- 44
- 96
- 18
کچی کلی
قسط (8)
مجھے ایسے لگا جیسے میری سگی ماں مر گئی ہو میں بہت عرصے بعد روئی تھی خود دکھوں سے چور اس خاتون نے مجھے پل پل عزت دی احترام دیا پیار دیا بابا جی بھی بہت اچھے تھے لیکن اس خاتون نے مجھے مرا ہوا اٹھایا تھا اور دیسی ٹوٹکوں سے مجھ میں جان بھر دی تھی میں صحت مند ہو چکی تھی مجھے اماں نے جینا سکھا دیا تھا اور خود مر گئی تھی میں کئی دن تک روتی رہی تھی ان کے گھر محلے داروں کے علاوہ کچھ دور دراز کے مہمان بھی آئے تھے جن میں کچھ خواتین کو باباجی نے روک لیا تھا انہی خواتین میں میری ہم عمر ایک لڑکی آئی تھی جسے کسی حد تک اردو بولنا آتا تھا میں لمبے عرصے سے بولنا بھول چکی تھی اور اب اماں اور بابا کے ساتھ گونگوں والی زندگی گزار رہی تھی جہاں تقریباً ہر بات اشارے اور مسکراہٹ سے ہوتی تھی کچھ روز بعد ہی بابا جی کے گھر کچھ مرد مہمان آئے تو میری دوست اس لڑکی نے جو اردو بول سکتی نے بتایا کہ بابا جی میری شادی کر رہے ہیں وہ چاہتے تھے کہ۔مہمانوں کے جانے سے قبل میں اپنے گھر چلی جاؤں کیونکہ اماں کی وفات کے بعد وہ مجھے اکیلا نہیں رکھنا چاہتے تھے میں ایک بار پھر وسوسوں کا شکار ہو گئی میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں یہی اسی گھر میں مر جاؤں گی اور یہاں سے کبھی نہیں نکلوں گی لیکن ایک دم سے حالات نے ایک بار پھر کروٹ لے لی تھی میں بابا جی کو انکار نہیں کر سکتی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے زندگی دی تھی بہرحال لفظ شادی اب سے پہلے کی زندگی سے بہت حوصلہ افزا تھا اور میں خاموش رہی ان کی رسم و روایات کے مطابق مجھے دو لاکھ کے عوض میرا ایک مولوی ٹائپ بندے سے نکاح کر لیا تھا مجھے اسی لڑکی نے بتایا تھا کہ میں اب تک وزیرستان کے آخری حصے یعنی افغان بارڈر کے قریب تھی اور اب بیاہ کر بنوں جا رہی تھی بنوں ایسا شہر تھا جس کو نام میں جانتی تھی کراچی میں ہمارے محلے میں ایک کرایہ دار فیملی کا تعلق بنوں سے تھا اور اس گھر کی خاتون میری امی کی دوست رہ چکی تھی اگلی صبح مجھے دو سوٹ کپڑوں کے ساتھ اس گھر سے روانہ کر دیا گیا تھا میں بابا جی سے اور بابا جی مجھ سے حقیقی بیٹی کی طرح تڑپ کر ملے تھے اور ہم بہت دیر روتے رہے تھے میرے میاں کا نام نظام تھا اور میرے ساتھ اس کی دوسری شادی تھی پہلی بیوی سے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اس کی بڑی بیٹی میری ہم عمر تھی اس کی پہلی بیوی بیمار رہتی تھی اس کا بیٹا میرے سے دوسال بڑا تھا ایک خاتون کے ساتھ میں اپنے میاں نظام کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے کسی فرد نے مجھے برداشت نہیں کیا نظام کی عمر اس وقت 45 سال تھی اور میں شاید 16 برس کی ہو چکی تھی میں نے پچھلے تقریباً تین سال ایک ڈرونے خواب جیسے گزارے تھے ۔۔۔ مجھ سے ملنے کوئی نہیں آیا اور نظام کے بچوں نے اس سے بھی منہ موڑ لیا وہ اپنی ماں کے ساتھ اس کے کمرے میں ہوتے تھے نظام نے مجھے سمجھایا کے وقت کے ساتھ یہ ٹھیک ہو جائیں گے وزیرستان سے ہمارے ساتھ آنے والی خاتون جو نظام کی بہن تھی شام سے قبل اپنے گھر چلی گئی تھی شام کے بعد نظام بازار سے کھانا لینے گیا تو اس کی پہلی بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ میری کمرے میں آ گئی اور اپنے بیٹے سے پشتو میں بات کرتی اور اس کا بیٹا اردو ٹرانسلیشن کے ساتھ مجھے کہتا خہ اےے لڑکی میری امی کہتی ہے یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ میں تیرا قیمہ بنا کے نظام کو ہی پکا کے کھلا دونگی ۔۔ وہ کچھ دیر کھڑے اپنے بازو ہوا میں لہرا کر مجھے دھمکیاں دے رہے تھے نظام کی تینوں بیٹیاں بھی اپنی امی اور بھائی کے ساتھ کھڑی تھی میں سر جھکائے اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی یہ لوگ میرے اس کمرے سے چلے گئے تھے جس کے تھوڑی دیر بعد نظام آ گیا تھا اس نے مجھے روتا دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا کسی نے کوئی بات بولی ؟؟ میں نے اس کے بار بار کے اصرار پر بس روتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے اور اس گھر کا۔ماحول جنگ زدہ ہو گیا نظام کے بلند آواز سے باتیں کرنے سے شاید پورا محلہ دھل گیا تھا وہ کچھ دیر بعد غصے سے کانپتا کمرے میں آ گیا تھا میں نے اس کے ساتھ ہلکا سا کھانا کھایا اور اس سے باتیں کرتی رہی نظام کو بابا جی نے بتایا تھا کہ میں ان کو کیسے ملی تھی نظام نے پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی سے اغواء ہوئی تھی اور اغواء کاروں نے مجھے جہاں رکھا تھا میں اسی رات وھاں سے بھاگ نکلی تھی میں زخمی ہو گئی تھی پتھروں سے ٹکراتے ہوئے اور سردی سے بےہوش ہوکر کہیں گری پڑی تھی کہ اس بزرگ جوڑے نے مجھے اٹھایا اور گھر لے گئے نظام بہت بڑی جسامت کے مالک تھے رات کو باتوں کے دوران اس نے مجھے اپنی گود میں بھر لیا تھا میں اس وقت کافی صحت مند ہو چکی تھی میری جلد شفاف ہو گئی تھی پیٹ کم ہو گیا تھا اور جسم میں طاقت بھی محسوس ہوتی تھی اس بزرگ جوڑے نے مجھے بہت پیار سے رکھا تھا میرا علاج بس وہی کڑوا قہوہ تھا جسے امں کاڑھا بولتی تھی جو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک چلتا رہا اور اماں کی موت تک مجھے ہر رات کو سونے سے قبل اس کاڑھے کا ایک کپ پینا ہوتا تھا ۔۔۔نظام نے مجھے کسنگ شروع کر دی تھی اور وہ کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح آگے بڑھ رہا تھا میرے بوبز پر اس کے چلتے ہاتھوں نے مجھے بہت عرصے بعد مزے کی وادیوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تھا وہ میرا سارا لباس اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا گیا اور اپنے کپڑے اتار کر تیل کی بوتل کے ساتھ بیڈ پر آ گیا اس کا ببلو تقریباً سات انچ تھا لیکن موٹا کافی تھا مجھے کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس جیسے بہت سے ببلو میں پہلے گزار چکی تھی اب ایک ہی تھا اور شادی سکون اور فخر کا نام تھا میں نے اب سے کچھ دیر پیدا ہونے والے حالات خو ذہن سے نکال دیا اور اس ماحول کو انجوائے کرنے لگی نظام میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ببلی کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے کھول کر دیکھنے لگا میں گھبرا چکی تھی کیونکہ میری ببلی بہت گھٹن حالات کا سامنا کر چکی تھی نظام نے اپنا جھکا سر اوپر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے ببلو پر تیل لگا کر ببلی خے ہونٹوں میں پھیرتا ہوا اندر اتارنے لگا۔۔ مجھے بالکل ویسے درد ہونے لگا جیسے شروع کے دنوں میں اسد کے ساتھ کرتے ہوئے ہوا کرتا تھا ایسا کیوں ہے کیا لمبے عرصے تک سیکس نہ کرنے کے سبب ایسا ہو رہا تھا یا اس دیسی کاڑھے کے سبب ایسا ہوا تھا یس قدرت مجھے شرمندگی سے بچا رہی تھی بالکل میرا کنوارہ پن اتر آیا تھا نظام جیسے ببلو سے بڑے ببلو آسانی سے میری وادی کا سفر کیا کرتے تھے لیکن آج بہت تکلیف کے ساتھ کچھ ایسا مزہ آنے لگا تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا اسد کے ساتھ کچھ عرصہ میں نے انجوائے کیا تھا کیونکہ اس وقت تک حوس کا بھوت مجھ پر ابھی سوار تھا لیکن اس کے جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ دھرانے کے قابل بھی نہیں نظام بغیر رکے اپنا ببلو لبالب مجھ میں بھر گیا میری مستی بھری آوازوں میں وہ میرے اوپر لیٹ کر جھٹکے لگانے لگا مزے کی لہروں میں میں نظام کو اپنی باہوں میں بھر رہی تھی وہ نارمل ٹائم میں اپنا پانی مجھ میں بھر گیا اور کچھ دیر میں مجھ سے الگ ہو کر پھر سے باتیں کرنے لگا نظام مجھ سے مطمئن ہو چکا تھا اور میرے لئے لگایا دو لاکھ روپیہ کارآمد تصور کر رہا تھا رات ایک بجے اس نے دوسرا شاٹ لگایا اور پھر ہم نہا کر سو گئے صبح سے پھر ٹینشن نے گھر میں ڈیرے ڈال لئے نظام اور اس کی بیوی بچوں سے جھڑپیں چلتی رہی محلے کی ایک دو خواتین مجھے دیکھنے آئیں تھی اور یہاں کے رواج کے مطابق کچھ پیسے دے کر گئیں تھیں اگلے روز خواتین کا ہجوم ہمارے گھر امڈ آیا تھا سب مجھے دیکھ کر نظام کی قسمت پر رشک کر رہے تھے میں واقعی بہت حسین ہو گئی تھی بس گزرے دنوں کی جب یاد آتی تو میرا دل تڑپ جاتا اور ٹرک عملے کے ساتھ اسد اور شفیق کےلیے میرے لبوں سے بدعائیں نکل جاتی تھیں بلال کا کچھ معلوم نہ ہو سکا تھا اور وہ ایک بھولی۔داستان بن گیا تھا ٹینشن زدہ ماحول میں میں نے چھ ماہ گزار دئیے تھے محلے کی ایک خاتون مجھے کہہ گئی تھی کھ آپ محتاط رہا کرو کسی دن یہ لوگ تجھے قتل کر دیں گے گھر میں موجود نظام کے بیوی بچے ہمہ وقت مجھ پر۔نظر رکھتے تھے اور ایک روز میں نے تنگ آ کر نظام سے الگ گھر کی فرمائش کر دی وہ مان گیا تھا لیکن کچھ عرصے تک انتظار کا۔بولا ۔۔۔ میں نے گھر والوں کے دل میں اپنی محبت پیدا کرنے کے سو جتن کئے تھے لیکن ناکام رہی اب مجھے ان کی نظروں سے وحشت ہونے لگی تھی مجھے واقعی لگتا تھا کہ یہ مجھے نظام کی غیر موجودگی میں قتل کر دیں گے انہی دنوں نظام کا بیٹا اقبال گھر سے بھاگ گیا تھا اور کسی محلے والی خاتون کو میرے لئے پیغام دے گیا تھا کہ اب میرا انتظار کرنا تمھارے ٹکڑے واپس کراچی پہنچاؤں گا اور اگر میرا باپ بھی رستے میں آیا تو اسے بھی قتل کر دونگا یہ دن بہت اذیت کے تھے کئی دن تک گھر میں فساد برپا رہا نظام اپنی پہلی بیوی کو قصور وار ٹھہرا رہا تھا کہ دوسری شادی میرا حق ہے اور بیٹے کو میرے خلاف بھڑکانے میں اس کا کردار ہے جبکہ اس کی بیوی اس کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی میں اب پشتو سمجھ لیتی تھی اور کسی حد بول بھی لیتی تھی نظام بہت دن سے میرے پاس تھا اور کام پر نہیں جا رہا تھا ایک روز نظام کے کچھ رشتے دار گھر آئے اور کئی بار اس کے اور اس کی بیوی کے پاس جاکر اسے سمجھاتے رہے لیکن وہ نہیں مانی اور اس روز رات گئے ان رشتے کے جانے سے قبل نظام کی بیٹیوں نے بھی دھمکی دے دی کہ اگر ہمارے ابو نے اسے نہ چھوڑا تو وہ بھی گھر سے بھاگ جائیں گی بیٹیوں کی اس دھمکی کے بعد نظام بہت پریشان ہو گیا تھا اور ان رشتے داروں کے ہاتھ بیوی بیٹیوں اور بیٹے کو پیغام دیا کہ مجھے ایک ہفتے کا ٹائم دے دو ۔۔۔ اس سے قبل نظام کے یہ رشتے دار اسے الگ لے جا کر کسی بات پر راضی کر چکے تھے نظام کی آنکھوں میں کچھ الجھن میرے لئے خطرے کی گھنٹی تھی میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا اگر نظام نے مجھے طلاق دے دی تو میں کہاں جاؤں گی رات کو لیٹتے ہوئے میرے لبوں سے بےاختیار اونچی آواز میں امی جی نکلا۔۔۔ صبح نظام کہیں چلا گیا تھا اور میں سارا دن لیٹی روتی رہی نظام نے ابھی تک مجھ سے اس پر کوئی بات نہیں کی تھی لیکن بیٹیوں کی دھمکی کے بعد مجھے یقین تھا کہ وہ بےبس ہو چکا ہے اور مجھے چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے ۔۔۔شام سے کچھ دیر قبل نظام واپس آ گیا تھا اور اسی رات نظام نے مجھے اپنے سامنے بٹھا کر بتا دیا کہ وہ مجھے طلاق دینے جا رہا ہے کیونکہ اگر اس کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک بھی گھر سے چلی گئی تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کا گھر مکمل طور پر برباد ہو جائے گا میں پہلے ہی سب کچھ جان چکی تھی اور سارا دن اس پر رو چکی تھی سو میں کوئی رسپانس دئیے بغیر اپنی قسمت کو کوستے ساکت بیٹھی رہی ۔۔۔ بہت دیر بعد میں نے نظام سے پوچھا کہ مجھے بابا کے پاس پہنچاؤ گے ؟؟؟ بولا نہیں میں تمھاری کہیں شادی کر رہا ۔۔۔۔ ویسے بھی میں کیا کر سکتی تھی میں دکھوں کی عادی ہو چکی تھی میں نے اپنے دوپٹے سے سر کو پٹی کی طرح باندھا جیسے بوڑھی خواتین باندھتی ہیں اور میں نظام سے پہلے سو گئی صبح پھر نظام ایک رشتے دار کے ساتھ کہیں چلا گیا اور شام کو واپس آنے پر کچھ مطمئن تھا ۔لیکن مجھ سے کوئی خاص بات نہیں کی دو روز بعد نظام نے مجھے جی بھر کے سیکس کیا لیکن میرا دل اس سے بھی اکتا چکا تھا اور مجھے اس کا یہ سں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ دوسرے دن اس کے کوئی مہمان آنے تھے اور ان کے گھر میں کھانا تیار ہو رہا تھا اس کی۔بیٹیاں بھاگ بھاگ کے کام کر رہی تھی اور نظام بھی ان کے روم میں بار بار جا رہا تھا اسکی پہلی بیوی نے نیا سوٹ پہنا اور بیٹیوں سے چارپائی میرے کمرے کے سامنے رکھوا کر اس پر بیٹھ گئی اور بار بار مسکرا کر میرے کلیجے پر تیر برسانے لگی مہمان مین گیٹ کے ساتھ والی بیٹھک میں آ چکے تھے کھانے کھلاکے بعد نظام میرے پاس آیا اور مجھے اچھا سوٹ پہن کر آنے کو کہا میں خاموشی سے اپنے کپڑے بدل کر اس کے ساتھ ایسے چل رہی تھی جیسے قربانی کا بیل منڈی جاتے ہوئے اپنے مالک کے پیچھے چلتا ہے بیٹھک میں نظام کے ایک رشتے دار کے ایک رشتے دار کے علاوہ دو اور افراد موجود تھے بڑی مونچھوں والے خوفناک شکل والے اس مرد نے حوس بھری نظروں سے میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا اور بولا ۔۔۔ھھھھممممممم نام کیا ہے تمھارا ۔۔میں نے کانپتے لبوں سے کہا نازیہ ۔۔۔۔ ساتھ بیٹھے اس کے ساتھی نے اس کو ہلکی سی کہنی ماری تو یہ دوبارہ بولا مجھے پانی پلا دو میں نے ادھر ادھر دیکھا اور ٹیبل پر پڑے جگ گلاس کی طرف بڑھ گئی میں نے اسے پانی سے بھرا گلاس تھمایا اور اس نے گلاس لے کر میری طرف سلام کے انداز میں ہاتھ بڑھایا اور میرے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے بولا ساڑھے تےن لاکھ ٹھیک ہے نظام صاحب ۔۔۔۔ بس آپ تیاری کریں ۔۔۔۔ نظام بولا بس ٹھیک ہے میں طلاق دے دیتا آپ وہیں اپنے علاقے میں وقت پر نکاح پڑھ لینا۔۔۔۔ میں شام کے فوراً بعد میانوالی کے ایک سوداگر کو بیچ دی گئی تھی اور ایک جیپ میں ان دونوں کے ساتھ بیٹھ کر پانچ سوٹ کپڑوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھی۔۔۔
