- 167
- 64
- 28
#1
واہ میری قسمت (ایک انسسٹ کہانی)
میرا نام چوہدری راحیل حسین ہے میری عمر اس وقت 27 سال ہے۔ میں ایک گورا چٹا تندورست بنکا جوان ہوں اور اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ آج جو کہانی میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں، اس کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا۔ آج سے چند سال پہلے زمیندارا کالج گجرات سے گریجویشن کرنے کے بعد جب مجھے ایک جانے والے کی مہربانی سے لاہور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری ملی۔ تو میں اپنے گاؤں کو خدا حافظ کہہ کر لاہور چلا آیا اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگا۔ مجھے لاہور میں نوکری شروع کیے ابھی تقریباً 6 مہینے ہی ہوئے تھے۔ کہ گاؤں سے آنے والی ایک منحوس خبر نے میری دل کو توڑ دیا۔
خبر یہ تھی کہ گجرات شہر سے اپنے گاؤں جاتے ہوئے میرے ابو کے ٹریکٹر کا ایک ٹرک سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اور اس ایکسیڈنٹ میں میرے 23 سالہ چھوٹے بھائی اعجاز اور میرے 55 سالہ ابو چوہدری قادر حسین دونوں کا انتقال ہو گیا تھا۔
یہ خبر 50 سال سے کچھ اوپر میری امی فاخیرہ
اور میری 24 سالہ چھوٹی بہن مدیحہ
کے لیے تو بری تھی ہی۔ مگر ان دونوں کے ساتھ میرے لیے زیادہ بری اس لیے تھی۔ کہ نہ صرف اب مجھے لاہور جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانا پڑ گیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے والد کی ساری زمین کی دیکھ بھال اور اپنے گھر کو سنبھالنے کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آں پڑی تھی۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے کو میرا ہرگز دل نہیں تھا۔ مگر اپنے والد کا اکلوتا بیٹا رہ جانے کی وجہ سے اب چاروں ناچار اپنی زمین کی دیکھ بھال مجھے ہی کرنی تھی۔ اس لیے اپنے بھائی اور والد کے کفن دفن کے بعد میں نے اپنی زمین کو سنبھال لیا اور اب میں پچھلے 6 ماہ سے دن رات کے کھیتی باڑی میں مصروف ہو گیا۔ ویسے تو اپنی زندگی میں میرے والد ہماری زمین پر زیادہ تر سبزیاں ہی اگاتے تھے۔ مگر ان کی موت کے بعد میں نے کوئی مختلف فصل لگانے کا سوچا اور چند دوسرے لوگوں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد میں نے اپنی زمین پر گنا لگا دیا۔
اگست کے مہینے میں گنے کی فصل کھڑی تو ہو گئی مگر اس کے باوجود اسے کٹنے کے لیے مجھے ایک مہینہ مزید انتظار کرنا تھا۔ اس دوران چونکہ فصل کی رکھوالی کے علاوہ مجھے کھیتوں پر اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے کچھ نوکروں کو کچھ وقت کے لیے چھٹی دے دی اور صرف رات کی نگرانی کے لیے دو آدمیوں کو رکھ لیا۔ جو کہ رات کو ڈیرے پر رہتے اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر واپس چلے جاتے۔
چونکہ ہماری زمین ہمارے گاؤں کے باقی لوگوں کی زمینوں اور مکانات سے کافی ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے میں ایک بار جب اپنے گھر سے نکل کر اپنی زمین پر آ جاتا۔ تو پھر میری گھر واپسی شام سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ گنے کی کاشت کے بعد اب میری روٹین یہ بن گئی تھی۔ کہ صبح صبح ڈیرے پر چلا آتا اور میں سارا دن اپنے اس ڈیرے پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں کی نگرانی کرتا جسے میرے والد نے اپنی زندگی میں تعمیر کیا تھا۔ ابا نے یہ ڈیرہ ہماری ساری زمین کے بالکل سینٹر میں بنوایا تھا۔ جس میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان دونوں کمروں میں سے ایک میں ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ جس سے میں اپنی ساری فصل کو پانی دیتا تھا۔ اس کمرے کی چھت کی اونچائی کم تھی۔ جب کہ دوسرا کمرہ آرام کرنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اس کمرے کی چھت ٹیوب ویل والے کمرے سے کافی اونچی تھی۔
ٹیوب ویل والے کمرے کی پچھلی طرف لکڑی کی ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے اوپر چڑھ کر ٹیوب ویل کی چھت پر جا سکتے تھے۔ یہاں پر ایک روشندان بھی بنا ہوا تھا۔ جو کہ آرام کرنے والے بڑے کمرے کو ہوا دار بنانے کے لیے تھا۔ اس روشندان پر لکڑی کی ایک چھوٹی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی جو ہمیشہ آدھی بند ہی رہتی۔ جب کہ روشندان کے باہر کی طرف اسٹیل کی ایک جالی بھی لگی ہوئی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی۔ کہ اگر کوئی انسان ٹیوب ویل کی چھت پر کھڑے ہو کر بڑے کمرے کے اندر جھانکتا تو کمرے کے اندر موجود لوگوں کو باہر کھڑے شخص کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکتا تھا۔
ٹیوب ویل کی چھت پر بھی ایک سیڑھی رکھی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے آرام والے کمرے کی اونچی چھت پر چڑھا جا سکتا تھا۔ اس چھت سے چونکہ ہماری پوری زمین پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ اس لیے دن میں اکثر میں سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چلا جاتا اور چھت پر بیٹھ کر اپنی فصل کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہر روز دوپہر میں میری چھوٹی بہن مدیحہ میرے لیے گھر سے کھانا لاتی۔ اور جب تک میں کھانے سے فارغ نہ ہو جاتا وہ بھی میرے ساتھ ہی کمرے میں سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے کھیلتی رہتی۔ جب میں کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو مدیحہ برتن سمیت گھر واپس چلی جاتی اور میں کمرے میں جا کر آرام کر لیتا۔ یہ روٹین پچھلے دو ماہ سے چل رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مدیحہ کی جگہ میری امی فاخرہ بھی میرے لیے کھانا لے آتیں۔
لاہور سے واپس اپنے گاؤں آ کر اب پچھلے 6 مہینوں سے میری زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں اب تھوڑا بور ہونے لگا تھا۔ اور میری اس بوریت کی سب سے بڑی وجہ چوت سے محروم ہونا تھی۔ اصل میں لاہور میں قیام کے دوران میں نے اپنے روم میٹس کے ساتھ مل کر بڑی عمر کی دو گشتوں کا بندوبست کر لیا تھا۔ اور پھر جتنا عرصہ میں وہاں رہا میں ہفتے میں کام از کام دو دفعہ تو ان آنٹیوں میں سے ایک کی چوت کا ذائقہ چکھ ہی لیتا تھا۔ اس لئے یہ ہی وجہ تھی کہ گاؤں میں آ کر میں عورت کی چوت کے مزے سے محروم ہو گیا تھا۔ ویسے تو میں نے ڈیرے پر دو تین ننگی فوٹوز والے میگزین چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ جن کو میں لاہور سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس لئے جب بھی میرا دل چاہتا تو میں موقع پا کر ڈیرے پر بنے کمرے میں جاتا اور چارپائی پر لیٹ کر ان میگزین میں موجود لڑکیوں کی گندی فوٹوز کو دیکھ دیکھ کر مٹھ لگا لیتا اور اپنے جسم کی آگ کو ہلکا کر لیتا تھا۔ بے شک میں مٹھ لگا کر فارغ تو ہو جاتا مگر میرے لن کو عورت کی چوت کا ایسا نشہ لگ چکا تھا۔ کہ اب میرے لن کو ایک گرم پھدی کی شدت سے طلب ہو رہی تھی۔ میرا لوڑا میری شلوار میں صبح صبح کھڑا ہو کر ہر روز کسی گرم پھدی کی مانگ کرتا مگر میں ہمیشہ تھپڑ مار مار کر اپنے لن کو خاموش کر دیتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ "سو سال بعد تو روری کی بھی سنی جاتی ہے" بالکل یہ میرے ساتھ ہوا کہ جس گرم چوت کی میرے لن کو تلاش تھی۔
وہ اسے میری بہن مدیحہ کی سہیلی شکیلہ کی شکل میں بالآخر ایک دن مل ہی گئی۔ شکیلا ویسے تو میری بہن مدیحہ سے عمر میں ایک سال بڑی تھی۔ مگر گاؤں میں ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے ان دونوں میں بچپن ہی سے بہت اچھی دوستی تھی۔ جب کہ اسکول کی پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک ایک ہی کلاس میں پڑھنے کی وجہ سے جوان ہوتے ہوتے ان دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ میری بہن کی سہیلی ہونے کی حیثیت سے شکیلہ کا اکثر ہمارے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ شکیلہ جب بھی میری بہن مدیحہ کو ملنے ہمارے گھر آتی تو مدیحہ اسے لے کر اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ جہاں دونوں سہیلیاں بیٹھ کر کافی دیر تک گپ شپ لگاتی رہتی تھیں۔ شکیلہ چونکہ عمر میں مدیحہ سے ایک سال بڑی تھی۔ اس لیے اس کے گھر والوں کو اس کی شادی کی شاید کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جن دنوں میں زمین دارہ کالج میں بی اے کر رہا تھا تو اسی دوران شکیلہ کی شادی ہوگئی۔ اس کے سسرال والے چونکہ ملتان کے پاس ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اس لیے شادی کے بعد شکیلہ ہمارے گاؤں سے رخصت ہو کر اپنے شوہر کے ساتھ ملتان میں رہنے لگی۔ اب جن دنوں میرا لن کسی عورت کی پھدی میں جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ تو انہی دنوں شکیلہ اپنے ماں باپ کو ملنے اپنے گاؤں واپس آئی۔ تو اس دوران وہ میری بہن مدیحہ کو بھی ملے ہمارے گھر چلی آئی۔ اس دن میں بھی اتفاق سے دیر سے جلدی گھر واپس آ گیا تھا۔ اس لیے مدیحہ کے ساتھ شکیلہ کے ساتھ میری بھی ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس دن شکیلہ کو تقریباً دو سال بعد دیکھا تو اسے دیکھتے ہی میں اس کے حسن کا دیوانہ ہو گیا۔ شکیلہ شادی کے ان دو
سالوں میں لڑکی سے ایک بھرپور عورت بن چکی تھی۔ اس کی قمیض میں سے اس کے گول موٹے ممے بہت ہی مزیدار نظر آ رہے تھے۔ جن کو دیکھتے ہی میرے منہ میں پانی آ گیا تھا۔ جب کہ شکیلہ کی شلوار میں پوشیدہ اس کی لمبی گداز رانوں کو دیکھتے ہی میرا دماغ اس کی رانوں کے درمیان موجود چھوٹ کا
سوچ کر ایک دم میری شلوار میں ھڑنےلگا تھا۔
مدیحہ اور شکیلہ ہمارے گھر کے سیہان میں ہی بیٹھ کر آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئیں تھیں۔ جب کہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اس دوران شکیلہ کے جسم کو بھوکی نازوں سے دیکھنے میں لگا رہا۔ شکیلہ نے مدیحہ سے باتوں کے دوران اپنے جسم پر پڑنے والی میری گرم نظروں کو محسوس تو کر لیا تھا۔ مگر اس نے اپنے چہرے سے مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میرا یوں تاڑنااسے اچھا لگا ہے یا نہیں۔
دوسرے دن دوپہر کو میں دیر کے کمرے میں چارپائی پر لیٹ کر آرام کر رہا تھا تو مدیحہ میرے لیے کھانا لے کر آئی۔ تو اس دن میری بہن مدیحہ کے ساتھ اس وقت شکیلہ بھی تھی۔ شکیلہ کو یوں دوبارہ اپنے سامنے دیکھ کر میرے لن میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔
جب میں کھانا کھانے بیٹھا تو مدیحہ اور شکیلہ سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ مدیحہ سے باتوں کے دوران شکیلہ چوری چوری میری طرف بھی دیکھ رہی تھی۔ اس دوران میری نظر ایک دو دفعہ شکیلہ کی نظر سے ملی۔ تو اس کی آنکھوں میں میرے لیے جو حوس کا پیغام تھا اسے پڑھنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں تھا۔
ہائے لگتا ہے کہ شکیلہ بھی میری طرح چودائی کی آگ میں جل رہی ہے" اپنی بہن کی سہیلی کی آنکھوں میں چودائی کی پیاس دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا اور میری شلوار میں میرا لوڑا گرم ہو گیا۔ میں روٹی سے فارغ ہوا تو مدیحہ نے برتن اٹھائے اور شکیلہ کو ساتھ لے کر گھر چلی گئی۔ جبکہ میں چارپائی پر لیٹ کر شکیلہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ دوسرے دن شکیلہ پھر میری بہن مدیحہ کے ساتھ مجھے روٹی دینے آئیں۔ اس دن کھانے کے بعد مدیحہ نے برتن سمیٹے اور انہیں دھونے کے لیے اکیلی ہی باہر ٹیوب ویل کی طرف چلی گئی۔ جس کی وجہ سے اب کمرے میں صرف میں اور شکیلہ ہی رہ گئے تھے۔ مدیحہ کے باہر جاتے ہی میں نے موقع غنیمت جانا اور شکیلہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ تمہارا شوہر کیسا ہے شکیلہ" شکیلہ کو اپنی طرف دیکھتے ہی میں نے اپنے آپ میں ہمت پیدا کی اور اپنی چارپائی سے اٹھ کر اس کے نزدیک ہوتے ہوئے یہ سوال کر دیا۔ ٹھیک ہے وہ شکیلہ نے جواب تو دیا مگر مجھے اپنے نزدیک آتے دیکھ شکیلہ ایک دم گھبرا گئی اور اس کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ تم خوش تو ہو نا اس کے ساتھ میں نے شکیلہ کے نزدیک قریب ہوتے ہوئے اس کے نرم ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا۔
شکیلہ نے کوئی جواب نہیں دیا تو میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے گداز جسم کو اپنے قریب کھینچ لیا۔ اب اس کا جسم میرے جسم سے جڑ گیا اور ہم دونوں کے منہ ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ چھوڑو مجھے مدیحہ آتی ہی ہوگی اپنے آپ کو میرے بازوؤں کے گہرے میں آتے دیکھ کر شکیلہ ایک دم گھبرا گئی اور میری بازوؤں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ شکیلہ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے اپنے منہ کو آگے بڑھایا اور اپنے ہونٹ شکیلہ کے گرم ہونٹوں پر رکھ دیا۔ ایک لمحے کے لیے شکیلہ نے مزاحمت کی مگر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھولا تو میری زبان اس کے منہ میں داخل ہو کر اس کی زبان سے ٹکرانے لگی۔ آج اتنے مہینے بعد ایک عورت کے جسم کو چھوتے اور لبوں کو چوستے ہوئے مجھے بہت مزہ آیا۔ تو میں نے مستی میں آتے ہوئے شکیلہ کے جسم کے گرد اپنی بازوؤں کو کسا۔ جس کی وجہ سے شکیلہ کا جسم میرے جسم کے ساتھ چمٹتا چلا گیا اور ساتھ ہی اس کے گداز ممے میری چھاتی میں دبنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید آگے بڑھتا شکیلہ نے ایک دم مجھے دھکا دیتے ہوئے اپنے آپ کو میرے بازوؤں کی گرفت سے الگ کیا اور پھر جلدی سے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر کانپتی آواز میں بولی "تمہیں تمیز ہونی چاہیے کہ شادی شدہ عورتوں سے کیسے پیش آتے ہیں
اگر ایک چانس دو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ شادی شدہ عورتوں کے ساتھ پیش آنے کی مجھے کتنی تمیز ہے، ویسے اب دوبارہ کب ملو گی مجھے شکیلہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے اس کی طرف دیکھ کر بے شرمی سے شلوار میں ھڑے ہوئے اپنے لن پر ہاتھ پھیرااور اس سے سوال کیا۔ کل، اسی وقت اور اسی جگہ میری اس ہرکت پر شکیلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے ایک دم اپنی نظروں نیچے کیں اور پھر میری بات کا جواب دیکھتے ہوئے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ شکیلہ کے کمرے سے باہر نکلتے ہی میں نے شلوار میں ھڑے ہوئے لن کو ہاتھ میں تھاما اور خوشی سے جھوتے ہوئے کہا "لے بھائی تیری تو سنی گئی ہے یار"۔ میرے لن اس وقت پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا اس لئے میرے لئے صبر کرنا بہت ہی مشکل ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب کمرے کی کھڑکی سے میں نے شکیلہ کو میری بہن مدیحہ کے ساتھ گھر واپس جاتے دیکھا تو میں نے فوراً دروازے کو کنڈی لگائی اور اپنی شلوار اتار کر شکیلہ کے نام کی مٹھ لگانے لگا۔
دوسرے دن میں صبح ہی صبح شکیلہ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شکیلہ آئے گی ضرور مگر اس کے ساتھ میرا اندازہ یہ بھی تھا کہ وہ میری بہن مدیحہ کے گھر واپس جانے کے بعد ہی میرے پاس آئے گی۔ لیکن جب میں نے شکیلہ کو مدیحہ کے ساتھ ہی آتے دیکھا تو مجھے بہت ہی مایوسی ہوئی اور میرا کھڑا لن موتر کی جہاگ کی طرح بیٹھ گیا
میں نے مدیحہ کے ہاتھ سے کھانےکے برتن لیے اور اپنی چارپائی پر خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ جب کہ شکیلہ میری بہن مدیحہ کے ساتھ دوسری چارپائی پر بیٹھ کر گفتگو کرنے لگی۔ ابھی میرا کھانا ختم ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔ کہ اتنے میں مدیحہ چارپائی سے اٹھی اور بولی، "بھائی مجھے ایک بہت ضروری کام یاد آ گیا ہے، اس لیے مجھے فوراً ہی جانا پڑے گا، ویسے تو میری واپسی 10، 15 منٹس میں ہو جائے گی، مگر آپ فکر نہ کریں آپ کے کھانے کے بعد شکیلہ برتنوں کو سنبھال لے گی" یہ کہہ کر مدیحہ ایک دم چارپائی سے اٹھ کر باہر کی طرف چل پڑی اور جاتے جاتے وہ کمرے کے دروازے کو اپنے پیچھے سے بند کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اپنی بہن کو یوں اچانک کمرے سے باہر جاتے دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی اور میں نے فورا شکیلہ کی طرف دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتی لگی۔ یہ کیوں اس طرح اچانک اٹھ کر باہر چلی گئی ہے، کیا بات ہےتم نے مدیحہ کو تو کچھ تو نہی بتایا شکیلہ کے چہرے پر معنی خیزمسکراہٹ دیکھ کر میرا ماتھا ٹنکا اور میں نے فورا اس سے پوچھا۔ میں نے کچھ نہیں بتایا اس کو، بس اتنا ہی کہا ہے کہ میں نے تم سے تنہائی میں کوئی ضروری بات کرنی ہے، تم جانتے ہو کہ مدیحہ اور میں بہت اچھی سہیلیاں ہیں شکیلہ نے میری بات کا جواب دیا۔
شکیلہ نے میری بہن کو اصل بات یقینا نہیں بتائی ہوگی شکیلہ کے جواب سنتے ہی میں نے اپنے آپ سے کہا اور یہ بات سوچ کر میرے دل کو اطمینان سا ہو گیا۔ ویسے بھی اصل بات یہ تھی کہ شکیلہ کو ایک بار پھر اپنے ساتھ کمرے میں اکیلا پا کر میرے لن میں اتنی گرمی چھا گئی تھی۔ کہ اب میرے دماغ میں پھدی لینے کے علاوہ کسی اور بات کی سوچ ہی ختم ہو چکی تھی۔
ابھی میں اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ اتنے میں شکیلہ اپنی چارپائی سے اُٹھائی اور میرے قریب آنے لگی۔ ہالہ کے مجھے شدت سے آج ایک چوت کی طلب ہو رہی تھی اور شاید شکیلہ کو بھی ایک مرد کے لن کی پیاس تھی۔ مگر اس کے باوجود شکیلہ کو یوں اپنی طرف آتے دیکھ کر نہ جانے کیوں میری سیٹی ہی گم ہو گئی اور کل کے برعکس آج میں خود گھبرا گیا۔ کیا بات ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو گئے ہو ایک دم شکیلہ نے چارپائی پر میرے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ شکیلہ کو یوں اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر مجھے اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ میں اسے کوئی جواب نہیں دے پا رہا تھا۔
تم کل مجھ سے میرے شوہر کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا، تو میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اپنے شوہر کو بہت مس کر رہی ہوں راحیل شکیلہ نے اپنے منہ کو میرے منہ کے قریب کرتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر ایک دم اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر چپکا دیا۔ شکیلہ کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چپکتے ہوئے محسوس کرتے ہی مجھے ہوش آیا۔ تو میں بھی شکیلہ کے نرم جسم کو اپنی بانہوں میں کسنے لگا اور اس کا لبوں کو چومنے لگا۔
مجھے اپنے شوہر کی شدت سے طلب ہو رہی ہے، کیا تم میرے شوہر کی کمی کو پورا کرو گے راحیل میری گرم جوشی کو دیکھتے ہوئے شکیلہ گرم ہو گئی اور اس نے اپنا منہ کھول کر اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانے کے دوران مجھ سے سوال کیا۔ ہاں میں نے کل بھی یہی کہا تھا کہ اگر تم مجھے موقع دو تو میں تمہیں تمہارے شوہر کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا میری جان
یہ کہتے ہوئے میں نے شکیلہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کا دباو بڑھاتے ہوئے اسے چارپائی پر لٹا دیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے شکیلہ کی موٹی گانڈ کی پھاریوں پر ہاتھ رکھتے ہوئےاس کے جسم کو اپنی طرف کھینچا تو اس کی چوت میری شلوار میں اکڑےہوئے میرے لُن سے ٹکرا گی
ہاے کیا گرم اور سخت لورا ہے تمھارا راحیل میرے سخت لوڑے کو یوں اپنی پیاسی چوت سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے شکیلہ کے منہ سے سسکی
ادھر جوںہی ہماری کسنگ کا سلسلہ تیز ہوا تو اس کے ساتھ ہی شکیلہ نے اپنے ایک ہاتھ کو نیچے کیا۔ اور اس نے میرے سخت لوڑے کو شلوار کے اوپر سے اپنی گرفت میں لے کر کسنگ کے دوران ہی میرے لوڑے کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔ آج اتنے عرصے بعد اپنے تنے ہوئے لوڑے پر کسی عورت کے
نرم و نازک ہاتھ محسوس کرتے ہی میرے منہ سے بھی سسکی نکلی اور میرا لوڑا مزید سخت ہو گیا۔
اب میں نے بھی شکیلہ کے ہاتھ کے مزے سے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ کو نیچے لے جا کر شلوار کے اوپر سے ہی شکیلہ کی گرم چوت کو اپنی مٹھی میں دبوچا
