سچ میں اتنی گرم ہیں اس عمر میں بھی۔۔
امی نے میرا ہاتھ پکڑا اور زرین کے کمرے کی طرف چل پڑی اور میں بھی امی کی تھرکتی گانڈ پر ہاتھ رکھے پیچھے پیچھے چلدیا۔۔۔
( جاری ہے)




گندا خاندان
قسط نمبر: 5
(ایک انسیٹ گھریلو کہانی )
جواینگ نمبر:- 03167655838
کمرے میں گھستے ہی امی نے دروازہ بند کردیا اور پلٹ کر میرے منہ کو اپنے منہ سے جوڑ دیا امی میرے ہونٹوں کو کسنگ کرنے لگی جذبات میں بہک کر امی بھی جو کرہی تھیں میں ان کا ساتھ دینے لگا اب میں امی کے اوپر اکر کسنگ کرنے۔لگا اور امی میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں اچانک امی نے ایک ہاتھ نیچے کر کے میرا لنڈ پکڑ لیا اور مجھے اپنے اوپر سے دھکیل کر سائڈ میں کر کے بیٹھ گئیں اور میرا ٹراوزر اتارنے کے لیے جیسے ہی ناڑے پر ہاتھ رکھا میں نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ کر انکو روکنا چاہا لیکن امی جذبات و سرور کی کیفیت میں بھٹکی ہوئیں بہت گرم عورت معلوم ہو رہا تھیں امی نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹایا اور ایک جھٹکے میں میرا ٹراوزر تھوڑا سا لنڈ سے نیچے کر دیا جہاں میرا ساتھ انچ کا لنڈ پھن پھیلائے امی اور میری انکھوں کے سامنے لہرانے لگا امی کے چہرے کے تاثرات سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ میرے لوڑے کو دیکھ کر تھوڑی حیران ہوئی ہیں امی نے بناء کچھ سوچتے ہوئے میرے پیٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنی شلوار کا ناڑہ کھول کر شلوار کو تھوڑا سا نیچے سرکا یا مجھ پر بھی شہوت غالب آ چکی تھی میں نے بھی اپنی شرٹ جلدی جلدی اتاری اور ٹراوزر بھی ٹانگوں تک نیچے کر دیا
ساتھ ہی امی کی قیمض کا پلو پکڑا تو امی میری طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر ہونٹ کو دانتوں میں دباتے ہوئے خود ہی قیمض پکڑ کر اوپر کرنے لگیں میں نے قیمض کو اتروانے میں مدد کی قیمض اترتے کی امی کے بڑے بڑے گول خربوزے میرے سامنے آگئے جن کو دیکھ کر میں حیران تھا امی کے ممے بریزر میں قید تھے امی نے بریزر کا ہک کھول کر ممے میری انکھوں کے سامنے واضح کر دیے اور تھوڑی اوپر اٹھ کر شلوار کو بھی دونوں ٹانگوں سے نکال دیا اب ہم دونوں مادر زاد ننگے تھے کمرے میں تنہائی اور ہماری سانسوں کی اوازیں تھیں اس سخت سردی میں بھی اب گرمی لگنے لگی تھی امی نے میرا لنڈ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور ایک ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے مجھے لیٹنے کا اشارہ کیا اور دونوں ٹانگیں دائیں بائیں میرے پیٹ کے گرد کر کے میرے لنڈ کو اپنی پھدی کی ٹوپی پر رکھا میرا ضمیر اب بھی ملامت کررہا تھا کہ نہیں یہ سب گناہ ہے غلط ہے امی کو روک دینا چاہیے لیکن اب ہوس کے اگے ضمیر کو مات ہوتی نظر آرہی تھی امی نے لنڈ پر بیٹھنا شروع کیا تو انکے منہ سے ایک سکی نمودار ہوئے اہ سسی سیییی امی اہستہ اہستہ لنڈ پر بیٹھتی گئیں اور لنڈ پانچ انچ تک اندر لینے کے بعد رک گئیں امی سے سہی سے بیٹھا نہیں جارہا تھا میں نے امی کی کمر کو دونوں اطراف سے تھاما اور ان کو لنڈ پر بٹھانے لگا لیکن امی کی انکھوں سے ظاہر تھا کہ انہوں نے جو لنڈ لیے ہیں پہلے وہ اس سائز میں کم وبیش ایک ڈیڑھ انچ چھوٹے ہی تھے اپنے لنڈ کی قدرتی لمبائی کا اندازہ بھی مجھے اج ہی ہوا تھا امی سے جب پورا نہیں لیا گیا تو وہ اتر کر سائڈ میں اکر لیٹ گئیں اور مجھے اوپر انے کا اشارہ کیا میں تو ٹھہر ا تھانا تجربہ کار اناڑی امی مجھے اشاروں اشاروں میں سب کچھ سکھا دینا چاہتی تھیں یہ واضح تھا امی کے بیچ دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں نے اپنا لنڈ ان کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنا چاہا تو امی نے ٹانگ اٹھا کر میرے کندھے پر رکھ دی میں یہ اشارہ سمجھنے لگا میں نے امی کی دوسری ٹانگ کو بھی کندھے پر رکھ لیا امی مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی کہ یہ میں نے کسیے کر لیا میں نے اپنے جسم کو تھوڑا پھیلا یا اور امی کی ٹانگوں کو انکے گھٹنے کی طرف موڑتے ہوئے ان کے سر کے پاس تک لے ایا امی مجھے روکنا چاہ رہی تھی شاید انکو اندازہ تھا کے ان کو درد ہو گا اس لیے وہ مجھے انکھوں سے اشارہ کرہی تھی میں نے امی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے لنڈ تین انچ تک ایک جھٹکے میں اندر ڈالا امی نے سکی بھری اہ اہستہ کرو یہ پہلا لفظ تھا امی کے منہ سے اب تک ہماری سیکس کے کھیل میں میں نے لنڈ کو تھوڑا باہر کھینچا اور دوبارہ ایک جھٹکے میں اندر ڈالا اور امی کی دونوں ٹانگوں کو مضبوطی سے کندھے پر رکھ کر تھامے رکھا
پیڈ سٹوریز جس کو چاہیے
گندا خاندان 17 قسط
150 price میں حاصل کریں 03167655838 whtsapp
اور میں ڈنڈے مارنے والے پوز میں امی کے اوپر لیٹ کر ایک جھٹکے میں اندر ڈال دیا امی کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اہ سسسس سیییی پلیزززز باہر نکالو میں نے لنڈ تھوڑا سا باہر کھینچا اور پھر امی کی پھدی میں داخل کر دیا امی درد سے کراہتے ہوئے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن میرے دماغ میں پل رہے اتنے دنوں کے غصے کا بھی علاج کرنا تھا اور وہ غصہ میں امی کو سزادے کر نکالنا چاہتا تھا میں نے امی کی درد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زور دار پانچ چھ بار لنڈ کو اندر باہر کیا امی بد ستور کراہنے لگیں اور انہوں نے میرے پیٹ سے ہاتھ ہٹا کر ناخن میری کمر میں گاڑھ دیے مجھے درد ہوا میں نے پرواہ نہیں کی اور بدستور دھکے پے دھکے مارنے لگا امی کی ٹانگیں فل انکے سر کی طرف دبائی ہوئی تھی اور ان کی پھدی بالکل ہوا میں اٹھی ہوئی تھی جس سے انکے چوتڑ بھی نیچے بیڈ سے تھوڑے اٹھ گئے تھے میں نے دس بارہ اور دھکے امی کو اس پوز میں مارے تو دیکھا امی کا پانی نکل گیا ہے امی نے میرا لنڈ پر ہی دھار نکال دی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے اپنا لنڈ امی کی چوت سے باہر نکالا اور ان کو گھوڑی بنانے کے لیے ان کی ٹانگیں اٹھانے لگا امی میرے طرف دیکھتے ہوئے غصے سے اٹھی اور مجھے کھینچ کر بیڈ پر گرایا اور کہا جان نکال دینی تھے تم نے تھوڑا رک تو جاتے میں نے امی کی بات کو جواب نہ دیا امی خود ہی میرا اوپر سے اٹھی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی امی کی قیادت خیز چوتڑ اب میرے سامنے تھے یہ نظارہ تو میں دیکھ کر ہی پاگل ہو گیا اور جلدی سے اٹھ کر امی کے چوتڑ پر ہاتھ پھیرنے لگا امی اب جلدی ڈال بھی دو امی نے اپنے چوتڑ تھوڑے اور کھلے کیے جس سے ان کی گانڈ اور چوت دونوں کے سوارخ واضح ہو گے گانڈ کو دیکھ کر لگا رہا تھا یہاں بھی امی نے بہت بار لنڈ لیا ہو گا میں نے امی کی کمر کو تھاما اور جھٹکے لگانے والے انداز میں اگے پیچھے ہونے لگا امی کی سیکساں اب مزے میں بدل چکی تھیں اور وہ مزے وسرور کی لذت میں لنڈ کو ارام سے اپنی پھدی میں لیتے ہوئے یہ بول رہی تھیں اہ سس اور تھوڑا زور سے میں نے دھکوں کی رفتار بڑھائی تو ایک ٹانگ اٹھا کر سائڈ میں کر کے انکے برابر رکھ لی اور ایک ٹانگ سے ان کو گھوڑی کے اسٹائل میں چودنے لگا اتنے میں امی کی اواز ائی اوپر چڑھ جاو میں نے سانس لیتے ہوئے رکا اور پوچھا اوپر کیسے امی دونوں ٹانگیں سائڈ میں کر کے اوپر چڑھ جاو امی مجھے گھڑ سواری کا کہہ رہی تھی اور میں سمجھ گیا میری امی بھی پروفیشنل رنڈی بن چکی ہے اب گناہ کر کر کے امی مجھے اس اسٹائل میں اوپر چڑھنے کو کہہ رہی تھی جیسے کتا اپنی کتیا پر چڑھ کر اس کو چودتا ہے میں نے امی کی بات سن کر ان کی تابعداری کی اور اوپر چڑھ کر انکا سر گردن اور بال سے پکڑ کر بیڈ پر دبادیا اور خود جھٹکے مارنے لگا افف اس اسٹائل میں کمرے میں بڑی دلکش چدائی کی اوازیں پیدا ہورہی تھیں امی کے چوتڑ کو چودتے ہوئے جب میں اگے پیچھا ہوتا اور میرے ران ان کے چوتڑ سے ٹکراتی تو کمرے میں تھپ تھپ کی اور پک پک کی سی اوازیں پیدا ہوتیں امی کی سسکیاں بستر میں دبی ہوئیں تھیں اسی پوزیشن میں دھکے مارتے مارتے میں امی کے اوپر۔لیٹا گیا کہ اچانک مجھے لنڈ میں سے کسی چیز کے نکلنے کا احساس ہوا اور میں جان گا یہ منی ہے میری رفتار تیز ہو گئی اور میں نے اخری دھکے تیز رفتاری کے ساتھ مارنے اور منی کی پچکاریاں امی کے چوت میں بہادیں اور لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا امی پر گر گیا امی بھی بیڈ پر گر چکی تھیں اور میں انکے اوپر گرا ہوا تھا دو منٹ تک ہم یونہی لیٹے رہے پھر میں امی کے اوپر سے اٹھ کر سائڈ میں لیٹ گیا امی میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے سا نسیں لے کر مجھے مسکر اکر دیکھنے لگی
اور میرا بالوں میں ہاتھ پھیر کر میرے گالوں کو چوم لیا اب اس شہوت بھرے کھیل کے بعد مجھ پر گناہ و خوف کے اثرات پھر سے منڈلانے لگے اور میں گہری سوچ میں ڈوب گیا امی نے مجھے کندھے سے ہلایا اور کہا کیا ہوگیا رافع
گندا خاندان ہمارے پیڈ گروپ میں چل رہی ہے 17 قسط مونا چاچی اور کزنوں ایسی تمام سٹوری ہمارے گروپ میں چل رہی ہے اور دیسی وئرال ویڈیو جس کی فیس 350 ہے جو ایک بار ہی دینی پڑے گئی
ایڈ ہونے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں
03167655838
میں نے منہ نیچے کر کے بولا اخر مجھ سے بھی یہ غلط کام ہوگیا ہمارا خاندان پھر ٹھیک ہی گندا خاندان ہے نا امی امی نے اگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگایا اور کہا ایسا نہیں سو چتے بیٹا ہمشہ مثبت سوچو زندگی مثبت رہے گی منفی سوچو گے معاملات کو مختلف نظر سے نہیں دیکھو گے تو ایک ہی سوچ کے سہارے جیتے رہو گے یہ کہہ کر امی نے مجھے خود سے علیدہ کیا اور کپڑے اٹھا کر باتھ روم چلی گئیں میں نے بھی اپنا ٹراوزر اوپر کیا مجھے تھوڑی تھکن محسوس ہورہی تھے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو سوا بارہ ہورہے تھے
گندا خاندان کی اقساط

گندا خاندان
قسط 6


گناہ کی لذت انسان کو ہر دؤسری لذت سے بیزار کردیتی ہے۔
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کچھ دیر کےلئے موقوف ہوجاتی ہے۔
دماغ پر قفل سا لگ جاتا ہے۔
امی کے ساتھ اس گناہ کے بعد مجھ پر شدت سے شرمندگی و خوف کے سائے منڈلانے لگے۔
نیند سے بیدار ہوتے ہی مجھ پر آج ہوئے واقعے کی شرمندگی کے اثرات نمایاں تھے۔
میں شرم ، جھجک کی وجہ سے کمرے سے باہر بھی نہیں نکل رہا تھا۔
میں لیٹا لیٹا کمرے کو تک رہا تھا ، اچانک امی کمرے میں آئیں اور مسکراتے ہوئے بولیں : رافع چلو اٹھ جاؤ، منہ ہاتھ دھو لو کھانا کھا لو چائے بھی بنا رہی ہوں۔
یہ کہہ کر امی کمرے سے چلی گئی۔
میں امی کے اس رویے پر سخت حیران بھی تھا لیکن اندر ہی اندر اس رویے سے تھوڑا حوصلہ بھی مل رہا تھا جیسے آج ہمارے بیچ کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس وقت تو ہوس اور شہوت کی آگ میں بیٹھ کر میں یہ کام کر بیٹھا لیکن اب شرمندگی ۔
دوسری جانب امی کو کوئی شرمندگی ہی نہیں ۔
یہ میرے لئے قدر حیران تھا جو کہ مجھے بہت بعد میں آ کر سمجھ میں آیا کہ کیوں اس گناہ کو بار بار کرنے کے بعد انسان ایک عام گناہ سمجھنے لگتا ہے،، جیسے کوئی بات ہی نہیں ۔
جیسے اسطرح معاشرے میں ہر دوسرے گھر میں ہوتا ہو۔
یہ ایک نارمل سی بات ہو۔
لیکن معاشرے کے لوگوں سے جب ڈسکس کریں ، اولاً تو کر نہیں سکتے ، اگر کر بھی لیں تو وہ اتنی نفرت اور تعصب سے دیکھتا ہے جیسے اس سے زیادہ پارسا کوئی نہیں ۔
اس نے کبھی گناہ کیا نہیں ۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ یہ بڑا گناہ ہے۔
لیکن کیا دؤسرے لوگ نہیں کرتے؟
کیا یہ صرف مجھ سے ہی ہوگیا ہے؟
میں تو تن تنہا سمجھ رہا تھا اپنے آپکو ،
بہت تنہا اور نفرت انگیز محسوس کررہا تھا۔
خود سے نفرت سی ہونے لگی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے۔
لیکن امی کے رویے کو دیکھ کر میری سوچ کے پیمانے یکسر بدلنا شروع ہوگئی ۔۔
جو چیز پہلے مجھے بری لگ رہی تھی وہ اب اتنی بری نہیں لگنے لگی۔
لیکن یہ کیفیت جس پر گزری ہو بیک وقت متضاد کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔
کبھی گناہ کی شرمندگی
کبھی اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنے کی سوچ۔
میں اپنی ذہن کی سوچوں سے پھر سے لڑ رہا تھا اور کوئی بہتر نتیجہ مجھے نہیں سوجھ رہا تھا ، پھر میں نے تہیہ کیا جو ہوتا ہے دیکھا جائے گا۔
تقدیر میں جو لکھا ہو ، ہو کر ہی رہتا ہے۔
میں خود کو کیوں ذہنی اذیّت میں مبتلا کروں ؟
کیوں خود کو بلاوجہ کی ٹینشن میں ڈالوں ۔
میں اتنا سوچ ہی رہا تھا کہ امی نے کمرے میں داخل ہوتے کھانا ٹیبل پر رکھا اور لائٹ جلا کر کمرا بند کردیا۔
میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے ساڑھے چار ہورہے تھے۔
امی نے کھانا ٹیبل سے اٹھا کر بیڈ پر رکھدیا۔
میں نے نظریں اٹھا کر جب انکی طرف دیکھا تو انکے چہرے پر عجب سی مسکراہٹ تھی جو مجھ پر ذرا بھی سرور نہیں لا رہی تھی کیونکہ میں اب تلک اپنی ذہنی سوچوں سے لڑ رہا تھا۔
امی نے چھاتیوں پر دوپٹّہ بھی نہیں لیا ہوا تھا۔
امی نے کھانا رکھا ، میں اٹھ کر بیٹھا اور کھانا کھانے لگا۔
امی نے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور کہا : کیا ہوا رافع؟
اتنے چپ کیوں ہو ؟
میں چپ رہا اور نیچے منہ کر کے کھاتا رہا ۔۔۔
تھوڑی دن پہلے جو غصے کی وجہ سے میں اتنا ہنگامہ کرتا تھا ، آج اس گناہ میں بذاتِ خود مبتلا ہونے کے بعد لگتا تھا میری آواز ہی بند ہوگئی۔
امی نے پھر بولا : زیادہ نہیں سوچتے اس بارے میں ۔
جو ہوا اس پر زیادہ سوچو گے تو سر میں ہی درد ہوگا۔
پھر امی اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
جاتے جاتے مجھے انکو دیکھنے کی ہمت تک نہیں ہوئی۔۔۔
میں نے کھانا کھا کر چائے پی اور باہر نکل گیا۔
ان دنوں نئے بٹنوں والے موبائل کا دور دورہ ہوا تھا،، ہر آدمی کے پاس تقریباً نوکیا تینتیس دس بٹنوں والا موبائل لازمی ہوتا تھا۔۔۔
میں نے بھی موبائل چھ ماہ پہلے ہی خریدا تھا اپنے پیسوں سے۔
موٹرسائیکل لے کر گھر سے باہر نکلا گراؤنڈ جا ہی رہا تھا کہ موبائل کی بیل بجی میں نے موٹرسائیکل روک کر موبائل اٹھایا تو دیکھا آفس سے فون تھا ، میں نے بٹن دبا کر فون کان کو لگایا دوسری طرف سے آئی : آپ رافع بات کررہے ہیں ؟
میں : جی سر ۔
شخص : آپ اکثر چھٹیاں کررہےہیں ؟
رافع : سر میری طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں اسی لئے اسی ہفتے کی ہے تین چھٹیاں ۔
شخص : یہ کوئی سرکاری ادارۂ نہیں آپ جب چاہے کام پر آئیں اور جب چاہا چھٹی کرلیں ۔
آپنے مزید چھٹی کی تو آپکو کام سے نکالا بھی جاسکتا ہے،، سمجھ گئے آپ؟
میں سرسراتے ہوہئے : سررر للل لیکن ۔
سر : لیکن ویکن کچھ نہیں ۔
اگر آپنے مزید چھٹی کی تو آپکو جاب سے نکال دیا جائے گا۔
یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔۔۔
ابو کے مرنے کے بعد مجھے جاب اسٹارٹ کیے ایک سال ہی ہوا تھا ،، تاکہ گھر کا اور اپنا تھوڑا خرچہ سنبھال سکوں۔۔۔
میں نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ موبائل فون جیب میں رکھا اور اپنے دوست احتشام کو کال ملا دی ۔
رافع : ہیلو احتشام یار کہاں ہے تو؟
احتشام : ہاں بول جانی کیا ہوا؟
رافع : ابے مل تو سہی پھر بتاتا ہوں ٹینکی گراؤنڈ میں آجا۔۔۔
میں بھی وہیں آرہا ہوں۔
احتشام : ابے بات کیا ہے بول تو سہی؟
میں ابھی نہیں آسکتا۔
رافعع : اچھا چل ٹھیک ہے پھر کسی دن ملیں گے۔۔
احتشام میرے گھر سے تھوڑا دور ہی رہتا تھا ، اور میرا سب سے اچھا دؤست تھا ۔
میر گھر کا ماحول اتنا تنگ نظر نہیں تھا اسلئے ہماری دؤستی گھر تک کی تھی اور اسکی اور میری امی کی اچھی دوستی ہوچکی تھی پچھلے چار سالوں سے۔
میں نے موبائل پھر سے جیب میں رکھا اور گھر آکر سیدھا کمرے میں گھس گیا۔۔
تھوڑی دیر لیٹا رہا اور کتابیں اٹھا لی۔
میرا دماغ پڑھائی سے بھی بالکل غائب ہوچکا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد کمرے میں آہٹ ہوئی تو امی کمرے سے اندر آئیں اور آکر میرے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔
میں نے امی کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا،، میری نظریں اٹھانے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی۔۔
امی میرے پاس بیڈ کی سائڈ ہو کر بیٹھیں اور میرے سر کے ییچھے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں : رافعع تم آج بھی جاب پر نہیں گئے؟
میں منہ نیچے کرکے : نہیں اممی ک کل جاؤنگا۔
امی : تم مجھ سے ناراض ہو کیا؟
میں : میں نے کیوں ناراض ہونا ہے امی؟
امی نے میرے کان کی لو کو ہاتھ کی انگلی سے چھیڑا تو میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی۔
امی نے میرے گلے میں پیچھے سے ہاتھ رکھتے ہوئے سر کی طرف سے پکڑ کر میرا سر سائڈ میں بیٹھے بیٹھے اپنے سینے سے لگا لیا۔
میرا منہ دؤسری طرف تھا اور امی میرا سر تھپتھپا رہی تھی۔
میں امی کی اس اچانک حرکت سے شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا۔
مجھے امی کی جسم کی گرمی اور انکی بھاری چھاتیوں کی اٹھان سر کے پچھلے حصے پر پھر سے محسوس ہونے لگی۔
میں نے امی کی طرف بناء دیکھے ہوئے خود انکے سینے سے اٹھا اور نیچے کتاب کی طرف منہ کرکے بولا : امی مجھے پڑھنے دیں ، امی کو سمجھ آگئی تھی شاید کہ میں اب تلک کس کیفیت میں مبتلا ہوں۔
وہی کیفیت جو سالوں پہلے شاید امی پر کبھی طاری ہوئی ہوگی جب امی نے عالیہ باجی اور ابو کو بدکاری کرتے پکڑا تھا۔۔
وہی کیفیت جو انسان کو پہلے گناہ کے بعد ہوتی ہے۔
امی نے میری بات سن کر مجھے مزید کچھ نہیں کہا اور کمرہ بند کر کے چلی گئی۔
امی کے جانے کے بعد میں نے کتابیں ٹیبل پر پھینکیں اور پھر سے مجھے اپنے آپ یر غصّہ آنے لگا۔۔
میں اب سوچنے لگا کہ اب کس منہ سے امی کو کچھ کہوں یا طعنہ ماروں جبکہ میں خود اب بڑے گناہ کا شکار ہوچکا۔؟
اگلے لمحے میرے نفس نے میرے گناہ پر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا : اسکو ایک نارمل اور عام سی بات سمجھو جیسے امی سمجھ رہی۔
لیکن نارمل بات؟
آخر نارمل کیوں ۔؟
ہاں جب تک نارمل اور عام سا واقعہ سمجھ کر بھولو گے نہیں تو بس یونہی خود کو کوستے رہو گے۔
گناہ و ثواب کے چکر چھوڑو جو ہورہا ہے ہونے دو۔
میری ذہن میں جب یہ سوچ آتی کہ گناہ اور ثواب کے چکر چھوڑوں مجھے اپنی اس سوچ پر بھی غصّہ آنے لگا کہ یہ کیا واہیات میں سوچ رہا ہوں؟
یہی سوچتے سوچتے میں نے ذہن کو جھٹکا اور کہا مزید نہیں سوچونگا۔
اور مزید نہ سوچنے کے خیال سے تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔۔
( جاری ہے )