قسط (8)
مجھے ایسے لگا جیسے میری سگی ماں مر گئی ہو میں بہت عرصے بعد روئی تھی خود دکھوں سے چور اس خاتون نے مجھے پل پل عزت دی احترام دیا پیار دیا بابا جی بھی بہت اچھے تھے لیکن اس خاتون نے مجھے مرا ہوا اٹھایا تھا اور دیسی ٹوٹکوں سے مجھ میں جان بھر دی تھی میں صحت مند ہو چکی تھی مجھے اماں نے جینا سکھا دیا تھا اور خود مر گئی تھی میں کئی دن تک روتی رہی تھی ان کے گھر محلے داروں کے علاوہ کچھ دور دراز کے مہمان بھی آئے تھے جن میں کچھ خواتین کو باباجی نے روک لیا تھا انہی خواتین میں میری ہم عمر ایک لڑکی آئی تھی جسے کسی حد تک اردو بولنا آتا تھا میں لمبے عرصے سے بولنا بھول چکی تھی اور اب اماں اور بابا کے ساتھ گونگوں والی زندگی گزار رہی تھی جہاں تقریباً ہر بات اشارے اور مسکراہٹ سے ہوتی تھی کچھ روز بعد ہی بابا جی کے گھر کچھ مرد مہمان آئے تو میری دوست اس لڑکی نے جو اردو بول سکتی نے بتایا کہ بابا جی میری شادی کر رہے ہیں وہ چاہتے تھے کہ۔مہمانوں کے جانے سے قبل میں اپنے گھر چلی جاؤں کیونکہ اماں کی وفات کے بعد وہ مجھے اکیلا نہیں رکھنا چاہتے تھے میں ایک بار پھر وسوسوں کا شکار ہو گئی میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں یہی اسی گھر میں مر جاؤں گی اور یہاں سے کبھی نہیں نکلوں گی لیکن ایک دم سے حالات نے ایک بار پھر کروٹ لے لی تھی میں بابا جی کو انکار نہیں کر سکتی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے زندگی دی تھی بہرحال لفظ شادی اب سے پہلے کی زندگی سے بہت حوصلہ افزا تھا اور میں خاموش رہی ان کی رسم و روایات کے مطابق مجھے دو لاکھ کے عوض میرا ایک مولوی ٹائپ بندے سے نکاح کر لیا تھا مجھے اسی لڑکی نے بتایا تھا کہ میں اب تک وزیرستان کے آخری حصے یعنی افغان بارڈر کے قریب تھی اور اب بیاہ کر بنوں جا رہی تھی بنوں ایسا شہر تھا جس کو نام میں جانتی تھی کراچی میں ہمارے محلے میں ایک کرایہ دار فیملی کا تعلق بنوں سے تھا اور اس گھر کی خاتون میری امی کی دوست رہ چکی تھی اگلی صبح مجھے دو سوٹ کپڑوں کے ساتھ اس گھر سے روانہ کر دیا گیا تھا میں بابا جی سے اور بابا جی مجھ سے حقیقی بیٹی کی طرح تڑپ کر ملے تھے اور ہم بہت دیر روتے رہے تھے میرے میاں کا نام نظام تھا اور میرے ساتھ اس کی دوسری شادی تھی پہلی بیوی سے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اس کی بڑی بیٹی میری ہم عمر تھی اس کی پہلی بیوی بیمار رہتی تھی اس کا بیٹا میرے سے دوسال بڑا تھا ایک خاتون کے ساتھ میں اپنے میاں نظام کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے کسی فرد نے مجھے برداشت نہیں کیا نظام کی عمر اس وقت 45 سال تھی اور میں شاید 16 برس کی ہو چکی تھی میں نے پچھلے تقریباً تین سال ایک ڈرونے خواب جیسے گزارے تھے ۔۔۔ مجھ سے ملنے کوئی نہیں آیا اور نظام کے بچوں نے اس سے بھی منہ موڑ لیا وہ اپنی ماں کے ساتھ اس کے کمرے میں ہوتے تھے نظام نے مجھے سمجھایا کے وقت کے ساتھ یہ ٹھیک ہو جائیں گے وزیرستان سے ہمارے ساتھ آنے والی خاتون جو نظام کی بہن تھی شام سے قبل اپنے گھر چلی گئی تھی شام کے بعد نظام بازار سے کھانا لینے گیا تو اس کی پہلی بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ میری کمرے میں آ گئی اور اپنے بیٹے سے پشتو میں بات کرتی اور اس کا بیٹا اردو ٹرانسلیشن کے ساتھ مجھے کہتا خہ اےے لڑکی میری امی کہتی ہے یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ میں تیرا قیمہ بنا کے نظام کو ہی پکا کے کھلا دونگی ۔۔ وہ کچھ دیر کھڑے اپنے بازو ہوا میں لہرا کر مجھے دھمکیاں دے رہے تھے نظام کی تینوں بیٹیاں بھی اپنی امی اور بھائی کے ساتھ کھڑی تھی میں سر جھکائے اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی یہ لوگ میرے اس کمرے سے چلے گئے تھے جس کے تھوڑی دیر بعد نظام آ گیا تھا اس نے مجھے روتا دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا کسی نے کوئی بات بولی ؟؟ میں نے اس کے بار بار کے اصرار پر بس روتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے اور اس گھر کا۔ماحول جنگ زدہ ہو گیا نظام کے بلند آواز سے باتیں کرنے سے شاید پورا محلہ دھل گیا تھا وہ کچھ دیر بعد غصے سے کانپتا کمرے میں آ گیا تھا میں نے اس کے ساتھ ہلکا سا کھانا کھایا اور اس سے باتیں کرتی رہی نظام کو بابا جی نے بتایا تھا کہ میں ان کو کیسے ملی تھی نظام نے پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی سے اغواء ہوئی تھی اور اغواء کاروں نے مجھے جہاں رکھا تھا میں اسی رات وھاں سے بھاگ نکلی تھی میں زخمی ہو گئی تھی پتھروں سے ٹکراتے ہوئے اور سردی سے بےہوش ہوکر کہیں گری پڑی تھی کہ اس بزرگ جوڑے نے مجھے اٹھایا اور گھر لے گئے نظام بہت بڑی جسامت کے مالک تھے رات کو باتوں کے دوران اس نے مجھے اپنی گود میں بھر لیا تھا میں اس وقت کافی صحت مند ہو چکی تھی میری جلد شفاف ہو گئی تھی پیٹ کم ہو گیا تھا اور جسم میں طاقت بھی محسوس ہوتی تھی اس بزرگ جوڑے نے مجھے بہت پیار سے رکھا تھا میرا علاج بس وہی کڑوا قہوہ تھا جسے امں کاڑھا بولتی تھی جو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک چلتا رہا اور اماں کی موت تک مجھے ہر رات کو سونے سے قبل اس کاڑھے کا ایک کپ پینا ہوتا تھا ۔۔۔نظام نے مجھے کسنگ شروع کر دی تھی اور وہ کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح آگے بڑھ رہا تھا میرے بوبز پر اس کے چلتے ہاتھوں نے مجھے بہت عرصے بعد مزے کی وادیوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تھا وہ میرا سارا لباس اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا گیا اور اپنے کپڑے اتار کر تیل کی بوتل کے ساتھ بیڈ پر آ گیا اس کا ببلو تقریباً سات انچ تھا لیکن موٹا کافی تھا مجھے کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس جیسے بہت سے ببلو میں پہلے گزار چکی تھی اب ایک ہی تھا اور شادی سکون اور فخر کا نام تھا میں نے اب سے کچھ دیر پیدا ہونے والے حالات خو ذہن سے نکال دیا اور اس ماحول کو انجوائے کرنے لگی نظام میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ببلی کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے کھول کر دیکھنے لگا میں گھبرا چکی تھی کیونکہ میری ببلی بہت گھٹن حالات کا سامنا کر چکی تھی نظام نے اپنا جھکا سر اوپر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے ببلو پر تیل لگا کر ببلی خے ہونٹوں میں پھیرتا ہوا اندر اتارنے لگا۔۔ مجھے بالکل ویسے درد ہونے لگا جیسے شروع کے دنوں میں اسد کے ساتھ کرتے ہوئے ہوا کرتا تھا ایسا کیوں ہے کیا لمبے عرصے تک سیکس نہ کرنے کے سبب ایسا ہو رہا تھا یا اس دیسی کاڑھے کے سبب ایسا ہوا تھا یس قدرت مجھے شرمندگی سے بچا رہی تھی بالکل میرا کنوارہ پن اتر آیا تھا نظام جیسے ببلو سے بڑے ببلو آسانی سے میری وادی کا سفر کیا کرتے تھے لیکن آج بہت تکلیف کے ساتھ کچھ ایسا مزہ آنے لگا تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا اسد کے ساتھ کچھ عرصہ میں نے انجوائے کیا تھا کیونکہ اس وقت تک حوس کا بھوت مجھ پر ابھی سوار تھا لیکن اس کے جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ دھرانے کے قابل بھی نہیں نظام بغیر رکے اپنا ببلو لبالب مجھ میں بھر گیا میری مستی بھری آوازوں میں وہ میرے اوپر لیٹ کر جھٹکے لگانے لگا مزے کی لہروں میں میں نظام کو اپنی باہوں میں بھر رہی تھی وہ نارمل ٹائم میں اپنا پانی مجھ میں بھر گیا اور کچھ دیر میں مجھ سے الگ ہو کر پھر سے باتیں کرنے لگا نظام مجھ سے مطمئن ہو چکا تھا اور میرے لئے لگایا دو لاکھ روپیہ کارآمد تصور کر رہا تھا رات ایک بجے اس نے دوسرا شاٹ لگایا اور پھر ہم نہا کر سو گئے صبح سے پھر ٹینشن نے گھر میں ڈیرے ڈال لئے نظام اور اس کی بیوی بچوں سے جھڑپیں چلتی رہی محلے کی ایک دو خواتین مجھے دیکھنے آئیں تھی اور یہاں کے رواج کے مطابق کچھ پیسے دے کر گئیں تھیں اگلے روز خواتین کا ہجوم ہمارے گھر امڈ آیا تھا سب مجھے دیکھ کر نظام کی قسمت پر رشک کر رہے تھے میں واقعی بہت حسین ہو گئی تھی بس گزرے دنوں کی جب یاد آتی تو میرا دل تڑپ جاتا اور ٹرک عملے کے ساتھ اسد اور شفیق کےلیے میرے لبوں سے بدعائیں نکل جاتی تھیں بلال کا کچھ معلوم نہ ہو سکا تھا اور وہ ایک بھولی۔داستان بن گیا تھا ٹینشن زدہ ماحول میں میں نے چھ ماہ گزار دئیے تھے محلے کی ایک خاتون مجھے کہہ گئی تھی کھ آپ محتاط رہا کرو کسی دن یہ لوگ تجھے قتل کر دیں گے گھر میں موجود نظام کے بیوی بچے ہمہ وقت مجھ پر۔نظر رکھتے تھے اور ایک روز میں نے تنگ آ کر نظام سے الگ گھر کی فرمائش کر دی وہ مان گیا تھا لیکن کچھ عرصے تک انتظار کا۔بولا ۔۔۔ میں نے گھر والوں کے دل میں اپنی محبت پیدا کرنے کے سو جتن کئے تھے لیکن ناکام رہی اب مجھے ان کی نظروں سے وحشت ہونے لگی تھی مجھے واقعی لگتا تھا کہ یہ مجھے نظام کی غیر موجودگی میں قتل کر دیں گے انہی دنوں نظام کا بیٹا اقبال گھر سے بھاگ گیا تھا اور کسی محلے والی خاتون کو میرے لئے پیغام دے گیا تھا کہ اب میرا انتظار کرنا تمھارے ٹکڑے واپس کراچی پہنچاؤں گا اور اگر میرا باپ بھی رستے میں آیا تو اسے بھی قتل کر دونگا یہ دن بہت اذیت کے تھے کئی دن تک گھر میں فساد برپا رہا نظام اپنی پہلی بیوی کو قصور وار ٹھہرا رہا تھا کہ دوسری شادی میرا حق ہے اور بیٹے کو میرے خلاف بھڑکانے میں اس کا کردار ہے جبکہ اس کی بیوی اس کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی میں اب پشتو سمجھ لیتی تھی اور کسی حد بول بھی لیتی تھی نظام بہت دن سے میرے پاس تھا اور کام پر نہیں جا رہا تھا ایک روز نظام کے کچھ رشتے دار گھر آئے اور کئی بار اس کے اور اس کی بیوی کے پاس جاکر اسے سمجھاتے رہے لیکن وہ نہیں مانی اور اس روز رات گئے ان رشتے کے جانے سے قبل نظام کی بیٹیوں نے بھی دھمکی دے دی کہ اگر ہمارے ابو نے اسے نہ چھوڑا تو وہ بھی گھر سے بھاگ جائیں گی بیٹیوں کی اس دھمکی کے بعد نظام بہت پریشان ہو گیا تھا اور ان رشتے داروں کے ہاتھ بیوی بیٹیوں اور بیٹے کو پیغام دیا کہ مجھے ایک ہفتے کا ٹائم دے دو ۔۔۔ اس سے قبل نظام کے یہ رشتے دار اسے الگ لے جا کر کسی بات پر راضی کر چکے تھے نظام کی آنکھوں میں کچھ الجھن میرے لئے خطرے کی گھنٹی تھی میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا اگر نظام نے مجھے طلاق دے دی تو میں کہاں جاؤں گی رات کو لیٹتے ہوئے میرے لبوں سے بےاختیار اونچی آواز میں امی جی نکلا۔۔۔ صبح نظام کہیں چلا گیا تھا اور میں سارا دن لیٹی روتی رہی نظام نے ابھی تک مجھ سے اس پر کوئی بات نہیں کی تھی لیکن بیٹیوں کی دھمکی کے بعد مجھے یقین تھا کہ وہ بےبس ہو چکا ہے اور مجھے چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے ۔۔۔شام سے کچھ دیر قبل نظام واپس آ گیا تھا اور اسی رات نظام نے مجھے اپنے سامنے بٹھا کر بتا دیا کہ وہ مجھے طلاق دینے جا رہا ہے کیونکہ اگر اس کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک بھی گھر سے چلی گئی تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کا گھر مکمل طور پر برباد ہو جائے گا میں پہلے ہی سب کچھ جان چکی تھی اور سارا دن اس پر رو چکی تھی سو میں کوئی رسپانس دئیے بغیر اپنی قسمت کو کوستے ساکت بیٹھی رہی ۔۔۔ بہت دیر بعد میں نے نظام سے پوچھا کہ مجھے بابا کے پاس پہنچاؤ گے ؟؟؟ بولا نہیں میں تمھاری کہیں شادی کر رہا ۔۔۔۔ ویسے بھی میں کیا کر سکتی تھی میں دکھوں کی عادی ہو چکی تھی میں نے اپنے دوپٹے سے سر کو پٹی کی طرح باندھا جیسے بوڑھی خواتین باندھتی ہیں اور میں نظام سے پہلے سو گئی صبح پھر نظام ایک رشتے دار کے ساتھ کہیں چلا گیا اور شام کو واپس آنے پر کچھ مطمئن تھا ۔لیکن مجھ سے کوئی خاص بات نہیں کی دو روز بعد نظام نے مجھے جی بھر کے سیکس کیا لیکن میرا دل اس سے بھی اکتا چکا تھا اور مجھے اس کا یہ سں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ دوسرے دن اس کے کوئی مہمان آنے تھے اور ان کے گھر میں کھانا تیار ہو رہا تھا اس کی۔بیٹیاں بھاگ بھاگ کے کام کر رہی تھی اور نظام بھی ان کے روم میں بار بار جا رہا تھا اسکی پہلی بیوی نے نیا سوٹ پہنا اور بیٹیوں سے چارپائی میرے کمرے کے سامنے رکھوا کر اس پر بیٹھ گئی اور بار بار مسکرا کر میرے کلیجے پر تیر برسانے لگی مہمان مین گیٹ کے ساتھ والی بیٹھک میں آ چکے تھے کھانے کھلاکے بعد نظام میرے پاس آیا اور مجھے اچھا سوٹ پہن کر آنے کو کہا میں خاموشی سے اپنے کپڑے بدل کر اس کے ساتھ ایسے چل رہی تھی جیسے قربانی کا بیل منڈی جاتے ہوئے اپنے مالک کے پیچھے چلتا ہے بیٹھک میں نظام کے ایک رشتے دار کے ایک رشتے دار کے علاوہ دو اور افراد موجود تھے بڑی مونچھوں والے خوفناک شکل والے اس مرد نے حوس بھری نظروں سے میرا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا اور بولا ۔۔۔ھھھھممممممم نام کیا ہے تمھارا ۔۔میں نے کانپتے لبوں سے کہا نازیہ ۔۔۔۔ ساتھ بیٹھے اس کے ساتھی نے اس کو ہلکی سی کہنی ماری تو یہ دوبارہ بولا مجھے پانی پلا دو میں نے ادھر ادھر دیکھا اور ٹیبل پر پڑے جگ گلاس کی طرف بڑھ گئی میں نے اسے پانی سے بھرا گلاس تھمایا اور اس نے گلاس لے کر میری طرف سلام کے انداز میں ہاتھ بڑھایا اور میرے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے بولا ساڑھے تےن لاکھ ٹھیک ہے نظام صاحب ۔۔۔۔ بس آپ تیاری کریں ۔۔۔۔ نظام بولا بس ٹھیک ہے میں طلاق دے دیتا آپ وہیں اپنے علاقے میں وقت پر نکاح پڑھ لینا۔۔۔۔ میں شام کے فوراً بعد میانوالی کے ایک سوداگر کو بیچ دی گئی تھی اور ایک جیپ میں ان دونوں کے ساتھ بیٹھ کر پانچ سوٹ کپڑوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھی۔۔۔