تو سواد کے مارے وہ بھی اپنے منہ سے اوہ کی آوازیں نکلنے لگی۔ تھوڑی دیر شکیلہ کے ہونٹوں کو چومنے اور اس کی چوت کو اپنے ہاتھ سے رگڑنے کے بعد میں نے اس کی شلوار کا نارا کھولا کر پہلے اس کی شلوار اور پھر ساتھ ہی اس کی قمیض بھی اتار کر چارپائی پر پھینک دی۔ اور پھر میں شکیلہ سے تھوڑا الگ ہو کر اس کے جسم کا دیدار کرنے لگا۔
اب کمرے میں شکیلہ صرف اپنے بریزیئر میں ملبوس میرے سامنے ادھی ننگی کھڑی تھی۔ اور میں اس کی ہلکے بالوںوالی چوت اور اس کے بریزیئر میں سے چُھلکتے ادا ننگے مموں کا دیدار کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر رہا تھا۔
اب سارا دن یوں ہی میرے جسم کو ترستے ہی رہو گے یہ میری چوت میں اپنا لن ڈال کر میری پھدی کی آگ کو ٹھنڈا بھی کرو گے” مجھے یوں بت بن کر پیاسی نظریں اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر شکیلہہ بےچینی سے بولی۔
اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر اپنی بریزیئر کی ہک بھی کھول دی تو اس کے موٹے جوان ممے پہلی بار میری نظروں کے سامنے ننگے ہو گئے۔
چدای کا تو اپنا مزہ ہوتا ہی ہے مگر کسی پیاسی عورت کے جوان خوبصورت جسم کو تاڑنےکا بھی الگ ہی سوا د ہے میری جان، ویسے فکر نہ کرو آج تمہاری چوت چودےبغیر تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا میں” شکیلہہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے اپنے کپڑے اتارے اور خود بھی شکیلہہ کے سامنے پوراننگا ہو گیا
اففف تمہارا لوڑا تو میرے شوہر سے بھی تھوڑا موٹا اور لمبا ہے راحیل تمھاری بیوی بہت قسمت والی ہوگی جسے اتنا صحت مند اور جوان لوڑا زندگی بھر نصیب ہوگا اپنی شلوار قمیض اتار کر میں جوں ہی ننگا ہوا تو میرے لوڑے کو دیکھ کر شکیلہہ کی آنکھوں میں ایک چمک آئی اور وہ سسکتے ہوئے بول پڑی۔
شکیلہہ کی بات سنتے ہی میں آگے بڑھا اور میں نے شکیلہہ کے موٹے ممو ں کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں تھام کر پیار سے اس کا ممہ دباتے ہوئے ایک بار پھر سے شکیلہہ کے لبوں کا رس پینے لگا۔
میں نے شکیلہ کے ممے دباتے ہوئے اس کے پنک نیپل اپنی ہاتھوں سے مسلتے ہوئے انہیں اپنی انگلیوں میں لے کر کھینچا۔ تو وہ میرے ہاتھ کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے سسکیاں لیتے ہوئے بولی "آہ آہ دباؤ میرے ممے آہ او راحیل میرے ممو کو چو سوں
شکیلہہ کی بات سنتے ہی میں نے فوراً عمل کیا اور شکیلہہ کا ایک ممہ پکڑ کر اسے پاگلوں کی طرح چوسنے لگ گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے دوسرے ممےکو بھی اپنے ہاتھ سے دبانے لگ گیا۔ اور میری ممہ چوسائی کے دوران شکیلہہ اپنی آنکھیں بند کر کے سسکیاں لیتی رہی۔
شکیلہہ کے مموںکو چوستے ہوئے میں نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کو چھوا۔
تومجھے انداز ہو گیا کہ میری چھڑ چھاڑ کی وجہ سے شکیلہہ کی پھدی پانی پانی ہو رہی تھی۔
میرا ہاتھ چوٹ سے لگتے ہی شکیلہ تو جیسے پاگل ہو گئی اور وہ میرے سرکو بالوں سے پکڑ کر اپنی مموں پر زور سے دباتے ہوئے چلای“آہ بہت مزہ آ رہا ہے، میری چوت میں اپنی انگلی ڈال دو راحیل”
شکیلہہ کی یہ فرمائش سنتے ہی میں نے اپنے ہاتھ کی انگلی اس کی پھدی میں ڈالی اور اس کی پھدی کو اپنی انگلی سے چودنے لگا۔ اب میں شکیلہہ کے ممے کو چوستے بھی جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ شکیلہہ کی پھدی میں فنگرنگ کر رہا تھا اور شکیلہہ مزے سے چلا رہی تھی " اُف ہاے"
شکیلہ کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اب میں اپنی انگلی کو گول گول گھمانے لگا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اُس نے میرے ہاتھ کو دونوں ٹانگوں میں زور سے دبایاya اور لمبا سا سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے ایسے خاموش ہو گئی جیسے اُس کی سانس ہی رک گئی ہو۔
شکیلہہ کی یہ حالت دیکھ کر ایک بار تو میں بھی گھبرا گیا۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنے ہونٹ دانتوں میں دبا رہی ہے تو میں سمجھ گیا کہ اس کو میری انگلیوں سے اپنی چوت چھڑواتے ہوئے مزہ آ رہا ہے۔ کچھ دیر بعد شکیلہہ کے مموں سے منہ ہٹا کر میں چارپائی سے اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ زمین پر بیٹھتے ہی میں نے چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں سے چوڑا کیا۔ اور ایک دم سے اپنے منہ کو آگے کرتے ہوئے اپنی گرم زبان کو چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی پانی چھوڑتی چوت کے لبوں کے درمیان ڈال دیا
یہ کیا مزہ دیا ہے تم نے مجھے” اپنی چوت سے میری گرم زبان ٹکراتےہی شکیلہہ ترپ کر ایک دم چارپائی سے اچھلی۔ اس کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھ سے میرے منہ کو ہٹاتے ہوئے اپنی ٹانگوں کو بھینچنے کی کوشش کی۔
لیکن میں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیے اور اپنے منہ کو زور سے اس کی چوت پر پریس کرتے ہوئے اپنی زبان اس کی چوت کے اندر ڈال دی۔
شکیلہہ کی گرم پھدی مجھے پاگل کر رہی تھی۔ اس لیے اب میں چارپائی سے نیچے زمین پر بیٹھ کر چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی چوت کو مزے لے لے کر چاٹنے میں مصروف ہو گیا۔
میری زبان کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے اب شکیلہہ نے مجھے سر سے پکڑ رکھا تھا اور میں بہت مزے سے شکیلہہ کی پھدی چوس رہا تھا۔
جب کہ شکیلہہ چارپائی سے اوپر اچھل اچھل کر اپنی چوٹ کو میرے منہ پر زور زور سے مارتے ہوئے سسکیاں نکال رہی تھی "آآااا، ہہہہہہہ، ہاہاہییی" تھوڑی ہی دیر کی چوٹ چٹائی کے بعد شکیلہہ کا جسم زور زور سے کانپنے لگا اور اس کی چوٹ سے پانی کا ایک جھڑنا بہتے ہوئے پورا کا پورا میرے منہ میں اتر گیا اور وہ فارغ ہو گئی۔
شکیلہہ کو اپنے منہ کے مزے سے فارغ کرواتے ہی میں ایک دم زمین سے اٹھ کر چارپائی پر کھڑا ہوا اور بولا 'اب نیچے لیتا ہوں اور تم میرے اوپر بیٹھ کر میرا لن اپنی پھدی میں ڈال دو'۔
شکیلہہ سے یہ بات کہہ کر میں چارپائی پر لیٹ گیا تو میرا لوڑا تن کر اوپر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میری بات پر عمل کرتے ہوئے شکیلہہ میرے اوپر چڑھی
اور پھر اپنے جسم کو دہلا چھوڑتے ہوئے نیچے کو ہوئی۔ تو نیچے سے میرا تنا ہوا لوڑا آہستہ آہستہ شکیلہہ کی گرم چوت میں سمانےلگا۔
ہائے کیا مزے دار لن ہے تمہارا، اوففف کیا بتاوں کتنا مزہ آ رہا ہے مجھے”سسکیاں لیتی شکیلہہ آہستہ آہستہ میرے لن پر بیٹھ گئی تو میرا لن اس کی پھدی میں پورے کا پورا سما گیا۔
اوہ کیا گرم اور تنگ چوت ہے تماری" اتنے مہینوں بعد میرے لن کو بھی جب ایک گرم چوت کا سواد ملا تو مزے کے مارے میں بھی سسکا اٹھا۔ میرے لن کو اپنی چوت میں لیتے ہی، ہواس کے مارے شکلا اتنی گرم ہوئی کہ اب وہ میرے لن پر بیٹھ کر تیزی کے ساتھ اوپر نیچے ہونے لگی اور اپنی چوت کو پاگلوں کی طرح میرے تنے ہوئے لن پر زور زور سے مارنے لگی۔
میری اس زور دار چدای کی وجہ سے شکیلہ کے موٹے بڑے ممے ہوا میں ادھر ادھر اچھلنے لگے۔
شکیلہ کے اس جوش اور اس کے ہوا میں اچھلتے ممے دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے بھی اس کے بڑے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر مسلتے ہوئے اپنی گانڈ کو چارپائی سے اٹھا اٹھا کر نیچے سے شکیلہ کی چھوت میں اپنا لورہ گھسانا شروع کر دیا۔
اب کمرے میں عالم یہ تھا کہ شکیلہ میرے لُن پر بیٹھ کر زور دار طریقےکے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھی۔
جب کے میں اپنی گانڈکو چارپای سےاٹھا اٹھا کر نیچے سے اپنی بہن کی دوست کی زور دار طرح سے چودائی کر رہا تھا۔
شکیلہہ کی موٹی گانڈکے میرے ٹٹوں سے ٹکرانے اور نیچے سے میرا لن بھی زور دار ٹکرانے سے اس کی پھدی میں گھسنے کی وجہ سے “تھپ تھپ” کی آوازیں کمرے میں گُونج کر ہم دونوں کے جوش میں اضافہ کر رہی تھیں
تھوڑی دیر شکیلہ کو اس طرح سے چودنے کے بعد میں بولا "اب تم نیچے لیٹو اور میں تم پر چڑھ کر تمہاری پھدی کو چودوںگا میری جان
میری بات سنتے ہی شکیلہہ نے میرے لن کو اپنی پھدی سے نکالا اور چارپائی پر میرے برابر لیٹ گئی۔ چارپائی پر شکیلہہ کے لیٹتے ہی میں نے اٹھ کر اس کی ٹانگوںکو اپنے ہاتھوں میں تھام کر کھولا اور اس کی چوت کو دیکھنے لگا۔
اف شکیلہہ کی پھدی میری چدائی کی وجہ سے کافی گیلی ہو چکی تھی اور اس میں سے چوت کا پانی ٹپک ٹپک کر اس کی رانوں کو بہہ رہا تھا۔ شکیلہہ کی ٹانگوں کو اپنے سامنے چوڑا کرتے ہوئے میں اپنا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنا ٹوپا شکیلہہ کی پھدی پر رکھ کر اس کی چچوت کے دانے کو لوڑے کی ٹوپی سے مسلنے لگا۔
ہائے کیوں تڑپا رہے ہو مجھے، اب ڈال بھی دو اندر” میرے لن کی رگڑ کو اپنی چوت کے بھیگی لبوں پر محسوس کرتے ہی شکیلہہ مچل اٹھی۔
اوؤففففففففف تماری چوت واقعی ہی میرے لن کے لیے تڑپ رہی ہے، تو یہ لو میری رانی” شکیلہہ کی سسکی بھری التجا سنتے ہی میں آگے بڑھا اور ایک جھٹکے میں اپنا پورا لن ایک بار پھر شکیلہہ کی پیاسی چوت میں اتار دیا۔
ہائے مار دیا تم نے ظالم کہتے ہوے میرے زوردار گھسے کی وجہ سے جیسے ہی میری لورا پھسلتاہوا شکیلہ کی پھدی کی تہہ تک پہنچا تو مزے کے مارے شکیلہ ایک بار پھر سسک اٹھی۔
میں نے شکیلہہ کی دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے اوپر چڑھ کر میں اس کی پھدی کی چودائی میں مصروف ہوگیا۔ میں اب تیزی کے
ساتھ اپنا لن شکیلہہ کی پھدی میں ڈال رہا تھا اور وہ نیچے سے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا اٹھا کر میرے لوڑے کو اپنی پیاسی چوت میں جذب کرتی جا رہی تھی۔
کَمرے میں ہماری چدای کی وجہ سے پیدا ہونے والی “پُچھ پُچھ اور تھاپ تھاپ” کی آوازوں کے ساتھ چارپائی کی “چین چین” بھی ماحول کو بہت ہی رنگین بنا رہی تھی۔
اب ہم دونوں ہر بات سے بے فکر ہو کر صرف اپنی اپنی جنسی ہوس کو مٹانے کے لیے جوش میں اپنے لن اور پھدی کا ملاپ کروانے میں مصروف تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد شکیلہہ نے اپنے ہاتھ میرے بالوں میں پھیرتے ہوئے مجھے زور سے پکڑا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔
اس نے ایک آہ، ہوں کی ٹوٹتی ہوئی آواز اپنے منہ سے نکالی۔ اور وہ زور سے کانپی اور پھر ساتھ ہی اس کا جسم ایک دم ڈھیلا پڑ گیا اور وہ ایک بار پھر فارغ ہو گئی۔ شکلہ کو یوں فارغ ہوتے دیکھ کر میرے لن کو بھی جوش آیا۔ اور میں نے بھی ایک جھٹکے میں "آہ" کرتے ہوئے اپنے سارے پانی شکلہ کی گرم پیاسی پھدی میں خارج کر دیا۔
میرے لن سے بہت پانی نکلا جس سے شکیلہہ کی ساری چوت بھر گئی اور میں ایک دم نڈھال ہو کر شکیلہہ کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں اور شکیلہہ اس طرح لیٹ کر اپنی اپنی بے خیالی سانسوں کو بحال کرتے رہے۔
اف راحیل یقین مانو میرے شوہر نے مجھے آج تک اتنے مزےدار طریقے سے نہیں چودا، جتنے مزےدار انداز میں تم نے میری پھدی ماری ہے، تمہارے انداز سے لگتا ہے کہ تم آج سے پہلے بھی کافی دفعہ کسی کی چوت مار چکے ہو، کہاں سے سیکھا ہے یہ سب" اپنی بکھری سِانسوں کوسنبھالتے ہی شکیلہ نے میرے جسم کے نیچے سے بولی اور اس نے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال ایک ساتھ کر دیے۔
تمہارے سارے سوالوں کا جواب میں بعد میں دوں گا، اب جلدی سے اپنے کپڑے پہن لو، کیونکہ مدیحہ ابھی واپس آتی ہوگی" اپنے لن کی گرمی دور کرتے ہی مجھے اپنی بہن مدیحہ کا خیال دماغ میں ایک دم آیا اور میں تیزی کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کر اپنے کپڑے پہنتے ہوئے شکیلہہ سے بولا۔ تم اس کی فکر مت کرو، اس کی واپسی میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے" میری بات سن کر شکیلہہ نے بڑے آرام سے میری بات کا جواب دیا اور اسی طرح انتہائی غیر پریشان حالت میں چارپائی پر لیٹی رہی۔ شکیلہہ کی بات اور اس کا پرسکون انداز دیکھتے ہوئے مجھے بہت ہی حیرانی ہوئی تو میں سوالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا "کیا تم نے مدیحہ کو یہ سب کچھ بتایا ہے شکیلہہ؟
نہیں میں نے اس سے ایسی کوئی بات نہیں کی، مگر میں جانتی ہوں کہ وہ ایک سمجھی دار لڑکی ہے" میری بات کا جواب دیتے ہوئے شکیلہہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ شکیلہہ کی بات سن کر میں نے ایک بار پھر حیرانی کے ساتھ اسے دیکھا۔ مگر اب کی بار میں خاموش رہا۔ کیونکہ اس کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اصل میں غلطی میری ہی ہے، مجھے یہ انداز نہیں تھا کہ مدیحہ کو اس بات کی بھنک پڑ جائے گی، کہ میں اس کی سہیلی کے ساتھ کیا حرکت کرنے جا رہا ہوں، مجھے چاہیے تھا کہ میں شکیلہ کو کسی اور وقت دیر سے بلاتا۔ اپنے لن پانی نکل جانے کے بعد جب میرے دماغ سے مانی اتر گئی تو میرے ذہن میں اب یہ بات آئی، مگر اب پیچھے ہٹنے کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ رحیل، تمہاری بہن اب بچی نہیں کہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے، مگر یہ بات مت بھولو کہ مدیحہ تمہاری بہن ہونے کے ساتھ ساتھ میری ایک بہت اچھی سہیلی بھی ہے، اس لیے تم فکر مت کرو۔" میرے چہرے پر پہلی پریشانی کو دیکھتے ہوئے شکیلہ چارپائی سے اٹھی اور اپنے کپڑے پہنتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں مجھے سمجھانے لگی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ 'اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اس لئے میں نے بھی اس بارے میں مزید پرشان ہونامناسب نہ سمجھا اور خاموشی کے ساتھ واپس چارپائی پر آ بیٹھا۔ شکیلہہ نے اس دوران اپنے کپڑے پہننے اور پھر کمرے کا دروازہ کھول کر خود بھی سامنے والی چارپائی پر آ بیٹھی اور میرے ساتھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ مدیہ کے بارے میں شکیلہہ کا اندازہ صحیح تھا۔ کیونکہ واقعی مدیہ کی واپسی ہماری چودائی کے ختم ہونے کے ٹھیک ادھا گھنٹہ بعد ہی ہوئی۔
مدیحہ کو کمرے میں آتا دیکھ کر نا چاہنےکے باوجود میں نے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔ مگر اپنی بہن مدیحہ کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھ کر مجھے کسی بھی قسم کا اندازہ لگانے میں بہت دقت ہوئی۔ شکیلہہ کی مدیحہ کے بارے میں کہی جانے والی بات کے بعد شکیلہہ کے سامنے اپنی بہن کا سامنا کرنا میرے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس لیے مدیحہ کے کمرے میں آتے ہی میں دوسرے ہی لمحے خود اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ میرے کمرے سے باہر جانے کے بعد مدیحہ نے سارے برتن سمیٹے اور پھر وہ دونوں بھی کمرے سے نکل کر خاموشی سے واپس گاؤں کی طرف چل پڑیں۔
پھر شکیلہہ اس کے بعد میری بہن مدیحہ کے ساتھ روزانہ ہی ہمارے ڈیرے پر آنے لگی۔ یہ سچ بات ہے کہ شکیلہہ سے چدای کے پہلے دن کے بعد میں اپنی بہن مدیحہ کے حوالے سے فکر مند تھا۔ کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچے گی۔ مگر مدیحہ نے پہلے دن کے واقعے کے بعد اپنی کسی بات سے مجھے اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کروایا تو اس کی اس بات سے میرا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر اس دن کے بعد مدیحہ اور میرے درمیان شکیلہہ کے حوالے سے ایک خاموش سمجھوتہ پیدا ہوگیا۔ اس دن کے بعد میں جب بھی کھانے سے فارغ ہوتا تو مدیحہ برتن دھونے کے بہانے کمرے سے نکل کر اپنی سہیلی شکیلہہ کو میرے ساتھ کمرے میں اکیلا چھوڑجاتی
مدیحہ کے کمرے سے باہر جاتی ہی شکیلہ میری باہوں میں سما جاتی اور ہم دونوں پریمی اپنے اپنے کپڑے اتار کےبھوکوں کی طرح ایک دوسرے سے لپٹ کر کافی دیر ایک دوسرے کو مختلف سٹاہیل میں چود چودکر اپنے پیاسے جسموں کی پیاس بھجاتے
یہ سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا اور مجھے یہ وقت اپنی زندگی کا ایک حسین وقت لگ رہا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ خوشی کے دن چار ہی ہوتے ہیں
دو ہفتے بعد ایک دن مدیحہ میرے لیے کھانا لے کر آئی تو اس دن وہ اکیلی ہی تھی۔ کیا بات ہے آج تمہاری شکیلہ نہیں ساتھ آئی تمہارے شکیلہہ کو مدیحہ کے ساتھ نہ دیکھ کر میں نے اپنی بہن سے پوچھا۔ رات کو اس کا شوہر آیا تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ واپس ملتان لے گیا ہے
میری بات کو سن کر مدیحہ نے جواب دیا تو شکیلہ کی واپس جانے کی یہ خبر دل کے ساتھ ساتھ میرے لن پر بھی جلی بن کر گری۔
اس دن کے بعد تو میرے لیے ایک بار پھر سے خزاں کا ہی موسم آ گیا تھا۔ اور اب شکیلہہ کے جانے کے بعد میں نے ایک بار پھر اپنے پرانے ننگے سیکیسی رسالوں کا سہارا لے کر مٹھ مارنے پر مجبور ہو گیا مگر اس دوران میں ایک بات کو محسوس کرنے لگا تھا ۔ اور وہ بات تھی میری بہن مدیحہ کا میرے ساتھ پیش آنے والا رویہ۔ جو شکیلہہ کے جانے کے بعد ایک دم سے تبدیل ہو چکا تھا۔ مگر مجھے اس بات کو نوٹ کرنے میں تھوڑی دیر لگ گئی۔ مدیحہ اب میرے لیے ہر روز کھانا لاتی اور جب تک میں کھانا ختم نہ کر دیتا وہ میرے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ کر چوری چوری مجھے دیکھتی رہتی۔
کھانے کے دوران جب بھی مجھے محسوس ہوتا کہ مدیحہ کی نظریں میرے جسم پر گڑی ہوئی ہیں تو میں روٹی سے نظر ہٹا کر اس کی طرف دیکھتا تو وہ ایک دم اپنی نظریں چراکر کمرے سے باہر دیکھنے لگتی۔ یہ میری بہن مدیحہ کو کیا ہو گیا ہے، یہ اب میرے ساتھ پہلے کی طرح بات چیت بھی نہیں کرتی آج کل مدیحہ کی آنکھوں میں جو بات چھپی تھی وہ مجھے جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ مگر کوشش کے باوجود میں مدیحہ کی آنکھوں میں پوشیدہ پیغام کو پڑھنے سے قاصر تھا۔ اگرچہ مدیحہ نے مجھ سے بات چیت کرنا کم کر دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود میں نے اس میں ایک اور تبدیلی محسوس کی۔ کہ اب وہ نہ صرف کھانا پکانے میں میری پسند اور ناپسند کا خیال رکھنے لگی تھی۔
بلکہ وہ میرے کہے بغیر ہی گھر میں میرے کپڑوں کو دھونے اور ان کو استری کرکے میرے کمرے کی الماری میں رکھنے لگی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ میرے کھانا کھانے کے بعد بھی وہ دیر سے پہلے کے برعکس زیادہ دیر رک کر اس انتظار میں بیٹھی رہتی۔ کہ میں کب اسے کسی بات کا حکم دوں تو وہ فوراً اٹھا کر میرا وہ کام کر دے۔
مجھے اپنی بہن کے رویے میں آتی ہوئی اس تبدیلی پر حیرت ہوی۔ مگر میں نے اس سے اس بارے میں کچھ بات نہیں کی۔ شکیلہ کو گاؤں سے گئے اب ایک مہینہ ہونے کو تھا۔ مگر شکیلہ کے جانے کے بعد سے میں نے اپنی بہن مدیحہ سے اس کی سہیلی کے بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ پھر ایک دن جب میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ اس دوران مدیحہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے گندے برتن اٹھائے اور انہیں خود ہی دھونے کے لئے ٹیوب ویل کے ساتھ بنی ہوئی پانی کی ھودی (ریزروائر) پر لے آیا۔
ٹیوب ویل سے نکلنے والا پانی اسی ہودی میں جمع ہوتا رہتا۔ اور پھر ہودی میں جمع ہونے کے بعد وہ پانی یہاں سے نکل کر ہمارے سارے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا۔ پانی کی یہ ہودی اتنی بڑی اور گہری تھی کہ اس میں تین چار انسان اکٹھے ہو کر بہت آرام سے ایک ساتھ نہا بھی سکتے تھے۔ ھودی میں کھڑے پانی میں برتن دھوتے ہوئے میری نگاہوں نے مدیحہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ تو ادھر ادھر دیکھنے کے بعد مجھے اپنی بہن ڈیرےکے بڑے کمرے کی چھت پر کھڑی نظر آ ہی گئی۔ مدیحہ بڑے کمرے کی چھت پر کھڑی اپنے کھیتوں کا منظر دیکھنے میں مصروف تھی۔
میں تمہیں نیچے تلاش کر رہا ہوں اور تم اوپر چھت پر چڑھ گئی ہو، میں نے برتن دھو دئیے ہیں انہیں لے کر گھر چلی جاؤ، امی انتظار کر رہی ہیں تمہارا میں نے مدیحہ کو چھت پر کھڑے دیکھ کر اسے آواز دی۔ اچھا بھائی میں ابھی آئی میری بات سنتے ہی مدیحہ نے جواب دیا اور چھت پر لگی سیڑھی کے راستے نیچے اترنے لگی۔