زبردست ا
گندا خاندان
قسط 07
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )
پیشکش-اردو سٹوری ورلڈ





دن گزرتے گئے میں صبح روٹین سے کالج اور کالج سے سیدھا کام پر جاکر رات کو گھر واپس آنے لگا۔
کام سے واپس آکر اتنی تھکن ہوجاتی تھی کہ کتابیں کھول کر پڑھنے کا بھی وقت نہیں مل رہا تھا۔۔۔
میٹرک کے امتحانات میں میری پچھتر پرسنٹیج بنی تھی ۔
میں پڑھنے میں ایک ایوریج بچہ تھا نہ بہت اچھا نہ برا۔
امی کے ساتھ اس دن کے ہوئے جسمانی لمس کے بعد میں اب امی سے کٹا کٹا ہی رہنے لگا۔
مجھ پر اب تلک یہ سوچ پنپتی تھی کہ جو ہوا غلط ہوا اور ایسا مزید نہیں ہونا چاہیے ۔
امی بھی کبھی اداؤں اور اشاروں سے گھر میں مجھے اپنی طرف مائل کرنے لگتی تھی لیکن میں دیکھ کر ہی گزر جاتا تھا ،، امی بھی پھر زیادہ زور نہیں دے رہی تھیں کیونکہ عورتوں کی یہ فطرت ہوتی ہے وہ زبان سے نہیں اشاروں اشاروں سے ، اداؤں سے سب کچھ کہدیتیں ہیں ۔
اپنی زلفوں کے جال میں پھانس لیتی ہیں ۔
دن گزرتے گئے اور میرے فرسٹ ائیر انٹر کے امتحانات قریب آگئے۔
میں نے کالج سے جاکر ایڈمٹ کارڈ لیا ۔۔۔
اور امتحانات اپریل میں تھے۔۔
امی کے ساتھ گزرے واقعے کو تقریباً چار مہینے ہوگئے تھے۔۔۔
امی بھی بس کمرے میں ناشتہ اور کھانا دینے آتیں اور کبھی ماہم اور زرین دے کر چلی جایا کرتی۔۔۔
عالیہ باجی سے بھی بات ہوئے کافی ٹائم ہوگیا تھا جبکہ زنیرہ باجی سے بات بہت کم ہوتی تھے ۔۔
زنیرہ باجی کی شادی لاہور میں ہوئی تھی ۔۔۔
انکے شوہر کا نام شہیر ہے۔
زنیرہ باجی کے بچے ۔۔
آلیان ( عمر دو سال )
انم ( عمر ایک سال )
زنیرہ باجی کو گھر آئے دو سال ہونے کو آئے تھے،، اب بس امی سے انکی فون پر بات چیت ہوجایا کرتی تھی۔۔۔
رفتہ رفتہ میرے امتحانات قریب آگئے۔۔
امی میری اور بھی زیادہ فکر کرنے لگیں تھیں امتحانات کی وجہ سے اور میری کوئی خاص تیاری نہیں تھی۔۔03239782820
مجھے ڈر تھا کہ میرے امتحانات اچھے نہیں ہونگے۔۔۔
امی اور فہد کا وہ راتوں کا ہوس کا کھیل بھی اب بند تھا ۔۔۔
لیکن مجھے شکوک شبہات پھر بھی تھے اور میں اکثر جاسوسی کی آڑ میں کبھی کبھار کمرے کے باہر جھانک کر دیکھا کر تا تھا۔۔۔
میرا کمرہ بیچ میں تھا جب کے امی اور فہد کا کمرہ میرے دائیں بائیں تھا اسلئے کمرے سے نکل کر کوئے دؤسرے کمرے میں جائے تو مجھے بھنک ہوجاتی تھی۔۔
یہ اسی رات کا واقعہ ہے جب میں اگلے دن کے کیمسٹری کے پیپر کی تیاری کررہا تھا۔۔
اب گرمیاں آچکیں تھیں ۔۔۔
رات کے دو بج رہے تھے۔
میں نے اپنے کمرے کا دروازہ آدھا کھول رکھا تھا کہ مجھے امی کے کمرے کے دروازے کھلنے کی آہٹ ہوئی ۔۔
میں چوکنا ہو کر کھڑا ھوگیا ، اگلے ہی لمحے مجھے فہد کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آہٹ ہوئی اور یکدم دروازہ بند ہوگیا۔
میں سمجھ گیا آج اندر پھر وہی ہوس کا ننگا ناچ ہوگا ۔
میں نے غصّے میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔
کتابوں سے دماغ بالکل غائب ہوچکا تھا ، اگلے ہی لمحے مجھے میرے نفس نے ملامت کی کہ : اب کس منہ سے تو خود کو نیک پارسا سمجھ رہا ہے؟
اور کیوں تجھے امی اور اپنے بھائی فہد کے اس ہوس کے گندے کھیل پر غصّہ آرہا ہے جبکہ تو خود بھی امی کے ساتھ وہی گندا کھیل ایک مرتبہ کھیل چکا ہے۔
اسی سوچ نے میرے اندر کی شرمندگی کو پھر سے میرے سامنے لا کھڑا کیا ۔۔۔
میں خود سے اندر ہی اندر باتیں کررہا تھا ۔
لیکن کیا میں نے وہ سب کی ارادی طور پر کیا تھا؟
وہ سب امی کے اکسانے سے غیر ارادی طور پر ہو گیا تھا ورنہ کبھی نہ ہوتا۔
اگلے ہی لمحے پھر دماغ نے جھٹکا دیا تو کیا تجھے کوئی عورت اکسائے گی اور تو اسکی طرف لپک پڑے گا بجائے کوئی خود پر کنٹرول رکھنے کے؟
لیکن کنٹرول کیسے رکھتا آخر؟
عورت کے جسم کے نشیب و فراز ہی ایسے ہوتےہیں ۔
اسکی اتار چڑھائیاں اچھے اچھوں کی شلواریں اتار دیتی ہیں ۔
نیک پارساؤں کے لوڑوں کے ابھار شلوار کے اوپر سے ہی نظر آنے لگتے ہیں ۔۔۔
ایک طرف شیطانی دماغ مجھے میرے کیے پر حوصلہ دے رہا تھا کہ جو ہوا اچھا ہوا ۔
دوسری طرف میرا پارسا دل اس سوچ پر غالب آرہا تھا کہ جو ہوا بہت ہی برا ہوا اور نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ پہلا اور آخری گناہ تھا اب تجھے توبہ کرنی چاہیے اور دوبارہ ایسا گندہ کام نہیں کرے گا۔
میں خود کو دلاسے بھی دینے لگا،، اور خود کو بیک وقت کوسنے بھی لگا۔۔۔
میں نے کتاب اٹھا کر سائڈ میں رکھی ۔۔۔
رات کے ڈھائی بج رہے تھے،، تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی شخص مجھے ایک کمرے سے دوسرے میں جاتا ہوا نظر آیا۔
میں سمجھ گیا کہ امی اب اپنی پیاس بجھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں ۔۔
مجھے امی کے اس دیدہ دلیری والے گناہ پر اس قدر حیرانی تھی کہ بسسس۔
مجھے یہ سب بہت بعد میں جاکر سمجھ آیا کہ کیوں آدمی اتنا دیدہ دلیر ہوجاتا ہے اور ان سب گندے کاموں کو ایک عام چیز سمجھ کر سر انجام دینے لگتا ہے ۔
جیسے یہ کام ہر ایک کےلیے بہت ہی سطح پن کی سی چیز ہوں۔۔۔
میں نے امی سے اس بارےمیں مزید بات کرنے کا سوچا کہ تھوڑے دن بعد پیپرز ختم ہوجائیں پھر کوئی بات کرونگا۔
اگلے دن کیمسٹری کا پرچہ تھا اسلئے میں یہ سب سوچیں لیے پھر سے نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔
جاری ہے



گندا خاندان
قسط 08
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )



کچھ دن بعد پیپرز ختم ہؤگئے۔
امی اور میرے درمیان زیادہ بات چیت نہیں ہورہی تھی، بس روٹین کا گھر سے آنا جانا وہی معمولاتِ زندگی ۔
پیپرز ختم ہونے کے اگلے دن میں نے جاب سے چھٹی کی اور اپنے کمرے میں ناشتہ کرنے کے بعد آرام کرنے لگا۔
تھوڑی لیٹ کر سستانے کے بعد میں نے کمپیوٹر آن کیا اور اس پر گیم کھیلنے لگا۔
میں گیم کھیلنے میں مگن تھا کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا میں نے مڑ کر پیچھے تو امی کمرے میں آتی ہوئی نظر آئیں ۔
میں آگے منہ کرکے پھر سے گیم کھیلنے میں مگن ہوگیا۔
پیچھے سے آکر امی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے پاس بیٹھ گئیں ۔
میں امی کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
امی نے ہی بات شروع کی ۔
رافع پیپرز کیسے ہوئے تمہارے سارے۔
میں نے آگے منہ کرکے ہی جواب دیا : اچھے نہیں ہوئے بس سہی ہوئے۔
امی کے ساتھ اس دن ہوئے واقعے کے بعد پتہ نہیں کیوں میری زبان سے انکے لئے امی کے الفاظ نہیں نکلتے تھے اور اب میں ہوں ہاں میں جواب دینے لگا تھا اور امی بھی مجھے اکثر رافعع ہی کہا کرتیں ، بیٹے کا لفظ اکثر کبھی استعمال کرتی کبھی نہیں اور اسکی وجہ صورتحال کے حساب سے جائز بھی تھی،، آپسی رشتوں کا برہم اور عزت ختم ہوجاتا ہے یہ سب کرنے کے بعد لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ برہم بعد میں کسطرح قائم رہے گا یا پھر سے میرے اور امی کے درمیان وہی ماں بیٹے کا کھویا ہوا مقام کبھی واپس آ بھی سکے گا یا نہیں ۔
اسطرح کے کام دو جنسی عاشق ہی آپس میں کرسکتے ہیں ماں بیٹے کرلیں تو بیٹا بول کر یا ماں بول کر ایک دوسرے کے جسموں سے استفادہ حاصل کرنا رشتوں کے تقدس کو پامال کرتا ہے اور سامنے والا شخص پھر صرف ایک صنفِ مخالف اور جنسی اور جسمانی فائدہ حاصل کرنے کی دوکان نظر آتا ہے۔۔

امی میرا جواب سن کر بولیں : کیوں رافع؟ اچھے کیوں نہیں ہوئے پیپرز؟ ۔
رافع : تو اور کیا اچھے ہونے چاہیے تھے؟
یہ بات میں نے آگے گیم کھیلتے کھیلتے ہی کہی میں کمپیوٹر پر جی ٹی اے وائس سٹی Gta Vice city گیم کھیل رہا تھا اس وقت یہ گیم نئی نئی آئی تھی اور اسکا دور دورہ تھا ہر جگہ۔۔۔
پھر میں نے کہا : کالج کے بعد سیدھا کام پر جاؤ، پھر رات کو تھکا ہارا گھر پر آؤں ، پڑھنے کا ٹائم ہی کہاں ملتا ہے؟۔
امی نے میرا یہ جواب سن کر بولا : تو رافعع اپنی پڑھائی کا نقصان مت کرو ،
میں نے پیچھے گردن گھما کر امی کی آنکھوں میں دیکھا اور استفسار سے پوچھا : تو کیا جاب چھوڑ دوں؟
امی : بیٹا پڑھائی کا نقصان بھی تو ہوگا ۔
رافع : تو خود کا خرچہ بھی تو چلانا پڑتا ہے کیا کروں اب۔
امی : بیٹا کال سینٹر کو چھوڑ کر اس سے اچھا تم ٹیوشن پڑھانا شروع کرو،، کال سینٹر میں اتنی دیر ڈیوٹی کرتے ہؤ،، ٹیوشن تین گھنٹے بھی پڑھاؤ گے تو ٹھیک رہے گا اور خود کی پڑھائی کےلئے بھی اچھا ہوگا۔۔
رافع : لیکن ٹیوشن پڑھانے سے اتنے پیسے نہیں بنیں گے۔۔
امی : ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی پڑھائی پر فوکس کرو اور گھر کے خرچے کی زیادہ فکر مت کرو۔۔
میں کچھ اور بھی سوچ رہی ہوں،، ابھی فہد اور ماہم جاب کررہے ہیں نا ، کرایہ بھی آجاتا ہے، ابھی تم اسلئے زیادہ فکر مت کرو۔۔۔
اور اپنی پڑھائی پر فوکس کرو۔۔
امی نے یہ کہہ کر میرا سر اپنے گردن سے لگا کر میرے چہرے پر پیار کیا۔۔
مجھے اپنے بدن میں کرنٹ سا لگا۔
امی کی تجویز مجھے تھوڑی اچھی تو لگ رہی تھی ،،، میں نے سوچا کچھ دنوں میں بس جاب چھوڑ ہی دیتا ہوں۔۔
یکدم میرے دل و دماغ میں پچھلے مہینوں کے واقعات جا بجا آنے لگے اور میں سوچنے لگا ،، امی سے بہت سارے سوالات کرنے تھے۔
میں نے امی کے سینے سے لپٹے اپنے بازو انکی کمر کے گرد باندھ دیے ، امی کے جسم میں بھی جھرجھری سی ہوئی ۔
کیونکہ انکی چھاتیاں
میرے بازوں سے دبی ہؤئیں تھیں ۔
میں نے دریافت کیا : امی مجھے کچھ باتیں پوچھنی تھیں آپسے۔
امی میرا سر سہلاتے ہوئے : پوچھو ۔
رافع : امی میں نے آپکو کہا تھا میں اپنی پھپھوؤں اور چاچا کے گھر جانا چاہتا ہوں،، اب پیپرز ختم ہوگئےہیں اسلئے اب یہ ٹائم سہی جانے کا۔۔
امی : ہاں بیٹا مجھے یاد تو تھا، میں نے عالیہ سے بھی بات کی تھی وہ کہہ رہی تھی ضرور چلیں گے۔۔۔
رافع : امی تو کب چلیں پھر رحیم یار خان؟
امی : چلتے ہیں ایک ہفتے تک لیکن فہد سے پوچھنے دو ،
مجھے امی کی یہ بات سن کر تھوڑا غصّہ تو آیا لیکن میں نے ضبط کرتے ہوئے امی سے کہا : امی اب فہد سے کیا پوچھنا ہے؟
کیا آپ اس سے پوچھنے کی مجازی ہیں ؟ یہ بات میں نے امی کے سینے سے اٹھتے ہوئے انکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو امی نے میری آنکھوں کی تشنگی کو تکتے ہوئے منہ نیچے کرکے کہا : نہیں میں ویسے ہی کہہ رہی ہوں اسکو بھی تو بتادیں ، اور عالیہ کہہ رہی تھے وہ بھی جائے گی۔
سب کا جانا تو ممکن نہیں گھر پر ماہم اور زرین کے پاس کسی کو رکنا بھی پڑے گا،، ۔
رافع : ہاں تو فہد ہے نا رکنے کےلیے ۔
امی : ہاں رافع ،، پر ایک بار مجھے اس سے بات کرنے دو۔
رافع : اچھا ٹھیک ہے۔
آپ عالیہ باجی کو بلا لیں پھر، اتنے مہینے سے نہیں آئی وہ بھی۔
امی اشتیاق سے ہنستے ہوئے : کیوں اب بہن کی یاد آرہی ہے؟
میں نے امی کی طرف گھورتے ہوئے کہا : کیا مطلب ہے یاد آرہی ہے؟
ظاہر ہے تو وہ میری بڑے بہن ہے یاد تو آئے گی۔
امی : ہاں ہاں جانتی ہوں ۔
ویسے میرے بچے تم پل پل غصّہ مت کیا کرو ، دماغ پر زیادہ زور مت دیا کرو ورنہ یونہی دماغ پر زور پڑنے سے کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا زندگی میں ۔۔
بس مثبت سوچا کرو۔۔
رافع : امی میں مثبت ہی سوچنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کوئی نہ کوئی بات مجھے غصّہ دلا دیتی ہے ۔
امی : اب کس بات پر غصّہ ہے تمہیں ؟
میں نے امی کی طرف ایک لمحے کےلئے نظریں اٹھا کر دیکھا اور پھر نیچے منہ کرکے اپنے ھاتھ مسلتے ہوئے کہا : ابھی کچھ دن پہلے آپنے فہد کے ساتھ پھر وہی سب کیا؟
امی نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا : تو کیا کروں رافعع ، تم تو وقت نہیں دے رہے تھے اپنی ماں کو۔
مجھے امی کی یہ بات سن کر حیرت کا ایک جھٹکا لگا اور کہا : کیا مطلب ہے امی آپکا ؟
امی : کچھ نہیں بس میں جارہی ہوں۔
میں نے امی کا ہاتھ پکڑ کر زور سے کھینچا اور امی بے دھڑام سی ہو کر بیڈ پر گر پڑیں جس سے بیڈ پر بچھا گدا بھی ایک لمحے کےلئے جھول کھا گیا۔۔۔
میں نے پانچ چھ سیکنڈ چپ اختیار کی اور پھر بولا : امی اس دن ہمارے بیچ جو کچھ بھی ہوا وہ اب میں دوبارہ نہیں کرنا چاہتا اور آپ بھی فہد کے ساتھ وہ سب کرنا چھوڑ دیں ۔
امی بیڈ سے اٹھتے ہوئے مجھے کہا : رافع کوئی بھی بالغ انسان اس سب کے بغیر نہیں رہ سکتا یہ تمہیں رفتہ رفتہ سمجھ آجائے گا پھر تم ایسی باتیں نہیں کرو گے۔
پھر امی نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا : میں تمہیں کبھی دوبارہ نہیں اکساؤنگی اس چیز کےلیے ۔
اور تم میرے بیٹے ہو اور ہمیشہ رہو گے نہ ہی تم کو کبھی برا کہونگی۔
اگر تم بھی ماں سمجھتے ہو مجھے تو مجھے نفرت بھری نگاہوں سے مت دیکھنا ورنہ ایک وقت آنے پر خود پچھتانا پڑتا ہے بیٹا۔
اب میں جارہی ہوں گھر کے کام کرنے ہیں ۔
کسی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی اس گندی امی کو ضرورت یاد کر لینا۔۔
یہ بات بول کر امی کمرے سے نکلی تو
امی کے کہے ہوئے آخرے جملے نے مجھے خود کی نظروں میں شرمندہ کردیا تھا کہ " گندی امی کو ضرور یاد کرلینا " میرے دل و دماغ میں پھر سے جنگ چھڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ واقعی مجھے اب ان لوگوں سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے ، میں کچھ زیادہ ہی وبال کھڑا کررہا ہوں اور ان چیزوں پر ضرورت سے زیادہ سوچ رہا ہوں،، لیکن بسا اوقات انسان کا ان چیزوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔۔۔
یہی سوچتے سوچتے میں نے کمپیوٹر بند کیا اور کمرے سے باہر نکل کر گراؤنڈ میں چلا گیا..