بڑی چھت سے اتر کر مدیحہ پہلے ٹیو ب ویل کی چھت پر آئی۔ اور پھر ٹیو ب ویل کی چھت سے بھی دوبارہ سیڑھی کے ذریعے اتر کر اسے نیچے زمین پر آنا تھا۔ برتن دھونے کے بعد نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ میں ٹیو ب ویل کے ساتھ لگی سیڑھی کے نیچے آکھڑا ہوا۔ اور اپنی بہن کے چھت سے نیچے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹیو ب ویل کے ساتھ لگی سیڑھی پر آکر مدیحہ نے اپنا منہ چھت کی طرف کیا اور خود سیڑھی پر لگے ڈنڈے پر پاؤں رکھ کر الٹی حالت میں سیڑھی سے نیچے اترنے لگی۔
ادھر مدیحہ نے چھت سے الٹا ہو کر سیڑھی سے اترنا شروع کیا اور ادھر میں نے نیچے سے اپنے سر کو اوپر اٹھا کر مدیحہ کی طرف دیکھا۔ تو سیڑھی کے اوپر کا منظر دیکھتے ہی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اصل میں سیڑھی سے نیچے اترتے ہوئے مدیحہ کو گرنے کا ڈر لگا ہوا تھا۔ اس لئے نیچے اترتے وقت اس نے آگے کو جھک کر سیڑھی کے بھانس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔
اس لئے جھک کر نیچے اتارنے کے اس طریقے میں اب مدیحہ کی بھاری گانڈ پیچھے سے ہوا میں اٹھ گئی تھی۔ میرا لن تو ایک مہینہ چوت سے دوری کی وجہ سے کسی عورت کی پھدی کا پہلے ہی پیاسہ ہو رہا تھا۔ جب کہ مدیحہ بے شک میری بہن تھی۔ مگر بہن ہونے سے پہلے وہ ایک جوان لڑکی بھی تھی۔
اس لیے آج ہوا میں اُٹھی ہوئی اپنی ہی بہن کی موٹی بھاری گانڈ کو دیکھتے ہی میرے لن میں ایک جوش سا آ گیا۔ اور میرے نہ چاہنے کے باوجود میں نے
پیاسی نظروں سے سیڑھی اترتی اپنی بہن کی مزے دار گانڈ کو دیکھنا جاری رکھا تو میرے لن نے میری شلوار میں اپنی ہی بہن کی موٹی گانڈ کے لیے ھٹرنا شروع کر دیا۔ اب مدیحہ الٹی حالت میں سیڑھی سے نیچے اتر کر جوں جوں میرے نزدیک آ رہی تھی۔
تون تون میری شلوار میں موجود میرے لوڑے میں اپنی بہن کی اُٹھی ہوئی مست گانڈکو دیکھتے ہوئے سختی آتی جا رہی تھی۔ پھر مدیحہ سیڑھی سے اتر کر جیسے ہی زمین پر آئی۔ تو میں ایک دم وہاں سے ہٹ کر دوبارہ کمرے کی طرف چل پڑا۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری بہن کی نظر میری شلوار میں ھڑےہوئے میرے لوڑے پر پڑے۔
اچھا بھائی میں گھر جا رہی ہوں چھت سے نیچے آتے ہی مدیحہ نے ٹیوب ویل کی ھودی کے پاس پڑے برتن اٹھائے اور گھر کی طرف چل پڑی۔ ٹھیک ہے
میں نے مدیحہ کو ہلکی آواز میں جواب دیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر اپنی بہن کو گھر جاتا دیکھا۔ میرے دل و دماغ میں اس وقت ایک عجیب سا طوفان مچا ہوا تھا۔ آج مجھے انجانے میں اپنی ہی بہن کی بھاری گداز گانڈ کا دیدار ہوا تھا۔ اور میرے نہ چاہنے کے باوجود میرے لن کو اپنی ہی بہن کی گانڈ کی گرمی چھا چکی تھی۔
مدیحہ کے دیر سے چلے جانے کے باوجود میرے لن میں آئی ہوئی یہ گرمی ابھی تک کم نہیں ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے میرا لن تن کر میری شلوار میں ابھی
تک ایک شان سےاکڑا کھڑا تھا۔ میں کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر مدیحہ کو دور تک جاتا دیکھتا رہا۔ پھر جیسے ہی مدیحہ کا وجود میری نظروں سے اوجھل ہوا۔ تو میں نے ایک دم سے کمرے میں داخل ہو کر اپنی شلوار اتار دی۔ میرے لن میں اس وقت بہت گرمی چڑھ چکی تھی۔ اور اس گرمی کو اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرنے کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
میں نے اپنے لوڑے کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ذہن میں شکیلہہ کے جسم کو لا کر اپنے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔ ہائے شکیلہہ
میں آنکھیں بند کر کے اپنی بہن کی سہیلی شکیلہہ کی چوت کی مٹھ لگا رہا تھا۔ کہ مٹھ لگتے لگتے اچانک میرے ذہن میں سیڑھی سےاترتی ہوئی اپنی بہن مدیہ کی موٹی اور بھاری گانڈ کا تصور ایک بار پھر سے آ گیا۔
نہ کربہن چود وہ بہن ہے میری مٹھ لگتے وقت جون ہی میرے ذہن میں مدیحہ کے بارے خیال آیا۔ تو میں نے ایک دم اپنی آنکھیں کھول کر اپنے ذہن میں آتے اس خیال کو جھٹکے ہوئے اپنے دل اور لن کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر پھر اپنی آنکھوں کو دوبارہ سے بند کرتے ہوئے میں نے جیسے ہی شکیلہہ کے بارے میں سوچنا چاہا۔ تو میری بہن مدیحہ کی باہر کو نکلی گانڈ ایک بار پھر میرے حوش و حواس میں آتی چلی گئی۔
چونکہ لن کی گرم کے ہاتھوں میں اب پاگل ہو چکا تھا۔ اس لیے اب کی بار اپنی بہن کی بھاری گانڈ کی تصویرکو اپنے ذہن سے نکالنا میرے لیے ناممکن ہو گیا۔ اور پھر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر میں نے اپنے لن پر تیزی کے ساتھ ہاتھ مارا اور کچھ ہی دیر بعد جوش سے چلا اٹھا 'ہاے مدیحہ '۔
اس کے ساتھ ہی میرے لن کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور میرے لن سے پانی کا ایک فوارہ ابل پڑا۔ جس کے ساتھ ہی میرے لن سے منی نکل نکل کر کمرے کے فرش پر گرنے لگی۔
آج پہلی بار اپنے بہن کے نام کی لن کی مٹھی لگنے کے بعد جب میرے دماغ کو چڑھی منی اتری تومیرے دماغ نے مجھے برا بھلا کہا ۔تو میں نے پشمان ہوتے
ہوے اپنے لن کو پاس پڑے ایک گندے تولیے سے صاف کرنے کے بعد چارپائی پر پڑی اپنی شلوار دوبارہ پہنی۔ مگر میری شلوار میں میرا لن کچھ سکون ملنے کے باوجود ہلکے ہلکے جھٹکے کھاتا ہوا اب بھی مجھے بدستور یہ ہی کہہ رہا تھا کہ "جانی یہ لن مانگے مور"۔ پھر اس رات گھر واپس آ کر جب میں سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا۔ تو دن کو پیش آنے والا واقعہ میرے دماغ میں ابھی تک گھوم رہا تھا۔
جس کی وجہ سے بستر پر کافی دیر ادھر اُدھر کروٹیں بدلنے کے باوجود مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں بستر پر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر نیند آنے کی بجائے میری بہن مدیحہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے بار بار گھوم رہا تھا۔ میرے بار بار کی کوشش کے باوجود میری بہن کا خوبصورت اور جوان جسم میرے ہوش و حواس پر چھا چکا تھا۔ تو پھر اس رات اپنے بستر پر لیٹ کر میں ایک بار پھر اپنی بہن مدیحہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ اپناسارا وقت کھیتی باڑی میں صرف کرنے کے دوران مجھے تو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میری بہن مدیحہ ہ اب بچی نہیں رہی بلکہ وہ تو 24 سال کی ایک مست جوان لڑکی بن چکی ہے
اس کی سانولی رنگت کے باوجود اس کے جسم میں ایک عجیب سی کشش ہے، اوپر سے مدیحہ کا بھرا ہواجسم، رسیلے ہونٹ، پتلی کمر، اس کے سینے پر اس کی بڑی
اور بھاری نرم چھاتیاں اور سب سے بڑھ کر اس کی باہر کو نکلی ہوئی گانڈ کی وجہ سے میری بہن مدیحہ ایک قیامت خیز دُو شیزہ بن چکی ہے۔ میں آج ایک بار
اپنی ہی بہن کی جوانی کے متعلق نہ صرف یوں سوچ رہا تھا۔
بلکہ اپنی بہن کی جوانی کو سوچتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنے لنڈ کو بھی ہاتھ میں پکڑ کر آہستہ آہستہ مسلنے بھی لگا۔
ابھی میں مَدیحہ کے بارے میں یہ سب کچھ سوچتے ہوئے گرم ہو رہا تھا کہ اتنے میں شکیلہہ کی کہی ہوئی ایک بات دوبارہ سے میرے کانوں میں گونج اُٹھي کہ راحیل تمہاری بہن اب بچی نہیں کہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے
یہ بات سوچتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میری آنکھیں بند تھیں تو میری بند آنکھوں کے سامنے اچانک ہی مَدیحہ کی آنکھیں آ گئیں اُف جس طرح کی جنسی ہوس میں نے پہلی ملاقات میں شکیلہہ کی آنکھوں میں دیکھی تھی، اسی طرح کی پیاس تو میری اپنی بہن مَدیحہ کی آنکھوں سے جھلک رہی ہے، جسے پڑھنے میں اب تک قاصر ہی رہا ہوں
اس بات کا خیال آتے ہی میں نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولیں تو ایک اور بات میرے ذہن میں دوڑگئی کہ ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے میری بہن مَدیحہ میں بھی جنوانی کے جذبات تو ہوں گے، تو اگر میں کوشش کر کے مَدیحہ سے شکیلہہ کی طرح کے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو مجھے اپنے ہی گھر میں ایک جوان اور گرم چوت دستیاب ہو سکتی ہے
یہ بات سوچتے ہی میں نے اپنے دل میں اس بات پر جلد عمل کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر کے سو گیا۔
؎
دوسرے دن ڈیرے پر جا کر کام کاج میں لگ گیا دوپہر کو مدیحہ کھانا لے کر ای اور میں کھانے سے فارغ ہوا تو مدیحہ نے گھر واپس جانے کے لیے گئی برتن سمیٹنا شروع کر دی۔
مدیحہ گھر واپس جانے سے پہلے تم آج میری بات سن کر جانا مدیحہ کو برتن اکٹھے کرتے دیکھ کر اپنی بہن سے کہا۔ مدیحہ نے برتن سمیٹتے ہوئے بہت غور سے میری طرف دیکھا اور جواب دیے بغیر برتن دھونے باہر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اپنے گیلے ہاتھوں کو تولیہ سے صاف کرتے ہوئے مدیحہ دوبارہ واپس کمرے میں داخل ہوئی اور دروازے پر کھڑے ہو کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا "جی بھائی
اندر او آؤ میرے پاس بیٹھ کر میری بات سنو مدیحہ " میں نے مدیحہ کو اپنے پاس چارپائی پر آ کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ میری بات سنتے ہوئے مدیحہ کمرے میں داخل ہوئی اور خاموشی سے میرے پاس چارپائی پر آ بیٹھ گئی۔ مدیحہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ شکیلہہ کب تک دوبارہ گاؤں واپس آئے گی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اپنی بہن سے بات کیسے شروع کروں اس لیے میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
کیوں خیرہے؟” میرے سوال کے جواب میں مدیحہ نے معصومانہ انداز میں الٹا مجھ سے سوال کیا۔ نہیں بس ایسے ہی پوچھ رہا ہوں
مدیحہ کے جواب کے سوال پر میں ایک دم بوکھلاتے ہوئے میں نے بولا
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتی اب اگلی سردیوں میں ہی گاؤں آئے گی شاید مدیحہ نے میرے سوال کا جواب تو منہ سے بول کر ہی دیا۔
مگر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے منہ کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں بھی مجھے کچھ بتانا چاہ رہی تھیں۔
اف نہیں، سردیوں آنے میں تو ابھی چھ ماہ باقی ہیں مدیحہ کی بات سنتے ہی میں بےصبری سے بولا۔
بھائی آج آپ بار بار شکیلہہ کا ہی پوچھے جا رہے ہیں، کوئی خاص کام ہے اس سے کیا میری بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے مدیحہ نے میری طرف دیکھا اور جھجکتے ہوئے پھر سوال کیا۔ تو اس بار مجھے اپنی بہن کے لہجے میں تھوڑی جیلسی سی محسوس ہوئی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میں شکیلہہ کو بہت زیادہ مس کر رہا ہوں اب کی بار میں نے جھجکتے ہوئے اپنی بہن مدیحہ سے یہ بات کہہ ہی دی۔
مدیحہ نے میری بات سن تو لی مگر اس بار اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔
مدیحہ ، تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہاری سہیلی کو کیوں مس کر رہا ہوں مدیحہ کی خاموشی دیکھتے ہوئے، دھڑکتے دل کے ساتھ میں دوبارہ بولا۔ مگر میری بات کے جواب میں مدیحہ اس بار بھی خاموش ہی رہی۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ عرصہ پہلے میرے اور شکیلہہ کے درمیان جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں نہ صرف تمہیں سب پتہ ہے، بلکہ مجھے یقین بھی ہے کہ تم چپ کر میری اور شکیلہہ کی ساری ملاقاتوں کو دیکھتی بھی رہی ہو مدیحہ ” مدیحہ کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی بہن سے اس بالآخر اپنی دل کی بات کر ہی دی۔
مدیحہ سے یہ بات کہتے ہی میں نے اپنی بہن کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو مدیحہ کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر میں فوراً سمجھ گیا۔ کہ نہ صرف اپنی بہن مدیحہ کے متعلق میرا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ بلکہ اب مدیحہ کے ساتھ باتیں کرنے کے دوران شکیلہہ کے حوالے سے میں نے اپنی بہن صحیح وار کیا تھا۔ مدیحہ نے اب کی بار بھی مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں ایک بار پھر بولا "تو تم واقعی ہی میری اور شکیلہہ کی جاسوسی کرتی رہی ہو نا مدیحہ
میری اس بات کو سنتے ہی مدیحہ نے ایک دم گھبرا کر میری طرف دیکھا۔ اور پھر اسی گھبراہٹ اور بے اختیاری کے عالم میں اُس نے اپنی نظروں
کو میرے چہرے سے ہٹا کر کمرے کی چھت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔
اپنی بہن کی آنکھوں کا پیچھا کرتے ہوئے میری اپنی آنکھیں بھی کمرے میں بنے ہوئے اس روشندان پر جا ٹکیں۔ جس کی کھڑکی ٹیوب ویل کی چھت پر کھلتی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ ایسی تھی کہ ٹیوب ویل کی چھت پر بیٹھ کر روشندان کے ذریعے بڑے کمرے کے اندر تو دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر کمرے کے اندر سے کھڑکی کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص باہر بیٹھ کر کمرے میں جھانک رہا ہے۔
اچھا تو میری بہن ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھ کرکے شکیلہہ کے ساتھ میری چودائی کے کھیل کو دیکھتی رہی ہے" اپنی بہن کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے میری نظر جیسے کہ کمرے کے روشن دان پر پڑی تو مجھے فوراً ساری بات سمجھ آ گئی۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے روشن دان سے نظریں ہٹا کر ایک بار کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو میں نے مدیحہ کو بھی اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا۔
اس بار جب ہم دونوں بہن بھائی کی نظریں آپس میں ملیں۔ تو اپنی چوری پکڑے جانے کی وجہ سے میری بہن مدیحہ کا چہرہ شرم سے لال ہو چکا تھا۔ میں گھر جا رہی ہوں” پھر جیسے ہی میری اور مدیحہ کی نظریں ملیں۔ تو وہ مجھ سے نظریں چراتے اور ساتھ ہی چارپائی سے ایک دم اٹھتے ہوئے بولی۔ ابھی نہیں جاؤ ناں" مدیحہ کو چارپائی سے اٹھتے دیکھ کر میں نے ایک دم سے اس کی ہاتھ کی کلائی کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔ تو میری شلوار میں میرا لوڑا گرم ہو کر ھڑنے لگا۔
میرا ہاتھ چھوڑو بھائی مجھے جانا ہے" مجھے یوں اچانک اپنا ہاتھ پکڑتے ہوئے دیکھ کر مدیحہ نے مزید گھبراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ اور ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ مگر میں نے اس کی کلائی کو نہیں چھوڑا۔ آج میں نے ہمت کرکے اپنی ہی جوان بہن کی کلائی پکڑ تو لی تھی۔ مگر میری اس حرکت پر میرے دماغ نے مجھے اسی وقت ججھجوڑتے ہوئے کہا "شرم کر بے غیرت، جانے دے اسے، آخر بہن ہے یہ تیری
ابھی میں اپنے دماغ کی بات سن ہی رہا تھا۔ کہ اتنے میں میرے دل اور لُن نے میرے اندر کے شیطان کو ایک دم جگاتے ہوئے مجھے کہا “آج اگر تم نے ہمت کر کے اپنی بہن کی کلائی پکڑ ہی لی ہے، تو اسے چھوڑنا مت، کیوں کہ آج اپنی بہن کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کا تمہارے لیے ایک بہت ہی سنہری موقع ہے اور اگر تم نے آج بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو یاد رکھو زندگی بھر پچھتاؤ گے راحیل
میرے اندر کے شیطان نے جونہی مجھے اپنی ہی بہن کی عزت سے کھیلنے کے لیے اکسانا شروع کیا۔
تو کسی جوان اور گرم چوت کی طلب میں میرے شلوار میں پاگلو ںکی طرح ادھر ادھر آنے والا ٹکریں مارنے والے میرے لن نے خوشی سے دھمال ڈالنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لن سے گرمی کی ایک لہری اٹھی۔ جو سیدھا میرے سر میں گھس کر میرے دماغ کو ماؤف کر گئی۔ جس کی وجہ سے میرے دماغ نے کام کرنا بند کر دیا۔ اب اپنی جنسی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں چارپی سے اٹھا۔ اور پھر اپنی بازیاں پھیلاتے ہوئے ایک دم اپنی سگی بہن کے جوان گداز جسم کو اپنی بازوں کے گہرے میں جکڑلیا۔
اوف میری بہن کے جسم میں تو جیسے آگ ہی بھری ہوئی ہے اپنی بہن کے جسم کو اپنی بازوؤں میں لیتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میں نے صحرا کی تپی ریت کو ہاتھ میں لے لیا ہو۔ مدیحہ کے جسم سے نکلتی آگ نے میرے اندر کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ جس کی وجہ سے اب میرا لن ایک انگڑائی لے کر پورے جوش سے میری شلوار میں آکر چکا تھا۔ بھائی یہ کیا کررہے ہیں آپ میرے ساتھ میرے اس اچانک حملے سے مدیحہ ایک دم بُھکلاتے ہوئے بولی۔ اور اس نے اپنے آپ کو میری بازوؤں کے شکنجے سے چھڑانے کی کوشش بھی کی۔ مگر میں نے اسے اپنی بازوؤں سے نکلنے کا موقع نہیں دیا۔
میں تمہارے ساتھ بھی وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہوں، جو تم مجھے شکیلہ کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھ چکی ہو مدیحہ" یہ کہنے کے ساتھ ہی اپنی بہن مدیحہ کے جسم کے گرد اپنے بازوں کستے ہوئے میں اپنا چہرہ اس کے چہرے کے اتنے قریب لے آیا کہ ہم دونوں کے منہ سے نکلنے والی گرم سانسیں اب ایک دوسرے کی سانسوں سے ٹکرانے لگیں تھیں۔
نہیں نہیں، میں آپ کی بہن ہوں اور ہمارے درمیان یہ سب صحیح نہیں ہے بھائی "میری بات سنتے ہی مدیحہ بولی اور اُس نے میری بازوؤں کی گرفت سے نکلنے کی ایک بار پھر کوشش کی۔ مگر مدیحہ کے جسم کے گرد میری بازوؤں کا گہرا تنگ ہونے کی بجائے اب تنگ ہوتا گیا۔ جس کی وجہ سے میری بہن کے موٹے گداز ممے میری چوڑی چھاتی میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا۔ جب میں اپنی بہن مدیحہ کو اتنے قریب سے دیکھ اور چھو رہا تھا۔ اور اب اپنی بہن کے نرم مموں کے لمس اور اس کی چوت کی پیاس کی وجہ سے میں اس وقت "ابھی نہیں تو کبھی نہیں" والی صورت حال میں پھنس چکا تھا۔ جس کی وجہ سے میرے لیے اب پیچھے ہٹنا ایک ناممکن سی بات ہوگئی تھی
یہی بات ذہن میں لے کر میں نے اپنے منہ کو تھوڑا اور آگے بڑھایا اور ایک دم سے اپنی سگی بہن کے نرم اور ملائم ہونٹوں کو پہلی بار ہلکا سا چوم لیا۔ میرے ہونٹوں کے اپنے ہونٹوں سے چھوتےہی میری بہن مدیحہ نے اس اچانک حملے سے بکھلا کر شرم کے مارے نہ صرف اپنی آنکھیں فوراً بند کر لیں۔ بلکہ اپنے بھائی کے لبوں کا لمس پہلی بار اپنے جوان کنوارے ہونٹوں پر محسوس کرتے ہی شرم کے مارے مدیحہ کے جسم میں کپکپاہٹ سی ہونے لگی۔ بھائی کیوں تنگ کر رہے ہو، جانے دو نا مجھے" میری بے شرمانہ حرکت کو روکنے میں ناکام ہونے کے باوجود مدیحہ نے ایک بار پھر میری بازوں سے نکلنے کی کوشش کی۔ مگر پہلے کی نسبت اب کی بار اس کی مزاحمت میں زیادہ زور نہیں تھا۔
ہائے لگتا ہے کہ میرے لبوں کی گرمی نے میری بہن کی جوانی میں بھی آگ لگنا شروع کر دی ہے” پہلی بار یوں اپنی سگی بہن کے لبوں کی چومی لینے کے مزے کو محسوس کرتے ہوئے میرا حوصلہ مزید بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے ہونٹوں کو مدیحہ کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے اپنے گرم ہونٹوں کو اپنی بہن کے موٹے گالوں پر رکھ دیا۔ نہ کرو نہ بھائی میری گرم زبان کو اپنے گورے گالوں پر چلتا محسوس کرتے ہوئے مدیحہ نے ایک بار میری منت کی۔
لیکن اپنی بہن کی بات اُن سُنتے ہوئے میں مدیحہ کے پھولے ہوئے نرم گالوں پر ہلکا ہلکا اپنی زبان گھماتے ہوئے اپنا منہ اپنی بہن کے کان کے نزدیک لے آیا۔ اور پھر اپنی بہن کے کان میں آہستہ سے سرگوشی کی “تم بہت ہی خوبصورت ہو مدیحہ ، شاید تمہیں یقین نہ آئے، مگر میں تم سے بہت پیار کرنے لگا
یہ کہتے ہوئے میں مدیحہ کے دائیں کان کو اپنے منہ میں بھر گیا اور اپنی بہن کے کان کی لوپر اپنی گرم زبان پھیرنے لگا۔
میری گرم زبان کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے میری بہن سسکاری۔ مگر اُس نے اپنی آنکھیں بدستور بند ہی رکھی۔
مدیحہ کی بند آنکھوں اور اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ یوں لگتا ہے کہ جیسے میری بہن اس وقت کسی گہری سوچ میں مبتلا ہے، بے شک مدیحہ میری بہن ہے لیکن اس سے پہلے وہ ایک جوان لڑکی بھی ہے، ایک لڑکی کی حیثیت سے اپنی سہیلی شکیلہہ کی طرح شاید وہ میرے ساتھ سب کچھ کرنا تو چاہ رہی ہو، لیکن بہن ہونے کی نسبت اسے اپنے ہی بھائی سے یہ سب کرتے ہوئے شرم بھی محسوس ہو رہی ہے۔ اپنی بانہوں میں قید اپنی چھوٹی بہن مدیحہ کو اپنی بند آنکھوں سے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔
میں ایک طرف اپنی باہوں میں جکڑی مدیحہ کو اپنی بند آنکھوں کے ساتھ اپنی سوچ میں مگن دیکھ رہا تھا۔ مگر دوسری طرف اپنی بہن کے جسم کی حرکات اور اس کے چہرے کے تاثرات سے میں یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اپنی بہن مدیحہ کے ساتھ جانے والی میری چھیڑ چھانی اب آہستہ آہستہ اپنا کام دیکھنے لگی ہے۔ اسی لیے مدیحہ کے چہرے کے تاثرات پر نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنا کام جاری رکھا۔ اور پھر اپنے ہاتھوں سے مدیحہ کی کمر سے آہستہ آہستہ نیچے لاتے ہوئے