جاری ہے۔۔
 
Newbie
1
0
1
گندا خاندان
قسط 1
(ایک انسیسٹ گھریلو کہانی)
یہ دسمبر 2002۶ کی ایک سرد رات تھی ،، جب میں کام سے واپسی پر گھر پہنچا ۔۔
اسوقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
دروازہ بجانے پر میری چھوٹی بہن زرین نے گیٹ کھولا۔
میں سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں جانے لگا تو مجھے امی کے کمرے سے ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں ۔
کسی کی درد سے کراہنے کی آوازیں ، میرے دماغ نے ایک دم سے جھٹکا کھایا اور سوچا کہ اسوقت امی کے کمرے میں امی ہی ہوسکتیں ہیں اور کون ہوسکتا ہے؟
میرے اندر کا تجسّس اب غصے کی صورت اختیار کر گیا تھا کیونکہ میں جانتا تھا یہ اسطرح کی آوازیں کسی کی جنسی چدائی کی آوازیں ہیں ۔
اور وہ میری ماں ؟
نہیں نہیں ابو کو وفات پائے ڈیڑھ سال ہوگیا تھا پھر یہ امی کس کے ساتھ ؟
اسی سوچ نے میرے دماغ کے پرخچے اڑا دیے اور میں اندر کمرے میں جھانکنے کی اور کوئی سوراخ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا ۔
میں نے ایک ترکیب سوچی اور پیچھے جاکر سیڑھیوں پر نیچے کی طرف ہو کر لیٹ گیا تاکہ کسی کو نظر نہ آسکوں ۔
تھوڑی دیر بعد مجھے فہد بھائی امی کے کمرے سے نکلتے ہوئے نظر آیا ۔
فہد بھائی کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا اور میری سوچ کے پیمانے ایک دوسرے سے سوالات کرنے لگی؟
فہد بھائی امی کے ساتھ ۔؟
یعنی امی فہد کے ساتھ وہ سب۔۔۔؟
مجھے اب تلک یقین نہیں آرہا تھا۔
ہوسکتا ہے اندر ایسا ویسا کچھ نہ ہورہا ہو۔
لیکن اسطرح کی سسکیاں تو سیکس میں ہی ہوسکتیں ہیں ؟
فہد بھائی جب امی کی کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں گیا تو امی نے دروازہ بند کرلیا۔
میں سیڑھیوں سے اٹھا اور جاکر اپنے کمرے میں بیڈ پر رضائی لے کر سوچنے لگا۔
میری آنکھوں سے نیند بالکل غائب ہوچکی تھی۔۔
ابھی ابھی جو کچھ میں نے اپنے کانوں سے سنا ۔
وہ سسکیوں کی آوازیں وہ کراہنے کی آوازیں ۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا امی اور فہد آپس میں اتنا گندا کھیل کھیلیں گے۔
لیکن اگلے ہی لمحے میرے ذہن کی سوچوں نے دستک دی کہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لو کانوں کے سنے ہوئے پر یقین نہ کرو۔
چناچہ میں نے جانچ پڑتال کرنے کا فیصلہ بنایا۔
یہی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔

تو دوستوں یہ تھی کہانی کی شروعات !
یہ میری سچی آپ بیتی ھے ، بعض لوگ انسیسٹ یعنی گھریلو رشتوں کے مابین سیکس کو تسلیم نہیں کرتے ،، لیکن وہ نہیں جانتے ایسے کتنے ہی گھر اس مشرقی معاشرے میں اندرونِ خانہ ان ناجائز تعلقات میں گھرے ہوئےہیں جو کہ منظرعام پر ایک فیصد بھی نہیں آتے ۔۔ اسلئے لوگ اس چیز کو جھوٹ سمجھتےہیں لیکن دوستوں کسی کے جھوٹ سمجھ لینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی،، معاشرتی حقائق بدل نہیں جاتے۔۔۔
آس پاس نظر دوڑائیں ، قریب سے دیکھیں پرکھیں ۔
کہیں نہ کہیں اسطرح کے تعلقات کی بھنک ضرور دکھے گی ، اور جب انسان خود ان چیزوں میں ملوث ہوجائے تو انکار کا پھر کوئی جواز نہیں بچتا کہ ایسا نہیں ہوتا یا ویسا نھیں ہوتا۔۔
انسیسٹ کہانیاں عموماً سچی ہی ہوتی ہیں بعض اوقات رائٹر تھوڑا مرچ مصالحہ لگا کر اسکو قارئین کی تفریح کےلئے اسکو یہ رنگ دے دیتا ہے۔
تو دوستوں آئیے اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد چلتے ہیں آپ بیتی کی طرف !

میرا نام رافع ہے جسوقت سے یہ واقعہ شروع کرنے لگا ہوں اسوقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔
ہم ٹوٹل چھ بہن بھائی تھے۔
دو بڑی بہنیں جنکی شادی ھوچکی ہے ۔
اس سے چھوٹا ایک بھائی فہد پھر ایک اور چھوٹی بہن پھر میں اور سب سے آخر میں زرین ۔
عالیہ ( سب سے بڑی بہن ) عمر 28 سال ، شادی کو پانچ سال ہوگئے ، تین بچے ہیں ۔
زنیرہ ( دوسرے نمبر والی بہن ) عمر 26 سال ، شادی کو تین سال ہوگئے ، دو بچے ہیں ۔

فہد بھائی ( عمر 23 سال ،، پڑھائی مکمّل کرلی اب جاب کرتےہیں ۔
ماہم ( عمر 21 سال ، یونیورسٹی میں پڑھتی ھیں ، ایک اسکول میں پڑھاتی بھی ہیں ۔
میں رافع ( عمر اٹھارہ سال، کالج کے سیکنڈ ائیر میں ہوں ، کال سینٹر میں کام بھی کرتا ہوں گھر والوں کا خرچوں کا بوجھ ہلکا کرنے کےلیے ۔
زرین ( سب سے چھوٹی سب کی لاڈلی) عمر سولہ سال ، میٹرک میں پڑھ رہی ہے۔۔۔۔

نازیہ ( امی ) : عمر چھیالیس (46) سال ، ایک ہاؤس وائف ہیں ۔
میرے ابو کا نام زبیر تھا انکی عمر پچاس سال تھی ڈیڑھ سال پہلے جون 2001۶ میں ایک دن وہ گھر پر ہی تھے کہ اچانک بیٹھے بیٹھے انکو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
ہماری زندگی بہت اچھی چل رہی تھی،، میرے ابو کی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں جاب تھی اور ایک بڑا عہدہ تھا، اسلئے کراچی میں سن 80۶ کی دہائی میں میرے ابو نے گلستانِ جوہر میں ایک اچھا زمینی گھر لے لیا تھا۔۔۔
ہمارے گھر میں ٹوٹل پانچ کمرے تھے۔۔
اور دو پورشن تھے، ایک اوپر ایک نیچے ۔
اوپر والے پورشن میں تین کمرے جبکہ نیچے والے پورشن میں دو کمرے تھے،، بڑا سا صحن اور چھوٹا سا گارڈن بھی تھا۔۔۔
ابو کی اچانک موت نے ہم کو جھنجھوڑ کر رکھدیا تھا۔۔
ابو کی وفات کے بعد انکے ادارے والوں نے میرے بڑے بھائی فہد کو گھر کا بڑا چشم و چراغ گردانتے ہوئے انکو اپنے ادارے میں نوکری دے دی، میں نے بھی مجبوری میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنا خرچہ سنبھالنے کےلیے نوکری شروع کردی کال سینٹر میں۔۔
اسطرح اب گھر کا گزر بسر ہونے لگا۔۔۔
ہمارا ایک اور گھر گاؤں رحیم یار خان میں تھا جو ھمارے دادا کی وراثت میں ملا تھا،، اسکا ایک پورشن ہم نے کرائے پر دے رکھا تھا،، اسکا ماہانہ کرایا آجاتا تھا،، گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی ،، بس کمی تھی تو باپ کی لیکن مجھے لگتا تھا جیسے فہد بھائی کو یہ کمی زیادہ نہیں تھی اور وہ اپنی مستی میں مست تھا۔۔۔
بعد میں آنے والے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ بتاؤنگا ۔
میں رات کو لیٹا لیٹا سو گیا ۔ اگلے روز میری آنکھ کھلی میں کالج جانے کےلئے تیار ہونے لگا ،، کالج میں کم ہی جاتا تھا جیسے کہ کراچی میں اکثریت گورمنٹ کالجوں کا یہی حال ہےکہ وہاں روٹین میں بچے کم ہی آتےہیں شام کو کوچنگ زیادہ پڑھتے ہیں ۔
خیر میں کالج جانے کے لئے تیار ہونے لگا ، تو امی آج پہلے کی نسبتاً عموماً کھلی کھلی خوش لگ رہیں تھیں جو کہ عموماً ہی ہوتا تھا لیکن میں رات کے ہوئے واقعے کی وجہ سے چور نظروں سے غور غور سے دیکھ رہا تھا ،، اندر ہی اندر غصّہ بھی تھا۔۔
اتنے میں فہد بھائی بھی آگئے ناشتے کی ٹیبل پر وہ بھی ناشتہ کرنے لگے ، میں نے دیکھا کہ جب فہد بھائی تو امی نے انکو مسکرا کر دیکھا اور فہد بھائی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔
مجھے اندر ہی اندر یہ بات کڑھ رہی تھی ،، میں نے حقیقت کو پتہ چلانے کا فیصلہ لگا لیا تھا،، میں جانتا تھا اگر میری امی اور بھائی اس گندے رشتے میں ملوث ہیں تو یہ کام یہ لوگ اکثر ہی کرتے ہونگے، بار بار کرتے ہونگے،، اور دوبارہ مجھے یہ سین دیکھنے کو ضرور ملے گا ۔۔۔
تین چار روز معمول کے مطابق گزر گئے اور کچھ بھی ایسا ویسا دیکھنے کو نہ ملا۔۔۔
میں یہ ترکیبیں سوچ رھا تھا کہ کیسے اندر کا نظارہ کیا جائے ؟ جس سے کہ مجھے یقین ہوجائے اندر کیا چل رہا ہے؟
اوپر والے تین کمرے امی میرے اور فہد بھائی کے تھے جبکہ نیچے والوں میں ماہم اور زرین سوتی تھیں ۔
آج میں ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔۔۔
رات کو گیارہ بجے جب چھٹی ملی تو میں بائیک نکال کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔
میرے دل میں اشتیاق کی وجہ سے دھڑکن تیز تر ہوتی جارہی تھے۔۔۔
میں جلدی جلدی گھر پہنچ کر دروازہ بجایا ،، موٹرسائیکل باہر ہی کھڑی کی تو زرین بولی کیا ہوا بھائی اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
میں اس کے سوال کو اگنور کرتےہوئے سیڑھیوں پر چڑھتے چڑھتے امی کے کمرے کے باہر پہنچا ،، اتفاق سے کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی لیکن بیچ میں جالی کی وجہ سے نظر ٹھیک سے نہیں آرہا تھا،، لیکن یہ ضرور دیکھ کر پتہ چلایا جاسکتا تھا کہ اندر چدائی ہورہی ہے ، جہاں ایک عورت جو کہ میری ماں تھی بیڈ پر گھوڑی بنے ہوئے تھے اور میرا بھائی فہد پیچھے سے آگے پیچھے ہو کر دھکے مار رہا تھا۔
یہ دیکھ کر میرا پارہ چڑھ گیا آور دماغ گھوم گیا ۔
غصے کے عالم میں تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا۔
مجھے پتہ نہیں چلا میں کب سوگیا ۔
اگلے دن میں کالج نہیں گیا میری آنکھ تب کھلی جب امی مجھے جگا رہے تھی ،، رافع بیٹا اٹھو کالج نہیں جانا کیا ،، امی کو دیکھ کر مجھے پھر سخت غصّہ آیا ۔ اور دل ہی دل میں انکو رنڈی کنجری اور طوائف کہنے لگا ۔۔۔
امی بستر سمیٹ رہی تھی میرے اوپر سے رضائی ہٹانے لگی اور پیار سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو یکدم انہوں نے کہا رافع بیٹا تمہیں تو بخار ہے ؟
کیا ہوا مجھے کیوں نہیں بتایا۔
میں نے امی کا ہاتھ جھٹک دیا اور غصے سے کہا ہاتھ مت لگائیے مجھے۔
امی مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
امی : کیا ہوگیا رافع یہ کسطرح بات کررہے ہو؟
رافع : آپ کےلئے کچھ ہوگا بھی کیوں ؟
آپ تو بہت خوش ہونگی نا ابو کے مرنے کے بعد کیونکہ آپکی ناختم ہونے والی گندی خواہشات تو پوری ہورہی ہیں ۔
میری یہ بات سن کر امی کی آنکھیں نم ہوگئیں ، صاف ظاہر تھا کہ وہ میری باتیں سن کر چونک گئی ہیں اور کپکپاتے ہوئہ ناراضگی سے بولی : رافععع یہ تمم کسطرح بات کررہے ہو ایسا کیا کردیا ہے میں نے ؟
رافع : تم نے تو ابھے تک کچھ کیا ہی نہیں امی؟
بس سب کچھ خود بخود ہورہا ہے؟
رات کو آپ اور فہد بھائی کمرے میں جو کرتے ہو وہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ذرا بھی شرم نہیں آتی آپ لوگوں کو ۔
ماں بیٹے کے رشتے کو ہی داغدار کردیا آپ لوگوں نے۔
میں نے یہ بات ایک سانس میں کہی ، امی یہ بات سن اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔
رافع : اب یہ ڈرامہ میرے سامنے مت کریں چلی جائیں میرے کمرے سے ، میرا اور آپکا کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی مجھے آج کے بعد بیٹا بلائیے گا۔۔
یہ بات سنتے ہی امی روتے روتے نیچے بیٹھ گئیں اور میرے قریب آتے ہوئے میرے پاؤں پکڑ کر اس پر سر رکھ لیا اور دھاڑیں مار مار کر کہنے لگیں : رافعع بیٹا مجھے معاف کردو ، یہ سب میری غلطی مکمّل طور پر نہیں تھی۔
رافع : ہاں میں جانتا ہوں آدھی بھائی کی بھی ہوگی ورنہ اتنا غلیظ کام اور اتنے طریقے سے ایک طرف کی راضی سے تو نہیں ہوسکتا۔
امی نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا اور میرے سامنے آکر میرا چہرا ہاتھوں میں تھاما اور کہا : رافع بیٹا اپنی ماں سے اتنی نفرت مت کر۔
میں تمہیں سب سچ سچ بتاؤنگی ،، میرا غصّہ اب بھی کم نہیں ہورہا تھا میں نے امی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر سے ہٹائے اور کہا : اب کیا سچ بتانا ہے امی ؟
جو میں نے دیکھا کیا وہ جھوٹ تھا؟
امی : بیٹا دیکھے ہوئے کہ پیچھے اکثر لوگ اسکی وجوہات نہیں جانتے اسلئے طعنہ زنی کرتے ہیں ۔
تو اب سنو میں تمہیں بتاتی ہوں۔
شاید یہ سن کر تمہیں اپنے سگے رشتوں پر بہت غصّہ آئے گا اور تم کسی کے ساتھ بھی وفادار نہ رہ سکو گے لیکن حقیقت یہی ہے جو میں بتانے جارہی ہوں۔
یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے ۔
جب میں نے تمہاری بڑی بہن اور ابو کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔
میں یہ بات سن کر حیرت زدہ نظروں سے امی کی طرف دیکھنے لگا؟
امی : ہاں بیٹا ، تمہارے باپ اور تمہاری بڑی باجی عالیہ اس ناجائز رشتے کی شروعات میں پیش پیش تھے جب تم محض گیارہ بارہ سال کے تھے، فہد کالج میں تھا تم باقی سب اسکول میں تھے ،، عالیہ کی یونیورسٹی کے آخری دن چل رہے تھے وہ یونیورسٹی کم ہی جاتی تھی ۔
زنیرہ بھی یونیورسٹی میں گئی ہوتی تھی۔
لیکن یہ بات آخر کبھی نہ کبھی تو پتہ چلنی ہی تھی۔
اور اس دن کو بھی اتفاق ہی سجھ لو۔۔
میں پڑوس میں ایک فرحین انٹی کے گھر گئی ہوئی تھی، ہمارے گھر پر اس دن صبح صرف ابو اور عالیہ تھے ۔
تھوڑی دیر بعد جب میں واپس آئی تو میں نے جو دیکھا اسکو دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔
تمہارا باپ اور تمہاری بڑی بہن عالیہ بالکل ننگے ہو کر کمرے میں وہی کام کررہے تھے جو کہ تنہائی میں صرف میاں بیوی ہی کرتےہیں ۔
امی کی یہ بات سن کر میرا دل زور زور سے دھڑکا ۔
میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔
امی نے بھی میری حالت کا اندازہ لگا لیا تھا اور انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھا۔
امی : پھر میں نے یکدم یہ دیکھ کر ایک زوردار چیخ ماری اور وہ دونوں کمرے کے اندر میری یہ چیخ سن کر ڈر گئے۔
مارے ڈر کے وہ دونوں ایک دوسرے کو ڈھانپنے لگے۔
تمہاری بہن اور باپ دونوں بالکل برہنہ ایک دوسرے کو چوم چاٹ رہے تھے۔
عالیہ نے جلدی سے اپنے کپڑے اٹھائے اور میری آنکھوں کے سامنے سے نکل کر دوسرے کمرے میں بھاگ کر دروازہ بند کرلیا۔۔۔
زبیر کو جب میں نے دیکھا تو اندر جا کر انکے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کردی۔
میں نے کبھی تمہاری باپ کے آگے زبان نہیں چلائی تھی لیکن اس دن میرے ہاتھ بھی خود بخود چلنے لگے۔
زبیر نے یکدم میرے ہاتھ روکے اور غصے سے کہا : ہوش میں تو ہو تم؟
میں نے انکو دھکا دے کر اپنا آپ چھڑایا اور غصے سے کہا : ہوش میں تو آپ نہیں ہیں ۔
شرم نہیں آئی اپنی ہی بیٹی کے ساتھ اتنی گھٹیا حرکت کرتے ہوئے اور وہ عالیہ ؟وہ بھی بے شرموں کی طرح یہ سب ؟
آخر یہ گندا کھیل میرے پیٹھ پیچھے کب سے کھیلا جارہا ہے؟
تمہارے باپ زبیر نے بجائے خوفزدہ ہونے کے روایتی مردوں کی طرح اپنا رعب و دبدبہ جمانے کےلئے میرے بال پکڑے اور کہا : پچھلے چار مہینے سے میرا اور اسکا یہ چکر چل رہا ہے،، وہ بھی راضی میں بھی راضی
تو کیا کرے گا قاضی؟
زبیر کی آنکھوں میں میں نے غصے سے دیکھا لیکن وہاں ایک۔شیطانی ہسنی تھی،، زبیر نے پھر ایک ہاتھ سے میرا منہ پکڑتے ہوئے اور ہاتھ سے میرے بال پکڑتے ہوئے مجھے شیطانی انداز میں کہا : سن کتیا ہماری بیٹی بڑی سیکسی ہے،، وہ بھی اس میں راضی ہے،، جب چاہے ہم دونوں پیار کریں گے اور اگر تو نے کسی کو بھی بتایا تو تو تجھے طلاق دے دونگا ،، تجھے ہر چیز سے بے دخل کردونگا۔ پیسہ جائیداد کچھ نہیں ملے گا تجھے،، تجھے تیرے باقی بچوں سمیت گھر سے نکال دونگا۔
پھر پھرتی رہنا اکیلے پانچ بچوں کو لے کر ماری ماری۔
تمہارے باپ زبیر کی یہ دیدہ دلیری دیکھ کر میں اندر سے ڈر گئی اور۔تمہارے باپ کی کمینگی پر اس قدر غصّہ آیا کہ لعنت ہو ایسے شخص سے شادی ہونے پر آج یہ دن دیکھنا پڑا ،، جسکو اپنے گناہ پر پشیمان ہونے کے بجائے اس پر ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے۔۔
زبیر نے یہ بات کہہ کر مجھے دھکا دیا اور کپڑے پہن کر باہر نکل گیا۔
میں یہ سوچ کر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے سسک سسک کر روتی رہی۔
امی کی یہ باتیں سن کر میرا دماغ چکرا رہا تھا ،،میری بھی آنکھیں تھوڑی نم ہونے لگیں تھیں لیکن مجھے اپنے مرے ہوئے باپ زبیر پر سخت غصّہ آنے لگا۔
اگلے ہی لمحے دماغ نے کہا کہ باپ ہے مر گیا تو اب دل میں برائی نہیں رکھتے۔
خیر !
پھر امی چپ ہوگئیں میں نے پھر اشتیاق سے پوچھا : امی پھر کیا ہوا اس کے بعد؟
امی : اس دن کے بعد سے میں نے تمہارے باپ اور عالیہ سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔
ایک زندہ لاش بن چکی تھی۔ تم لوگ جب بھی گھر پر نہ ہوتے اکثر تمہرا باپ آفس سے چھٹی کرکے میری موجودگی میں ہی عالیہ کے ساتھ یہ گندا کھیل کھیلتا رہا ،، اور تمہاری بڑی بہن بھی اس قدر بے شرم ہوچکی تھی کہ اسکو بھی نہ شرم تھی نہ کسی کا ڈر خوف، کیونکہ تمہارا باپ زبیر بھی اسکو کہہ چکا تھا کہ ماں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اسکو میں سیدھا کردونگا۔۔۔
اسی دوران تمہاری بہن عالیہ پریگنینٹ ہوگئی ،، یہ ساری سچویشن میرے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی،، دل کرتا تھا پھانسی پر چڑھا لوں یا خود کشی کرلوں ۔۔۔۔
لیکن تم بچوں کا سوچتے ہوئے رکنا پڑا۔
تم لوگوں کےلئے جینا پڑا۔۔
اسی اثناء میں تمہارے باپ کے اصرار پر میں تمہارا باپ اور عالیہ ہسپتال میں عالیہ کا ابورشن یعنی بچہ گروانے گئے ۔۔۔
اور خیر سے عالیہ کے پیٹ میں پل رہا تمہارے باپ زبیر کا گناہ شکر سے ضائع ہوگیا ورنہ زمانے بھر میں ہماری بہت بدنامی ہوتی۔۔۔
اب جلد سے جلد میں عالیہ کی شادی کروانا چاہتی تھی۔۔۔
زبیر ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
میں تمہارے باپ زبیر سے نفرت تو بہت کرنے لگی تھی، لیکن رشتوں کا خیال رکھتے ہوئے وقتی ضرورت کے تحت بات کرنا پڑتی تھی۔۔۔
زبیر میرے بے حد اصرار کے بعد اس شرط پر مان گئے کہ شادی کے بعد بھی وہ عالیہ کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم رکھے گا جب کبھی وہ گھر پر آئے گی۔
چنانچہ ایک سال کے اندر اندر ہی تمہاری بہن عالیہ کا رشتہ کردیا گیا۔
اور شکر سے عالیہ کے سسرال والے اور تمہارے بہنوئی ضیغم بہت لبرل اور اوپن مائنڈڈ آدمی ثابت ہوئے ،، اگر وہ تنگ نظر دقیانوسی ہوتے تو عالیہ اور اسکا رشتہ تھوڑے عرصے بھی نہیں چلنا تھا۔۔۔
چنانچہ عالیہ شادی کے بعد ہر مہینے دو مہینے میں چکر لگاتی رہی،، لیکن میں اب دیکھتی تھی کہ تمہارے باپ کی گندی نظریں اب اپنی دوسری بیٹی زنیرہ پر تھیں ۔۔۔
مجھے یہ دیکھ کر اور بھی سخت غصّہ آیا۔۔۔
میں نے زبیر کو ایک دن غصے میں کہا : کچھ خوف کرلیں خدا کا۔
آپکو ذرا بھی خیال نہیں ، کوئی رشتوں کا لحاظ ہی نہیں ۔
زبیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میرے منہ پر دو تھپڑ جڑ کر مجھے بالوں سے نوچتے ہوئے کہا : تیری اتنی ہمت ہوگئی اب مجھے بتائے گی؟
تجھ میں اب ہے ہی کیا سالی؟
بگڑے ہوئے بدن والی۔
اگر زنیرہ کے ساتھ مجھے وہ سب نہیں کرنے دیکھنا چاہتی جو سب میں نے عالیہ کے ساتھ کیا تو جا باہر جا کر میرے لئے ایک خوبصورت لڑکی کا بندوبست کردے۔
تمہارے باپ کی یہ گندی خواہش سن کر میں اپنی قسمت پر رونے لگی کہ کس غلیظ آدمی سے پالا پڑا ہے میرا۔۔۔
اسی شش و پنج میں ایک دن زنیرہ نے مجھ سے تمہارے باپ کی شکایت کی جھجھکتے جھجھکتے سب کچھ بول گئی کہ ابو مجھے یہاں وہاں ہاتھ لگاتے ہیں گندی نظروں سے دیکھتے ہیں مجھے انکو ابو کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔
مجھے یہ بات سن کر بہت غصّہ چڑھا اور میں نے زبیر سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا ۔
اس شخص کو ایسی چوٹ پہنچاؤنگی یہ کہ اپنے پیدا ہونے پر افسوس کرے گا۔۔۔
انہی دنوں کی بات ہے تمہارا بڑا بھائی فہد یونیورسٹی جانے لگا تھ اور پارٹ ٹائم جب بھی کرتا تھا،، ایک دن وہ صبح گھر پر ہی تھا ،، تمہارا باپ آفس گیا ہوا تھا۔
باقی میں ، زنیرہ اور فہد گھر پر تھے۔
میں فہد کے کمرے میں گئی تو فہد ناشتہ کرکے کمرے میں مشت زنی کررہا تھا۔۔۔
میں نے اسکو کمرے کے باہر چپکے سے دیکھا اور پھر کمرے میں داخل ہوگئی۔
فہد ایک دم سے مجھے دیکھ کر ڈر گیا لیکن میں اسکے جسم کو دیکھنے لگی،، شاید یہ زبیر والے گناہ کا اثر تھا کہ اب میرے دل میں بھی اس شخص کو چت کرنے کےلئے اسی طرح کا گناہ کرنا تھا۔۔
فہد مجھے گھبرا کر دیکھنے لگا۔
میں نے دو چار سیکنڈ اسکو دیکھا اور کمرے سے نکل گئی۔
اپنے بیٹے کو یوں مشت زنی کرتے دییکھ کر مجھے ٹھوڑا عجیب تو لگا لیکن اسکی جوانی کو دیکھ کر میں بھی اسکی طرف مائل ہونے لگی۔
یہ وہ نہج ہوتی ہے جہاں آدمی صحیح غلط کی تمیز چھوڑ دیتا ہے۔۔۔
زبیر سے زیادہ نفرت میں نے اس دنیا میں کسی سے نہیں کی رافع۔۔۔
میں نے اب نوٹس کرنا شروع کیا کہ فہد بھی میری جانب مائل ہونے لگا ہے،، چنانچہ میں نے اسکے سامنے کھلے ڈھلے آنا شروع کردیا۔
جب کبھی کمرے میں اسکو ناشتہ دینے جاتی تو بناء دوپٹے کے جاتی ، کبھی کھلا گلا پہن کر جاتی۔
جس سے وہ میری طرف اٹریکٹ ہونے لگا۔
اور اب کچن میں کام۔کررہی ہوتی تو کبھی بہانے بہانے سے ٹچ کرکے پھر سوری بھی خود بخود بول دیتا ،۔
میں اندر ہی اندر فہد کی اس حرکت پر ہنس دیتی۔
فہد جب تمہارے جتنا ہی تھا۔۔۔
ہم دونوں کو بھی اندر ہی اندر اندازہ تھا کہ یہ سیکس کی بھوک ہی ہم دونوں کو ایک دوسرے کی جانب مائل کررہی ہے ،، پھر ایک دن جذبات میں آکر ہم دونوں یہ سب کر بیٹھے جب گھر میں کوئی نہیں تھا ،، اس بارے میں تمہیں نہیں بتا سکتی کہ یہ سب کیسے شروع ہوا۔
بس یوں سمجھ لو کے جسطرح زبیر اور تمہاری بہن عالیہ کا ہوا اسی طرح ہوگیا۔
اکثر و بیشتر پھر ہم گھر میں یہ گندا کھیل کھیلنے لگے۔
دؤسری طرف تمہارا باپ اب زنیرہ کے ساتھ ساتھ ماہم پر بھی گندی نظر رکھنے لگآ۔۔
رافعع تمہارے باپ سے زیادہ ٹھرکی انسان میں نے نہیں دیکھا ھوگا۔۔
لیکن اب سوچتی ہوں شاید زبیر اتنا بھی غلط نہیں تھا،، یہ جنسی آگ ہی ایسے ہوتی ہےکہ ہمیں کسی کی بھی بانہوں میں لے جاتی ہے۔
کسی کے بھی بستر تک پہنچادیتی ہے اور حرام حلال کی تمیز ختم کردیتی ہے۔
امی کی یہ بات سن کر میں غور غور سے انکو دیکھنے لگا،، یوں لگ رہا رھا تھا جیسے میرا دماغ پھٹ جائے گا۔۔
امی نے آگے بولنا شروع کیا۔
بس بیٹا پھر ایک دن تمہارے باپ نے فہد اور مجھے کچن میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیآ جب ہم دونوں کسنگ کررھے تھے،، تمہارے باپ نے فہد کو بالوں سے پکڑا میرے منہ پر تھپڑ مارے اور فہد کو بری طرح مارنے لگے ،، میں نے آگے بڑھ کر فہد کو زبیر کی گرفت سے چھڑایا آور غصے سے کہا : کیوں اب کیا ہوگیا آپکو؟
یہ آپکا بدلہ ہے جو میں چکا رہی ہوں۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی؟
خود تو آپ بہت نیک پارسا ہیں نا؟
اب کیوں غصّہ آرہا ہے ۔
خبردار جو آپنے میرے بیٹے کو ہاتھ بھی لگایا ،، پولیس میں کمپلین کردونگی اور ہر جر جگہ بدنام کردونگی کسطرح ہم پر ظلم کرتے ہو دن رات شراب پی کر ہنگامہ کرتے ہو۔
زبیر میری یہ دھمکی سن کر ڈر گئے۔
میں نے فہد کو اٹھایا اور اسکو لے کر فہد کے کمرے میں چلی گئی۔
اور دروازہ بند کردیا۔
اس دن کے بعد سے تمہارے باپ اور میرے بیچ اور بھی نفرت ہوگئی تھی،، لیکن میری دیدہ دلیری کے آگے اب وہ کوئی ایکشن لینے سے باز رہے آخر اس سب میں انکی خود کی بدنامی تھی۔۔۔
میں اور فہد پھر اکثر ہی یہ ہوس کا کھیل کھیلنے لگے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیار میں تبدیل ہوگیا۔
امی کی۔یہ بات سن کر مجھے سخت غصّہ آیا۔
لیکن میں کچھ نہیں بولا۔
امی : پھر جیسے تیسے کرکے سال ڈیڑھ کے اندر تمہارے باپ پر زور ڈال کر زنیرہ کی شادی بھی کردی گئے۔
عالیہ کو میرے اور فہد کے رشتے کے بارے میں پتہ چل چکا تھا جو کہ تمہارے باپ زبیر نے بتایا تھا اور اسکو اس بات سے کؤئی حیرانی بھی نہیں تھی اور ہوتی۔بھی کیسے ؟
وہ تو خود بری تھی۔
شادی کے بعد بھی جب بھی گھر آتی اپنے باپ کے بستر میں ضرور جاتی ۔
تمہارے باپ کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی تھی اسلئے وہ ویاگرا کھانے لگا۔
اب تم سوچو گے کہ ویاگرا کیا ہوتا ہے۔
وہ مردانہ طاقت کی گولیاں ہوتی ہیں اسکا وقتی طور پر فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن وہ سیدھا ہارٹ یعنی دل پر اثر کرتی ہے اور گردے ختم کردیتی ہے،، تمہارے باپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ،، عالیہ کا گھر قریب کراچی میں ہی ہے تو جب بھی وہ آتی تمہارا باپ ویاگرا کھا کر اس پر چڑھ جاتا ۔
تمہارے باپ کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی تھی ،، وہ ویاگرا کھانے سے باز نہیں آتا تھا۔۔
چنانچہ اسی طرح کرتے کرتے اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس فانی دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔۔
امی یہ باتیں کرکے چپ ہوگئیں ۔
میرا دماغ ایسا لگ رہا رھا تھا خالی ہوچکا ہے جیسے کچھ سمجھ نہ آرہا ہو۔
دماغ پر قفل لگ گئے ہوں،، اپنے مرے ہوئے باپ پر بھی سخت غصّہ آنے لگا۔
اپنے سامنے بیٹھی یہ روداد سناتی اپنی اس ماں پر بھی غصّہ آنے لگا۔۔۔
میرے پیٹھ پیچھے میرے گھر میں میرے سگے رشتے آپس میں یہ رنگ رلیاں مناتے رہے اور میں ان سب سے انجان رہا؟
آخر کیوں ؟
امی میری حالت کو سمجھتے ہوئے بولی : رافع بیٹا مجھے امید ہے تم یہ بات کسی کو نہیں کہو گے۔
ہمارے اس رشتے کے بارے میں صرف عالیہ جانتی ہے،، تمہاری باقی کی بہنیں انجان ہیں انکو کبھی مت بتانا۔۔
اور رشتے جیسے بھی ہوں زبردستی نبھانے پڑتے ہیں خون کے گھونٹ پی پی کر۔۔
مجھے پتہ ہے بیٹا تمہیں یہ سب سن کر اب بھے غصّہ آرہا ہوگا۔
لیکن یہ سب باتیں جو میں نے کی ہیں اس پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا اسکے پیچھے کی وجوہات کے بارےمیں سوچنا۔
اب میں چلتی۔ہوں۔
امی کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر چلی گئیں اور میں بیڈ پر رضائی لے کر پھر سے لیٹ گیا۔۔۔
اور دماغ پر زور نہیں دیا اور سوگیا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔







گندا خاندان
قسط 2
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )
Whatsapp
03140770721

انسانی ذہن بھی عجیب ہے ۔
دماغ کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ سوچتا ہے۔۔۔
میری آنکھ شام کو کھلی تو صبح کا واقعہ میرے دماغ میں گردش ہوا۔
میری ذہن کی سوچوں کو امی کی باتوں نے گھیر لیا تھا۔۔
میرے دل و دماغ کےلیے یہ یقین کرنا خاصہ مشکل تھا کہ میرے گھر میں ہی میرے پیٹھ پیچھے اتنے دھڑلے سے یہ کام ہوتا رہا اور مجھے پتہ بھی نہیں تھا۔
مجھے سچ میں امی ، فہد بھائی ، عالیہ باجی اور اپنے مرے ھوئے باپ زبیر سے کراہت اور نفرت ہونے لگی۔
امی مجھے سمجھا بجھا کر کمرے سے چلی تو گئیں تھیں لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں تھی کہ میں سب کچھ بھول کر امی کی باتوں کو اپنا لوں۔
اور ان تمام ہوس کے گندے کھیلوں کو قبول کرلوں ۔
میرے دماغ میں بہت ساری سوچیں گردش کرنے لگیں ۔
بچپن کے ہونے والے واقعات ،، وہ بچپن کی امی اور ابو کے درمیان ہونے والی تلخیاں ، لڑائیاں ، اب مجھے کچھ کچھ چیزیں سمجھ آنے لگیں کہ وہ کیوں ہوتا تھا۔
میں اپنے خاندان کے اس برے کاموں پر اس قدر شرمسار تھا کہ میں نے سوچا گھر سے دور بھاگ جاؤں یا گھر والوں کو مار ہی ڈالوں ۔
آخر کس منہ سے دوستوں یاروں سے سامنا کروں گا؟
لیکن اگلے ہی لمحے دماغ نے چپت لگائی کہ باہر کس کو معلوم گھر میں کیا ہورہا؟
لیکن پھر بھی ہے تو یہ بدنامی والی بات ہی؟
اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو ؟
نہیں نہیں میں کسی کو بھی پتہ نہیں لگنے دونگا۔۔۔
میں اپنی ذہن میں اٹھنے والے سوالات سے لڑنے لگا ۔
گھڑی پر ٹائم دیکھا تو چار بج رہے تھے،، اتنے میں امی کمرے میں آئیں اور مسکراتے ہوئے بولیں : اٹھ گیا میرا چاند ،، یہ لے چائے۔
امی نے چائے ٹیبل پر رکھی۔
لیکن میں امی کے اس رویے پر اس قدر حیران اور پریشان تھا اور بیک وقت اندر سے غصے میں بھی تھا کہ اس ماں کو دیکھو کوئے شرم احساس ہی نہیں ۔
یہ تو مجھ سے اسطرح نارمل انداز میں باتیں کررہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
سب کچھ بہت عام سی بات ہے اور اسطرح ہر دؤسرے گھر میں ہوتا ہو جیسے۔
میں سوچوں میں گم تھا کہ امی نے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا کہاں گم ہو چندا؟
میں نے امی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو انکی اداؤں کو دیکھ کر میں سکتے میں آگیا۔
امی اپنا نچلا والا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر مجھے دیکھ رہی تھی کہ اچانک میںری نظر غیر ارادی طور پر انکے سینے پر چلی گئی جہاں انکی بڑی بڑی چھاتیاں مجھے دعوتِ نظارہ دے رہیں تھیں ۔
عورت کی چھٹی حس بڑی تیز ہوتی ہے۔
امی نے ایک دم سے کھانسا اخھو اخھوں۔
میں ہڑبڑا کر نظریں ادھر کر لی۔
امی : تو نظریں کہاں ہیں میرے چندا جی کی؟
میں نے امی کا یہ رومانوی رویہ دیکھ کر نظریں اٹھا کر انکو غصّے سے دیکھا اور کہا : شرم تو آآ ہی نہیں رہی نہ آپکو۔۔
کوئی شرمندگی ہی نہیں ۔
اتنا سب پتہ چلنے کے بعد تو انسان ڈوب مرتا ہے کم سے کم سامنے نہیں آتا لیکن اب بے شرموں کی طرح ادھر بیٹھی مجھے یہ کیا کیا بول رہی ہیں ۔
امی ایک دم سے میرے منہ سے اتنی ساری باتیں سن کر سنجیدہ ہوگئیں اور میری طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
مجھے امی پر ابھی بھی سخت غصّہ تھا۔
میرا پارسا دماغ اس چیز کو اس گندے رشتوں کو قبول کرنے کےلئے ہرگز بھی تیار نہیں ہورہا تھا اور ہوتا بھی کیسے؟
یہ چیزیں گھر میں تو کیا معاشرے میں بھی کسی طور پر قبولیت کا درجہ نہیں رکھتی۔
مجھے لگ رہا تھا میرا دماغ درد سے پھٹ جائے گا۔
میں اٹھا باتھ رو میں گھسا اور منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل گیا۔
باہر جاکر بائیک نکالی اور دور گلشنِ اقبال چائے کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پی کر آگے ہونے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاھئے ؟
جو بھی ہو رہنا تو مجھے گھر میں ہی تھا۔ اس گندے گھر میں ۔
پھر مجھے اپنی بہنوں ماہم اور زرین کا خیال آیا ، ان بیچاریوں کو چھوڑ کر کیسے جاؤں ؟
پیٹھ ییچھے امی اور فہد نے کچھ غلط کردیا انکے ساتھ تو پھر؟
اسی سوچ کے تحت میں کچھ سوچتے سوچتے بائیک نکال کر دوبارہ گھر کی طرف لوٹ پڑا۔
رات کو کمرے میں پڑھنے لگا لیکن اب دماغ کتابوں سے بھی غائب ہوچکا تھا انہی دنوں کمپیوٹر پر سی ڈیز وغیرہ پورن مووی لگا کر کبھی کبھار دیکھنا شروع کی تھے۔
میرے کمرے میں الگ کمپیوٹر تھا ، فہد کے کمرے میں الگ۔۔
میں نے دروازہ بند کیا اور سی ڈی لگا کر پورن مووی دیکھںے لگا۔
میں نے کبھی مٹھ نہیں لگائی تھی اور دماغ اتنا بچہ بھی نہیں تھا کہ کسی بارے میں معلوم ہی نہ ہو۔
سیکس کس چڑیا کا نام ہے یہ بھی پتہ نہ ہو۔۔
دؤستوں یاروں میں رہ کر ادمی اسطرح کی اوٹ پٹانگ والی باتیں سیکھ ہی جاتا اور لڑکیوں سے تو اکثر لڑکے جنسی تعلقات بھی استوار کرلیتے ہیں ، لیکن یہ سوچتے سوچتے جیسے ہی مجھے امی اور فہد کے گندے تعلقات ، باجی عالیہ اور ابو کے گندے تعلقات کا خیال ذہن میں آتا مجھ پر سخت لرزہ طاری ہوجاتا۔
میرا وجود اندر سے ہل کر رہ جاتا۔۔۔

دن تیزی سے گرزتے گئے۔
امی اور فہد اکثر رات کو یہ ہوس کا گندا کھیل کھیلا کرتے اور دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی اس گندی خواہش کی تکمیل میں مگن رہتے ۔
میں نے اب دونوں سے بات چیت کرنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔۔۔
ایک دن کی بات ہےکہ پتہ چلا عالیہ باجی آرہی ہیں سسرال سے ۔۔
عالیہ باجی کا سن کر پہلے مجھے خوشی ہوتی تھی لیکن اس بار انکے آنے کی مجھے بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی۔۔
میرے بہنوئی ضیغم عالیہ باجی کو چھوڑ کر واپس چلے گئے۔۔
باجی شاید ایک دو دن رہنے کےلئے آئیں تھیں ۔
میں نے بھی بس واجبی سا سلام کیا باجی کو ۔
باجی میرے اس رویے یر تھوڑا حیران بھی ہوئی۔
باجی کے تین بچے تھے
فریال ( عمر چار سال )
فروا ( عمر تین سال )
اور ایک سال کا چھوٹا بیٹا وقاص تھا۔۔۔
رات کو جب ہم سوئے میں نے جاسوسی کرنے کا پلان بنایا ۔۔
عالیہ باجی اور انکے بچے تو نیچے ہؤنے چاہیے تھے۔
لیکن گندگی کے ڈھیروں کا کیا بھروسہ ۔
جب رشتہ گندا ہوجائے پھر کوئی ماں بہن نہیں دیکھی جاتی۔
مجھے لگ رہا تھا عالیہ باجی کے بھی ضرور فہد بھائی سے جسمانی تعلقات ہونگے۔۔۔
میں نے اپنے کمرے کے باہر سے نکل کر چور قدموں سے ساتھ والے کمرے میں کان لگا کر آوازیں سنیں ۔
مجھے دو سے زیادہ لوگوں کے موجود ہونے کا احساس ہوا۔
میں بس جاننا چاہتا تھا کیا واقعی عالیہ باجی بھی اندر ہیں یا نہیں ۔۔۔
میرا دماغ پھر سے گھومنے لگا اور میں نے دروازہ زور زور سے بجانا شروع کیا۔
میں نے تقریباً کوئی آٹھ بار دروازہ بجایا ،، دروازے کی آواز سن کر اندر ان سب کو سانپ سونگھ گیا اور آوازیں بھی بند ہوگئیں ۔
لیکن میں نے دروازہ بجانا جاری رکھا۔۔۔
اندر سے فہد بھائی کی کپکپاتی آواز آئی : ککک کون ہے؟
میں نے جواب نہیں دیا لیکن دروازہ بجاتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا ۔
فہد بھائی میرے سامنے صرف انڈرویئر میں کھڑا تھا ۔۔
مجھے دیکھ کر فوراً سے ڈر گیا۔۔
میں نے کمرے کا تعاقب کرتے ہوئے نظریں ادھر ادھر گھمائیں تو کوئی نظر نہ آیا۔۔
میں سمجھ گیا یہ ضرور کہیں چھپی ہونگی۔۔۔
فہد غصّے سے : تو اسوقت یہاں کیا کررہا ہے۔
رافع : ابھی بتاتا ہوں کیا کرنے آیا ہوں۔
میں نے فہد بھائی کو دھکا مارا وہ نیچے جا گرا ۔۔
پھر میں نے کمرے میں داخل ہو کر ادھر ادھر نظر دوڑائی پھر بیڈ کے نیچے لٹک رہی بیڈ شیٹ اٹھائی تو نیچے کا منظر دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔
امی اور باجی عالیہ دونوں ننگی بیڈ کے نیچے گھسی ہؤئی تھی۔۔۔
امی تو اتنی حیران نہ ہوئی مجھے دیکھ کر لیکن باجی عالیہ اور سامنے کھڑے فہد دونوں پر خوف طاری ھوگیا۔
میں فہد کی طرف غصّے سے غراتے ہوئے دیکھ کر بولا : لعنت ہو تم جیسے بھائی پر ،، پھر عالیہ کی طرف دیکھ کر بولا : لعنت ہو ہو تم جیسی بہن اور امی تم پر بھی لعنت ۔۔۔
فہد نے یہ سن کر آگے بڑھ کر مجھے تین چار تھپڑ مارے میں نے بھی اسکو گردن سے پکڑ کر جھٹکا اور اپنے مضبوط ہاتھ اسکی گردن میں ڈال کر دبا لیا۔
فہد نے مجھے منہ پر مقا مارا میں نے بھی اسکے منہ پر دو چار مقے مارے۔
امی اور باجی عالیہ یہ سب دیکھ کر بیڈ کے نیچے سے نکل کر آئی ۔
ہم دونوں کو چھڑوانے اپنے ننگے بدن لیے اونچی اونچی چیخوں پکار کرنے لگی کہ کیا ہوگیا تم دونوں کو چھوڑ و ایک دؤسرے کو۔
یہ آوازیں باہر تک جارہی تھیں ۔
ہم دونوں نے زہر آلود نظروں سے ایک دؤسرے کو دیکھا اور بدستور ایک دؤسرے کو مارنا جاری رکھا ، اس مارا ماری میں امی اور عالیہ باجی کو بھی تین چار تھپڑ مقے غیر ارادی طور پر لگ گئے۔۔۔ اتنے میں جب نظریں اٹھیں تو میں نے زرین اور ماہم کو کمرے کے دروازے پر کھڑا پایا ۔۔۔۔
دونوں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے امی اور باجی عالیہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
لیکن انہوں نے ان کے ننگ پن سے زیادہ ہماری لڑائی چھڑانے کو ترجیح دی۔
اور آگے بڑھ کر زرین نے مجھے پیچھے کھینچا اور ماہم نے فہد کو تب جاکر ہم دونوں الگ ہوئے اور غصے میں ایک دوسرے کو گالیاں در گالیاں دینے لگے۔۔۔
صورتحال بھی کچھ ایسی تھی۔
زرین اور ماہم کی آنکھوں میں خوف اور وحشت سوار تھی،، دونوں کبھی امی اور باجی کو دیکھتیں اور کبھی فہد اور مجھے۔۔۔
امی اور باجی عالیہ نے شرم کے مارے اپنے اپنے کپڑے پہننا شروع کیے۔
ماہم کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ اسکو سچویشن سمجھ آرہی ہے یہاں کیا ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔
وہ روتے ہوئے کمرے سے باہر نیچے بھاگ گئی۔
جبکہ زرین مجھے پکڑتے ہوئے سب سےبچا کر اپنے کمرے میں لے گئی۔۔۔
( جاری ہے )




گندا خاندان
قسط 3
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )

زرین میرے کمرے میں لٹائے میرا سر دباتی رہی ، تھوڑی دیر بعد ماہم بھی کمرےمیں آگئی۔
ماہم مجھ سے تین سال بڑی تھی لیکن میں اسکو باجی نہیں ماہم ہی کہہ کر بلاتا تھا۔۔
ماہم نے کمرے میں آکر دروازہ بند کردیا۔
پھر بیڈ پر زرین کے ساتھ بیٹھ گئی۔
فہد نے مجھے مقے منہ پر مارے تھے جسکی وجہ سے میرے دانت میں اور سر میں شدید درد ہوگیا تھا لیکن اندر ہی اندر اس بات کی خوشی تھی کہ اس ذلیل بھائی کو میں نے بھی آگے سے مارا۔
آج تک میں نے کبھی فہد پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ہمیشہ بڑا بھائی ، بھائی جان ہی کہا۔
بچپن سے فہد مجھ پر رعب جماتا آیا تھا ہمیشہ مجھے مارا پیٹا کرتا تھا لیکن اب نہیں ۔
میں نے دل میں سوچ لیا تھا اب نہیں ۔
اب اس کتے کو اپنا بھائی ہرگز نہ سمجھونگا۔
اور اسکو اسکے کیے کی سزا دونگا۔
میں من ہی من یہ سب سوچ رہا تھا کہ ماہم نے میری آنکھوں کے آگے اشارہ کرکے مجھے جھنجھوڑا کہ کیا ہوا رافع؟
میں نے ماہم اور زرین کی طرف دیکھا۔
زرین کی آنکھوں میں بہت سارے سوالات تھے وہ پھر بھی چپ تھی لیکن ماہم کے چہرے سے لگتا تھا اسکو اس گھر میں ہورہے کرتوت کا سب کچھ پتہ ہے۔۔۔
ہمارے درمیان خاموشی تھی کہ زرین بول پڑی : بھائی آخر ایسا کیا ہوگیا تھا جو آپ اور فہد بھائی آپس میں اتنی بری طرح لڑ پڑے اور وہ امممیی اور ببب باجیی کے کپڑے کیوں اترے ہوئے تھے؟
زرین کے یہ سوال پر ماہم نے اور میں نے اسکی طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔
پھر ماہم سر نیچے کرتے ہؤئے اپنے ہاتھ ملتے ہوئے بولی : اس گھر میں ہورہے کرتوتوں کا مجھے پہلے سے ہی اندیشہ ہورہا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کر یقین بھی ہوگیا۔
زرین حیرت سے : کیا مطلب ماہم باجی؟؟؟
ماہم : زرین تم رہنے دو یہ سب جاننے کے بعد تمہیں بہت غصّہ آئے گا تم ابھی بچی ہو۔
میں ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے : تو کیا تمہیں معلوم تھا اس گھر میں ان کالے کرتوتوں کا؟
ماہم : ہاں رافع معلوم تھا ۔
میں حیرت سے: کب سے معلوم تھا؟
اور مجھے بتایا کیوں نہیں ؟
ماہم : بتادیتی تو آخر ہم کیا کرلیتے وہ سب بڑے ہیں ہم چھوٹے اسلئے انکو ہر طرح کے گناہ کی چھوٹ مل گئی ہے۔۔
زرین حیرت و سکتے کے عالم میں ہم دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے بولی : آخر کونسے کرتوت ماہم باجی ،،؟ بھائی آپ ہی بتاؤ نا ایسا کیا ہورہا ہے اس گھر میں ؟
ماہم : زرین رہنے دو کچھ باتوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔
ورنہ انکا پتہ چلنا انسان کو بہت درد و ازیت دیتا ہے۔۔۔
مجھے ماہم کی یہ باتیں دل پر جاکر لگیں " کہ کچھ باتوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے ورنہ انکا جاننا اندر ہی اندر تکلیف دیتا ہے " یہی حالت میری تھی پچھلے کچھ دنوں سے جب سے مجھے اپنے گھر میں ہورہے ان کالے کرتوتوں کا علم ہوا تھا میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں،، دماغ پر شدید غصّہ سوار کرلیتا ہوں ۔
اسی لئے تو اردو کے بے تاج بادشاہ شاعر جون ایلیاء نے کہا ہے

" آگہی مجھ کو کھا گئی
ورنہ میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک "
یعنی بعض چیزوں کے نہ جاننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔
یہ آگہی بڑی جان لیوا ہوتی ہے۔
گھریلو رشتوں کے مابین اسطرح کی جنسی آگاہی سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھدیتی ہے۔۔۔
میں ان ہی سوچوں میں گم تھا۔۔۔
اتنے میں ماہم زرین کو بولی جاؤ تم اپنے کمرے میں جاؤ۔
زرین : لیکن باجی؟
ماہم : میں نے کہا نہ جاؤ ۔
زرین اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ماہم پھر سے دروازہ بند کرکے میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔
ماہم کے بیٹھتے ہی میں اس کو بولا : ماہم جب تمہیں معلوم تھا تؤ تم مجھے تو بتاتی
ماہم : کیسے بتاتی رافعع یہ بات ہی ایسی ہے بندہ اپنوں سے کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔۔۔
رافع : اچھا یہ بتاؤ تمہیں ان سب کا کب سے اور کیسے معلوم ہوا؟
ماہم : ابو کی وفات کے بعد ۔۔
میں نے اکثر امی کی کمرے میں رات کے پہر بھائی کو جاتے دیکھا اور سیڑھیوں سے چھپ کر دیکھتی تھی۔
فہد بھائی ہفتے میں دو تین بار لازمی امی کے کمرے میں رات کو جایا کرتے تھے ۔۔۔
مجھے پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن پھر رفتہ رفتہ میرے دماغ میں یہ باتیں گھومنے لگیں ہو نہ ہو فہد بھائی اور امی آپس میں انسیسٹ ریلیشن شپ میں ہیں ۔
رافعع : انسیسٹ ریلیشنشپ ؟؟
ماہم : ہاں رافع اسکے بارے میں میں نے پڑھ رکھا ہے۔۔۔
خیر اب یہ باتیں تم زرین کو نہیں بتانا بچی ہے وہ ۔
خدا جانے کچھ کر نہ لے اپنے ساتھ ۔۔
رافعع : ٹھیک ہے میں بھی نہیں بتاؤنگا۔۔۔
ماہم : اور ہاں فہد بھائی کے سامنے مت آنا اور اس سے بات مت کرنا اب ،، میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔
میں نے قدر ناراضگی سے ماہم کو دیکھتے ہوے کہا : تم اسکو بھائی کیسے کہو گی اب ماہم؟
ماہم : کیآ کروں رشتہ نبھانا ہی پڑتا ہے۔۔۔
اب اس سے نفرت کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔۔۔
میں خود بھی بات کرتی ہوں باجی عالیہ سے کچھ دن تک۔۔۔
چلو اب میں جارہی ہوں ۔
ماہم کے جانے کے بعد میں دیر تک کمرے کی دیوار اور پنکھے کو تکتا رہا اور آج ہوئے واقعے پر سوچنے لگا۔۔۔
صبح میری آنکھ اسوقت کھلی جب گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔
مجھے اپنے دروازہ کھلنے کا احساس ہوا تو کوئی شخص اندر آیا اور میرے پاؤں کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔
میں نے رضائی ہٹائی تو دیکھا عالیہ باجی تھی۔
میں نے اپنا پاؤں ان سے سائڈ کیا اور غصّے سے گھورتے ہوئے بولا : آپ کیوں آئیں ہیں یہاں میرے کمرے میں ؟
جائی دفع ہوجائیں یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپسے۔
عالیہ باجی کی آنکھیں نم تھی۔
واضح تھا کہ وہ رات کو بہت روئی ہیں ۔۔
وہ ہکلاتے ہوئے بولیں : رررر راففععع میرے بھائی بات تو سن لو۔
رافع : اور کیا سن لوں ؟
امی پہلے ہی سنا چکی ہیں آپکی اور ابو کے گندے تعلقات کی اسٹوری مجھے۔
اور رات کو جو دیکھا کیا وہ کافی نہیں ؟
عالیہ باجی میرے قریب آتے ہوئے : رافععع میرے بھائی ایک بار بہن ہونے کے ناطے میری بات سن لو، پھر چاہے مجھ سے جتنی مرضی نفرت کرلینا ، تم کہؤ گے تو میں اس گھر میں بھی دوبارہ نہیں آؤنگی۔۔۔
میں نے نظریں اٹھا کر انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا : کیا ضرورت پڑی تھی آپکو ابو کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکتیں کرنے کی ؟
اور ابو تو چھوڑیں اب بھائی کے ساتھ بھی؟
عالیہ : ضرورت نہیں مجبوری تھی جو کو بعدازاں ضرورت کی شکل اختیار کر گئی۔
رافع : کیسی مجبوری ؟
عالیہ : بتاتی ہوں ،، تمہیں امی نے میرے والا واقعہ تفصیل سے نہیں بتایا ہوگا،، کیا وجوہات تھیں ۔
تو سنو میں اسطرح کی لڑکی کبھی نہیں تھی اور نہ کبھی سوچاتھا کہ ایسی بنوںگی۔۔۔
جب میں یونیورسٹی جانا شروع ہوئی تھی تب ابو مجھے گاڑی میں چھوڑنے جاتے تھے ،، مجھے یونیورسٹی کے پہلے سال ہی اپنی کلاس کے ایک لڑکے سے محبت ہوگئی تھی،، ابو نے دو تین بار مجھے اس لڑکے کے ساتھ دیکھا یونیورسٹی کینٹین میں بیٹھا ہوا،، میں نے بتایا کہ میرا کلاس فیلو ہے۔۔
رافع ہمارے ابو اتنے تنگ نظر بھی نہیں تھے نہ ہی دقیانوسی تھے۔۔۔
میں دیکھتی تھی کہ ابو کی امی کے ساتھ اکثر و بیشتر لڑائی ہوتی تھی اور امی ابو کو جب مار رہے ہوتے تو میں امی کو بچا کر انکو انکے کمرے میں بھیج کر ابو کے ساتھ انکے کمرے میں آجاتی اور انکی طرف زیادہ متوجہ ہوتی تھی بنسبت امی کے۔۔۔
بعدازاں یہ متوجہ ہونا فطری کشش اختیار کر جاتی ہے۔۔
میں بھی جوان ہورہی تھی۔۔
عالیہ باجی بولے جارہی تھی اور میں انکو دیکھے جارہا تھا۔۔۔
پھر اس لڑکے نے مجھے دھوکہ دیا ۔۔ اور میں گھر پر آکر اکثر رویا کرتی تھی،، پھر ہوا یوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں تم لوگ نانا نانی کے گھر چلے گئے ۔
بس میں زنیرہ اور ابو ہی گھر پر ہوتے تھے، تم لوگ امی کے ساتھ ایک مہینے کےلئے رحیم یار خان گئے تھے۔۔
میں اکثر اس لڑکے کے بارے میں سوچ کر رویا کرتی تھی ،،انہی دنوں ابو نے مجھے روتے ہوئے ایک دن دیکھ لیا۔۔
میں ابو کی طرف زیادہ کشش رکھتی تھی تو میں نے انکو سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ اس لڑکے نے مجھے استعمال کرکے چھوڑ دیا۔۔
ابو نے کہا دفع کرو بیٹا ۔۔۔
میں ہوں نا۔۔
ان دنوں ابو نے مجھے بہت سہارا دیا اور ابو میری کمر پیٹھ سہلاتے ، کبھی میرا سر اپنی گود میں رکھتے میرے کندھے بھی دباتے مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔
پھر اسی طرح ایک دن جذبات میں بہہ کر میں ابو کے ساتھ یہ غلط کام کر بیٹھی ،، شروع میں تو پچھتاوا تھا لیکن ابو کی محبت اور میرے ساتھ شفقت بھرے رویے کو دیکھ کر میں نے انکو کبھی برا باپ نہیں سمجھا۔۔۔
وہ بہت اچھے باپ تھے،، غلطی میری بھی تھی،، مجھے شروع میں خود پر۔کنٹرول کرنا چاھئے تھا لیکن نہیں کر پائی۔۔۔
رافعع تمہیں تو امی نے صرف یہ بات بتائی ہے لیکن اگر اصل بات بتاؤں تو شاید تم اپنے ننھیال رحیم یار خان کبھی نہ جاؤ۔
میں باجی عالیہ کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا آخر کیوں؟
باجی عالیہ : رافعع وہاں ہمارے ددھیالی خاندان یعنی ابو کے خاندان کو لوگ گندا خاندان سمجھتے ہیں اور گندے خاندان کی نیت سے دیکھتے ہیں ۔
باجی کی یہ بات سن کر میں ورطہ حیرت اور پریشانی کے عالم میں انکو دیکھتے ہوئے بؤلا : گندا خاندان ؟؟؟
لیکن کیوں باجی؟
آخر کیوں گندا خاندان کہتےہیں ہمارے خاندان کو؟
باجی عالیہ کچھ دیر چپ رہ کر بولی : بس رافعع باتیں ہی کچھ ایسی ہیں ،، یہ سب ایک دم سے نہیں ہوا،، امی بھی شاید اتنی بات نہیں جانتی جتنی کہ ابو نے مجھے اپنے خاندان کی بتائی ہیں ۔۔۔
میں اشتیاق سے :وہ کیا؟
عالیہ : دیکھو رافع تم ایک سمجھدار لڑکے ہو اسی لئے تم کو بتا رہی ہوں کہ تم کسی سے بھی اسکا تذکرہ نہیں کروگے۔۔
میں : ٹھیک ہے۔۔۔
عالیہ : ہمارے ابؤ زبیر کے اپنے سے دس سال چھوٹی بہن زرینہ یعنی ہماری پھپھو کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات تھے۔
اور یہی نہیں ہمارے خاندان کا ماحول بہت اوپن تھا اور یہ چیز نسل در نسل ہے،، ہمارے دادا ابو بہت کھلے ڈھلے آدمی اور زمیندارے تھے ،، انکی بہت ساری زمینیں انکے آبائی گاؤں پتوکی میں تھی۔۔۔
جب ہماری امی اور ابو کا رشتہ جڑ رہا تھا تو امی کے خاندان کے بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراض تھا کہ انکا خاندان ایک گندا خاندان ہے یہاں رشتہ مت کرو،، چونکہ دور کی رشتہ داری اور زمینداری تھی اسلئے رشتہ جوڑ دیا گیا۔۔
لیکن مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے دادا کے بھی اپنی بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔
یہ سن کر میرا دماغ پھر جھٹکا کھایا اور سوچنے لگا شاید ہمارے خاندان کو گندا خاندان ٹھیک ہی کہتےہیں ۔
عالیہ : رافعع اب تم سوچ رہے ہوگے کہ ہمارا خاندان ٹھیک نہیں ۔
اس میں شاید ایک حد تک سچائی ضرور ہے۔۔
ہمارے دادا اپنے گاؤں کو چھوڑ کر 1960۶ کی دہائی میں پہلے تو مختلف شہروں میں پھرتے رہے اور پھر کراچی شفٹ ھوگئے یہاں انہوں نے اپنا چھوٹا سا کاروبار کیآ تھا ۔۔
اور اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد یہ جائیداد ملنے کے بعد ابو نے یہ گھر لیا تھا گلستانِ جوہر میں ۔۔
اور مجھے ابو نے یہ بھی بتایا تھا کہ ابو کے اپنے باپ یعنی دادا کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے تھے ،، دادا بھی اپنے خاندان والوں سے لڑ بھڑ کر مارے مارے پھرتے رہے دوسرے شہر۔۔
ہماری دونوں پھپھو اب رحیم یار خان میں ایک گاؤں میں رہتی ہیں جہاں انکی شادیاں ہوئیں تھیں ۔
چھوٹی والی پھپھو زرینہ ۔
اور بڑی والی پھپھو ثمینہ جو ابو کے برابر ہی ہونگی تقریباً ۔۔۔
اب کئیں سال ہوگئے ہیں ۔
خاندانی ناچاقیاں ہیں ، ہم اسی لئے پتوکی نہیں جاتے ،، اب رحیم یار خان گئے ہوئے بھی کئیں سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔
عالیہ : رافع دیکھو ہم سے اس بنیاد پر اتنی نفرت مت کرو ، اگر کروگے تو کوئی بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا،، میں نے اپنے باپ کے گناہ اور انکی بہن کے ساتھ جنسی تعلق کو قبول کرلیا تھا۔کبھی ان سے شکایت نہیں کی اگر شکایت کرتی تو کبھی رشتے نہیں نبھائے جاتے۔۔
میں نے باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سوچ کر بولا : لیکن پھر ابو کے ساتھ تھے تو فہد بھائی کے ساتھ کیوں جسمانی تعلقات استوار کیے؟
عالیہ باجی شرمندگی کے ساتھ بولی : دیکھو رافع شروع میں یہ سب غلط لگتا ہے ،، امی نے ابو کو چت کرنے کےلئے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کےلئے فہد سے یعنی اپنے بیٹے سے تعلقات استوار کرلیے، امی تو مجھ سے ناراض رہتی تھیں ،، رفتہ رفتہ میں نے انکو منا کر اپنے قریب کرلیا،، فہد کے بے حد اصرار پر امی کے کہنے پر ابو کی۔وفات کے تھوڑے مہینے بعد میں نے بھی امی کے ساتھ مل کر فہہد کے ساتھ وہ سب کرنا شروع کردیا۔۔۔۔
پھر یہ جنس کی بھوک ہی ایسی ہوتی ہے.
یہ کہتے کہتے عالیہ باجی رک گئی نظریں جھکا لیں ۔۔
اور اٹھتے ہؤئے کہنے لگیں : رافعع اب آگے تمہاری مرضی ہے تم جس سے چاہے نفرت کرو ، میں کچھ نہیں کہونگی۔۔۔
مجھے تم نے بہن سمجھنا ہے یا نہیں یہ بھی اب تم پر ہے۔۔۔
باجی عالیہ دروازہ بند کرکے چلی گئیں ۔۔
اور میں باجی عالیہ کے منہ سے سنے ہوئے اپنے خاندان والے کے کرتوتوں کے بارے میں سوچنے لگا کہ کس غلیظ خاندان میں پیدا ہوگیا میں ۔
لیکن باجی عالیہ کی کہی ہوئی کچھ باتیں میرے دل و۔دماغ میں گردش کررہی تھی جس نے میرا سوچنے سمجھنے کا انداز کافی حد تک تبدیل کردیا تھا اور یہی سؤچتے سوچتے میں اٹھا منہ ہاتھ دھوئے اتنے میں باجی عالیہ خود ناشتہ میرے کمرے میں ٹیبل پر رکھ کر باہر نکل گئیں ۔۔۔