میں نے اپنی بہن کی چوڑی اور گداز پھاڑیوں کو پہلی بار اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا۔ "اوہ کیا مزے دار جسم ہے تمہارا میری بہن"
اپنی بہن کی بھاری گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں کستے ہوئے میں نے مدیحہ کے جسم کو زور سے اپنی طرف کھینچا۔
تو میری شلوار میں ہڑا ہوا میرا لوڑامیری بہن کی گداز رانوں میں سے سرکتا ہوا پہلی بار شلوار کے اوپر سے ہی میری بہن کی کنوای چوت سے جا ٹکراگیا۔ اوہ" بھائی کے سخت لوڑےکی اپنی بہن کی نرم کنواری چوت پر پہلی دستک ہوتے ہی، ہم دونوں بہن بھائی کے منہ سے سسکیاں نکل پڑیں۔
تو ساتھ ہی مزے کے مارے مدیحہ نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں جکڑلیا۔ جس کی وجہ سے میرا لُن اب اس کی گداز رانوں میں پھنس کر رہ گیا۔
ہائے مزے دار” اپنے لن کو پہلی بار یوں اپنی سگی بہن کی رانوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتے ہی میں نے اپنے جسم کو تھوڑا سا پیچھے کرتے ہوئے پھر ہکلا سا جھٹکا دیا۔ تو شلوار کے اندر سے میرا لن ایک بار پھر میری بہن کی گوشت بھری رانوں میں سرکتا ہوا دوبارہ مدیہ کی چوت سے ٹچ ہو گیا۔
اف بھائی جان” اپنی کنواری چوت کے ساتھ اپنے ہی سگی بھائی کے گرم اور سخت لوڑے کے لمس کو محسوس کرتے ہی مدیحہ کا صبر کا پیمانہ بھی ٹوٹ گیا۔
اور پھر خود سپردگی کے عالم اپنی بازوؤں کو میں میری گردن کے گرد کستا ہوا میری بہن چلا اٹھی۔ اور جوش کے مارے مدیحہ نے میرے ہونٹوں کو اپنے
ہونٹوں میں لیتے ہوئے گرم جوشی سے میرے لبوں کو چوسنا ہوئے شروع کر دیا۔
اوہ میرے ہونٹوں اور لُن کی گرمی کی بدولت میری بہن کی کنواری چوت بھی مچل ہی گئی ہے بالآخر” اپنی بہن مدیحہ کو اپنی جنسی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے یوں دیوانہ وار چومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل اور لُن دونوں باغ باغ ہو گئے۔
اب ایک طرف مدیحہ مست ہو کر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ تو دوسری طرف میں بھی اس کی گرم جوشی کا جواب دیتے ہوئے دیوانہ وار اپنی بہن کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔ اپنی بہن کے وجود پر جوانی کی گرمی کا اثر دیکھتے ہوئے مجھے مزید جوش آیا۔
اور اسی جوش میں جپھی ڈال کر میں نے مدیحہ کے جسم کو زمین سے تھوڑا اٹھا لیا۔
اور پھر مدیحہ کے منہ میں زبان ڈال کر اس کی زبان چوستے ہوئے میں نے مدیحہ کی قمیض کے اوپر سے اس کے گول گول ممے کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔
تو بہن کے مموں کی موٹیائی کی وجہ سے مجھے یوں لگا جیسے میں نے اپنے ہاتھ میں کوئی غبارہ پکڑ لیا ہو۔ اپنی بہن کی جوان کنواری چھاتی کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے میں نے مدیحہ کے موٹے ممے کو جوش سے مسلا۔ تو درد اور مزے کی ملی جلی کیفیت سے مدیحہ کے منہ سے آواز نکلی "اچھ، اوہ"۔ اُف آج زندگی میں پہلی بار ایک مرد میری بہن کی جوان چھاتیوں کو اپنی مٹھی میں لے کر دبالا رہا ہے، اور وہ مرد کوئی اور نہیں بلکہ خود اس کا اپنا سگا بھائی ہے" اپنی بہن کے گداز ممے کو اپنی مٹھی میں لے کر پیار سے آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے میرے دماغ میں یہ خیال آیا تو میرے لن کی گرمی مزید بڑھنے لگی۔
قمیض کے اوپر سے مدیحہ کے مموں کو مسلنے میں مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس لیے کسنگ کے ساتھ ساتھ میں اپنی بہن کے جوان اور بھاری ممو ںکو اپنے ہاتھوں میں لے کر کافی دیر تک دباتا اور مسلتا رہا۔ اور میرے ہاتھوں کے سوا د سے مدیحہ کے منہ سے سسکیاں نکلتی رہیں۔
پھر کچھ دیر اپنے بہن کے ہونٹوں کو چوستے اور اس کے موٹے ممو ں سے کھیلنےکے بعد میں مدیحہ کی کمر سے اپنا ایک ہاتھ ہٹا کر مدیحہ کی شلوار پر لے گیا۔ اور پھر اپنے ہاتھ کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنی بہن کی پھولی ہوئی کنواری چوت پر رکھ دیا
شلوار کے اوپر سے اپنی بہن کی چوت پر ہاتھ رکھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ اپنی جنسی ہوس کی آگ میں جلنے کی وجہ سے اس وقت میری بہن کی کنواری چوت پانی پانی ہو رہی تھی۔ اور گیلا ہونے کی وجہ سے مدیحہ کی شلوار کا اگلا حصہ بھی کافی گیلا ہو چکا تھا۔
اُف بھائی” جوں ہی میرے ہاتھ نے اپنی بہن کی اُن چھوئی چوت کو چھوا۔ تو لذت کے مارے مدیحہ کے منہ سے سسکیاں سی پھوٹنےلگیں اور جوش میں آ کر وہ میرے لبوں کو اپنی دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ہائے کیا ملائم پُھدی ہے تمھاری” شلوار پہنے ہونے کے باوجود اپنی بہن کی نرمی کا مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا۔ اس لیے مدیحہ کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کی چوت کو آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے میں نے کہا۔ اسی دوران میں نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر شلوار میں تنےہوئے اپنے موٹے سخت لن کر رکھ دیا۔
کیسا ہے میری لن مدیحہ ” اپنے تنے ہوئے لن کو اپنی سگی بہن کے ہاتھ میں پہلی بار دیتے ہوئے میں نے مدیحہ سے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔ “او بھائی ایسی گندی باتیں تو نہ کرو نا پلیز مدیحہ نے شلوار میں ہیرے میرے لوڑے سے ایک دم اپنا ہاتھ الگ کرتے ہوئے جواب دیا۔
ہائے اب اپنے آپ کو ایسی گندی باتیں سننے کا عادی کر لو، کیونکہ آج کے بعد میں نے ایسی کئی گندی باتیں تم سے کرنی بھی ہیں اور تمہارے منہ سے سننی بھی ہیں میری جان” مدیحہ کی بات کا جواب دیتے میں بولا۔ اور پھر اپنی بہن کی شلوار کے ناڑےکو پکڑ کر جھٹکے سے کھنچ دیا۔ جس کی وجہ سے میری بہن مدیحہ کی شلوار اس کی کمر سے ڈھیلی ہو کر کمرے کے فرش پر جا گری۔
آج اپنے ہی ہاتھ سے اپنی بہن کی شلوار کا نارا کھول کر اسے ننگا کرنے کے بعد میں نے ایک بار پھر مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ اپنی لوڑے پر رکھا۔ اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کی چکنی گداز رانوں کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر مسلنا شروع کر دیا۔
او بھائی جان" اپنی نرم گداز ران پر پہلی بار اپنے جوان سگے بھائی کے ہاتھوں کی گرمی محسوس کرتے ہی مدیحہ ا نے مزے سے چلاتے ہوئے میرے کہے بغیر ہی جوش سے میرے لن کو اپنی گرفت میں لیا۔ اور ساتھ ہی نیچے سے اپنی ٹانگیں میرے ہاتھ کے لیے مزید کھول دیں۔
اپنی بہن کی اس مہربانی سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے مدیحہ کی گداز رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہاتھ کو آہستہ آہستہ اوپر لے کر اپنے ہاتھ کو دوبارہ اپنی بہن کی ننگی چوت پر رکھ دیا۔
او لگتا ہے تم نے مجھ سے چدوانےکے لئے ہی، آج ہی اپنی پھدی کی تازہ تازہ صاف کی ہے شاید" اپنی بہن کی بغیر بالوں والی مخملی نرم گرم چوت پر پہلی بار اپنا ہاتھ پھرتے ہوئے میں مزے سے بولا۔
اور پھر مدیحہ کی پانی پانی ہوتی چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میں اپنی انگلی کو اپنی بہن کی چوت کےکنوارے لبوں پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا۔ جوں ہی میری ہاتھ کی انگلیاں اپنی بہن کی چوت کے لبوں پر چلیں، تو میری انگلیوں کے مزے سے بےحال ہو کر مدیحہ کا جسم کانپ اٹھا اور وہ سسکیاں بھرتے ہوئے مجھ سے چپکتی چلی گئی۔
کیا تم واقعہ ہی چھپ چھپ کر میری اور شکیلہ کی چدائی کا نظارہ کرتی رہی ہو”پوچھا اپنی بہن کی چوت کو اپنے ہاتھ سے ہلکا ہلکا مسلتے ہوئے میں نے
ہاں بھائی میرے ہاتھ کی لذّت سے محظوظ ہوتے ہوئے مدیحہ نےجواب دیا
اصل میں مجھے شکیلہ اور اپ کے درمیان قائم ہونے والے تعلق کا علم تو اسی دن ہو گیا تھا جب شکیلہ ملتان سے واپس ا کر ہمارے گھر مجھے ملنے ائی پھر جب اپ اور شکیلہ کی اکیلے میں پہلی ملاقات سٹارٹ ہوی تو میں اپ دونوں کو کمرے میں اکیلے چھوڑ کر باہر ادھر ادھر اپنا وقت گزارنے لگلی
اسی وقت گزاری کے دوران میں جب ٹیوب ویل کی چھت پر گی تو اچانک بے اختیاری میں میری نظر روشندان کے ذریعے کمرے کے اندر پڑی تو اپ اور شکیلہ کے درمیان ہونے والے جنسی کھیل کو دیکھ کر میری انکھیں کھلی کی کھلی رہ گیں
میں نے پہلے تو وہاں سےہٹنا چاہ مگر میرے اندر کے تجسس کی وجہ سے میں چاہنے کے باوجود وہاں ہی کھڑی رہ کر کمرے کے اندر ہونے والی ساری کاروای دیکھتی رہی
تو اپنی سہیلی کی چوت میں میرا لن جاتا دیکھ کر کیا تمھاری چوت بھی گرم ہوتی تھی مدیحہ اپنی بہن کی بات سن کر میں نے جوش میں اپنے ہاتھ سے اس کی چوت زور سے مسلتے ہوئے پِھر سوال کیا
جی بھائی" میرے ہاتھ کے سوا سے مدیحہ مزید گرم ہوتے ہوئے بولی۔
تو پھر پھر میری اور شکیلہہ کی چدائی دیکھنے کے دوران تم کیا سوچا کرتی تھی میری جان" اپنی بہن کا جواب سنتے ہی میں نے اس سے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
مہربانی کرکے ایسا سوال نہ کریں نہ مجھ سے بھائی” میرے اس سوال کا ڈائریکٹ جواب دینے کے بجائے مدیحہ نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
بتاؤ نا، میں تمھارے منہ سے یہ بات جاننا چاہتا ہوں میری جان” اپنی بہن کی چوت کے چھولے پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے میں نے مدیحہ سے دوبارہ وہی سوال پوچھا۔
اف شکیلہہ کی اپ کے ساتھ ہونے والی ہر روز کی چودائی دیکھ کر اہستہ اہستہ میرا دل بھی چاہنے لگا کہ اس کی جگہ میں اپنی ٹانگیں کھول کر آپ کے سامنے لیٹ جاؤں، اور شکیلہہ کی طرح میں بھی آپ سے اپنی چوت کو چدوا لوں بھائی
اپنی پھدی پر چلنے والے میرے ہاتھ ہی گرمی سے بے حال ہوتے ہوئے مدیحہ نے دل میں چھپی خواہش کا پہلی بار اپنی زبان سے اقرار کر لیا۔
اسی کے ساتھ ہی مدیحہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے میرے لوڑے کی شلوار کے اوپر سے ہی بے شرمی کے ساتھ مٹھ لگانا شروع کر دی۔
اپنی بہن کی بات کے ساتھ ساتھ اپنے لن پر چلنے والے بہن کے ہاتھ کے کمال کی وجہ سے میرا روم روم کھل اٹھا اور میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
جوش میں آ کر میں نے اپنی انگلی اپنی پیاری بہن کی کنواری چوت کے گلابی ہونٹوں پر زور سے رگڑی اور ساتھ ہی مزے سے سسکتے ہوئے کہا "ہائے اگر اس بات کا مجھے پہلے علم ہوتا، کہ شکیلہ کے ساتھ ساتھ میری بہن کی چوت بھی میرے لن کی طلبگار ہے، تو یقین مانو میں اب تک نہ جانے کتنی بار تمہیں چود چکا ہوتا میری بہن" اپنی بہن کی پھولی ہوئی چوت پر انگلیاں پھیرتے ہوئے میں بولا۔
تو مدیحہ کا مخملی جسم میری بانہوں میں مچل اٹھا اور وہ بھی سسکتے ہوئے بول پڑی "اففف آپ نے اپنی حرکتوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی باتوں سے بھی میری چوت میں آگ لگا دی ہے بھائی"
اپنی بہن کی یہ گرم بات سنتے ہی میں نے اپنی بہن کی چوت کو اپنی مٹھی میں دبوچا۔ تو دوسری طرف مدیحہ کے ہاتھ کی گرفت میرے لن کے گرد مضبوط ہوتی چلی گئی۔
اور پھر سب رشتے ناتے بھلا کر ہم دونوں بہن بھائی نے ایک دوسرے کے لن اور پھدی پر اپنے اپنے ہاتھ تیزی کے ساتھ چلانا شروع کر دیے۔
کچھ دیر اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کی چوت کو مزید گرم کرنے کے بعد میں نے مدیحہ کی قمیض کو اس کے کونوں سے پکڑا۔
اور پھر پہلے اپنی بہن کی قمیض اور ساتھ ہی اس کا برا اور پینٹی بھی اتار کر اپنے ہاتھ سے اپنی سگی بہن کو مکمل برہنہ کر دیا۔
اپنے ہاتھوں اپنی بہن کے جسم سے ایک ایک کر کے سارے کپڑے اتارنے کے بعد میں مدیحہ سے الگ ہوا۔ اور تھوڑا پیچھے ہو کر کمرے میں کھڑی اپنی بہن کی ننگی جوانی کا نظارہ کرنے لگا۔
واہ اس وقت ڈیرے کے کمرے میں کیا غضب کا نظارہ تھا۔ میری اپنی سگی بہن میری پیاسی آنکھوں کے سامنے کمرے میں پوری ننگی حالت میں کھڑی تھی۔ اور کمرے کی کھڑکی سے آتی روشنی میں چمکتے ہوئے میری سگی بہن مدیحہ کا دودھیا جسم اس وقت مجھے دعوت گناہ دے رہا تھا۔
میری بہن مدیحہ کی بڑی اور گول گول چھاتی بہت سفید تھی۔ جس پر براؤن رنگ کے موٹے موٹے نپلز تھے۔ اور جو اس وقت میری بہن کی چوت کی گرمی کے اثر کی وجہ سے اکڑ کر اس کی جوان چھاتیوں پر کھڑے ہو چکے تھے۔
اپنی بہن کی رس بھری چھاتیوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد مدیحہ کے پیٹ سے نیچے آتے ہوئے میں جونہی اپنی نظروں کو اپنی بہن کی ٹانگوں پر لایا۔ تو اپنی بہن کی گوشت بھری رانوں کے درمیان چھپے ہوئے اپنی بہن کے پوشیدہ خزانے پر میری نظر جم گئی۔
"ہائے میں ہی وہ پہلا کھوجی ہوں، جس نے آج اپنی ہی جوان سگی بہن کی ٹانگوں میں چھپے قارون کے خزانے کا پتہ چلا لیا ہے" اپنی بہن کی کنواری چوت کے پھولے لبوں کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا۔
میری بہن کی ٹانگوں کے درمیان اس ان چھوئی شیوڈ چوت میرے ہاتھوں کی گرمی سے بے حال ہو کر ہلکا ہلکا پانی چھوڑ رہی تھی۔ اور یہ پانی اس وقت مدیحہ کی چوت سے ٹپک کر میری بہن کی گوشت بھری رانوں پر بہہ رہا تھا۔
"ہائے دودھ کی طرح یہ سفید بازو، بغیر کسی داغ کے صاف ستھرا ایسا جسم، اور اوپر سے ریشم کی طرح نرم جلد (سکن) اففف کیا غضب کا خوبصورت جسم ہے میری بہن کا" میں اپنے سامنے کھڑی اپنی بہن کی جوانی کو دیکھتے ہوئے یہ سب سوچ رہا تھا۔
اپنی بہن کو اس کے کپڑوں کی قید سے آزاد کرنے اور اپنی آنکھوں کو اپنی بہن کے ننگے حسن سے اچھی طرح سیراب کرنے کے بعد میں نے بھی اپنی شلوار
قمیض اتاری اور پھر میں خود بھی اپنی بہن کے سامنے پورا ننگا کھڑا ہو گیا۔
find the next gas station
"کیسا لگا میرا لن مدیحہ" اپنی سگی بہن کی نظروں کے سامنے مکمل ننگا ہو کر میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ہیرے ہوئے ننگے لوڑے کو مسلتے ہوئے پوچھا۔
"نہ نہ پوچھیں مجھ سے ایسے سوال بھائی مجھے شرم آتی ہے ایسی باتیں کرتے ہوئے" میرے سامنے پوری ننگی حالت میں کھڑے ہو کر بھی میرے سوال پر مدیحہ شرماتے ہوئے بولی۔
"ہم دونوں کے درمیان اب اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم اتنا کیوں شرما رہی ہو میری جان" مدیحہ کی بات کے جواب میں گنگناتے ہوئے میں نے کہا
اچھا بھائی اگر آپ مجبور کرتے ہیں تو بتا دیتی ہوں، کہ آپ کا لن دور سے دیکھنے میں بھی موٹا اور لمبا نظر آتا تھا، مگر آج اتنے نزدیک سے دیکھنے میں تو یہ اور بھی بہت بڑا لگ رہا ہے، ویسے مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اتنا موٹا اور لمبا لن میری سہیلی شکیلہ کے اندر جاتا کیسا تھا بھائی"۔ میرے ننگے لن کو پیاسی نظروں سے دیکھتے ہوئے میری سگی جوان بہن نے جوں ہی بے شرمی سے یہ بات کہتے ہوئے میرے لن کی تعریف کی۔
تو فخر اور غرور کے مارے میرا لن مزید اکڑتا چلا گیا۔
ابھی چند لمحوں بعد جب میرا لن تمہاری چوت میں جائے گا نا، تو تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا، کہ تمہاری سہیلی میرے لن کو کیسے اپنی چوت میں لے لیتی تھی میری جان"۔ اپنی بہن کے سوال پر مست ہوتے ہوئے میں نے جواب دیا۔
اس کے ساتھ ہی مستی میں آتے ہوئے میں نے مدیحہ کو چارپائی پر لٹایا اور اس کے مخملی چوتڑ کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا۔
جس کی وجہ سے میری پیاری بہن کی چوت اوپر کو اٹھ گئی۔
مدیحہ کو چارپائی پر لٹانے کے بعد میں بھی چارپائی پر آیا اور پھر اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں نے اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کے لبوں کو اپنے ہاتھوں سے کھول دیا۔
اففف کتنا دلکش اور حسین چوت ہے میری بہن کی"۔ اپنی بہن کی چوت کے اندر کا گلابی حصہ میری نظروں کے سامنے آیا تو اپنی بہن کی چوت کی اندرونی خوبصورتی دیکھ کر میری رال ٹپک پڑی۔
ہائے چدائی سے پہلے کیوں نہ اپنی بہن کی اس پیاری اور کنواری چوت کا سواد چکھنے کے ساتھ اپنی بہن کی ان چدی پھدی تھوڑی سی مہک بھی سونگھ لوں میں۔ اپنی نظروں کے سامنے کھلی پھدی کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ تو اس کے ساتھ اپنے سر کو نیچے جھکاتے ہوئے میں فوراً اپنا منہ اپنی بہن کی چوت کے عین اوپر لے آیا۔
ہو کیا خوشبودار پھدی ہے تمہاری مدیحہ"۔ اپنی بہن کی چوت کے لبوں کے نزدیک اپنی ناک لاتے ہوئے میں نے مدیحہ کی کنواری چوت کی خوشبو کو سونگھا۔
اور ساتھ ہی اپنی بہن کے ممے کو اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے اپنا منہ اپنی بہن کی چوت پر چپکا کر اپنی بہن کی چوت کو مزے سے چاٹنے لگا۔
افف بھائی یہ کیسی آگ لگا دی ہے تم نے مجھے"۔ اپنی چوت پر پہلی بار کسی مرد کے گرم ہونٹوں کے لبوں کو چسپاں ہوتے اور چوت پر چلتی گرم زبان کے
مزے سے بے حال ہو کر مدیحہ مزے سے چلاتی ہوئی بولی۔
اب کمرے میں یہ حالت تھی کہ میرے منہ اور زبان کی گرمی سے بے حال ہو کر میری بہن مدیحہ تو جیسے بے سد ہو چکی تھی۔
اور اسی بے خودی کے عالم میں وہ چارپائی پر نیچے سے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا اٹھا کر میرے منہ پر مار رہی تھی۔
جب کہ میں چارپائی پر لیٹی ہوئی اپنی بہن کی کھلی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر اپنی بہن کی چوت کو اپنے منہ اور زبان سے چاٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بہن کی چوت سے نکلنے والے گرم پانی کو شربت سمجھ کر پینے میں مصروف تھا۔
کچھ دیر یوں ہی اپنی بہن کی چوت کا پانی پینے کے بعد اب میرا دل اپنی بہن کی چوت کو چودنے کو مچل اٹھا۔ تو اپنے منہ کو مدیحہ کی چوت سے الگ کرنے کے بعد میں اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا اور بولا۔ "تیار ہو جاؤ مدیحہ، اب میں تمہیں ایک لڑکی سے عورت بنانے جا رہا ہوں، اور وہ بھی اپنی عورت"۔
"ہائے جب سے آپ کو اپنی سہیلی کی چدائی کرتے دیکھا ہے، میں تو اسی وقت اس لمحے کے انتظار میں ترس رہی ہوں، کہ جب تم مجھے اپنی عورت بناؤ گے بھائی"۔ میری بات سنتے ہی مدیحہ کی جنسی بھوک اپنے عروج پر جا پہنچی۔ اور میرے لن کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ سسک اٹھی۔
اب چارپائی پر اپنی بہن کی کھلی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں بھی ہوس بھری نظر سے اپنی بہن کے ننگے حسن کو نہارتے ہوئے آگے کو جھکا۔ اور اپنے
لوڑے کو پہلی بار اپنی بہن کی چوت پر رکھ کر اپنے لن کے موٹے ٹوپے کو اپنی بہن کی کنواری چوت پر رگڑنے لگا۔ "اوہ"۔ اپنی بہن کی کنواری چوت پر میرے لن کی رگڑ سے ہم دونوں بہن بھائی کے منہ سے لذت بھری سسکی پھوٹ پڑی۔
اپنی بہن کی یہ سسکی سن کر میں مست ہوا اور اسی مستی کے عالم میں میں نے مدیحہ کی چوت پر پھرنے والے اپنے لن پر دباؤ بڑھا دیا۔
جس کی وجہ سے میرے لن کا ٹوپا میری بہن مدیحہ کی کنواری چوت کے لبوں میں دھنسنا شروع ہو گیا
اف کیا ہو رہا ہے مجھے، اب ڈال بھی دو نہ اندر بھائی" اپنی پھدی کے لبوں میں پھنسے ہوئے میرے لوڑے کی گرمی سے بے حال ہوتے ہوئے مدیحہ چلائی۔
اور اس کے ساتھ ہی اس نے چارپائی سے اپنی گانڈ کو اٹھا کر میرے لن کو اپنی کنواری چوت کے اندر لینے کی کوشش کی۔
ٹھیک ہے تو پھر اب اپنی پھدی کو میرے لن کے استقبال کے لیے تیار کر لو میری بہن" اپنی بہن کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا۔ اور اس کے ساتھ میں نے مدیحہ کے جسم سے تھوڑا اوپر ہوتے ہوئے اپنے لن کو اپنی بہن کی چوت کے لبوں سے باہر نکال لیا۔
مجھے اپنے لن کو اس کی چوت سے یوں الگ کرتے دیکھ کر مدیحہ نے حیرت کے عالم میں میری طرف دیکھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بول سکتی، میں نے اپنے جسم کو تیزی کے ساتھ نیچے لا کر ایک جھٹکا مارا۔
تو لوہے کی طرح سخت میرا لن مدیحہ کی چوت کے گلابی لبوں کو چیرتا ہوا میری بہن کی چوت میں گھستا چلا گیا۔
میرے لوڑے نے میری بہن کی چوت کے کنواری پردے کو پھاڑ کر جونہی اپنی ہی بہن کی "نتھ" کھولی۔
تو درد اور مزے کے ملے جلے احساس سے مدیحہ چیخ پڑی "ہائے مار گئی" اور اس کے ساتھ ہی اس کا جسم اکڑتا چلا گیا۔
اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دو، ابھی تھوڑی ہی دیر میں درد کم ہوتا چلا جائے گا میری جان" اپنے لن سے اپنی بہن کو اپنی عورت بنانے اور اس کی چوت کو جنسی درد سے روشناس کروانے کے دوران میں نے مدیحہ کو تسلی دیتے ہوئے سمجھایا۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے لوڑے کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے میں نے تھوڑا رکتے ہوئے اپنی بہن کے چہرے کی طرف دیکھا۔