(جاری ہے )





گندا خاندان
قسط 4
(ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )

اردو گرم کہانیاں اور دیسی ویڈیو گروپ جس پر ایک بار ہی فیس دینی پڑے گئی اور ہر قسم کی ویڈیو اور سٹوری اپلوڈ کی جائے گئی
350 فیس
03140770721 واٹسپ
جوان ہوتے انسان کو بچپن کی یادوں ، گزرے وقتوں کی تلخیوں ناچاقیوں ، خوشگوار لمحوں کی سوچیں بیک وقت ذہن میں آتی ہیں ۔
بعض اوقات ذہن ماضی کے دریچوں سے خوشگوار لمحات کریدنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوائے تلخیوں اور بری یادوں کے کچھ نہیں ملتا۔۔۔
عالیہ باجی کے چلے جانے کے کئیں دن بعد معاملاتِ زندگی روٹین کے لحاظ سے چلتے رہے۔
اب میرا اور فہد کآ سامنا بھی گھر میں کم ہی ہوتا تھا اگر ھوتا بھی تو ہم ایک دوسرے کو دیکھے بغیر گزر جاتے ۔۔
زرین اور ماہم فہد کی نسبت زیادہ مجھے ترجیح دیتی تھیں کیونکہ میں ان سے زیادہ قریب تھا دوسری طرف فہد کا رویہ جابرانہ ہوتا تھا ابو کی طرح اسلئے بہنیں اس سے زیادہ کلوز نہیں تھیں ۔
امی بھی اب مجھ سے میرے غصے کی وجہ سے بات چیت نہیں کررہی تھیں ۔۔۔
ناشتہ کھانا وغیرہ بھی مجھے کبھی ماہم اور زرین دینے آجایا کرتی تھیں کمرے میں ۔۔
فہد اور امی کی راتوں کی رنگ رلیاں بھی اب نہیں ہورہی تھیں جس دن سے گھر میں ہنگامہ ہوا تھا۔۔۔
مجھے عالیہ باجی کی کہی ہوئی بہت سی باتیں دماغ میں گردش کرتی تھیں ۔۔۔
لیکن بہت سارے ادھورے سوالات تھے جنکو جاننے کی جستجو ابھی بھی میرے اندر تھی۔۔۔
ابو کی وفات پر صرف زرینہ پھپھو اور چچا ہی آئے تھے گاؤں سے۔۔۔
ثمینہ باجی اور انکے شوہر نہیں آئے تھے۔۔۔
ہمیں رحیم یار خان اور پتوکی گئے ہوئے بھی کافی سال ہوچکے تھے۔۔۔
میرے زہن میں اٹھ رہے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کےلئے میں نے عالیہ باجی سے اور امی سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
میرے دل و دماغ میں امی سے اور عالیہ باجی سے بدتمیزی کرنے کی سخت شرمندگی بھی تھی افسوس طاری تھا۔۔۔
یہی سوچ کر ایک دن میں نے کالج سے چھٹی کی۔۔۔
ماہم یونیورسٹی جبکہ زرین کالج گئی ہوئی تھی۔
فہد اپنے کام پر گیا ہوا تھا۔۔
صبح ناشتہ امی میرے کمرے میں رکھ کر جا چکی تھی باوجود اسکے کہ امی اور میرے درمیان بول چال بند تھی۔۔۔
لیکن امی کو پھر بھی میرے کھانے پینے کا احساس تھا وہ اس میں دروغ نہیں کرتی تھیں ۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد میں نے امی کو ڈھونڈا امی اپنے کمرے میں نظر نہ آئیں تو میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے کچن میں گیا تو امی سامنے کھڑی کام کررہیں تھیں ۔
میرے قدموں کی آہٹ سے امی کو اندازہ ہوا تو انہوں نے ترچھی نظروں سے دیکھا اور آگے پھر سے برتن دھونے میں مشغول ہوگئیں ۔
کئیں دن کی ناراضگی اور شرمندگی میرے دل و دماغ پر طاری تھی۔
میں نے کچھ نہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ کر اپنے دونوں بازو امی کی گردن میں ڈال کر کہا : امی مجھے معاف کردیں ، آئی ایم سو سوری۔۔
امی ایک دم سے ہلیں اور آگے کھڑے کھڑے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر چوما اور پیچھے مڑ کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
امی رو رہی تھیں ۔
میں نے بھی اپنے بانہیں کھول کر امی کی پیٹھ کو سہلانے لگا ۔
میری بھی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے اور میں بار بار انکو سوری بول رہا تھا ، امی نے مجھ سے الگ ہو کر میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھدیا اور کہا : تمہیں اپنی بدتمیزی کا احساس ہوگیا یہی کافی ہے رافعع۔
امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے روتے روتے کہا : امی میں بہت برا بیٹا ہوں نا؟
امی : نہیں میرے چندا تم بہت اچھے بیٹے ہو۔
روتے نہیں چلو اندر کمرے میں چلو۔۔۔
امی مجھے لے کر ماہم کے کمرے میں آگئیں ۔
ہم دونوں بیڈ پر بیٹھ گئے اور ہمارے درمیان کافی دیر خاموشی رہی ۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نے ہی بات کی شروعات کی : امی مجھے آپسے کچھ باتیں جاننی ہیں ؟
امی میری طرف دیکھتے ہوئے : کونسی باتیں رافع؟
رافع : امی ہم رحیم یار خان اور پتو کی کیوں نہیں جاتے کیا ہماری اپنے خاندان والوں سے کوئی لڑائی ہے؟
امی : نہیں رافعع لڑائی نہیں بس اندر ہی اندر کچھ تلخیاں ناراضگیاں ہوتی ہیں ۔
لیکن یہ رشتے جیسے بھی ہوں نبھانے پڑتے ہیں آخری وقت تک۔
میں نے امی کی طرف تجسس سے دیکھتے ہوئے کہا : امی ہماری پھپھو اور چچا وغیرہ ،، ننھیال ددھیال کے بارے میں تو کچھ بتائیں ۔
ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو اور چچا وغیرہ ؟
امی : تو تمہیں عالیہ نے کچھ باتیں بتائیں ہونگی ضرور ۔
رافع : ہاں امی بتائیں تھیں لیکن سوالات کے جوابات ابھی بھی ادھورے ہیں ۔
امی اشتیاق سے : تو کیا جاننا چاہتے ہو؟
رافع : امی سب کچھ ۔
امی : ٹھیک ہے رافعع لیکن پورے جوابات اس جگہ ہی جا کر مل سکتےہیں جہاں کا یہ خمیر ہے۔
میں تمہیں بتاتی ہوں لیکن تم کسی بھی رشتے سے اگر اس بنیاد پر نفرت کرو گے تو کوئی رشتہ نہیں نبھا سکو گے۔
ان رشتوں میں برداشت کرنا پڑتا ہے ، جیسے میں نے کیا تھا شروع شروع میں ۔
کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں ۔
رافع اشتیاق سے : تو کیا امی آپکو ابو اور زرینہ پھپھو والا چکر پتہ تھا؟
امی : ہاں عالیہ نے بتایا تو تھا لیکن مجھے تو یہ بھی خاندان میں سننے کو ملا تھا کہ تمہارے باپ زبیر کے اپنی سے ایک سال بڑی بہن یا عمر میں انکے لگ بھگ ہی ہونگی ، ثمینہ کے ساتھ بھی ایسا کوئی چکر تھا۔
میں حیرت سے : کیاااا؟
امی : رافعع لیکن لوگ زیادہ بدنام کرتےہیں مسئلہ اتنا بڑا ہوتا نہیں ،، اوپر سے یہ خاندانی گہما گہمی اور محلے داریاں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ایک کی دس اور دس کی پچاس بنا کر سناتے ہیں ۔
تمہارے ابو اور زرینہ کا چکر بھی شادی سے بہت سال پہلے جوان عمری میں تھا اسکے بعد نہیں تھا۔۔۔
رافع : امی مجھے یہ بتاؤ آخری بار ہم رحیم یار خان کب گئے تھے؟
امی : جب تم نو سال کے تھے ، آج سے نو سال پہلے۔۔
رافع : تو امی اب کیوں نہیں جاتے؟ کیا آنا جانا بند ہونے کی وجہ ناراضگی ہے؟
امی : نہیں رافع ناراضگی نہیں ، بس یہ شہر کی زندگی ہماری بہت مختلف ہے دیہات کی زندگی سے ۔۔
تمہاری ایک پھپھو ثمینہ ضلح رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں رہتی ہے جبکہ چھوٹی والی پھپھو رحیم یار خان کی ہی تحصیل لیاقت پور میں رہتے ہیں ،، دونوں کی شادیاں قریب ہی ہوئیں تھیں ۔
اسلئے انکا وہاں آنا جانا آسان ہے،، ہم مصروفیت کے باعث نہیں جاتے اور ایک اور بھی وجہ ہے۔
رافع : کییا وجہ ہے امی؟
امی : انکے اور ہمارے ماحول میں بہت فرق ہے،، وہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتےہیں ، پردہ داری کا خیال رکھتے ہیں ،، تمہارے باپ نے تو ہمیں شروع سے ہی کبھی برقعے یا حجاب نہیں پہنائے،، ثمینہ پھپھو اور زرینہ پھپھو کے شوہر اس چیز کا خاص خیال کرتےہیں ۔۔۔
رافع : اچھا تو یہ بات ہے۔۔
اچھا امی ہمارے کتنے چچا ہیں ، ابو لوگ کتنے بھائی تھے؟
امی : تمہہارا ایک چچا زولفقار ہے جو ابو سے دو سال چھوٹا ہے وہ پتو کی میں رہتےہیں ۔
جبکہ ابو کے ایک بڑے بھائی تھے جنکا انتقال بیس سال پہلے ہی ہوگیا تھا وہ بھی پتو کی میں ہی رہتے ہیں ۔
انکی بیوی بچے وہیں انکے چھوٹے بھائی کے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔
میں : امی کیا ہماری کوئی زمینیں بھی ہیں پتو کی میں ؟
امی : پہلے تھیں ، اسکے بعد تمہارے باپ نے اپنے حصے کی زمین بیچ دی تھی اپنے ہی بھائیوں کو۔
تمہارے باپ کے چاروں بہن بھائیوں نے دیہاتی پنڈ کے ماحول میں نشونما پائی ہے جبکہ تمہارے باپ نے شہر میں نشونما پائی ،، یہاں رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔۔۔
شروع میں جب تمہارے دادا یہاں آئے تھے تو اپنے سارے بچوں کو لائے تھے،، تمہارے تایا بس پتوکی میں تھے،، بعدازاں چاچا کو بھی یہاں کا ماحول کچھ راس نہ آیا اسلئے وہ بھی شادی کرکے پتوکی میں اپنے گاؤں میں سکونت اختیار کر گئے۔
اور پھپھو کی شادیاں بھی پھر وہی پنڈ دیہات کے ماحول میں ہوئی ہیں ۔۔۔
تمہارے ابو کا دماغ یہاں بہت جما انکو یہ ماحول راس آگیا تھا،، ماڈرن خیالات تھے۔
جبکہ باقی بہن بھائیوں میں اس قسم کی روش نہیں تھی۔۔۔
میں امی کی باتیں غور و تجسّس سے سن رہا تھا ، ہر نئی بات میرے لئے ایک سسپینس تھی۔
جاننے کا تجسّس ۔
جیسے انسانی دماغ کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اسکا خیال بھی نہ لایا جائے ۔
لیکن نہیں ۔
یہ انسانی دماغ ہے۔
امی کی باتیں سن کر میں نے ایک اور سوال داغا : کیا اب ہم پتوکی یا اپنی پھپھووؤں کے گھر رحیم یارخان نہیں جاسکتے ؟
امی میرے طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولیں : جاسکتے ہیں لیکن کیوں پوچھ رہے ہو؟
میں نے کہا : امی میں جانا چاہتا ہوں۔
مجھے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی خواہش ہے۔
کیا ہمارا وہاں کوئی گھر بھی ہے؟
امی : ہاں بیٹا گھر بھی ہے جو کہ ہمارا تھا اب وہ کرائے پر دے رکھا ہے کسی کو۔
اسکا ہر ماہ کا کرایہ تمہارے چاچو مجھے بھجوا دیتےہیں ۔۔۔
رافع : امی ٹھیک ہے میں آپکے ساتھ جانا چاھتا ہوں اپنے گاؤں پتو کی اور اپنی پھپھوؤں کے گھر۔۔۔
امی کچھ سوچتے ہوئے : اچھا ٹھیک ہے چلے جائیں گے کچھ سوچتی ہوں اس بارے میں ۔
اب تم لیٹ جاؤ ۔
آرام کرو۔
امی نے پیار سے میرا ماتھا چوما اور مجھے لٹا دیا۔۔
امی نے کہا : آج تم کالج کیوں نہیں گئے۔
میں : امی میں نے جان بوجھ کر چھٹی کی ، آپسے بدتمیزی کرکے اندر ہی اندر پچھتا رہا تھا ،، آپسے معافی مانگنی تھی۔
امی میرے طرف پیار سے دیکھتے ہوئے اور میرے بال سہلاتے ہوئے : میرے چندا تمہاری ماں ہوں آخر کب تک تم سے دور رہونگی۔
امی میرے اوپر ہوتے ہوئے میرے ماتھے کو چومنے کے لئے جھکی تو انکی چھاتیاں میرے سینے میں پیوست ہوگئیں جس سے میرے جسم میں جھرجھری سی ہوئی۔
یہ پہلی بار تھا کہ کسی عورت کے لمس کو میں نے اپنے جسم پر محسوس کیا۔
میرا ذہن مجھے کوسنے لگا۔
امی پھر میرے اوپر سے اٹھ کر باہر جانے کےلئے بیڈ سے اٹھیں تو یہ دیکھ کر مجھے ایک زور دار جھٹکا لگا کہ امی کی قمیض انکے بڑے بڑے کولہوں میں دھنسی ہوئی تھی۔
لیکن یہ منظر چند لمحوں کا ہی تھا پھر آنکھوں سے اوجھل ہوا اور امی کمرے سے رخصت ہوگئیں ۔
میرا اپنا آپ مجھے کوس رہا تھا یہ کیا بکواس باتیں میں سوچ رہا ہوں ، لعنت ہے مجھ پر۔
اسی اثناء میں میں نے دیکھا تو میرا لوڑا اپنے ٹراؤزر میں سر اٹھائے ہوئے تھا۔۔
میں نے اپنے لنڈ پر ہاتھ رکھ کر زور سے مسلا۔
اور اسکو بٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی لیکن یہ سب نیچرل تھا ،، جب کسی عورت کے جسم کے نشیب و فراز اسطرح کے ہوں وہ مرد کو اپنی جانب مائل کرتےہیں ۔
شیطان نے میرے دماغ کو جھٹکا دیا تھا کہ وہ تمہارے لئے ایک عورت ہے، اگلے لمحے میرے پارسا دل نے کہا کہ نہیں نہیں وہ تمہاری ماں ہے اسکے بارے میں اسطرح کا سوچ بھی مت۔
پھر دماغ نے کہا : ماں ہے تو کیا ؟
بڑے بھائی کے ساتھ ، اپنے بیٹے کے ساتھ بھی تو کتنے عرصے سے یہ سب کچھ کررہی ہے۔
میرے دماغ پر ہوس غالب آچکی تھی۔
گھر کی تنہائی ۔
امی اور میرے علاوہ گھر پر کسی اور کے نہ ہونے کا خیال مجھے بار بار دعوتِ گناہ دے رہا تھا۔
ان سب میں جیت ہوس کی بالآخر ہونی تھی۔۔
میں نے بستر چھوڑا بیڈ سے اٹھا باتھ روم میں گھس کر منہ پانی مارا ،، باہر نکلا تو گھڑی پر ساڑھے گیارہ ہورہے تھے ، زرین کے اسکول سے آنے میں بہت ٹائم تھا۔۔۔
میں نے کمرے سے باہر نکل کر کمرے کی کچن کی طرف قدم بڑھائے جہاں امی کھڑی پھر سے برتن دھو رہی تھیں ۔
امی کو میری موجودگی کا احساس ہوا تو انہوں نے گردن گھما کر مسکرا کر مجھے دیکھا اور کہا : کیا ہوا رافع؟
کچھ چاہیے کیا۔
پھر آگے کو مڑ گئیں ۔
امی کی قمیض اب تک انکے بڑے بڑے کولہوں میں پھنسی ہوئی تھی۔
میں اوپر سے نیچے تک امی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا۔
اوپر کندھوں کی دونوں جانب دوپٹے کا پلو۔
ٹائٹ قمیض میں پھنسی ہوئی انکی کمر ، جس میں سے جھانکتی ہوئی انکی بریزر کی اسٹرپ صاف دکھائی دے رہی تھے۔
سر پر بالوں کا بنا ہوا گول جوڑا۔
قمیض کے نچلے دامن سے تھوڑا اوپر انکی شلوار کا ناڑے والا حصہ اور اسکے عین نیچے انکے بڑے بڑے گول چوتڑ جس میں پھنسی ہوئی قمیض ، دونوں گول غباروں کو جدا کرتی بیچ کی لکیر مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھی۔
میرا لنڈ شلوار میں سر اٹھا چکا تھا ۔
میں اب تلک کچن کے دروازے پر کھڑا تھا۔
کہ امی نے پھر نظریں گھما کر مجھے دیکھا اس بار انہوں نے اس نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا کہ میں حیران ہوگیا، انکا نچلا ہونٹ انکے دانت میں پھنسا ہوا تھا ، اس ادا سے دیکھ کر امی پھر سے آگے کو مڑ گئیں ۔
اور میں نے دیر نہ کرتے ہوئے تین چار قدم آگے بڑھا کر آمی کو کس کے جپھی ڈال لی ۔
امی کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی۔۔۔
میں نے ہاتھ امی کے مموں پر لے جاکر آنکے دوپٹے کے اوپر سے انکے مموں کو زور زور سے بھینچنا شروع کردیا اور نیچے سے اپنا للا فل امی کے گول چوتڑوں سے جوڑ دیا۔۔
امی نے میرے اس لمس کا مزہ لیتے ہوئے میرے ہاتھوں کو اپنی چھاتیوں پر دبایا۔۔
اب ایک گناہ کی باقاعدہ شروعات ہوچکی تھی.
میں نے امی کی جسم کے ساتھ خود کو جوڑتے ہوئے جھٹکے مارنے والے انداز میں آگے پیچھے ہونے لگا جیسا کہ میں نے پورن ویڈیوز میں دیکھ رکھا تھا ۔
اچانک مجھے اپنے ٹراؤزر میں اڑے للے پر امی کا ہاتھ محسوس ہوا امی نے کس کر میر لنڈ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور شدت جذبات میں بہک کر میرے ہاتھ اپنی چھاتیوں پر سے ہٹا کر گھوم کر مجھے گلے لگالیا۔۔۔
مجھے امی کا یہ انداز بہت حیران کر گیا اور میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ انکی پیٹھ پر لے جاکر آہستہ آہستہ نیچے لے آیا۔۔
جہاں انکے بڑے بڑے چوتڑ میرے ہاتھوں کے لمس کا بے صبری سے انتظار کررہے تھے۔
امی بدستور میری گردن کو پیچھے سے چوم کر مجھے اپنی جانب دبا رہی تھیں جبکہ میں نے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے انکے چوتڑ پر لاکر بھرپور اوپر سے نیچے تک نشیب و فراز کا اندازہ لگایا۔
امی کے چوتڑ کوئی اڑتیس سائز کے ہونگے جسکی وجہ سے انکی گانڈ چلتی ہوئی تھرکتی تھی۔
جب امی چلتی تو چوتڑ ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنے وجود کا احساس دلاتے ۔
میں نے امی کے چوتڑوں کو مٹھی میں بھر بھر کر زور سے دبانا شروع کردیا ،، امی بھی ہلکی ہلکی سسکیاں بھر رہی تھیں ۔
اور بدستور آہ سسسس سییی کرے جارہی تھی ۔۔۔
میں نے امی کے چوتڑوں کو جب زور سے دبایا تو امی نے دانتوں سے ہلکا سا میری گردن پر کاٹ دیا جس سے مجھے تھوڑا درد ہوا۔
ہم دنیا و مافیا سے بے خبر اس گندے رشتے کی شروعات میں مگن تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور اس دستک نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔۔۔
امی اور میرے سانسیں تھوڑی پھولی ہوئیں تھیں ، امی مجھ سے الگ ہو کر باہر گیٹ کھولنے چلی گئیں ۔۔۔
تو میں نے کچن سے باہر نکل کر دیکھا تو دودھ والا آیا تھا دودھ دینے۔۔۔
امی نے دودھ لے کر کچن میں آکر جلدی سے رکھا اور مجھے شہوت بھری نظروں سے دیکھنے لگی ،، امی کو اس گرمی میں بھی پسینہ آچکا تھا ،، میں سوچنے لگا امی سچ میں اتنی گرم ہیں اس عمر میں بھی۔۔
امی نے میرا ہاتھ پکڑا اور زرین کے کمرے کی طرف چل پڑی اور میں بھی امی کی تھرکتی گانڈ پر ہاتھ رکھے پیچھے پیچھے چلدیا۔۔۔
( جاری ہے)




گندا خاندان
قسط نمبر: 5
(ایک انسیٹ گھریلو کہانی )
جواینگ نمبر:- 03167655838
کمرے میں گھستے ہی امی نے دروازہ بند کردیا اور پلٹ کر میرے منہ کو اپنے منہ سے جوڑ دیا امی میرے ہونٹوں کو کسنگ کرنے لگی جذبات میں بہک کر امی بھی جو کرہی تھیں میں ان کا ساتھ دینے لگا اب میں امی کے اوپر اکر کسنگ کرنے۔لگا اور امی میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں اچانک امی نے ایک ہاتھ نیچے کر کے میرا لنڈ پکڑ لیا اور مجھے اپنے اوپر سے دھکیل کر سائڈ میں کر کے بیٹھ گئیں اور میرا ٹراوزر اتارنے کے لیے جیسے ہی ناڑے پر ہاتھ رکھا میں نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ کر انکو روکنا چاہا لیکن امی جذبات و سرور کی کیفیت میں بھٹکی ہوئیں بہت گرم عورت معلوم ہو رہا تھیں امی نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہٹایا اور ایک جھٹکے میں میرا ٹراوزر تھوڑا سا لنڈ سے نیچے کر دیا جہاں میرا ساتھ انچ کا لنڈ پھن پھیلائے امی اور میری انکھوں کے سامنے لہرانے لگا امی کے چہرے کے تاثرات سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ میرے لوڑے کو دیکھ کر تھوڑی حیران ہوئی ہیں امی نے بناء کچھ سوچتے ہوئے میرے پیٹ پر بیٹھتے ہوئے اپنی شلوار کا ناڑہ کھول کر شلوار کو تھوڑا سا نیچے سرکا یا مجھ پر بھی شہوت غالب آ چکی تھی میں نے بھی اپنی شرٹ جلدی جلدی اتاری اور ٹراوزر بھی ٹانگوں تک نیچے کر دیا
ساتھ ہی امی کی قیمض کا پلو پکڑا تو امی میری طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر ہونٹ کو دانتوں میں دباتے ہوئے خود ہی قیمض پکڑ کر اوپر کرنے لگیں میں نے قیمض کو اتروانے میں مدد کی قیمض اترتے کی امی کے بڑے بڑے گول خربوزے میرے سامنے آگئے جن کو دیکھ کر میں حیران تھا امی کے ممے بریزر میں قید تھے امی نے بریزر کا ہک کھول کر ممے میری انکھوں کے سامنے واضح کر دیے اور تھوڑی اوپر اٹھ کر شلوار کو بھی دونوں ٹانگوں سے نکال دیا اب ہم دونوں مادر زاد ننگے تھے کمرے میں تنہائی اور ہماری سانسوں کی اوازیں تھیں اس سخت سردی میں بھی اب گرمی لگنے لگی تھی امی نے میرا لنڈ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور ایک ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے مجھے لیٹنے کا اشارہ کیا اور دونوں ٹانگیں دائیں بائیں میرے پیٹ کے گرد کر کے میرے لنڈ کو اپنی پھدی کی ٹوپی پر رکھا میرا ضمیر اب بھی ملامت کررہا تھا کہ نہیں یہ سب گناہ ہے غلط ہے امی کو روک دینا چاہیے لیکن اب ہوس کے اگے ضمیر کو مات ہوتی نظر آرہی تھی امی نے لنڈ پر بیٹھنا شروع کیا تو انکے منہ سے ایک سکی نمودار ہوئے اہ سسی سیییی امی اہستہ اہستہ لنڈ پر بیٹھتی گئیں اور لنڈ پانچ انچ تک اندر لینے کے بعد رک گئیں امی سے سہی سے بیٹھا نہیں جارہا تھا میں نے امی کی کمر کو دونوں اطراف سے تھاما اور ان کو لنڈ پر بٹھانے لگا لیکن امی کی انکھوں سے ظاہر تھا کہ انہوں نے جو لنڈ لیے ہیں پہلے وہ اس سائز میں کم وبیش ایک ڈیڑھ انچ چھوٹے ہی تھے اپنے لنڈ کی قدرتی لمبائی کا اندازہ بھی مجھے اج ہی ہوا تھا امی سے جب پورا نہیں لیا گیا تو وہ اتر کر سائڈ میں اکر لیٹ گئیں اور مجھے اوپر انے کا اشارہ کیا میں تو ٹھہر ا تھانا تجربہ کار اناڑی امی مجھے اشاروں اشاروں میں سب کچھ سکھا دینا چاہتی تھیں یہ واضح تھا امی کے بیچ دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں نے اپنا لنڈ ان کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنا چاہا تو امی نے ٹانگ اٹھا کر میرے کندھے پر رکھ دی میں یہ اشارہ سمجھنے لگا میں نے امی کی دوسری ٹانگ کو بھی کندھے پر رکھ لیا امی مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگی کہ یہ میں نے کسیے کر لیا میں نے اپنے جسم کو تھوڑا پھیلا یا اور امی کی ٹانگوں کو انکے گھٹنے کی طرف موڑتے ہوئے ان کے سر کے پاس تک لے ایا امی مجھے روکنا چاہ رہی تھی شاید انکو اندازہ تھا کے ان کو درد ہو گا اس لیے وہ مجھے انکھوں سے اشارہ کرہی تھی میں نے امی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے لنڈ تین انچ تک ایک جھٹکے میں اندر ڈالا امی نے سکی بھری اہ اہستہ کرو یہ پہلا لفظ تھا امی کے منہ سے اب تک ہماری سیکس کے کھیل میں میں نے لنڈ کو تھوڑا باہر کھینچا اور دوبارہ ایک جھٹکے میں اندر ڈالا اور امی کی دونوں ٹانگوں کو مضبوطی سے کندھے پر رکھ کر تھامے رکھا
پیڈ سٹوریز جس کو چاہیے
گندا خاندان 17 قسط
150 price میں حاصل کریں 03167655838 whtsapp
اور میں ڈنڈے مارنے والے پوز میں امی کے اوپر لیٹ کر ایک جھٹکے میں اندر ڈال دیا امی کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اہ سسسس سیییی پلیزززز باہر نکالو میں نے لنڈ تھوڑا سا باہر کھینچا اور پھر امی کی پھدی میں داخل کر دیا امی درد سے کراہتے ہوئے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن میرے دماغ میں پل رہے اتنے دنوں کے غصے کا بھی علاج کرنا تھا اور وہ غصہ میں امی کو سزادے کر نکالنا چاہتا تھا میں نے امی کی درد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زور دار پانچ چھ بار لنڈ کو اندر باہر کیا امی بد ستور کراہنے لگیں اور انہوں نے میرے پیٹ سے ہاتھ ہٹا کر ناخن میری کمر میں گاڑھ دیے مجھے درد ہوا میں نے پرواہ نہیں کی اور بدستور دھکے پے دھکے مارنے لگا امی کی ٹانگیں فل انکے سر کی طرف دبائی ہوئی تھی اور ان کی پھدی بالکل ہوا میں اٹھی ہوئی تھی جس سے انکے چوتڑ بھی نیچے بیڈ سے تھوڑے اٹھ گئے تھے میں نے دس بارہ اور دھکے امی کو اس پوز میں مارے تو دیکھا امی کا پانی نکل گیا ہے امی نے میرا لنڈ پر ہی دھار نکال دی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی میں نے اپنا لنڈ امی کی چوت سے باہر نکالا اور ان کو گھوڑی بنانے کے لیے ان کی ٹانگیں اٹھانے لگا امی میرے طرف دیکھتے ہوئے غصے سے اٹھی اور مجھے کھینچ کر بیڈ پر گرایا اور کہا جان نکال دینی تھے تم نے تھوڑا رک تو جاتے میں نے امی کی بات کو جواب نہ دیا امی خود ہی میرا اوپر سے اٹھی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی امی کی قیادت خیز چوتڑ اب میرے سامنے تھے یہ نظارہ تو میں دیکھ کر ہی پاگل ہو گیا اور جلدی سے اٹھ کر امی کے چوتڑ پر ہاتھ پھیرنے لگا امی اب جلدی ڈال بھی دو امی نے اپنے چوتڑ تھوڑے اور کھلے کیے جس سے ان کی گانڈ اور چوت دونوں کے سوارخ واضح ہو گے گانڈ کو دیکھ کر لگا رہا تھا یہاں بھی امی نے بہت بار لنڈ لیا ہو گا میں نے امی کی کمر کو تھاما اور جھٹکے لگانے والے انداز میں اگے پیچھے ہونے لگا امی کی سیکساں اب مزے میں بدل چکی تھیں اور وہ مزے وسرور کی لذت میں لنڈ کو ارام سے اپنی پھدی میں لیتے ہوئے یہ بول رہی تھیں اہ سس اور تھوڑا زور سے میں نے دھکوں کی رفتار بڑھائی تو ایک ٹانگ اٹھا کر سائڈ میں کر کے انکے برابر رکھ لی اور ایک ٹانگ سے ان کو گھوڑی کے اسٹائل میں چودنے لگا اتنے میں امی کی اواز ائی اوپر چڑھ جاو میں نے سانس لیتے ہوئے رکا اور پوچھا اوپر کیسے امی دونوں ٹانگیں سائڈ میں کر کے اوپر چڑھ جاو امی مجھے گھڑ سواری کا کہہ رہی تھی اور میں سمجھ گیا میری امی بھی پروفیشنل رنڈی بن چکی ہے اب گناہ کر کر کے امی مجھے اس اسٹائل میں اوپر چڑھنے کو کہہ رہی تھی جیسے کتا اپنی کتیا پر چڑھ کر اس کو چودتا ہے میں نے امی کی بات سن کر ان کی تابعداری کی اور اوپر چڑھ کر انکا سر گردن اور بال سے پکڑ کر بیڈ پر دبادیا اور خود جھٹکے مارنے لگا افف اس اسٹائل میں کمرے میں بڑی دلکش چدائی کی اوازیں پیدا ہورہی تھیں امی کے چوتڑ کو چودتے ہوئے جب میں اگے پیچھا ہوتا اور میرے ران ان کے چوتڑ سے ٹکراتی تو کمرے میں تھپ تھپ کی اور پک پک کی سی اوازیں پیدا ہوتیں امی کی سسکیاں بستر میں دبی ہوئیں تھیں اسی پوزیشن میں دھکے مارتے مارتے میں امی کے اوپر۔لیٹا گیا کہ اچانک مجھے لنڈ میں سے کسی چیز کے نکلنے کا احساس ہوا اور میں جان گا یہ منی ہے میری رفتار تیز ہو گئی اور میں نے اخری دھکے تیز رفتاری کے ساتھ مارنے اور منی کی پچکاریاں امی کے چوت میں بہادیں اور لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا امی پر گر گیا امی بھی بیڈ پر گر چکی تھیں اور میں انکے اوپر گرا ہوا تھا دو منٹ تک ہم یونہی لیٹے رہے پھر میں امی کے اوپر سے اٹھ کر سائڈ میں لیٹ گیا امی میری انکھوں میں دیکھتے ہوئے سا نسیں لے کر مجھے مسکر اکر دیکھنے لگی
اور میرا بالوں میں ہاتھ پھیر کر میرے گالوں کو چوم لیا اب اس شہوت بھرے کھیل کے بعد مجھ پر گناہ و خوف کے اثرات پھر سے منڈلانے لگے اور میں گہری سوچ میں ڈوب گیا امی نے مجھے کندھے سے ہلایا اور کہا کیا ہوگیا رافع
گندا خاندان ہمارے پیڈ گروپ میں چل رہی ہے 17 قسط مونا چاچی اور کزنوں ایسی تمام سٹوری ہمارے گروپ میں چل رہی ہے اور دیسی وئرال ویڈیو جس کی فیس 350 ہے جو ایک بار ہی دینی پڑے گئی
ایڈ ہونے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں
03167655838
میں نے منہ نیچے کر کے بولا اخر مجھ سے بھی یہ غلط کام ہوگیا ہمارا خاندان پھر ٹھیک ہی گندا خاندان ہے نا امی امی نے اگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگایا اور کہا ایسا نہیں سو چتے بیٹا ہمشہ مثبت سوچو زندگی مثبت رہے گی منفی سوچو گے معاملات کو مختلف نظر سے نہیں دیکھو گے تو ایک ہی سوچ کے سہارے جیتے رہو گے یہ کہہ کر امی نے مجھے خود سے علیدہ کیا اور کپڑے اٹھا کر باتھ روم چلی گئیں میں نے بھی اپنا ٹراوزر اوپر کیا مجھے تھوڑی تھکن محسوس ہورہی تھے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو سوا بارہ ہورہے تھے
گندا خاندان کی اقساط

گندا خاندان
قسط 6


گناہ کی لذت انسان کو ہر دؤسری لذت سے بیزار کردیتی ہے۔
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کچھ دیر کےلئے موقوف ہوجاتی ہے۔
دماغ پر قفل سا لگ جاتا ہے۔
امی کے ساتھ اس گناہ کے بعد مجھ پر شدت سے شرمندگی و خوف کے سائے منڈلانے لگے۔
نیند سے بیدار ہوتے ہی مجھ پر آج ہوئے واقعے کی شرمندگی کے اثرات نمایاں تھے۔
میں شرم ، جھجک کی وجہ سے کمرے سے باہر بھی نہیں نکل رہا تھا۔
میں لیٹا لیٹا کمرے کو تک رہا تھا ، اچانک امی کمرے میں آئیں اور مسکراتے ہوئے بولیں : رافع چلو اٹھ جاؤ، منہ ہاتھ دھو لو کھانا کھا لو چائے بھی بنا رہی ہوں۔
یہ کہہ کر امی کمرے سے چلی گئی۔
میں امی کے اس رویے پر سخت حیران بھی تھا لیکن اندر ہی اندر اس رویے سے تھوڑا حوصلہ بھی مل رہا تھا جیسے آج ہمارے بیچ کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس وقت تو ہوس اور شہوت کی آگ میں بیٹھ کر میں یہ کام کر بیٹھا لیکن اب شرمندگی ۔
دوسری جانب امی کو کوئی شرمندگی ہی نہیں ۔
یہ میرے لئے قدر حیران تھا جو کہ مجھے بہت بعد میں آ کر سمجھ میں آیا کہ کیوں اس گناہ کو بار بار کرنے کے بعد انسان ایک عام گناہ سمجھنے لگتا ہے،، جیسے کوئی بات ہی نہیں ۔
جیسے اسطرح معاشرے میں ہر دوسرے گھر میں ہوتا ہو۔
یہ ایک نارمل سی بات ہو۔
لیکن معاشرے کے لوگوں سے جب ڈسکس کریں ، اولاً تو کر نہیں سکتے ، اگر کر بھی لیں تو وہ اتنی نفرت اور تعصب سے دیکھتا ہے جیسے اس سے زیادہ پارسا کوئی نہیں ۔
اس نے کبھی گناہ کیا نہیں ۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ یہ بڑا گناہ ہے۔
لیکن کیا دؤسرے لوگ نہیں کرتے؟
کیا یہ صرف مجھ سے ہی ہوگیا ہے؟
میں تو تن تنہا سمجھ رہا تھا اپنے آپکو ،
بہت تنہا اور نفرت انگیز محسوس کررہا تھا۔
خود سے نفرت سی ہونے لگی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے۔
لیکن امی کے رویے کو دیکھ کر میری سوچ کے پیمانے یکسر بدلنا شروع ہوگئی ۔۔
جو چیز پہلے مجھے بری لگ رہی تھی وہ اب اتنی بری نہیں لگنے لگی۔
لیکن یہ کیفیت جس پر گزری ہو بیک وقت متضاد کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔
کبھی گناہ کی شرمندگی
کبھی اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنے کی سوچ۔
میں اپنی ذہن کی سوچوں سے پھر سے لڑ رہا تھا اور کوئی بہتر نتیجہ مجھے نہیں سوجھ رہا تھا ، پھر میں نے تہیہ کیا جو ہوتا ہے دیکھا جائے گا۔
تقدیر میں جو لکھا ہو ، ہو کر ہی رہتا ہے۔
میں خود کو کیوں ذہنی اذیّت میں مبتلا کروں ؟
کیوں خود کو بلاوجہ کی ٹینشن میں ڈالوں ۔
میں اتنا سوچ ہی رہا تھا کہ امی نے کمرے میں داخل ہوتے کھانا ٹیبل پر رکھا اور لائٹ جلا کر کمرا بند کردیا۔
میں نے ٹائم دیکھا تو شام کے ساڑھے چار ہورہے تھے۔
امی نے کھانا ٹیبل سے اٹھا کر بیڈ پر رکھدیا۔
میں نے نظریں اٹھا کر جب انکی طرف دیکھا تو انکے چہرے پر عجب سی مسکراہٹ تھی جو مجھ پر ذرا بھی سرور نہیں لا رہی تھی کیونکہ میں اب تلک اپنی ذہنی سوچوں سے لڑ رہا تھا۔
امی نے چھاتیوں پر دوپٹّہ بھی نہیں لیا ہوا تھا۔
امی نے کھانا رکھا ، میں اٹھ کر بیٹھا اور کھانا کھانے لگا۔
امی نے میرے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور کہا : کیا ہوا رافع؟
اتنے چپ کیوں ہو ؟
میں چپ رہا اور نیچے منہ کر کے کھاتا رہا ۔۔۔
تھوڑی دن پہلے جو غصے کی وجہ سے میں اتنا ہنگامہ کرتا تھا ، آج اس گناہ میں بذاتِ خود مبتلا ہونے کے بعد لگتا تھا میری آواز ہی بند ہوگئی۔
امی نے پھر بولا : زیادہ نہیں سوچتے اس بارے میں ۔
جو ہوا اس پر زیادہ سوچو گے تو سر میں ہی درد ہوگا۔
پھر امی اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
جاتے جاتے مجھے انکو دیکھنے کی ہمت تک نہیں ہوئی۔۔۔
میں نے کھانا کھا کر چائے پی اور باہر نکل گیا۔
ان دنوں نئے بٹنوں والے موبائل کا دور دورہ ہوا تھا،، ہر آدمی کے پاس تقریباً نوکیا تینتیس دس بٹنوں والا موبائل لازمی ہوتا تھا۔۔۔
میں نے بھی موبائل چھ ماہ پہلے ہی خریدا تھا اپنے پیسوں سے۔
موٹرسائیکل لے کر گھر سے باہر نکلا گراؤنڈ جا ہی رہا تھا کہ موبائل کی بیل بجی میں نے موٹرسائیکل روک کر موبائل اٹھایا تو دیکھا آفس سے فون تھا ، میں نے بٹن دبا کر فون کان کو لگایا دوسری طرف سے آئی : آپ رافع بات کررہے ہیں ؟
میں : جی سر ۔
شخص : آپ اکثر چھٹیاں کررہےہیں ؟
رافع : سر میری طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں اسی لئے اسی ہفتے کی ہے تین چھٹیاں ۔
شخص : یہ کوئی سرکاری ادارۂ نہیں آپ جب چاہے کام پر آئیں اور جب چاہا چھٹی کرلیں ۔
آپنے مزید چھٹی کی تو آپکو کام سے نکالا بھی جاسکتا ہے،، سمجھ گئے آپ؟
میں سرسراتے ہوہئے : سررر للل لیکن ۔
سر : لیکن ویکن کچھ نہیں ۔
اگر آپنے مزید چھٹی کی تو آپکو جاب سے نکال دیا جائے گا۔
یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔۔۔
ابو کے مرنے کے بعد مجھے جاب اسٹارٹ کیے ایک سال ہی ہوا تھا ،، تاکہ گھر کا اور اپنا تھوڑا خرچہ سنبھال سکوں۔۔۔
میں نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ موبائل فون جیب میں رکھا اور اپنے دوست احتشام کو کال ملا دی ۔
رافع : ہیلو احتشام یار کہاں ہے تو؟
احتشام : ہاں بول جانی کیا ہوا؟
رافع : ابے مل تو سہی پھر بتاتا ہوں ٹینکی گراؤنڈ میں آجا۔۔۔
میں بھی وہیں آرہا ہوں۔
احتشام : ابے بات کیا ہے بول تو سہی؟
میں ابھی نہیں آسکتا۔
رافعع : اچھا چل ٹھیک ہے پھر کسی دن ملیں گے۔۔
احتشام میرے گھر سے تھوڑا دور ہی رہتا تھا ، اور میرا سب سے اچھا دؤست تھا ۔
میر گھر کا ماحول اتنا تنگ نظر نہیں تھا اسلئے ہماری دؤستی گھر تک کی تھی اور اسکی اور میری امی کی اچھی دوستی ہوچکی تھی پچھلے چار سالوں سے۔
میں نے موبائل پھر سے جیب میں رکھا اور گھر آکر سیدھا کمرے میں گھس گیا۔۔
تھوڑی دیر لیٹا رہا اور کتابیں اٹھا لی۔
میرا دماغ پڑھائی سے بھی بالکل غائب ہوچکا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد کمرے میں آہٹ ہوئی تو امی کمرے سے اندر آئیں اور آکر میرے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔
میں نے امی کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا،، میری نظریں اٹھانے کی ہمت بھی نہیں ہورہی تھی۔۔
امی میرے پاس بیڈ کی سائڈ ہو کر بیٹھیں اور میرے سر کے ییچھے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں : رافعع تم آج بھی جاب پر نہیں گئے؟
میں منہ نیچے کرکے : نہیں اممی ک کل جاؤنگا۔
امی : تم مجھ سے ناراض ہو کیا؟
میں : میں نے کیوں ناراض ہونا ہے امی؟
امی نے میرے کان کی لو کو ہاتھ کی انگلی سے چھیڑا تو میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی۔
امی نے میرے گلے میں پیچھے سے ہاتھ رکھتے ہوئے سر کی طرف سے پکڑ کر میرا سر سائڈ میں بیٹھے بیٹھے اپنے سینے سے لگا لیا۔
میرا منہ دؤسری طرف تھا اور امی میرا سر تھپتھپا رہی تھی۔
میں امی کی اس اچانک حرکت سے شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا۔
مجھے امی کی جسم کی گرمی اور انکی بھاری چھاتیوں کی اٹھان سر کے پچھلے حصے پر پھر سے محسوس ہونے لگی۔
میں نے امی کی طرف بناء دیکھے ہوئے خود انکے سینے سے اٹھا اور نیچے کتاب کی طرف منہ کرکے بولا : امی مجھے پڑھنے دیں ، امی کو سمجھ آگئی تھی شاید کہ میں اب تلک کس کیفیت میں مبتلا ہوں۔
وہی کیفیت جو سالوں پہلے شاید امی پر کبھی طاری ہوئی ہوگی جب امی نے عالیہ باجی اور ابو کو بدکاری کرتے پکڑا تھا۔۔
وہی کیفیت جو انسان کو پہلے گناہ کے بعد ہوتی ہے۔
امی نے میری بات سن کر مجھے مزید کچھ نہیں کہا اور کمرہ بند کر کے چلی گئی۔
امی کے جانے کے بعد میں نے کتابیں ٹیبل پر پھینکیں اور پھر سے مجھے اپنے آپ یر غصّہ آنے لگا۔۔
میں اب سوچنے لگا کہ اب کس منہ سے امی کو کچھ کہوں یا طعنہ ماروں جبکہ میں خود اب بڑے گناہ کا شکار ہوچکا۔؟
اگلے لمحے میرے نفس نے میرے گناہ پر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا : اسکو ایک نارمل اور عام سی بات سمجھو جیسے امی سمجھ رہی۔
لیکن نارمل بات؟
آخر نارمل کیوں ۔؟
ہاں جب تک نارمل اور عام سا واقعہ سمجھ کر بھولو گے نہیں تو بس یونہی خود کو کوستے رہو گے۔
گناہ و ثواب کے چکر چھوڑو جو ہورہا ہے ہونے دو۔
میری ذہن میں جب یہ سوچ آتی کہ گناہ اور ثواب کے چکر چھوڑوں مجھے اپنی اس سوچ پر بھی غصّہ آنے لگا کہ یہ کیا واہیات میں سوچ رہا ہوں؟
یہی سوچتے سوچتے میں نے ذہن کو جھٹکا اور کہا مزید نہیں سوچونگا۔
اور مزید نہ سوچنے کے خیال سے تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔۔
( جاری ہے )