تو پتہ چلا کہ میرے لن کے زور دار جھٹکے کی وجہ سے درد کے مارے نہ صرف میری بہن مدیحہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ٹھہرنے لگے تھے۔
اوہ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اپنی پیاری بہن کو اتنی تکلیف دی ہے آج، کہ درد کے مارے تمہارے آنسو نکل پڑے ہیں میری بہن" اپنی بہن کی آنکھوں میں سے بہتے آنسو دیکھتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہونے لگی تو میں مدیحہ سے بولا۔
اپنے ہی سگے بھائی سے اپنی کنواری چوت کی سیل تڑوانے کا اعزاز کسی قسمت والی کو ہی نصیب ہوتا ہے، اس لیے یہ درد کے نہیں بلکہ خوشی کے آنسو ہیں بھائی" میری بات کے جواب میں نیچے سے اپنی چوت اٹھا کر میرے لوڑے کو اپنے اندر مزید جذب کرتے ہوئے مدیحہ بولی۔ تو اپنی بہن کے اس جواب سے مجھے حوصلہ ملا اور ساتھ ہی میرے لن کو مزید جوش آتا چلا گیا۔
پھر اسی جوش کے ساتھ میں نے اپنے منہ کو نیچے لایا اور اپنی بہن کی جوان چھاتیوں کو اپنے منہ میں بھر لیا۔
"بہت پیاسے ہیں میرے ممے تمہارے ہونٹوں کے لیے، اوہ چوسو میرے مموں کو، چوسو میرے نپلز میرے بھائی"
میں نے جونہی اپنی بہن کے نپل پر اپنی گرم زبان پھیری تو مزے کے مارے مدیحہ چلائی۔
تھوڑی دیر اپنی بہن کے موٹے مموں کو چوسنے کے بعد میں نے اپنے منہ کو اپنی بہن کے رس بھرے نپلز سے الگ کیا اور مدیحہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے بولا "میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں کہ تم نے اپنی یہ کنواری چوت چودنے کا موقع مجھے دیا ہے مدیحہ"
اپنی بہن سے یہ بات کہتے ہوئے میں پھر پیچھے ہٹا اور اپنے لن کو بہن کی چوت سے باہر نکال کر پھر تیزی کے ساتھ ایک اور جھٹکا لگایا۔
تو اس بار میری بہن مدیحہ کی چوت سے بہنے والے خون اور بہن کی چوت کے رس نے میرے لن کا راستہ بہت آسان بنا دیا۔
اور میرا لوڑا پھسلتا ہوا میری بہن کی پھدی میں پورا جڑ تک گھس گیا۔
میرے لوڑے کے اندر جاتے ہی میری بہن مدیحہ کی مخملی چوت کی ملائم دیواروں نے میرے لن کو اپنی آغوش میں ایسے جکڑا کہ جیسے میری بہن کی چوت کی دیواریں صدیوں سے میرے لوڑے کے استقبال کی منتظر تھیں۔
ہاے شکیلہ کی چوت اچھی ہے یا میری بھائی" اپنی چوت میں میرے لن کو پوری طرح جذب کرتے ہی میری بہن مدیحہ نے مزے سے کراہتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔
اپنی سگی بہن کی چوت میں جو مزہ ہے، وہ شکیلہ تو کسی دنیا کی کسی اور چوت میں میسر نہیں ہے میری جان" اپنی بہن کی بات سن کر میں نے جواب دیا۔ اور اپنا سر جھکا کر مدیحہ کی کھلی ٹانگوں کی طرف نظر ڈالی جہاں میرا لن اس وقت اپنی بہن کی چوت میں مکمل طور پر داخل ہو چکا تھا۔
اپنے لن کے گرد لپٹے اپنی بہن کی چوت کے لبوں کی گرمی محسوس کر کے مجھے اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرا لن آگ کی بھٹی میں گھس گیا ہو۔
مگر چوت کی اتنی تپش اور گرمی کے باوجود بھی مجھے اپنی بہن کی چوت میں اپنا لوڑا ڈال کر اس وقت جنت کا مزہ مل رہا تھا۔
اب میں اپنی بہن کی چوت کا پورا مزہ لینے کے موڈ میں آ گیا اور پھر اپنی بہن کے گلابی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چومتے اور اپنی بہن
مدیحہ کی چوت میں زور دار گھسے مارتے ہوئے میں اپنی بہن کی ٹائٹ چوت کو اپنے لن سے مزید کھولنے میں لگ گیا
آج اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کی سیل کھول کر آپ نے یہ بات سچ ثابت کر دی ہے، کہ مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے اور وہ ہے لن اور چوت کا رشتہ، اور اس رشتے کے آگے باقی سب رشتے بے کار ہیں
میری چدائی کے زوردار گھسے کا مزہ لیتے ہوئے مدیحہ بولی۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے چارپائی سے اپنی گانڈ اٹھائی اور نیچے سے اپنے چوتڑ اوپر اٹھا اٹھا کر میرے زور دار گھسوں کا جواب دینے لگی۔
میری بہن چارپائی سے اپنے چوتڑ اٹھا کر مجھ سے چدوا رہی تھی۔ جبکہ میرے ہاتھ مدیحہ کے چوتڑ کو تھام کر اس دوران مدیحہ کو اپنے جسم سے چپکا رہے تھے۔
اففف مدیحہ، تمہاری چدائی کا یہ انداز دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا کہ تم ایک کنواری لڑکی ہو، جو آج پہلی بار اپنی چدائی کروا رہی ہے۔ اپنی بہن کو یوں چارپائی سے اپنی گانڈ اٹھا کر اپنی پھدی کو میرے لن پر زور زور سے مارتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے چدائی کے دوران مدیحہ سے سوال کیا۔
ہاں ابھی چند لمحے تک بے شک میں کنواری ضرور تھی، مگر چدائی کے یہ طریقے میں نے کسی اور سے نہیں، بلکہ آپ اور شکیلہ کی چدائی کو دیکھتے ہوئے ہی سیکھے ہیں بھائی۔ میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنی گانڈ کو ایک بار پھر اوپر کیا اور میرے لن کو اپنی چوت میں جذب کر لیا۔
اوہ مجھے خوشی ہے کہ میری بہن نے کمرے کے روشن دان سے چھپ چھپ کر دیکھتے ہوئے پیار کا یہ سبق نہ صرف مجھ سے سیکھا ہے، بلکہ اسی سبق کی ٹیوشن میری بہن اب مجھے ہی پڑھا بھی رہی ہے۔ اپنی بہن کی بات سنتے ہی میرے لن میں مزید جوش آیا۔
اور میں چارپائی پر لیٹی اپنی بہن کی ٹانگوں کو کھول کر اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کے گھسے زور زور سے مارنے لگا۔
میں اب اپنی کمر ہلا ہلا کر اپنی سگی بہن کو چودنے میں مصروف تھا۔ میں چدائی کے نشے میں اس وقت بالکل جانور بنا ہوا تھا اور شاید مدیحہ بھی۔
مدیحہ کو اب میری چدائی سے درد نہیں ہو رہا تھا۔ بلکہ اب وہ فل مزے میں تھی اور میرے دھکوں کا جواب اوپر کی طرف اچھل کر اپنی چوت میرے لن کی طرف دھکا مار کر دے رہی تھی۔
مدیحہ کو چودنے کے دوران میں نے چدائی کی رفتار میں تیزی کر دی۔ اور اسی تیزی کی وجہ سے میرے ٹٹے میری بہن کی گانڈ کی پھریوں پر زور سے ٹکراتے تو کمرے میں پھچک پھچک کی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
ہم دونوں بہن بھائی کی چدائی اس وقت اپنی انتہا تک پہنچ چکی تھی۔
زور دار چدائی کی وجہ سے ہمارے جسم پسینہ پسینہ ہو چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح چود رہے تھے۔
اس زبردست چدائی کے اثر کی وجہ سے میرے ٹٹوں میں میرے لن کا رس اس وقت اتنے زور سے ابل رہا تھا کہ میں اب کسی بھی وقت اپنے لن کا رس اپنی بہن کی چوت میں چھوڑ سکتا تھا۔
ادھر دوسری طرف مدیحہ بھی جس رفتار سے اپنی گانڈ اچھال رہی تھی، اسے دیکھ کر میرے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اب اس کی پھدی بھی فارغ ہونے کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔
ہائے میں تمہاری چوت میں فارغ ہونے لگا ہوں مدیحہ۔ اپنی بہن کی چوت میں زور دار گھسے مارتے ہوئے میں نے اپنی بہن سے کہا۔
ہاں ڈال دو میری چوت میں اپنے لن کا پانی بھائی۔ میری بات سنتے ہی مدیحہ مزے سے سسکتے ہوئے بولی۔ اور اپنی چوت کے لبوں کو میرے لن کے گرد مزید کس لیا۔
اپنی بہن کی چوت کو یوں اپنے لن کے گرد کستا ہوا محسوس کرتے ہی میرے لن کا بند ٹوٹ گیا۔ اور میں نے اپنے رس کا فوارہ اپنی سگی بہن کی چوت میں چھوڑ دیا۔
میرے لن سے گرم منی نکل کر جونہی مدیحہ کی چوت کے اندر گری، تو میرے لن کے گرم پانی سے مدیحہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور اس کے ساتھ وہ بھی چلّا اٹھی، میں بھی گئی، میری چوت بھی فارغ ہونے لگی ہے بھائی۔
اب کمرے میں ہم دونوں بہن بھائی کے جھٹکے کھاتے جوان جسم اپنا اپنا گرم پانی خارج کر رہے تھے۔
جس کی وجہ سے اب ایک سگے بھائی کے لن کا گرم مواد اپنی بہن کی چوت کی تہہ میں گر کر بہن کی چوت کے رس میں مکس ہو رہا تھا۔
host image
اپنے لن کا سارا جوس اپنی بہن کی پھدی میں چھوڑ کر میں نے اپنا منہ نیچے کیا۔ اور اپنی بہن کے موٹے مموں کو اپنے منہ میں بھر کر چوستے ہوئے کہنے لگا
اففففف مدیحہ، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ ممنوعہ پھل کھانے کا ایک الگ ہی مزہ ہے اور آج اپنے ہی گھر کا سب سے ممنوعہ پھل کھا کر مجھے جو مزہ ملا ہے وہ آج سے پہلے کبھی زندگی میں نہیں ملا میری بہن۔
ہائے مجھے بھی خوشی ہے کہ میری چوت سے آپ کے لن کو ایک نئی راحت ملی ہے، اس لیے اب میرا آپ سے وعدہ ہے کہ آج کے بعد آپ کی بہن کی چوت آپ کے لن کے لیے ہمیشہ تیار رہے گی اور میں آپ کو شکیلہ کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دوں گی بھائی۔ میری بات کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنی چھاتی پر جھکے میرے سر کو اپنے ہاتھوں سے نیچے دباتے ہوئے میرے منہ میں اپنا موٹا نپل ٹھونس دیا
مدیحہ کی بت سنتے میں بھی جوش میں آتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی بہن کی جوانی کا رس پینے لگا۔
بھائی اب بس کرو اور مجھے گھر جانے دو، امی میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ اپنی بہن کی چوت میں فارغ ہونے کے بعد بھی جب میں کافی دیر تک اپنی بہن کے مموں کو چومتا اور چاتتا رہا۔ تو پھر تنگ آ کر مجھے اپنے آپ سے زبردستی الگ کرتے ہوئے مدیحہ بالآخر بول ہی پڑی۔
اپنی بہن کے گرم اور حسین بدن سے الگ ہونے کو میرا دل تو نہیں چاہ رہا تھا۔
مگر ہماری چدائی کی وجہ سے مدیحہ کو گھر جانے میں واقعی ہی آج کافی دیر ہو گئی تھی۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میں مدیحہ سے الگ ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا۔
مدیحہ بستر سے اٹھی اور اس نے اٹھ کر کمرے کے ایک کونے میں پڑے ایک پرانے تولیے سے اپنی چوت سے نکلنے والے خون اور میرے لن کے پانی کو اچھی طرح صاف کیا۔ اور پھر اس نے کمرے کے فرش پر بکھرے ہوئے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لیے۔
اس دوران میں چارپائی پر لیٹ کر اپنی بہن کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔
کپڑے پہننے کے بعد مدیحہ نے کھانے کے برتن اٹھائے اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔
مدیحہ بات سنو۔ اپنی بہن کو کمرے سے باہر جاتے دیکھ کر میں نے چارپائی پر بدستور لیٹے لیٹے مدیحہ کو آواز دی۔
جی بھائی۔ مدیحہ نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو شرم سے اس کا منہ لال ہو رہا تھا اور اب وہ مجھ سے نظریں ملانے سے کترا رہی تھی۔
ابھی چند لمحے پہلے میری بہن اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر مزے سے اپنی چوت کو پہلی بار مجھ سے چدوا رہی تھی، اور اب میری وہی بہن شرم کے مارے مجھ سے نظریں چرا رہی ہے،
واہ رے عورت، تجھے سمجھنا کتنا مشکل ہے۔ مدیحہ کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے میرے ہونٹوں پر ہنسی پھیلتی چلی گئی۔
آج رات اپنے کمرے میں میرا انتظار کرنا۔ میں کمرے کے دروازے پر انتظار کرتی اپنی بہن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی اپنے ڈھیلے لن پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بہن کو آنکھ بھی مار دی۔
میری بات اور میری آنکھ کی حرکت کا مطلب سمجھتے ہی مدیحہ کے چہرے پر بھی ایک مہنی خیز مسکراہٹ پھیلی اور وہ مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر دوڑ گئی۔
ہائے میں نے اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کو چود کر اس کی پھدی میں اپنے لن کا پانی چھوڑ تو دیا ہے، لیکن اگر وہ پیٹ سے ہو گئی تو امی اور گاؤں کے باقی لوگوں کو کیا جواب دوں گا
میں اپنی جنسی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں آج اپنی سگی بہن کی چوت کا سواد تو چکھ چکا تھا۔ مگر اب اپنے لن کی گرمی کم ہونے کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا
مجھے ابھی ہر صورت اس بارے میں بہت احتیاط کرنی پڑے گی راحیل۔ اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد میں نے سوچا تو میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اور پھر میں بھی اپنے کپڑے پہن کر موٹر سائیکل پر گجرات سٹی چلا گیا۔
گجرات شہر پہنچ کر میں نے وہاں ایک میڈیکل اسٹور سے اپنے لیے کنڈومز کا ایک پورا ڈبہ لیا۔
اور ساتھ میں اپنی بہن مدیحہ کے لیے حمل روکنے والی گولیاں بھی خرید لیں۔
میں آج گھر جاتے ہی مدیحہ کو ایک گولی کھانے کے لیے دے دوں گا، تاکہ ہماری چدائی کے دوران میری بہن پریگنٹ ہونے سے بچ سکے۔ اپنی ہی بہن کے لیے منع حمل گولیاں خریدتے وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو آنے والی رات کے تصور سے ہی میرے لن میں دوبارہ سے ہلچل ہونے لگی
چونکہ کنڈومز کے ساتھ چدائی کی وجہ سے لن اور چوت کی جلد آپس میں رگڑ نہیں کھاتی۔ جس کی وجہ سے کنڈوم پہن کر چدائی کرنے میں مجھے زیادہ مزہ نہیں آتا۔
مگر مجھے پتہ تھا کہ پریگنسی روکنے والی ان گولیوں کا اثر انہیں کھانے کے کچھ دن بعد ہوتا ہے۔
اس لیے جب تک حمل روکنے والی گولیاں اپنا اثر دکھانا شروع نہ کر دیں، اس وقت تک کنڈومز استعمال کرنا اب میری مجبوری ہی تھی۔
اس شام جب میں گھر واپسی پر میری نظریں اپنی بہن کے جوان جسم کی متلاشی تھیں۔
لیکن شاید وہ مجھے تڑپانا چاہ رہی تھی۔ اس لیے مدیحہ جان بوجھ کر فوراً میرے سامنے نہیں آئی۔
بلکہ وہ کافی دیر اپنے کمرے میں ہی بیٹھ کر میرا سامنا کرنے سے کتراتی رہی۔
مگر گھر میں صرف تین افراد ہونے کی وجہ سے اس کے لیے بہت دیر تک مجھ سے چھپ کر رہنا ایک ناممکن سی بات تھی۔
اس لیے میرے گھر آنے کے دو گھنٹے بعد بالآخر مدیحہ کو میرا سامنا کرنا ہی پڑ گیا۔
مگر اپنی بہن کی چدائی کے بعد پہلی دفعہ اپنے گھر میں ہمارا آمنہ سامنا ہونے کے باوجود میں نے اپنی امی کے سامنے اسے ایسے ہی شو کیا جیسے ہمارے درمیان کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
پھر جب امی کسی کام کے لیے کچن میں گئیں تو میں نے اپنی جیب سے نکال کر مدیحہ کو گولیوں کا پیکٹ دیا اور بولا کھانے کے فوراً بعد اس پیکٹ میں سے ایک گولی نکال کر کھا لینا مدیحہ۔
میری بات سنتے ہوئے مدیحہ نے اپنے ہاتھ میں تھامی گولیوں کی طرف دیکھا اور پھر حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کوئی سوال کر پاتی، امی دوبارہ کمرے میں داخل ہو گئیں۔ جس کی وجہ سے میری بہن گولیوں کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔
پھر امی کے سونے کے بعد رات کے ایک بجے میں اپنے کمرے سے اٹھ کر دبے پاؤں اپنی بہن مدیحہ کے کمرے میں داخل ہوا تو بستر پر چادر لپیٹ کر لیٹی اپنی بہن مدیحہ کو اپنا منتظر پایا۔
آپ رات کے ایک بجے اپنی جوان بہن کے کمرے میں کیا کرنے آئے ہیں بھائی؟ مجھے آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر بستر پر لیٹی میری بہن نے مجھے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
رات کی تنہائی میں اس وقت تمہارا بھائی نہیں بلکہ تمہارا یار تمھارا عاشق تم سے ملنے آیا ہے میری جان۔ مدیحہ کی شوخی بھری بات کا جواب دیتے ہوئے میں
نے دروازے کی کنڈی لگائی۔ اور اپنے کپڑے اتار کر بستر پر موجود اپنی گرم بہن کے پہلو میں جا لیٹا۔ تو چادر کے نیچے مدیحہ پہلے ہی سے ننگی حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔
ہائے تم تو اپنے سارے کپڑے اتار کر پہلے سے ہی چدنے کے لیے تیار لیٹی ہوئی ہو مدیحہ۔ میرے ہاتھوں نے چادر کے نیچے سے اپنی بہن کے گرم جسم کو جونہی چھوا تو اپنی بہن کو میرے انتظار میں یوں ننگا لیٹا ہوا پا کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی تو میں نے خوشی کے عالم میں اپنی بہن کے کان میں سرگوشی کی۔
آج دن میں اپنی چوت آپ سے چدوانے کے بعد سے اب تک میری پھدی آپ کے لن کی طلب میں پاگل ہو رہی ہے، اس لیے بغیر کوئی وقت ضائع کیے
بغیر میری چوت میں اپنا لن ڈال دو بھائی۔ میری بات کے جواب میں مدیحہ نے نہایت بے شرمی سے فرمائش کی۔ اوراٹھ کر بستر پر بیٹھتے ہوے اپنے جمس پر پڑی چادر اتار دی تو اپنی سگی بہن کے جوان گرم اپنی نظروں کے سامنے یوں عریاں دیکھ کر میرا لن بھی فل تن گیا اورمیرے لیے بھی اپنی بہن سے مزید دور رہنا ناممکن ہو گیا
اس کا مطلب ہے کہ جوانی کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے میری جان۔ اپنی بہن کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے مدیحہ کو الٹا کیا اور پھر اپنے
لن پر کنڈوم چڑھا کر گھوڑی بنی اپنی بہن کی چوت میں اپنا لوڑا ڈال دیا۔
ہاے کیا سخت اورمزے دار لن ہے میرے عاشق بھائی کا اج دوسری بار جب میرا لورا اپنی ہی سگی بہن کی چوت میں گھسا تو مدیحہ نے مزے کے مارے سسکارتے ہوے میری بہن اہستہ سے بولی
اور پھر اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیلا اورمیرے لمبے موتے لورے کو اپنی گرم پیاسی چوت میں پورا جزب کر لیا
اس کے ساتھ ہی کمرے میں دو جوان اور سگے بہن بھائی کا ایک نیا زوردار اور گرم جنسی کھیل شروع ہوگیا
اس رات پھر میں نے دو بار اپنی بہن مدیحہ کی چوت کا مزہ لیا۔ اور پھر اپنے لن کا پانی آخر کار کنڈوم میں ہی نکالا اور تقریبن صبح کے اوجالا ہونے اور امی کے اٹھنے سے پہلے ہی اپنے کمرے میں آ کر سکون کی نیند سو گیا۔
اس دن کے بعد تو جیسے میری زندگی میں بہار ہی آ گئی تھی۔ کیونکہ اگلے ایک ہفتے کے دوران میں اور مدیحہ نے اپنی رہی سہی شرم بھی اتار پھینکی اور ہم دونوں بہن بھائی آپس میں کافی کھل گئے
جس کی وجہ سے ہمیں جب بھی موقع ملتا تو ہم گھر اور ڈیرہ دونوں جگہ پر کھل کر چدائی میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اور میں اپنی بہن کو مختلف انداز میں
چودنے کے ساتھ ساتھ میں نے نہ صرف مدیحہ کو اپنے لن کی چسائی پر آمادہ کیا۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی بہن کو 69 اسٹائل سے بھی روشناس کروا کر اس کی چوت کو جنسی مزے کی ایک نئی منزل پار پہنچا دیا۔
چونکہ ہمارا ڈیرہ گاؤں سے کافی ہٹ کر تھا۔ جہاں پر چاروں طرف صرف ہماری اپنی زمین تھی۔جس کی وجہ سے ہمیں ڈیرے کی طرف گاؤں کے عام لوگوں کا آنا جانا بہت ہی کم تھا۔
اس لیے مدیحہ کے ساتھ ڈیرے پر کسی روک ٹوک اور ڈر کے بغیر چدائی کرنے میں مجھے زیادہ مزہ آتا تھا۔
ایک دن جب مدیحہ ڈیرے پر آئی تو میرے دماغ کو نہ جانے کیا سوجھا کہ میں اپنے اور مدیحہ کے سارے کپڑے اتار کر اپنی بہن کے ساتھ ننگی حالت میں ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھ گیا۔
چونکہ ٹیوب ویل کی چھت پر سے ہمارے کھیتوں کے چاروں طرف بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
چونکہ ٹیوب ویل کی چھت پر سے ہمارے کھیتوں کے چاروں طرف بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
اس لیے میں نے بغیر کسی خوف اور خطرے کے اپنی بہن کو گھوڑی بنا کر چھت کی دیوار کے ساتھ لگا کر الٹا کیا
اس روز کھلے آسمان تلے دن کی روشنی میں اپنی ہی بہن سے رنگ رلیاں مناتے ہوئے مجھے بہت مزہ آیا۔
ٹیوب ویل کی چدائی کے دوسرے دن مدیحہ ڈیرے پر آئی اور مجھے کھانا دے کر خود کمرے سے باہر نکل گئی۔
کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اپنے کھیتوں کو پانی دینے کے لیے ٹیوب ویل کو آن کیا اور پھر خود بھی کمرے سے باہر آ گیا۔
تو اپنی بہن مدیحہ کو ٹیوب ویل کے ساتھ بنی ہوئی پانی کی حوض میں کپڑوں سمیت نہاتے ہوئے دیکھا۔
خیریت تو ہے آج گھر کی بجائے ٹیوب ویل پر ہی نہانا شروع کر دیا ہے تم نے مدیحہ" اپنی بہن کو اس کے کپڑوں سمیت پانی کی حوض میں مزے سے اچھلتے کودتے دیکھ کر میں نے مدیحہ سے سوال کیا۔
جب آپ مجھے اپنے گھر کے کمرے کی بجائے ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھا کر چود سکتے ہیں، تو میں گھر کی بجائے اپنے ٹیوب ویل پر نہا کیوں نہیں سکتی بھائی
میرے سوال کے جواب میں مستی سے پانی میں اپنے ہاتھ مارتے ہوئے مدیحہ نے جواب دیا۔ تو اپنی بہن کے گیلے بدن کو دیکھ کر میرے لوڑے میں بھی جوش آ گیا۔
اچھا تو چلو دونوں مل کر نہاتے ہیں پھر" مدیحہ کی بات کے جواب میں بولتے ہوئے میں نے اپنے کپڑے اتارے اور پھر دوڑتے ہوئے میں بھی پانی کی حوض میں چلا گیا۔
پانی کی حوض میں آتے ہی میں نے ایک ایک کر کے اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کے سارے کپڑے اتار کر حوض سے باہر پھینکے۔اور پھر ہم دونوں بہن بھائی مل کر پانی کی حوض میں ایک ساتھ نہانے لگے۔
ٹیوب ویل سے آتے تیز پانی کے نیچے نہاتے ہوئے ہمیں بہت مزہ آ رہا تھا۔