زبردست ا
گندا خاندان
قسط 07
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )
پیشکش-اردو سٹوری ورلڈ





دن گزرتے گئے میں صبح روٹین سے کالج اور کالج سے سیدھا کام پر جاکر رات کو گھر واپس آنے لگا۔
کام سے واپس آکر اتنی تھکن ہوجاتی تھی کہ کتابیں کھول کر پڑھنے کا بھی وقت نہیں مل رہا تھا۔۔۔
میٹرک کے امتحانات میں میری پچھتر پرسنٹیج بنی تھی ۔
میں پڑھنے میں ایک ایوریج بچہ تھا نہ بہت اچھا نہ برا۔
امی کے ساتھ اس دن کے ہوئے جسمانی لمس کے بعد میں اب امی سے کٹا کٹا ہی رہنے لگا۔
مجھ پر اب تلک یہ سوچ پنپتی تھی کہ جو ہوا غلط ہوا اور ایسا مزید نہیں ہونا چاہیے ۔
امی بھی کبھی اداؤں اور اشاروں سے گھر میں مجھے اپنی طرف مائل کرنے لگتی تھی لیکن میں دیکھ کر ہی گزر جاتا تھا ،، امی بھی پھر زیادہ زور نہیں دے رہی تھیں کیونکہ عورتوں کی یہ فطرت ہوتی ہے وہ زبان سے نہیں اشاروں اشاروں سے ، اداؤں سے سب کچھ کہدیتیں ہیں ۔
اپنی زلفوں کے جال میں پھانس لیتی ہیں ۔
دن گزرتے گئے اور میرے فرسٹ ائیر انٹر کے امتحانات قریب آگئے۔
میں نے کالج سے جاکر ایڈمٹ کارڈ لیا ۔۔۔
اور امتحانات اپریل میں تھے۔۔
امی کے ساتھ گزرے واقعے کو تقریباً چار مہینے ہوگئے تھے۔۔۔
امی بھی بس کمرے میں ناشتہ اور کھانا دینے آتیں اور کبھی ماہم اور زرین دے کر چلی جایا کرتی۔۔۔
عالیہ باجی سے بھی بات ہوئے کافی ٹائم ہوگیا تھا جبکہ زنیرہ باجی سے بات بہت کم ہوتی تھے ۔۔
زنیرہ باجی کی شادی لاہور میں ہوئی تھی ۔۔۔
انکے شوہر کا نام شہیر ہے۔
زنیرہ باجی کے بچے ۔۔
آلیان ( عمر دو سال )
انم ( عمر ایک سال )
زنیرہ باجی کو گھر آئے دو سال ہونے کو آئے تھے،، اب بس امی سے انکی فون پر بات چیت ہوجایا کرتی تھی۔۔۔
رفتہ رفتہ میرے امتحانات قریب آگئے۔۔
امی میری اور بھی زیادہ فکر کرنے لگیں تھیں امتحانات کی وجہ سے اور میری کوئی خاص تیاری نہیں تھی۔۔03239782820
مجھے ڈر تھا کہ میرے امتحانات اچھے نہیں ہونگے۔۔۔
امی اور فہد کا وہ راتوں کا ہوس کا کھیل بھی اب بند تھا ۔۔۔
لیکن مجھے شکوک شبہات پھر بھی تھے اور میں اکثر جاسوسی کی آڑ میں کبھی کبھار کمرے کے باہر جھانک کر دیکھا کر تا تھا۔۔۔
میرا کمرہ بیچ میں تھا جب کے امی اور فہد کا کمرہ میرے دائیں بائیں تھا اسلئے کمرے سے نکل کر کوئے دؤسرے کمرے میں جائے تو مجھے بھنک ہوجاتی تھی۔۔
یہ اسی رات کا واقعہ ہے جب میں اگلے دن کے کیمسٹری کے پیپر کی تیاری کررہا تھا۔۔
اب گرمیاں آچکیں تھیں ۔۔۔
رات کے دو بج رہے تھے۔
میں نے اپنے کمرے کا دروازہ آدھا کھول رکھا تھا کہ مجھے امی کے کمرے کے دروازے کھلنے کی آہٹ ہوئی ۔۔
میں چوکنا ہو کر کھڑا ھوگیا ، اگلے ہی لمحے مجھے فہد کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آہٹ ہوئی اور یکدم دروازہ بند ہوگیا۔
میں سمجھ گیا آج اندر پھر وہی ہوس کا ننگا ناچ ہوگا ۔
میں نے غصّے میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔
کتابوں سے دماغ بالکل غائب ہوچکا تھا ، اگلے ہی لمحے مجھے میرے نفس نے ملامت کی کہ : اب کس منہ سے تو خود کو نیک پارسا سمجھ رہا ہے؟
اور کیوں تجھے امی اور اپنے بھائی فہد کے اس ہوس کے گندے کھیل پر غصّہ آرہا ہے جبکہ تو خود بھی امی کے ساتھ وہی گندا کھیل ایک مرتبہ کھیل چکا ہے۔
اسی سوچ نے میرے اندر کی شرمندگی کو پھر سے میرے سامنے لا کھڑا کیا ۔۔۔
میں خود سے اندر ہی اندر باتیں کررہا تھا ۔
لیکن کیا میں نے وہ سب کی ارادی طور پر کیا تھا؟
وہ سب امی کے اکسانے سے غیر ارادی طور پر ہو گیا تھا ورنہ کبھی نہ ہوتا۔
اگلے ہی لمحے پھر دماغ نے جھٹکا دیا تو کیا تجھے کوئی عورت اکسائے گی اور تو اسکی طرف لپک پڑے گا بجائے کوئی خود پر کنٹرول رکھنے کے؟
لیکن کنٹرول کیسے رکھتا آخر؟
عورت کے جسم کے نشیب و فراز ہی ایسے ہوتےہیں ۔
اسکی اتار چڑھائیاں اچھے اچھوں کی شلواریں اتار دیتی ہیں ۔
نیک پارساؤں کے لوڑوں کے ابھار شلوار کے اوپر سے ہی نظر آنے لگتے ہیں ۔۔۔
ایک طرف شیطانی دماغ مجھے میرے کیے پر حوصلہ دے رہا تھا کہ جو ہوا اچھا ہوا ۔
دوسری طرف میرا پارسا دل اس سوچ پر غالب آرہا تھا کہ جو ہوا بہت ہی برا ہوا اور نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وہ پہلا اور آخری گناہ تھا اب تجھے توبہ کرنی چاہیے اور دوبارہ ایسا گندہ کام نہیں کرے گا۔
میں خود کو دلاسے بھی دینے لگا،، اور خود کو بیک وقت کوسنے بھی لگا۔۔۔
میں نے کتاب اٹھا کر سائڈ میں رکھی ۔۔۔
رات کے ڈھائی بج رہے تھے،، تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی شخص مجھے ایک کمرے سے دوسرے میں جاتا ہوا نظر آیا۔
میں سمجھ گیا کہ امی اب اپنی پیاس بجھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں ۔۔
مجھے امی کے اس دیدہ دلیری والے گناہ پر اس قدر حیرانی تھی کہ بسسس۔
مجھے یہ سب بہت بعد میں جاکر سمجھ آیا کہ کیوں آدمی اتنا دیدہ دلیر ہوجاتا ہے اور ان سب گندے کاموں کو ایک عام چیز سمجھ کر سر انجام دینے لگتا ہے ۔
جیسے یہ کام ہر ایک کےلیے بہت ہی سطح پن کی سی چیز ہوں۔۔۔
میں نے امی سے اس بارےمیں مزید بات کرنے کا سوچا کہ تھوڑے دن بعد پیپرز ختم ہوجائیں پھر کوئی بات کرونگا۔
اگلے دن کیمسٹری کا پرچہ تھا اسلئے میں یہ سب سوچیں لیے پھر سے نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔
جاری ہے



گندا خاندان
قسط 08
( ایک انسیسٹ گھریلو کہانی )



کچھ دن بعد پیپرز ختم ہؤگئے۔
امی اور میرے درمیان زیادہ بات چیت نہیں ہورہی تھی، بس روٹین کا گھر سے آنا جانا وہی معمولاتِ زندگی ۔
پیپرز ختم ہونے کے اگلے دن میں نے جاب سے چھٹی کی اور اپنے کمرے میں ناشتہ کرنے کے بعد آرام کرنے لگا۔
تھوڑی لیٹ کر سستانے کے بعد میں نے کمپیوٹر آن کیا اور اس پر گیم کھیلنے لگا۔
میں گیم کھیلنے میں مگن تھا کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا میں نے مڑ کر پیچھے تو امی کمرے میں آتی ہوئی نظر آئیں ۔
میں آگے منہ کرکے پھر سے گیم کھیلنے میں مگن ہوگیا۔
پیچھے سے آکر امی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے پاس بیٹھ گئیں ۔
میں امی کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
امی نے ہی بات شروع کی ۔
رافع پیپرز کیسے ہوئے تمہارے سارے۔
میں نے آگے منہ کرکے ہی جواب دیا : اچھے نہیں ہوئے بس سہی ہوئے۔
امی کے ساتھ اس دن ہوئے واقعے کے بعد پتہ نہیں کیوں میری زبان سے انکے لئے امی کے الفاظ نہیں نکلتے تھے اور اب میں ہوں ہاں میں جواب دینے لگا تھا اور امی بھی مجھے اکثر رافعع ہی کہا کرتیں ، بیٹے کا لفظ اکثر کبھی استعمال کرتی کبھی نہیں اور اسکی وجہ صورتحال کے حساب سے جائز بھی تھی،، آپسی رشتوں کا برہم اور عزت ختم ہوجاتا ہے یہ سب کرنے کے بعد لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ برہم بعد میں کسطرح قائم رہے گا یا پھر سے میرے اور امی کے درمیان وہی ماں بیٹے کا کھویا ہوا مقام کبھی واپس آ بھی سکے گا یا نہیں ۔
اسطرح کے کام دو جنسی عاشق ہی آپس میں کرسکتے ہیں ماں بیٹے کرلیں تو بیٹا بول کر یا ماں بول کر ایک دوسرے کے جسموں سے استفادہ حاصل کرنا رشتوں کے تقدس کو پامال کرتا ہے اور سامنے والا شخص پھر صرف ایک صنفِ مخالف اور جنسی اور جسمانی فائدہ حاصل کرنے کی دوکان نظر آتا ہے۔۔

امی میرا جواب سن کر بولیں : کیوں رافع؟ اچھے کیوں نہیں ہوئے پیپرز؟ ۔
رافع : تو اور کیا اچھے ہونے چاہیے تھے؟
یہ بات میں نے آگے گیم کھیلتے کھیلتے ہی کہی میں کمپیوٹر پر جی ٹی اے وائس سٹی Gta Vice city گیم کھیل رہا تھا اس وقت یہ گیم نئی نئی آئی تھی اور اسکا دور دورہ تھا ہر جگہ۔۔۔
پھر میں نے کہا : کالج کے بعد سیدھا کام پر جاؤ، پھر رات کو تھکا ہارا گھر پر آؤں ، پڑھنے کا ٹائم ہی کہاں ملتا ہے؟۔
امی نے میرا یہ جواب سن کر بولا : تو رافعع اپنی پڑھائی کا نقصان مت کرو ،
میں نے پیچھے گردن گھما کر امی کی آنکھوں میں دیکھا اور استفسار سے پوچھا : تو کیا جاب چھوڑ دوں؟
امی : بیٹا پڑھائی کا نقصان بھی تو ہوگا ۔
رافع : تو خود کا خرچہ بھی تو چلانا پڑتا ہے کیا کروں اب۔
امی : بیٹا کال سینٹر کو چھوڑ کر اس سے اچھا تم ٹیوشن پڑھانا شروع کرو،، کال سینٹر میں اتنی دیر ڈیوٹی کرتے ہؤ،، ٹیوشن تین گھنٹے بھی پڑھاؤ گے تو ٹھیک رہے گا اور خود کی پڑھائی کےلئے بھی اچھا ہوگا۔۔
رافع : لیکن ٹیوشن پڑھانے سے اتنے پیسے نہیں بنیں گے۔۔
امی : ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی پڑھائی پر فوکس کرو اور گھر کے خرچے کی زیادہ فکر مت کرو۔۔
میں کچھ اور بھی سوچ رہی ہوں،، ابھی فہد اور ماہم جاب کررہے ہیں نا ، کرایہ بھی آجاتا ہے، ابھی تم اسلئے زیادہ فکر مت کرو۔۔۔
اور اپنی پڑھائی پر فوکس کرو۔۔
امی نے یہ کہہ کر میرا سر اپنے گردن سے لگا کر میرے چہرے پر پیار کیا۔۔
مجھے اپنے بدن میں کرنٹ سا لگا۔
امی کی تجویز مجھے تھوڑی اچھی تو لگ رہی تھی ،،، میں نے سوچا کچھ دنوں میں بس جاب چھوڑ ہی دیتا ہوں۔۔
یکدم میرے دل و دماغ میں پچھلے مہینوں کے واقعات جا بجا آنے لگے اور میں سوچنے لگا ،، امی سے بہت سارے سوالات کرنے تھے۔
میں نے امی کے سینے سے لپٹے اپنے بازو انکی کمر کے گرد باندھ دیے ، امی کے جسم میں بھی جھرجھری سی ہوئی ۔
کیونکہ انکی چھاتیاں
میرے بازوں سے دبی ہؤئیں تھیں ۔
میں نے دریافت کیا : امی مجھے کچھ باتیں پوچھنی تھیں آپسے۔
امی میرا سر سہلاتے ہوئے : پوچھو ۔
رافع : امی میں نے آپکو کہا تھا میں اپنی پھپھوؤں اور چاچا کے گھر جانا چاہتا ہوں،، اب پیپرز ختم ہوگئےہیں اسلئے اب یہ ٹائم سہی جانے کا۔۔
امی : ہاں بیٹا مجھے یاد تو تھا، میں نے عالیہ سے بھی بات کی تھی وہ کہہ رہی تھی ضرور چلیں گے۔۔۔
رافع : امی تو کب چلیں پھر رحیم یار خان؟
امی : چلتے ہیں ایک ہفتے تک لیکن فہد سے پوچھنے دو ،
مجھے امی کی یہ بات سن کر تھوڑا غصّہ تو آیا لیکن میں نے ضبط کرتے ہوئے امی سے کہا : امی اب فہد سے کیا پوچھنا ہے؟
کیا آپ اس سے پوچھنے کی مجازی ہیں ؟ یہ بات میں نے امی کے سینے سے اٹھتے ہوئے انکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو امی نے میری آنکھوں کی تشنگی کو تکتے ہوئے منہ نیچے کرکے کہا : نہیں میں ویسے ہی کہہ رہی ہوں اسکو بھی تو بتادیں ، اور عالیہ کہہ رہی تھے وہ بھی جائے گی۔
سب کا جانا تو ممکن نہیں گھر پر ماہم اور زرین کے پاس کسی کو رکنا بھی پڑے گا،، ۔
رافع : ہاں تو فہد ہے نا رکنے کےلیے ۔
امی : ہاں رافع ،، پر ایک بار مجھے اس سے بات کرنے دو۔
رافع : اچھا ٹھیک ہے۔
آپ عالیہ باجی کو بلا لیں پھر، اتنے مہینے سے نہیں آئی وہ بھی۔
امی اشتیاق سے ہنستے ہوئے : کیوں اب بہن کی یاد آرہی ہے؟
میں نے امی کی طرف گھورتے ہوئے کہا : کیا مطلب ہے یاد آرہی ہے؟
ظاہر ہے تو وہ میری بڑے بہن ہے یاد تو آئے گی۔
امی : ہاں ہاں جانتی ہوں ۔
ویسے میرے بچے تم پل پل غصّہ مت کیا کرو ، دماغ پر زیادہ زور مت دیا کرو ورنہ یونہی دماغ پر زور پڑنے سے کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا زندگی میں ۔۔
بس مثبت سوچا کرو۔۔
رافع : امی میں مثبت ہی سوچنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کوئی نہ کوئی بات مجھے غصّہ دلا دیتی ہے ۔
امی : اب کس بات پر غصّہ ہے تمہیں ؟
میں نے امی کی طرف ایک لمحے کےلئے نظریں اٹھا کر دیکھا اور پھر نیچے منہ کرکے اپنے ھاتھ مسلتے ہوئے کہا : ابھی کچھ دن پہلے آپنے فہد کے ساتھ پھر وہی سب کیا؟
امی نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا : تو کیا کروں رافعع ، تم تو وقت نہیں دے رہے تھے اپنی ماں کو۔
مجھے امی کی یہ بات سن کر حیرت کا ایک جھٹکا لگا اور کہا : کیا مطلب ہے امی آپکا ؟
امی : کچھ نہیں بس میں جارہی ہوں۔
میں نے امی کا ہاتھ پکڑ کر زور سے کھینچا اور امی بے دھڑام سی ہو کر بیڈ پر گر پڑیں جس سے بیڈ پر بچھا گدا بھی ایک لمحے کےلئے جھول کھا گیا۔۔۔
میں نے پانچ چھ سیکنڈ چپ اختیار کی اور پھر بولا : امی اس دن ہمارے بیچ جو کچھ بھی ہوا وہ اب میں دوبارہ نہیں کرنا چاہتا اور آپ بھی فہد کے ساتھ وہ سب کرنا چھوڑ دیں ۔
امی بیڈ سے اٹھتے ہوئے مجھے کہا : رافع کوئی بھی بالغ انسان اس سب کے بغیر نہیں رہ سکتا یہ تمہیں رفتہ رفتہ سمجھ آجائے گا پھر تم ایسی باتیں نہیں کرو گے۔
پھر امی نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا : میں تمہیں کبھی دوبارہ نہیں اکساؤنگی اس چیز کےلیے ۔
اور تم میرے بیٹے ہو اور ہمیشہ رہو گے نہ ہی تم کو کبھی برا کہونگی۔
اگر تم بھی ماں سمجھتے ہو مجھے تو مجھے نفرت بھری نگاہوں سے مت دیکھنا ورنہ ایک وقت آنے پر خود پچھتانا پڑتا ہے بیٹا۔
اب میں جارہی ہوں گھر کے کام کرنے ہیں ۔
کسی چیز کی ضرورت ہو تو اپنی اس گندی امی کو ضرورت یاد کر لینا۔۔
یہ بات بول کر امی کمرے سے نکلی تو
امی کے کہے ہوئے آخرے جملے نے مجھے خود کی نظروں میں شرمندہ کردیا تھا کہ " گندی امی کو ضرور یاد کرلینا " میرے دل و دماغ میں پھر سے جنگ چھڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ واقعی مجھے اب ان لوگوں سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے ، میں کچھ زیادہ ہی وبال کھڑا کررہا ہوں اور ان چیزوں پر ضرورت سے زیادہ سوچ رہا ہوں،، لیکن بسا اوقات انسان کا ان چیزوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔۔۔
یہی سوچتے سوچتے میں نے کمپیوٹر بند کیا اور کمرے سے باہر نکل کر گراؤنڈ میں چلا گیا..

جاری ہے۔۔
BHT interesting story ha yrr plsss next update jldi dna. Waiting.....
 

Top