نہانے کے دوران میں مدیحہ کے جسم سے چمٹتے ہوئے اپنی بہن کے ممے اور چوت کو چھیڑ رہا تھا۔ جبکہ جواب میں مدیحہ بھی میرے لن سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں مصروف تھی۔
جس کی وجہ سے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کے باوجود ہمارے جسموں میں جوانی کی گرمی چڑھتی جا رہی تھی۔
اچھا مدیحہ تم میری گود میں بیٹھ کر اپنی چوت میں میرا لن ڈالو اور میرے لن اور اپنی چوت میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرو میری جان" تھوڑی دیر کی چھیڑ چھاڑ کے بعد جب ہم دونوں بہن بھائی بہت گرم ہو گئے۔ تو حوض کے ایک کونے میں بیٹھتے ہوئے میں نے مدیحہ سے کہا۔
ٹھیک ہے آپ نیچے بیٹھیں میں آپ کے اوپر چڑھ کر آپ کے لن کی گرمی نکالتی ہوں بھائی" میری بات کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنا منہ ڈیرے کے دروازے کی طرف اور اپنی کمر میری طرف کرتے ہوئے میرے تنے ہوئے لن کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں اس طرح ایڈجسٹ کیا۔
کہ جس کی وجہ سے میرا لن اب اپنی بہن کی گیلی چوت کے پھولے ہوئے لبوں سے رگڑ کھانے لگا تھا۔
اوہ آپ کے سخت لن کا کیا مزہ ہے بھائی" اپنی ٹانگوں کے درمیان پھنسے ہوئے میرے موٹے سخت لن کے اوپر اپنی چوت کو تیزی سے سرکاتے ہوئے مدیحہ نے سسکی بھرتے لہجے میں مجھے کہا۔
اس کے ساتھ مدیحہ نے اپنی گانڈ کو ہلکا سا نیچے لاتے ہوئے حوض کے پانی میں کھڑے میرے لوڑے کو اپنی مٹھی میں قابو کیا۔
اور ساتھ ہی میرے موٹے سخت لن کو پانی میں اپنی پانی پانی ہوتی ہوئی پیاسی چوت پر ٹکا دیا
اف کیا گرم چوت ہے تمہاری مدیحہ" ٹیوب ویل کی حوضی کے ٹھنڈے پانی میں بھی اپنی بہن کی چوت کی تپش کو اپنے لن میں محسوس کرتے ہی میں نے نیچے سے اوپر کی طرف دھکہ مارا۔
تو ایک میزائل کی طرح تیزی کے ساتھ اوپر کو اٹھ کر میرا لن اپنی بہن کی چوت کے نشانے پر جا لگا۔ اور میرے لن کے ساتھ ساتھ حوض کا تھوڑا سا پانی بھی میری بہن کی چوت میں داخل ہو گیا۔
ہائے آپ سے اپنی چوت مروا کر ہر بار ایک نیا مزہ ملتا ہے مجھے" میرے لن کے جھٹکے کے ساتھ ساتھ چوت کے چولے اور پھدی کی دیواروں سے ٹکرانے والے حوضی کے پانی سے پیدا ہونے والی لذت کی وجہ سے مدیحہ لذتوں کی نئی منزل پر پہنچتے ہوئے چلّا اٹھی۔
اس کے ساتھ ہی مدیحہ میری گود میں بیٹھ کر اوپر نیچے ہوتے ہوئے مجھ سے اپنی چوت چدوانے لگی۔
اور میں پانی میں بیٹھ کر اپنی بہن کی چوت کو مزے سے چودنے لگا۔
اب ٹیوب ویل کے پانی میں دو جوان ننگے جسم جل رہے تھے۔ اور ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو چود کر اپنے جسم کی گرمی کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
ٹیوب ویل کی حوضی کے بہتے پانی میں ہماری چدائی کی وجہ سے "فچا فچا فچا فچا، فکا فک فکا فک" کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔
کچھ دیر یوں ہی اپنی بہن کی زور دار چدائی کے بعد مجھے یوں لگا کہ جیسے میں اپنے لن کا پانی چھوڑنے والا ہوں۔
کیونکہ میں نے آج اپنی بہن مدیحہ کی چدائی کے دوران کنڈوم نہیں پہنا ہوا تھا۔
اس لیے میں اپنے لن کا پانی اپنی بہن کی چوت میں چھوڑنے کی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا تھا۔
مدیحہ میں چاہتا ہوں کہ تم اب میرے لن کو اپنی چوت سے نکال کر اسے اپنے منہ میں لو، اور میرے لوڑے کا چوسا لگا کر میرا پانی نکال دو میری جان تھوڑی دیر مزید اپنی بہن کو چودنے کے بعد میں نے مدیحہ کو اپنے لن سے اتارا اور پھر اپنی بہن سے فرمائش کی۔
اچھا لو میں ابھی اپنے منہ سے اپنے بھائی کے لن کو ٹھنڈا کر دیتی ہوں" میری بات سنتے ہی مدیحہ میری گود سے اٹھی اور میری کھلی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھ کر اس نے اپنا منہ کھولا۔
اور اپنی چوت کے جوس سے بھرے ہوئے میرے لوڑے کو اپنے منہ میں لے کر مزے سے میرا لن چوسنے لگی۔
اوہ چوسو میرے لن کو میری بہن میری جان" اپنی گانڈ کو اٹھا کر اپنی بہن کے گرم منہ میں اپنے لوڑے کو زور سے ٹھونستے ہوئے میں مزے سے چلّا رہا تھا۔ اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میری سگی بہن اپنے بھائی کے سخت لوڑے کو چوسنے میں مصروف ہو گئی۔
میری بہن کا میرے لن کو چوسنے کا انداز اتنا سیکسی اور مزے دار تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا لن جوش کے عالم میں جھٹکے کھانے لگا۔ اور ساتھ ہی میرے منہ سے خود بخود سسکیاں جاری ہو رہی تھیں "اوہ ہائے
اب ٹیوب ویل کی حوضی میں صورتحال یہ تھی کہ ادھر اپنی بہن کے منہ کے ذائقے کی وجہ سے جوں جوں میرے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کی رفتار تیز ہو رہی تھی، توں توں میری بہن کے چوسنے کی رفتار بھی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔
جس کی وجہ سے چند ہی لمحوں بعد میں ایک تیز "آہ" بھر کر اپنی سگی بہن کے منہ کے اندر ہی ڈسچارج ہو گیا۔ تو میرے لن کے گرم مادے سے میری بہن کا منہ اور ہونٹ پوری طرح بھر گئے۔
"اوہ کیسا لگا میرے لن کا پانی میری جان" اپنے لن کے گاڑھے مادے کو اپنی بہن کے منہ میں چھوڑتے ہوئے میں نے مدیحہ سے پوچھا۔
اوہ آپ کے لن کا یہ نمکین پانی بہت ہی ذائقہ دار ہے بھائی" میرے لن کے لیسدار مادے کو اپنے حلق میں اتارتے ہوئے مدیحہ نے جواب دیا اور پھر اٹھ کر میرے پہلو میں آ بیٹھی
اس دن چدائی کے دوران ہم دونوں بہن بھائی اتنے مگن ہوئے کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
پھر اپنی چدائی کے بعد ہم دونوں بہن بھائی جب تھک ہار کر پانی کی حوضی میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں اپنے پیچھے سے ہمیں غصے بھری ایک آواز سنائی دی "یہ کیا چل رہا ہے یہاں
یہ آواز سنتے ہی ہم دونوں نے اپنے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ تو پیچھے دیکھتے ساتھ ہی ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں بیٹھے ہونے کے باوجود ہم دونوں بہن بھائی کے پسینے چھوٹ گئے۔کیونکہ ادھر اس وقت کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی سگی امی ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔ اور غصے سے لال سرخ منہ کے ساتھ وہ اپنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھ ری تھیں
اوہ امی آپ اور یہاں؟ اپنی امی کے ہاتھوں اپنے ہی سگے بھائی کے ساتھ یوں ننگے نہاتے ہوئے پکڑے جانے پر مدیحہ کے منہ سے ایک دم نکلا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ پانی سے نکل کر پاس پڑے اپنے گیلے کپڑوں سے اپنے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔
لے وئی راحیل پتر آج تو تُو لورے لگ گیا ہے دوست۔ مدیحہ کے کمرے میں جاتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے امی کو آہستہ آہستہ پانی کی حوض کے نزدیک آتے دیکھا۔
اچھا ہوا کہ امی نے ہم دونوں کو چدائی کرتے ہوئے نہیں پکڑ لیا، ورنہ آج تو امی کے ہاتھوں ہم دونوں نے قتل ہی ہو جانا تھا۔ امی کو غصے بھری حالت میں اپنے نزدیک آتا دیکھ کر میں نے سوچا۔
مگر اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک اور بات آئی کہ جوان بہن کے ساتھ ڈیرے پر یوں کھلے عام ننگا نہانا بھی تو کوئی کم جرم نہیں، جس کی سزا امی سے ضرور ملے گی مجھے، مگر اب جو بھی ہو مجھے ہر حالت میں مردانہ وار اپنی امی کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔
میں اپنی انہی سوچوں میں مگن تھا کہ اتنے میں امی حوض کے کنارے کے بالکل قریب آ کر کھڑی ہو گئیں۔
میں اس دوران ابھی تک پانی میں ننگا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ میرا جسم پانی میں ہونے کے باوجود بھی میرے اتنے نزدیک کھڑی ہونے کی وجہ سے امی کو میرے جسم کا نچلا حصہ اور خاص طور پر میرا نیم کھڑا ہوا لن حوض کے صاف پانی میں واضح نظر آ سکتا تھا۔
تم دونوں کیا کر رہے تھے؟ امی نے میرے قریب آ کر کھڑے ہوتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔
کچھ نہیں ہم تو دونوں بس نہا رہے تھے امی۔ اپنی امی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں بولا۔
بکو مت اور اٹھ کر پانی سے فوراً باہر نکلو خبیث انسان۔ میری بات کے جواب میں امی نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چیختے ہوئے بولیں۔
امی کی بات سنتے ہی میں گھبرا کر ایک دم پانی سے نکلا اور اسی طرح اپنی ننگی حالت میں ہی اپنی امی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
مجھے پانی سے نکل کر اپنے سامنے کھڑا ہوتے دیکھتے ہی امی کی نظر میرے گیلے جسم پر پڑی۔ اور پھر میرے جسم کو دیکھتے دیکھتے ان کی نظر میری ٹانگوں کے درمیان ڈھیلے پڑتے میرے لن پر بھی جا ٹکی۔
اب یہاں کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، جاؤ اور جا کر اپنے کپڑے پہنو بے غیرت۔ میری ٹانگوں کے درمیان میرے لورے کو ایک شان سے ادھر ادھر جھولتا دیکھ کر امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور انہوں نے فوراً ہی مجھ سے نظریں چراتے ہوئے ایک بار پھر چیختے ہوئے مجھے کہا۔
امی کا غصے بھرا حکم سنتے ہی میں اپنی جگہ سے ہلا اور زمین پر بکھرے اپنے کپڑے اٹھا کر مدیحہ کی طرح میں نے بھی ڈیرے کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔
دوڑتے ہوئے میں ابھی کمرے کے دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ میری نظر مدیحہ پر پڑی جو اپنے کپڑے پہن کر کھانے کے برتن اٹھائے کمرے سے باہر نکل رہی تھی۔
شرم کے مارے مدیحہ کی آنکھیں اس وقت جھکی ہوئی تھیں۔ اس لیے وہ میری طرف دیکھے اور کوئی بات کیے بغیر ہی خاموشی سے گھر کی طرف چل پڑی۔
اپنی بہن کے باہر جاتے ہی میں کمرے میں داخل ہوا اور جسم کو خشک کیے بغیر ہی میں نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہن لیے۔
کپڑے پہن کر میں باہر آیا تو دیکھا کہ مدیحہ کے ساتھ ساتھ امی بھی گھر واپس جا چکی تھیں۔
اُف شکر ہے کہ امی چلی گئی ہیں، ورنہ انہوں نے تو مار مار کر میرا حشر کر دینا تھا آج۔ ڈیرے کے کمرے سے باہر آ کر جب میں نے امی کو موجود نہیں پایا تو دل میں یہ بات سوچتے ہوئے میں نے سکھ کا سانس لیا۔
بظاہر تو امی یہاں سے گھر چلی گئی ہیں، لیکن پتہ نہیں گھر جانے کے بعد امی مدیحہ سے نہ جانے کیا سلوک کریں گی، اور جب شام میں گھر لوٹوں گا، میری پھر واپسی پر نہ جانے وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گی آج۔ اپنی امی اور بہن کے گھر جانے کے بعد میرا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے باقی کا سارا دن چارپائی پر لیٹ کر میں آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کر فکرمند ہوتا رہا۔
مجھے اس دن کو ہونے والے واقعے کے بارے میں سوچتے سوچتے شام ہو گئی۔ تو پھر میں نہ چاہتے ہوئے بھی گھر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
تجھے بڑا شوق تھا نا اپنی ہی بہن کی کنواری چوت کو چودنے کا، اب بہن چود تو لی ہے، تو اب اس کا نتیجہ بھی بھگتو بیٹا۔ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر میرے دل میں یہ بات آئی۔ تو آنے والے لمحے کو سوچتے ہوئے میرا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا
جب اُڑتا تیر بنڈ میں لیا ہے تو انجام تو بھگتنا ہی پڑے گا تمہیں بچے، اس لیے اب سوچ مت اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر لو راحیل۔ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے میرے دل میں یہ دوسرا خیال آیا۔ تو پھر دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گھر کے دروازے پر دستک دے ہی دی۔
دروازے پر دستک دیتے ہی گھر کا دروازہ ایک دم سے کھلا۔ تو اپنی بہن مدیحہ کو میں نے اپنے سامنے کھڑا پایا۔
اوہ امی کی ڈانٹ اور مار کے بعد تو مدیحہ کو اس وقت اپنے کمرے میں بند ہو کر رونا دھونا چاہیے تھا، مگر یہ تو اس وقت میرے سامنے یوں کھڑی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اپنے اندازے کے برعکس اپنی بہن کو یوں مطمئن حالت میں میرے لیے دروازہ کھولتے دیکھ کر مجھے بہت ہی حیرت ہوئی۔
امی کدھر ہیں مدیحہ؟ میں نے دروازے پر کھڑے کھڑے سوال کیا۔
وہ باتھ روم میں نہا رہی ہیں۔ میری بات کے جواب میں مدیحہ دھیمی آواز میں بولی۔
تو گھر آ کر کیا کہا تم سے امی نے؟ مدیحہ کی بات سنتے ہی میں نے فوراً ایک اور سوال کیا۔
کچھ بھی نہیں۔ میری بات کا اسی دھیمے انداز میں جواب دیتے ہوئے مدیحہ بولی۔
کیا؟ اپنی بہن کے جواب پر میں نے مدیحہ کے چہرے کی طرف دیکھا اور حیرت زدہ انداز میں میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
ہمیں یوں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے بعد بھی امی نے گھر آ کر تم سے کوئی سوال جواب نہیں کیا، یہ کیسے ممکن ہے مدیحہ؟ اپنی بہن کی بات سنتے ہوئے میں نے حیرانی سے اسے دیکھا اور بولا۔
ہاں گھر آ کر واقعی ہی امی نے مجھے کچھ نہیں کہا، جس پر مجھے بھی بہت حیرانی ہے۔ اپنی بات کے جواب میں مجھے یوں ایک دم حیران ہوتا دیکھ کر مدیحہ نے جواب دیا۔
اپنی امی کے اس رویے پر میں ایک شاک میں آیا اور پھر شاک کی حالت میں ہی چلتا ہوا گھر کے اندر داخل ہو کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
میں کافی دیر تک اپنے کمرے میں ہی قید ہو کر اپنی امی کے اس غیر متوقع ردعمل کے بارے میں سوچتا رہا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو امی کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کرتا رہا۔
مجھے گھر واپس آئے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ ہو چلا تھا۔ جب اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے امی کی آواز میرے کان میں گونجی "کھانا لگ گیا ہے آ جاؤ سب
دن والے واقعے کے بعد اپنی امی کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی
اس لیے امی کی آواز سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میں بوجھل قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا کچن میں جا پہنچا۔
کچن میں جاتے ہوئے مجھے امی اور مدیحہ وہاں پہلے سے موجود نظر آئیں۔ مگر مگر میرے کچن میں داخل ہوتے وقت نہ تو مدیحہ اور نہ ہی امی نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور نہ ہی کوئی بات کی۔
اپنی امی کا انداز دیکھ کر میرے دل کو تھوڑی سی تسلی ہوئی۔ تو میں نے سالن کے ڈونگے سے اپنے لیے کھانا لیا اور کچن کے ایک کونے میں پڑے موڑے پر بیٹھ کر خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔
ہمارے گھر کے کچن میں تین افراد کی موجودگی کے باوجود کھانا کھانے کے دوران کچن میں ایک پرسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اور یہ خاموشی مجھے آگے آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد جب ہم سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو امی نے سر اٹھا کر میری اور مدیحہ کی طرف دیکھا اور بولیں "مدیحہ تم اپنے کمرے میں جاؤ اور راحیل تم ادھر ہی رکو میں نے تم سے بات کرنی ہے۔
امی کی بات سنتے ہی مدیحہ نے پریشانی کے عالم میں ایک دم میری طرف دیکھا۔ مگر پھر امی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی۔
مدیحہ کے باہر جاتے ہی امی نے سارے برتن سمیٹے اور انہیں کچن کے سنک میں رکھتے ہوئے واپس میری طرف پلٹیں اور مجھے دیکھتے ہوئے ایک دم غصے سے بولیں "یہ سب کتنی دیر سے چل رہا ہے راحیل۔
امی کی بات سنتے ہی میں ڈر تو گیا۔ مگر اس کے باوجود میں نے معصومانہ انداز میں ڈرتے ڈرتے امی سے پوچھا "کیا امی جی۔
تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیا پوچھ رہی ہوں۔ میرے اس معصومانہ سوال پر امی نے مجھے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
آج چونکہ گرمی بہت تھی، جس کی وجہ سے ہم نے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں ایک ساتھ نہانے کی غلطی کر لی، مگر یقین مانیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا ہم نے امی جی۔ امی کے ڈانٹنے پر میں نے ایک بار پھر معصوم بنتے ہوئے اپنی امی کی بات کا جواب دیا۔
اچھا تو تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کوئی بھی جوان لڑکی کسی بھی جوان لڑکے کے سامنے یوں ہی اپنے کپڑے نہیں اتار دیتی راحیل۔ میری بات سنتے ہی امی نے غصے سے ایک دم چنگھاڑتے ہوئے مجھے کہا۔
آپ میرا اعتبار کریں، ہم واقعی ہی نہا رہے تھے امی جان۔ امی کی بات کے جواب دیتے ہوئے میں پھر ہلکی آواز میں بولا
اچھا اگر یہ بات ہے تو مدیحہ نے ان گولیوں کو کیوں اپنے کمرے میں چھپا کر رکھا ہوا ہے پھر” میری بات ختم ہوتے ہی امی نے اپنی بند مٹھی کھولی۔
اور مجھے حمل روکنے والی وہ گولیاں دکھا دیں جو میں نے اپنی بہن کے لیے گجرات سے خریدی تھیں۔
اب اپنی امی کی اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس موقع پر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔
ویسے ان گولیوں کے ساتھ ساتھ ڈیرے کے کمرے سے مجھے کچھ اور چیز بھی ملی ہے” یہ کہتے ہوئے امی نے کچن کی الماری کھولی۔ اور کنڈومز کے تین غیر استمعال شدہ پیکٹس نکال کر میرے سامنے رکھتے ہوئے بولیں “تم انہیں کدھر استعمال کرتے ہو راحیل
افف گھر تو گھر امی تو ڈیرے پر بھی میری ساری خفیہ جگہوں کے بارے میں جانتی ہیں یار” اپنے سامنے پڑے ہوئے کنڈومز دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی امی کی بات کا کوئی جواب دے پاتا۔ میری امی مجھ پر ایک اور بم گراتے ہوئے بولیں۔ “ان سب کے علاوہ تمہیں ایک اور چیز بھی دکھاتی ہوں میں
وہ کیا ہے امی جان” اپنی امی کی بات کے جواب میں سوالیہ نظروں سے امی کو دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا۔
یہ دیکھو یہ ہے وہ کنڈوم ہے جسے استعمال کرنے کے بعد تم اسے کچرے میں پھینکنا بھول گئے تھے شاید” میری بات کے جواب میں امی نے اپنے بریزر میں ہاتھ ڈالا۔ اور میرا ایک تازہ استعمال شدہ کنڈوم اپنے بریزر سے نکال کر میرے سامنے لہرانا شروع کر دیا۔
یہ کنڈوم میں نے ایک رات پہلے ہی اپنی بہن مدیحہ کو چودنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اور چدائی کے بعد اتار کر جلد بازی میں اپنی بہن کے پلنگ کے نیچے پھینک دیا تھا۔
لگتا ہے امی نے پوری تیاری سے ہم دونوں بہن بھائی کو پکڑا ہے، لے بچو تو تو لورے لگ گیا آج راحیل” اپنے لن کی منی سے بھرے کنڈوم کو اپنی نظروں کے سامنے اپنی امی کے ہاتھ میں جھولتا دیکھ کر حیرت سے میرا منہ اس لیے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
کیونکہ ایک رات پرانا ہونے کے باوجود بھی میرے لن کا گاڑھا پانی کنڈوم میں ابھی تک پوری طرح سوکھا نہیں تھا۔
“مجھے جواب دو یہ سب کیا ہے راحیل” یہ ساری چیزیں میرے سامنے رکھنے کے بعد امی نے غصے میں مجھ سے سوال کیا۔
ہاں میں مانتا ہوں کہ جوانی کے جذبات میں بہک کر ہم دونوں نے آپس میں گناہ بڑا کام کیا ہے، مگر یقین جانیے یہ سب کچھ ہم سے انجانے میں ہوا ہے امی جان” اپنی نظروں کے سامنے پڑے ہوئے اتنے سارے ثبوت دیکھتے ہوئے کسی بات سے انکار کرنا اب میرے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔ اس لیے ڈرتے دل کے ساتھ بلا آخر میں نے اپنے جرم کا اقرار کر کے شرم سے اپنی نظریں جھکا لیں
اپنی امی کے سامنے اپنی ہی سگی بہن کو چودنے کا اقرار کرنے کے بعد میں تو اس امید میں تھا۔ کہ میری بات ختم ہوتے ہی امی پر قیامت ٹوٹ پڑے گی اور پھر غصے کے عالم میں وہ مجھ پر تھپڑوں اور لاتوں کی برسات کر دیں گی۔
مگر ان سب باتوں کے برعکس میری بات ختم ہوتے ہی جب امی کی طرف سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی۔ تو حیرانی کے عالم میں ڈرتے ڈرتے ہوئے میں نے اپنی نظریں اٹھا کر اپنی امی کے چہرے کی طرف دیکھا۔
تو مجھے ان کے چہرے پر سنجیدگی تو نظر آئی۔ لیکن امی کی آواز کے برعکس غصے کا کوئی نام و نشان امی کے چہرے پر موجود نہیں تھا۔
تمہیں اپنی ہی بہن کے ساتھ ہم بستری کرنے سے پہلے یہ خیال نہیں آیا، کہ اگر کسی اور کو اس بارے میں علم ہو گیا، تو گاؤں میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی، اور پھر اس کے بعد تمہاری بہن سے شادی کون کرے گا راحیل” میری بات ختم ہوتے ہی مجھ پر غصہ ہونے یا ڈانٹنے کی بجائے امی نے میری طرف دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں مجھے کہا۔
آپ کہہ تو صحیح رہی ہیں، مگر آپ فکر مت کریں، میں کروں گا مدیحہ سے شادی” اپنے ہی سگے بچوں کے بارے میں اپنے ہی بیٹے کے منہ سے گناہ کبیرہ والی بات سن کر غصے بھرے کوئی ردعمل دینے کی بجائے امی کو نارمل انداز میں مجھ سے بات کرتے دیکھ کر مجھے حیرت تو بہت ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی میرا حوصلہ بھی بڑھ گیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے اپنی امی سے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی
ایک تو تم نے اپنی ہی بہن سے زنا کیا ہے اور اوپر سے اپنی ہی سگی بہن سے شادی کے سپنے دیکھنے لگے ہو، کیا تم پاگل تو نہیں ہو گئے، تم جانتے ہو ایسا ہونا ناممکن ہے راحیل۔ میری بات سنتے ہی اس بار امی کے چہرے پر ہلکا سا غصہ آیا اور وہ ایک دم بول پڑیں۔
ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا، ہم ساری زمین بیچ کر کراچی چلے جائیں گے، جہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا اور وہاں میں اور مدیحہ میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ لیں گے امی جی۔ امی کے سامنے اپنا گناہ قبول کرنے کے بعد ان کے رویے سے میرا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ اب میں کھل کر اپنے دل کی بات اپنے منہ پر لے آیا
اپنی ہی بہن کا کنوارا پن لوٹ کر، اب اسے اپنی بیوی بھی بنانا چاہتے ہو تم، بہت خوب میرے بیٹے، کیا میں نے اسی دن کے لیے تجھے پال پوس کر جوان کیا تھا حرام خور۔ میری بات سن کر امی نے پہلی بار غصے والا منہ بناتے ہوئے مجھے جواب دیا۔
میں اور مدیحہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اب، اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو بے شک مدیحہ سے پوچھ لیں آپ۔ اپنی امی کے غصے بھرے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر امی سے یہ بات دہرائی۔
اپنی بہن مدیحہ سے پیار کرنے والی بات سن کر امی نے میری بات کے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ تو میں نے بھی اب کی بار امی سے مزید کوئی اور بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
کچن میں اس وقت اب ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جس کے دوران ہم دونوں ماں بیٹا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر خاموشی سے ایک دوسرے کے منہ کو دیکھے جا رہے تھے۔
تھوڑی دیر یوں ہی اپنی امی کو خاموشی سے دیکھنے کے بعد میں نے ادھر مزید بیٹھنا ٹھیک نہیں لگا۔
اس لیے میں ایک دم وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلتے ہوئے بولا اچھا خدا حافظ میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں امی۔
رکو میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ابھی راحیل۔ مجھے کچن سے باہر جاتے دیکھ کر امی نے پیچھے سے آواز دی۔
کوئی تو بات نہیں، اب میں آپ سے کل صبح بات کروں گا امی جان۔ اپنی امی کو جواب دیتے ہوئے میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اپنے بستر پر بیٹھ کر میں دن کو پیش آنے والے واقعے اور پھر امی کے رویے کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔
دن کی روشنی میں کھلے آسمان کے نیچے اپنی ہی جوان بہن کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے اپنی ہی امی کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ، اسی وقت ہم دونوں کو اپنے ہی ہاتھوں مار کر امی خود بھی خود کشی کر لیتیں، یا پھر اپنی ہی جوان بہن کا کنوارا پن ختم کرنے کے جرم میں امی مجھے اپنے گھر سے بے دخل کر دیتیں، مگر ان سب باتوں کے برعکس، امی بہت ہی پرسکون نظر آ رہی ہیں، تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے بھلا۔ اپنی امی کے محتاط رویے کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آ رہے تھے اور میں اس سوچ میں گم تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ مگر ہزار بار سوچنے کے باوجود بھی مجھے اس کیا کالا ہے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
سوچتے سوچتے امی کا اپنے موٹے مموں کے درمیان سے میرے لن کے مادے والے بھرے ہوئے کنڈوم نکالنے والی بات میرے ذہن میں دوبارہ سے چلی آئی۔ تو میں نے اپنے آپ سے خود کلامی کی اوہ امی نے میرے لن کے گرم پانی سے بھرے ہوئے کنڈوم کو اپنے مموں کے درمیان اپنے بریزیئر میں چھپا کر کیوں رکھا تھا، مدیحہ کے ساتھ ساتھ امی کو بھی میرے لن کی طلب تو نہیں ہو رہی کہیں۔
اس بات کے بارے میں سوچتے سوچتے امی کا چہرہ اور ان کا جسم کا سراپا میرے ذہن میں ایک دم سے دوڑنے لگا،
ہائے میری امی فاخرہ کی عمر تو تقریباً 50 سال ہے، مگر گھر اور کھیتوں میں کام کاج کرنے کی وجہ سے عمر کے لحاظ سے ان کا جسم کافی فٹ ہے۔
جس کی وجہ سے امی اپنی عمر سے کافی کم کی لگتی ہیں، امی کا رنگ کافی صاف اور گورا ہے اور ان کا قد بھی کافی اونچا ہے اور ان کے لمبے اور گھنے بال تو ان کی
پرسنلٹی کو مزید جاذب نظر بناتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر امی کے موٹے بڑے ممے تو قیامت ہیں بس۔ آج پہلی بار اپنی امی کے جسم کو یوں اپنے تصور میں لا کر سوچتے ہوئے میرے لن میں ایک دم ہلچل مچ گئی اور میرا لن ہڑ کر میری شلوار میں ایک دم کھڑا ہو گیا۔
ابو کو فوت ہوئے کافی وقت ہو گیا ہے، اس لیے ایک عورت ہونے کے ناتے امی کو ان کے لن کی کمی تو ضرور محسوس ہو رہی ہو گی، اگر میں اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کو چود کر اسے اپنی بہن سے اپنی معشوقہ بنا سکتا ہوں، تو میں اپنی امی کو چود کر ان کی بیوگی کا دکھ کم کیوں نہیں کر سکتا بھلا۔ یہ بات سوچتے ہوئے میرے ذہن میں پہلی بار اپنی امی کے بارے میں ایسا خیال آیا۔ تو شلوار میں ہڑے میرے لن میں مزید سختی آنے لگی
کیا میں ابھی امی کے کمرے میں جاؤں اور ان کے بستر میں گھس کر ان کی چوت میں اپنا لن ڈالوں اور ان کی بیوہ چوت کو پھر سے آباد کر دوں”
اپنے بستر پر بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ تو شلوار کے اوپر سے اپنے لن کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے میں نے سوچا۔
نہیں مجھے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اگر امی کے بارے میں میرا خیال غلط نکلا، تو اس بار امی یقیناً مجھے جان سے مار دیں گی” اپنے ذہن میں امی کی چدائی کا خیال آتے ہی میرے لن کو گرمی تو بہت چڑھی۔ مگر میں نے اپنے آپ کو امی کے کمرے میں جانے سے بمشکل روکا اور پھر اپنے دل کو قابو میں کرتے ہوئے بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا۔
مجھے سوئے ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے کوئی میرے کمرے کا دروازہ کھول کر چپکے سے میرے کمرے میں داخل ہوا ہے۔
رات کے تقریباً 12 بجے اپنے کمرے میں کسی اور شخص کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی میں اپنی نیند سے ایک دم بیدار ہو گیا اور فوراً پوچھا “کون ہے”
“میں ہوں تمہاری امی راحیل” مجھے اپنی نیند سے ایک دم جاگتا دیکھ کر امی نے آہستہ سے کہا۔
آپ اور اس وقت میرے کمرے میں، خیریت تو ہے نا امی جان” رات کے پچھلے پہر امی کو یوں دبے پاؤں میرے کمرے میں آتے دیکھ کر مجھے بہت حیرت تو ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی رات کی تنہائی میں امی کو اپنے کمرے میں موجود پا کر میرے سوئے لن نے ایک بار پھر میری شلوار میں انگڑائی لینا شروع کر دی۔
ہاں تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی بیٹا” امی نے دروازے پر کھڑے کھڑے مجھے جواب دیا۔
اچھا تو آپ نے ساری بات دروازے پر کھڑے کھڑے ہی کرنی ہے، ادھر آئیں اور میرے پاس بیٹھ کر بات کر لیں امی” اپنی امی کو یہ بات کہتے ہوئے میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔
میری بات سن کر امی نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولیں “نہیں میں ادھر ہی ٹھیک ہوں راحیل
امی آپ کا یوں دروازے پر کھڑے رہنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا، آپ میری بات مانیں اور جو بھی بات کرنی ہے ادھر میرے پاس آ کر کریں پلیز” میں امی کے جواب میں بولا۔
میری بات سن کر امی نے چند لمحے کچھ سوچا اور پھر بغیر دوپٹے کے آہستہ آہستہ قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی میرے ساتھ میرے بستر پر آ تو بیٹھیں۔ مگر ان کے چہرے پر بدستور ہچکچاہٹ چھائی ہوئی تھی۔
“جی امی ایسی کون سی بات ہے جسے کرنے کے لیے آپ صبح ہونے کا انتظار نہیں کر سکتی تھیں”
میں نے امی کی لون کی قمیض سے چھلکتے ان کے بھاری مموں پر اپنی نظر جماتے ہوئے پوچھا۔
تو آدھی رات کے وقت اپنی امی کو پہلی بار یوں بغیر دوپٹے کے اپنے ساتھ ایک ہی پلنگ پر بیٹھا دیکھ کر میرے جسم میں گرمی اور لن میں جوش آنے لگا تھا۔
“تمہارے کچن سے اٹھ کر آنے کے بعد سے اب تک میں یہی بات سوچتی رہی ہوں، کہ تم کو اپنی بہن کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا راحیل میری بات کے جواب میں امی نے اپنی نظریں اوپر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا۔ اور مجھ سے ٹیوب ویل پر میری اور مدیحہ کی چدائی کی بات دوبارہ شروع کر دی۔
مگر امی کی بات پر توجہ دینے بجائے مجھے تو اپنے پاس بیٹھی امی کے جسم سے اٹھنے والی ان کے گداز جسم کی بہنی بہنی خوشبو نے بے حال کر دیا۔ اور مدیحہ کے ساتھ ساتھ مجھے اب اپنی امی کے جسم کی بھی طلب ہونے لگی تھی۔
آپ کی بات صحیح ہے، مگر یقین مانیں ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ سب جوش و جذبات اور بے اختیاری میں ہوا ہے امی جان” امی کی بات سن کر میں نے ایک بار پھر امی کے سراپے پر بھرپور نگاہ ڈالی اور آہستہ سے امی کی بات کا جواب دیا۔
اور ساتھ ہی بے خیالی میں اپنے پاس بیٹھی امی کے ہاتھ میں دوستانہ انداز میں اپنا ہاتھ ڈال کر اپنی امی کے ہاتھ کو اپنی انگلیوں کے پنجے میں جکڑ لیا۔
اُف چھوڑو میرا ہاتھ راحیل” میری اور امی کی ہتھیلی آپس میں ٹچ ہوتے ہی ہم دونوں ماں بیٹے کو ایک کرنٹ سا لگا۔ تو امی نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے ایک دم چھڑا لیا۔
بے اختیاری کے بچے، اگر میری جگہ گاؤں کا کوئی اور شخص ڈیرے پر آ کر تم دونوں بہن بھائی کو ٹیوب ویل پر اس حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا، تو جانتے ہو اس بات کا کیا انجام ہونا تھا راحیل” اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے نکالتے ہی امی نے تھوڑا غصے بھرے انداز میں کہا۔
امی آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ہمارے ٹیوب ویل کی حوضی میں کھڑے ہو کر ہمارے کھیتوں میں میلوں تک دیکھا جا سکتا ہے، اور یہی وجہ تھی کہ مدیحہ کے ساتھ حوضی میں نہاتے ہوئے میں اپنے کھیتوں کے چاروں طرف دیکھ بھی رہا تھا، اس لیے اگر گاؤں کی طرف سے کوئی شخص ہمارے ڈیرے کی طرف آتا، تو میں اسے کافی دور سے دیکھ سکتا تھا، مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میری نظروں سے بچ کر آپ کیسے ڈیرے پر آ گئیں امی” میں نے یہ کہتے ہوئے اپنی امی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میری بات سنتے ہی امی کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل سا گیا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی امی کی آنکھوں میں مجھے ایک چیز بھی دکھائی دی۔ جو شکیلہ کی چدائی کے بعد میں نے اپنی بہن مدیحہ کی آنکھوں میں بھی دیکھ چکا تھا۔
اور وہ چیز تھی ایک گرم عورت کی جنسی پیاس کی چمک۔
شکیلہ کی چدائی کے بعد اپنی بہن مدیحہ کی آنکھوں کی اس چمک کو پرکھنے میں مجھے تھوڑا وقت لگا تھا۔
لیکن مدیحہ کی چدائی کے بعد آج اپنی امی کی آنکھوں میں بھی جنسی بھوک کی وہی چمک دیکھ کر مجھے سارے معاملے تک پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔
افففففففف اس کا مطلب یہ ہے کہ مدیحہ کی گولیاں اور میرے کنڈومز امی نے آج نہیں پکڑے، بلکہ یہ سب چیزیں کچھ دن پہلے ان کے ہاتھ لگی ہیں، اور ڈیرے پر آج امی کی آمد اتفاقیہ نہیں تھی، بلکہ آج امی جان بوجھ کر ایسے راستے سے ڈیرے پر آئیں تھیں، کہ جہاں سے آتے ہوئے وہ ہماری نظر میں نہ آ سکیں، تاکہ وہ چپ کر اپنے بچوں کی چدائی کا نظارہ کر سکیں” امی کی آنکھوں میں موجود چدائی کی پیاس کو دیکھ کر مجھے ایک ہی لمحے میں نہ صرف سارے معاملے کی سمجھ آ گئی۔
بلکہ مدیحہ اور میری چدائی کا علم ہونے کے باوجود ہم دونوں سے غصہ نہ کرنے کا سبب بھی مجھے پتہ چل گیا۔ اور اسی وجہ سے میرے لن کی گرمی مزید تیز ہوتی چلی گئی۔
لگتا ہے امی کے جسم میں بھی جنسی پیاس کی آگ لگی ہوئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے جس کا فائدہ اٹھا کر مدیحہ کے ساتھ ساتھ میں اپنی امی کی چوت کا مزہ بھی چکھ سکتا ہوں” رات کی تاریکی میں اپنی امی کے ساتھ ایک ہی بستر پر بیٹھے ہوئے میرے دل میں اس خیال نے جنم لیا۔ تو دل ہی دل میں میں نے اپنے آپ کو آنے والے لمحے کے لیے تیار کر لیا۔
تم کن سوچوں میں پڑ گئے ہو، مجھے جواب دو کہ تم نے اپنی بہن کا پیچھا چھوڑنا ہے کہ نہیں راحیل” میرے پاس بیٹھی امی نے جب مجھے گم سم اپنی سوچوں میں مگن دیکھا تو میری طرف دیکھتی ہوئی بولیں۔
ٹھیک ہے آپ کے کہنے پر میں مدیحہ سے اپنا تعلق ختم کر سکتا ہوں، مگر میرا کیا بنے گا امی جان” یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ کو پاس بیٹھی اپنی امی کی گوشت بھری ران پر رکھ کر شلوار کے اوپر سے اپنی امی کی گداز ران کو اپنے ہاتھ سے ہلکا سا دبایا۔ تو امی کی ران سے نکلنے والی گرمی کی لہر نے میرے پورے وجود کو گرم کر دیا۔
اففففففففف امی کی رانوں میں اتنی گرمی ہے، تو ان کی چوت میں تو پوری آگ ہی لگی ہو گی یار” اپنی امی کی ٹانگ کی تپش کو شلوار کے اوپر سے اپنے ہاتھ پر محسوس کرتے ہی میرے دل میں یہ خیال آیا۔ تو مزے کے مارے میرے ہاتھ کا دباؤ امی کی ران پر بڑھتا چلا گیا۔
ٹھیک ہے میں کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر تمہاری شادی کر دیتی ہوں بیٹا” اپنی ٹانگ پر رکھے ہوئے میرے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے امی نے میری بات کا جواب دیا۔ تو میرا حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے ہاتھ کو امی کی ران پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کر دیا۔
شادی تو ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے میں ابو کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد میں سے اپنا پورا حصہ وصول کرنا چاہتا ہوں امی” امی کی بات کے جواب میں ڈرتے ڈرتے میں بولا۔ اور ساتھ ہی میرے ہاتھ نے اب اپنا رخ آہستہ آہستہ امی کی ران کے اندرونی حصے کی طرف کر لیا۔
امی اپنی ران پر پھرنے والے میرے ہاتھ کی حرکت کو محسوس تو کر رہی تھیں۔
مگر اس کے باوجود انہوں نے مجھے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے میرے ہاتھ کا دباؤ اپنی امی کی ران پر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
اس دوران میں نے محسوس کیا کہ جونہی میرے ہاتھ نے امی کی رانوں کے اندرونی حصے کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ تو میرے ہاتھ کی حرکت سے امی کے جسم میں ایک اکڑ سی بھی آنے لگی تھی۔
اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہونے کی حیثیت سے ابو کی وفات کے بعد سب کچھ تمہارا ہی تو ہے، اس لیے جائیداد سے پورا حصہ وصول کرنے والی تمہاری بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی راحیل” میری بات کے جواب میں امی نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
آپ جانتی ہیں کہ باپ کی چھوڑی ہوئی ساری چیزوں پر بیٹے کا حق ہوتا ہے، ویسے تو میں نے ابو کی ساری چیزوں پر اپنا قبضہ پکا کر لیا ہے، مگر ان کی چھوڑی ہوئی سب سے قیمتی چیز ابھی تک میری دسترس سے باہر ہے، اور آج موقع آ گیا ہے کہ میں اس پر بھی اپنا حق جتا لوں امی جان۔
میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ یہ بات کہی اور اپنے ہاتھ کو اپنی امی کی چوت کے نزدیک لے آیا۔
سیدھی سیدھی بات کرو، کیوں پہیلیاں بجھا رہے ہو راحیل۔ اپنی چوت کے انتہائی نزدیک پہنچے ہوئے میرے ہاتھ کی گرمی کو محسوس کر کے امی کی سانسوں میں تیزی آنے لگی۔
اصل میں اپنی بہن مدیحہ کی کنواری چوت کو چود کر مجھے اپنے ہی گھر کی چوت کا چسکا پڑ گیا ہے، اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ اب اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی چوت میں اپنا لن ڈال کر ابو کی ساری جائیداد کا پورا مالک بن جاؤں امی جی۔
یہ بات کہتے ہوئے میں نے امی کی ران پر چلتے ہوئے ہاتھ کو آگے بڑھایا اور شلوار کے اوپر سے اپنی امی کی چوت کو ایک دم اپنی گرفت میں کر لیا۔
میرے ہاتھ نے جونہی پہلی بار اپنی امی کی چوت کو چھوا، تو جذبات کی شدت سے امی کے منہ سے بے اختیاری میں ایک گرم سسکی نکل گئی "اوہہہ"۔
اپنے منہ سے سسکی نکلنے کے باوجود امی نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر اپنی چوت پر جمے ہوئے میرے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے الگ کیا۔ اور ایک دم بستر سے اٹھ کر غصے کے عالم میں بولیں، "اپنی اس گندی حرکت اور اس بکواس پر شرم آنی چاہیے تمہیں راحیل"۔
میں تو امی سے کی جانے والی اس حرکت کے جواب میں امی کی گالیوں اور تھپڑوں کی امید لگائے بیٹھا تھا۔
مگر جب میری اس حرکت کے جواب میں امی صرف زبانی غصہ نکال کر کمرے سے باہر جانے لگیں۔
تو مجھے سمجھ آ گئی کہ امی کی چوت میں جنسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور اب ان کے منہ پر نظر آنے والا غصہ نقلی ہے۔
اس بات نے میری ہمت مزید بڑھا دی اور اس کے ساتھ ہی میں بھی بستر سے اٹھا۔ اور باہر جاتی اپنی امی کی کمر میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر میں نے ان کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
تو میری شلوار میں تنا ہوا میرا لن پیچھے سے امی کی گانڈ کی موٹی موٹی پھاڑیوں میں پھنسنا شروع ہو گیا۔
تم پاگل ہو گئے ہو، مجھے جانے دو، مت بھولو میں تمہاری امی ہوں راحیل"۔ میرے لن کی سختی کو اپنی بھاری گانڈ پر محسوس کرتے ہی امی نے اپنے آپ کو میری بانہوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔
امی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ابو کی وفات کے بعد آپ کے جسم کی جنسی پیاس اتنی بڑھ چکی ہے، کہ اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے آپ اپنے ہی سگے بچوں کی چدائی دیکھ دیکھ کر مزے کرتی رہی ہیں"۔ میں نے امی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی گرم زبان سے اپنی امی کی گردن کو چومتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اوپر کیا
اور اپنی امی کی بھاری موٹی چھاتیوں کو قمیض کے اوپر سے اپنے قابو میں کرتے ہی ان کو آہستہ آہستہ دبانا اور مسلنا شروع کر دیا۔
کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم، چھوڑو مجھے راحیل"۔ اپنی بھاری چھاتیوں سے میرے ہاتھوں کے ٹچ ہوتے ہی امی کے جسم کو کرنٹ لگا۔ اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے جسم کو میری قید سے چھڑانے کی کوشش کی۔
آپ بے شک اپنے منہ سے میری کہی گئی بات کا اقرار نہ کریں، مگر آپ کی آنکھوں میں تیرتی جنسی پیاس مجھے بتا چکی ہے، کہ آپ نہ صرف میری اور مدیحہ کی چدائی کو چھپ چھپ کر دیکھتی رہی ہیں، بلکہ آپ کی چوت میں میرے لن کی آگ بھی لگی ہوئی ہے امی جان"۔ میں نے اپنی امی کے موٹے مموں کو اپنے ہاتھوں میں زور سے مسلتے ہوئے یہ بات اپنی امی سے کہی۔
نہیں میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا راحیل، ہٹو پیچھے اور جانے دو مجھے"۔ میری بات کا جواب دیتے ہوئے امی نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔
آپ چاہے جو مرضی کہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے لن کی طلب ہی کی وجہ سے آپ میرے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم کو اپنے ان موٹے مموں کے درمیان رکھنے پر مجبور ہو گئی تھیں امی جی"۔ امی سے بات کہتے ہوئے میں نے اپنے ایک ہاتھ کو امی کے ممے سے ہٹا کر نیچے لایا۔ اور پھر اپنے ہاتھ کو امی کی ایلاسٹک والی شلوار کے اندر ڈال کر اپنی امی کی چوت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اپنی امی کی چوت کی تپش کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر محسوس کرتے ہی مجھے ایسا لگا کہ میں نے کسی تندور میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔
میں نے جونہی امی کی گرم چوت پر ہاتھ رکھ کر اس کے پھدی کے لبوں کو ہاتھ سے مسلا، تو میرے ہاتھ کے دباؤ اور مزے کے مارے امی کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی "ہائے نہیں کرو نہ راحیل"۔
جیسے ہی امی کی سسکاری سنی مجھے جوش آیا اور میں نے اپنا منہ امی کے کان کے پاس لے جا کر بولا۔ "اف آپ کی چوت تو مدیحہ سے بھی زیادہ گرم اور پیاسی ہے، بس آپ مجھے ایک موقع دیں تو میں آپ کی پیاسی چوت میں اپنا لن ڈال کر آپ کی بیوہ زندگی میں پھر سے بہار کر دوں گا امی جان
اپنی امی سے یہ بات کہتے ہوئے میں نے امی کی شلوار میں گھسے ہوئے ہاتھ کو امی کی چوت پر زور زور سے پھیرتا رہا۔
تو میرے ہاتھ کی مہربانی سے امی کی چوت مزید گرم ہو کر اپنا پانی چھوڑنے لگی۔ جس کی وجہ سے امی کی چوت سے بہنے والا یہ پانی ان کی پھدی سے نکل نکل کر امی کی گداز رانوں کو گیلا کرنے لگا۔
امی کی چوت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے چند ہی لمحے بعد میں نے محسوس کر لیا کہ امی کی نام نہاد مزاحمت اب دم توڑ رہی ہے۔
اس لیے اپنی امی کو مزید گرم کرنے کے لیے میں نے اپنی ایک انگلی کو چوت کے دانے پر رکھ کر اسے مسلنا شروع کر دیا۔
تو اس کے ساتھ ہی میرے ہاتھ کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے امی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا۔ اور پھر اپنی جنسی پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے خودی کے عالم میں آخر کار امی چلّا اٹھیں۔ "اف کیا اب اپنے ہاتھ سے ہی میری چوت کا سارا پانی نکالو گے، یا اپنے لن کا حل چلا کر اپنے ابو کی چھوڑی ہوئی بنجر زمین کو پھر سے آباد بھی کرو گے راحیل
یہ کہتے ہوئے امی نے اپنے جسم کو پیچھے کی طرف دھکیلا۔ اور اپنی گداز گانڈ کو زور زور سے میرے ہیرے ہوئے سخت لن پر رگڑنا شروع کر دیا۔
اوہ میرا لن تو آپ کی پیاسی زمین کو پانی لگانے کے لیے کب سے تیار ہے، بس آپ کی رضا مندی کا انتظار تھا امی جان" امی کی مستی بھری آواز سن کر مجھے بھی جوش آیا۔ اور میں نے ایک ہی جھٹکے میں اپنی امی کی قمیض اور شلوار کو اتار کر انہیں زمین پر پھینک دیا۔
اب امی میرے سامنے اس حالت میں کھڑی تھیں کہ ان کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ ان کے جسم پر صرف ایک برازیئر اور انڈروئیر باقی بچا رہ گیا تھا۔ اور برازیئر اور پینٹی میں ملبوس امی کا گورا دودھ کی طرح صاف جسم میرے لن پر بجلیاں گرا رہا تھا۔
امی کے گرم پیاسے جسم کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے میں نے بھی جلدی سے اپنی شلوار قمیض اتاری اور پھر اپنی امی کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
اوہ ہائے میں آپ کے حسین بدن کے پیچھے پاگل ہو رہا ہوں امی
یہ کہتے ہوئے میں نے پیچھے سے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اپنی امی کی پینٹی میں ڈالا اور اپنی امی کی چوت کے دانے سے کھیلنے لگ گیا۔
ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پتھر کی طرح سخت لن پر رکھ دیا اور بولا "دیکھیں میرا لن کیسے بے چین ہو رہا ہے آپ کی چوت میں جانے کے لیے امی
اوہ تمہارے لن کے ساتھ ساتھ میری پھدی بھی بہت مچل رہی ہے تمہارے لن سے چدوانے کے لیے بیٹا" میرے لن کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیتے ہوئے امی نے کہا۔ اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے میرے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔
اب کمرے میں حالت یہ تھی کہ میں امی کے پیچھے کھڑا ہو کر اپنی امی کی پینٹی میں ہاتھ ڈالے ان کی چوت کے لبوں اور پھدی کے چھولے کو اپنے ہاتھ سے رگڑ اور مسل رہا تھا۔
جبکہ میری امی اپنے جوان بیٹے کے موٹے سخت لن کو اپنے ہاتھ میں لے کر مٹھ لگاتے ہوئے مجھے مزہ دے رہی تھیں۔ اور ہم دونوں کے منہ سے مزے بھری سسکاریاں نکل کر کمرے کے ماحول کو مزید رنگین بنا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر مزید اپنی امی کی چوت کو اپنے ہاتھ سے گرم کرنے کے بعد میں نے امی کے برازیئر کی ہک کھول کر اپنی امی کے موٹے بڑے کبوتر (ممے) کو پنجرے کی قید سے آزاد کیا۔ اور ساتھ ہی اپنی امی کی پینٹی بھی اتار کر اپنی امی کو اپنے ہی ہاتھوں مکمل ننگا کر دیا۔
آپ بستر پر گھوڑی بن کر لیٹ جائیں، میں آپ کی چوت کو پیچھے سے چودنا چاہتا ہوں امی جی" اپنی امی کو پورا ننگا کرنے کے بعد میں نے ان کو پیٹ کے بل بستر پر لٹایا۔ تو اس انداز میں امی کی بھاری گانڈ پیچھے سے ہوا میں اٹھ گئی۔
"اف کیا فٹ بال جیسی گول گانڈ ہے آپ کی امی جان"
اپنی امی کی ہوا میں اٹھی ہوئی گانڈ کی دونوں بھاری بھاری پھاڑیوں کو اپنے ہاتھ میں تھام کر زور سے مسلتے ہوئے میں بولا۔
امی کی گانڈ کے پیچھے بیٹھ کر میں نے جونہی امی کی موٹی پھاڑیوں کو اپنے ہاتھ سے کھولا۔ تو امی کی پھولی ہوئی پیاری چوت میری آنکھوں کے سامنے کھلتی چلی گئی
اففف لگتا ہے کہ میرے گھر کی عورتیں اپنی چوت کی صفائی کا بہت خیال رکھتی ہیں” مدیہحہ کی طرح اپنی امی کی بنا بالوں والی چوت کو دیکھ کر میں نے کہا۔
اور ساتھ ہی اپنی انگلی کو تھوک لگا کر اپنی امی کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا
اففف اب ڈال بھی دو نا اپنا لن میری چوت میں، کیوں ترسا رہے ہو اپنی امی کو بیٹا” اپنی پانی چھوڑتی چوت پر میری تھوک بھری انگلی کو محسوس کرتے ہی گھوڑی بنی میری امی کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔
ذرا صبر کریں، کیوں آپ کی چوت کو چودنے سے پہلے میں آپ کی چوت کا ذائقہ چکھنا چاہتا ہوں امی جان” اپنی امی کی بے قراری کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے یہ بات کہی اور ساتھ ہی اپنا منہ کھول کر اپنی امی کی چوت پر اپنی گرم زبان گھما دی۔
چوت چاٹنے کا یہ تجربہ امی کے لیے بالکل نیا تھا۔ اس لیے میری گرم زبان کے چوت سے ٹکراتے ہی امی لذت کے مارے سسکاریاں لینے لگیں اور بولیں “افف تمہارے مرحوم ابو نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں میرے ساتھ کبھی یہ کام نہیں کیا، جو تم میرے ساتھ اس وقت کر رہے ہو راحیل”
“اوہ ابو کا تو مجھے پتہ نہیں، مگر آپ کی چوت کے اس نمکین سواد نے مجھے پاگل کر دیا ہے امی” اپنی امی کی بات کے جواب میں دیوانہ وار اپنی امی کی چوت کو چاٹتے ہوئے میں بھی سسکارا۔
“ہائے آج میرا اپنا بیٹا ہی مجھے جنسی لذت کی نئی دنیا سے روشناس کروا رہا ہے” میری چوت چاٹنے سے بے حال ہوتے ہوئے امی بولیں۔
امی کی ان باتوں نے میری گرم جوشی میں اضافہ کر دیا اور میں کچھ دیر یوں ہی اپنی امی کی چوت کو چاٹ چاٹ کر امی کی چوت کو گیلا کرتا رہا۔
جب میں نے اپنی امی کی چوت کو اچھی طرح سے اپنے لن کے لیے تیار کر لیا، تو میں اٹھ کر اپنی امی کی گانڈ کے پیچھے آیا۔
اور اپنے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی امی کی چوت کے لبوں کے درمیان رگڑا۔
اففف بیٹا” اپنی بیوگی کے اتنے مہینوں بعد آج پہلی بار ایک جوان لن کو اپنی چوت کے لبوں سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے امی زور سے سسکار اٹھیں۔
میرے لیے یہ لمحہ ایک خواب سے کم نہیں تھا کہ میں رات کی تاریکی میں اپنے کمرے میں اپنی ہی سگی امی کی چوت پر اپنے سخت لن کو رگڑ رہا تھا۔ اور میری امی میرے گرم اور سخت لن کو اپنی چوت کے لبوں سے چھوتا ہوا محسوس کر کر مزے سے سسکیاں لے رہی تھیں۔
اس لیے اپنی امی کی چوت پر اپنا لن رگڑتے ساتھ ہی میرے لیے اب اپنی ماں کی چوت سے مزید دور رہنا ناممکن ہو گیا۔
تو اپنے لن کو ہاتھ میں تھامے ایک لمحے کے لیے میں امی کی چوت سے علیحدہ ہوا۔
اور دوسرے ہی لمحے ایک دم آگے کو بڑھتے ہوئے میں نے اپنے لن کو پیچھے سے اپنی والدہ ماجدہ کی اس چوت میں گھسا دیا۔ جس پھدی نے آج سے کئی سال پہلے مجھے اپنی کوکھ سے نکال کر اس دنیا میں جنم دیا تھا۔
اوہ راحیل” میرے لن کے چوت میں گھستے ہی مستی بھری آواز امی کے منہ سے نکلی۔
تو اپنی امی کی گرم سسکی سن کر مزے سے میں بھی سسکار اٹھا “افف فاخرہ”
ہائے پھدی میں لن ڈالتے ہی امی سے ایک دم فاخرہ پراگئے ہو تم تو راحیل” میری کہی ہوئی بات سن کر امی بولیں اور ساتھ ہی اپنی گانڈ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے میرے لن کو اپنی چوت میں پورے کا پورا جذب کر لیا۔
ہاں کیونکہ میرے لن کو چوت میں لیتے ہی امی سے بیوی جو بن گئی ہو آپ، میری فاخرہ بیگم
امی کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے ان کی گانڈ کی بھاری پھاڑیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔ اور اپنی امی کی چوت میں زور زور سے اپنے لن کے جھٹکے مارنے لگا۔
ہائے میں تو لن کا سواد ہی بھول گئی تھی، مگر میری چوت میں اپنا جوان لن ڈال کر تم نے واقعی ہی میری بیوہ چوت کو پھر سے سہاگن کر دیا ہے، اوہ چودو مجھے راحیل، میرے سرتاج
افف تمہاری چوت تو تمہاری بیٹی کی چوت سے بھی زیادہ مزے دار ہے فاخرہ بیگم
اپنی امی کی بات سنتے ہی میں اپنے دونوں ہاتھوں سے امی کے موٹے موٹے سیکسی چوتڑ سختی سے پکڑ کر تیزی سے امی کو چودنے لگا۔
پورے کمرے میں میری اور امی کی لذت بھری آوازیں گونج رہی تھیں۔ “آہ افف افف میں مر گئی افف بیٹا تم بہت اچھی چودائی کرتے ہو، آہ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے اوہ
میں اب طوفانی انداز میں امی کی چوت کو چودنے میں مصروف تھا۔ اور امی بھی اب اپنی گانڈ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے میرے لن کو اپنی چوت میں دبوچے چلی جا رہی تھیں۔
کچھ دیر ایسے ہی گوری بنا کر چودنے کے بعد میں نے امی کی چوت سے اپنا لن نکالا تو میرا لن اپنی امی کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔
امی جان، آپ بستر پر سیدھی ہو کر لیٹ جائیں” امی کی چوت سے سے اپنا لن نکال کر میں نے انہیں کمر کے بل سیدھا بستر پر لٹا دیا۔
اففف یہ ہیں نہ وہ ممے، جن کے درمیان آپ نے میرے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم کو چھپا کر رکھا تھا امی جان
بستر پر سیدھا لیٹتے ہی میری نظر پہلی بار اپنی امی کے بڑے اور بھاری مموں پر پڑی۔ تو میں نے امی کے موٹے مموں کے لمبے نپلز پر اپنی گرم زبان گھماتے ہوئے امی سے پوچھا۔
ہاں اور تمہارے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم نے میرے مموں میں بھی اتنی ہی آگ لگائی تھی، جتنی آگ اس وقت تمہارا لن میری پھدی میں لگا رہا ہے راحیل” یہ بات کہتے ہوئے امی نے میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر زور سے دبایا۔ تو امی کا پورا نپل میرے کھلے منہ میں گھستا چلا گیا۔
آپ اپنے ان بڑے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ایک ساتھ ملائیں امی” میں نے اپنی امی کے موٹے مموں کو زبان سے چومتے اور چاٹتے ہوئے کہا۔
وہ کس لیے بیٹا” میری بات سن کر امی نے تھوڑی حیرانی سے مجھ سے پوچھا۔
کیونکہ میں آپ کے ان مموں کو اپنے لن کے ساتھ چود کر آپ کے مموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے میرے لن کے پانی کی اتنی عزت افزائی کی ہے امی جان” میں امی کی بات کا جواب دیتے ہوئے اٹھا اور امی کے پیٹ کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
امی نے میرے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو آپس میں جوڑا۔ تو میرا لن میری امی کے موٹے اور بڑے مموں کی قید میں جکڑا گیا۔
اففف آپ کی چوت کے ساتھ ساتھ آپ کے مموں میں بھی بہت گرمی ہے فاخرہ بیگم” اپنی امی کی چوت کے چھوٹے ہوئے پانی سے بھرا ہوا اپنا سخت اور
جوان لن امی کی گداز چھاتیوں کے درمیان رکھتے ہوئے میں نے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی جوش سے اپنے لن کو اپنی امی کے موٹے اور بھاری مموں کے درمیان تیزی سے رگڑنا شروع کیا۔
تو میرے لن کی گرمی کے ہاتھوں بے حال ہوتے ہوئے امی نے بھی اپنا منہ کھول دیا۔
جس کی وجہ سے میرے لن کا ٹوپا امی کی گرم زبان سے بھی رگڑ کھانے لگا۔
اففف آپ کے گداز مموں کے ساتھ ساتھ آپ کی گرم زبان بھی میرے لن کو پیار کر رہی ہے امی جی” اپنی امی کی زبان کو اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس کرتے ہی میں مزے سے چلایا۔
جب میرا بیٹا اپنی امی کی بیوہ چوت میں دوبارہ سے زندگی کی خوشیاں لا سکتا ہے، تو میں ایک ماں سے اپنی ہی بیٹے کی بیوی بن کر اپنے شوہر کو چدائی کا نیا مزہ کیوں نہیں دے سکتی راحیل جانوں” میری بات کے جواب میں میرے لن پر جوش سے اپنی زبان چلاتے ہوئے امی نے کہا۔
تو اپنی بیوی/امی کی یہ بات سن کر جوش کے مارے میرے لن کی نسیں بھی پھولنے لگیں۔
اور اب میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے موٹے لن کو اپنی امی کے بھاری مموں کے درمیان رگڑنے لگا۔
اففف تم نے آج میری چوت اور میرے مموں کو ایک ساتھ چود کر یہ ثابت کر دیا ہے، کہ والد کے بعد ایک ماں کی چوت اور جسم پر صرف اور صرف اس کے سگے بیٹے کا ہی حق ہوتا ہے راحیل” میرے سخت جوان لن کی گرمی کو اپنے مموں کے درمیان محسوس کرتے ہوئے امی کے منہ سے بے ساختہ سسکیاں نکلنے لگیں۔
ہائے اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا، اس لیے میں آپ کے مموں میں ہی اپنے لن کا پانی چھوڑنے لگا ہوں فاخرہ بیگم”
اپنی امی کی بات سنتے ہی میرے لن کا بند ٹوٹ گیا اور میرے لن سے میرا گرم پانی نکل کر امی کے مموں کے ساتھ ساتھ ان کے منہ میں بھی گرنے لگا۔
اوہ تم نے بچپن میں جن چھاتیوں سے دودھ پیا تھا، آج میری انہی چھاتیوں کے درمیان اپنے لن کا گرم پانی انڈیل کر، تم نے اپنے دودھ کا حق ادا کر دیا ہے میرے بیٹے” میرے لن کا گاڑھا مادہ امی کے بڑے مموں اور کھلے منہ میں گرتے ہی مزے کے ساتھ میرے لن کے نمکین پانی کو چاٹ کر اپنے حلق میں اتارتے ہوئے امی نے کہا
اپنی امی کے مموں کے درمیان اپنے لن کا پانی انڈیلتے ہوئے میری نظر کمرے کے دروازے کی طرف گئی۔
تو مجھے مدیحہ نظر آئی جو دروازے پر بت بن کر کھڑی مجھے اور امی کو حیرانی کے ساتھ دیکھنے میں مصروف تھی۔
ہائے اپنی بہن مدیحہ سے کی گئی بے وفائی پر اب اسے کیا جواب دوں گا میں" رات کے اندھیرے میں اپنی بہن مدیحہ کو یوں اچانک کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر میری اور امی کی چدائی دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میں نے گھبرا کر سوچنے لگا۔ تو پھر دوسرے ہی لمحے میری نظر مدیحہ کے چہرے سے ہٹ کر اس کے جسم پر پڑی۔
اف یہ کیا مدیحہ تو اس وقت نہ صرف مکمل ننگی ہے، بلکہ اسی ننگی حالت میں کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر میری اور امی کی چدائی کو دیکھ کر اتنی گرم ہو چکی ہے، کہ وہ اب اپنی چوت کو اپنے ہی ہاتھ سے مسل کر اپنی چوت میں لگی آگ کو ٹھنڈا بھی کر رہی ہے۔
اپنی بہن کو یوں کمرے کی دیوار کے ساتھ لگ کر میری اور امی کی چدائی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی چوت میں اپنی ہی انگلی مارتے دیکھ کر میں نے سکون کا سانس لیا۔ اور پھر امی سے نظر بچا کر اپنی بہن کو کمرے میں آنے کا اشارہ کر دیا۔
میرے اشارے کو سمجھتے ہی مدیحہ نے ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میری طرف دیکھا اور پھر انکار میں اپنا سر ہلا دیا۔
پلیز" مدیحہ کے انکار کو دیکھ کر میں نے نظروں ہی نظروں میں دوبارہ اپنی بہن سے کمرے میں درخواست کی۔ اور اس کے ساتھ ہی امی کے اوپر سے ہٹ کر بستر پر ان کے برابر لیٹ گیا۔
میری التجا بھری نظروں کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے مدیحہ بت بن کر ادھر ہی کھڑی رہی۔
اور پھر کچھ دیر بعد کسی فیشن شو کے ریمپ پر چلنے والی ماڈل کی طرح اپنی گانڈ مٹکاتی ننگی حالت میں ہی میرے بستر کے قریب آ کر کھڑی ہوئی۔
مدیحہ کے خاموشی سے کمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے پہلے پہل تو امی کی نظر اس پر نہیں پڑی۔
مگر کمرے میں آ کر مدیحہ جونہی بستر کے نزدیک پہنچی تو وہ امی کی نظر میں آ ہی گئی۔
اپنی جوان بیٹی کو یوں ننگی حالت میں ایک دم اپنے سامنے پا کر ایک لمحے کے لیے امی کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ مگر انہیں فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ اس صورتحال میں وہ کیسے ردعمل کریں۔
لیکن جیسے ہی امی کو یہ احساس ہوا کہ مدیحہ کے ساتھ ساتھ وہ بھی تو اس وقت مکمل ننگی حالت میں ہیں۔
تو میرے پہلو میں لیٹی میری امی نے تیزی کے ساتھ لپک کر پاس پڑی بستر کی چادر اٹھائی اور اپنے جسم کو ایک دم ڈھانپنے کی کوشش کی۔
مدیحہ باہر کھڑے ہو کر کافی دیر سے ہم دونوں کی چدائی دیکھتی رہی ہے، اور آپ کی بیٹی اب آپ کے جسم کے سارے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے، اس لیے اب اس سے اپنے جسم کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں فاخرہ بیگم" امی کو یوں ایک دم اپنے اوپر چادر لیتے دیکھ کر میں مسکراتے ہوئے بولا۔ اور ساتھ ہی امی کے جسم پر بچھی ہوئی چادر کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر امی کے جسم سے وہ چادر اتار پھینکی۔
اف خدایا، مدیحہ اتنی دیر سے ہم دونوں کو دیکھتی رہی ہے، تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں راحیل" میری بات سنتے ہی امی میری طرف دیکھیں اور اپنے موٹے ننگے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے چھپاتے ہوئے تھوڑا غصے میں بولیں۔
جب آپ چھپ چھپ کر میری اور مدیحہ کی چدائی دیکھتی رہی ہیں، تو اس وقت آپ نے مجھے بتایا تھا، جو اب میں مدیحہ کے بارے میں آپ کو بتاتا امی جان" امی کی بات سنتے ہی میں مسکرایا اور شرارتی انداز میں اپنی امی کو جواب دیا۔
اوہ چونکہ آپ کو اپنے ہی بچوں کی چدائی دیکھنے میں مزہ آتا ہے، اور اسی وجہ سے ٹیوب ویل پر ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے باوجود آپ نے ہمیں کچھ نہیں کہا امی" امی کے متعلق میرے منہ سے نکلنے والے اس راز کو سن کر مدیحہ نے حیرانی سے امی کی طرف دیکھا اور بولی۔
میری بہن کی بات سنتے ہی امی نے شرمندہ نظروں کے ساتھ مدیحہ کی طرف دیکھنا اور شرم کے مارے امی کا منہ لال ہو گیا۔
شرمندہ ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، کیونکہ آج سے آپ دونوں ہی میری عورتیں ہو، اور گھر کے سربراہ کی حیثیت سے آپ دونوں کی جسمانی ضروریات کا ایک ساتھ خیال رکھنا اب میری فرض ہے" امی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھتے ہی میں نے امی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ میں نے اپنی بہن مدیحہ کی طرف اپنا منہ کیا اور بولا "اب ادھر کھڑی کھڑی میرے اور امی کے ننگے جسموں کو ہی دیکھتی رہو گی، یا قریب آ کر مجھے اپنے اس پیاسے جسم کی پیاس بجھانے کا موقع بھی دو گی میری رانی"
"ہائے اس چوت پر اب آپ کا ہی حق ہے، اس لیے اپنی پھدی کو چودنے کا موقع آپ کو نہیں دوں گی تو پھر اور کسے دوں گی بھائی" میری بات سنتے ہی مدیحہ بولی اور پھر بستر پر چڑھ کر بستر پر لیٹی امی کی ٹانگوں کے نزدیک آ بیٹھی۔
مدیحہ کو یوں اپنے اتنے قریب دیکھ کر امی ریلیکس ہونے کی بجائے اور شرما گئیں۔ اور اپنی شرم کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ صرف انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی دونوں ٹانگوں کو ایک ساتھ ملا کر اپنی چوت کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
امّی کو ابھی تک یوں شرماتے دیکھ کر میں ایک دم جنجلا گیا۔
اس لیے غصے میں آتے ہوئے میں نے آپس میں جڑی ہوئی امّی کی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی کھولا۔ اور امّی کی چوت سے ان کے ہاتھوں
کو بھی ہٹا کر مدیحہ سے بولا، "مدیحہ دیکھو کتنی مزے دار چوت ہے ہماری امّی کی، اُف اس عمر میں بھی امّی کی چوت جوان لڑکیوں کی چوتوں کو پیچھے چھوڑتی ہے
اُففف امّی کی چوت تو واقعی ہی بہت خوبصورت ہے، اسی لیے تو آپ بھی اس کے عاشق بن گئے ہیں بھائی" امّی کی بند ٹانگیں کھلتے ہی جونہی امّی کی چوت پہلی بار مدیحہ کے سامنے پوری طرح عریاں ہوئی۔
تو میری چدائی کی وجہ سے پانی پانی ہوتی اپنی سگی امّی کی پھدی کو دیکھ کر مدیحہ کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اور مزے کے مارے وہ اپنی زبان کو اپنے ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے سسکار اٹھی۔
اپنی امّی کی چوت کو دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے والے مدیحہ کے اس انداز نے میرے ڈھیلے لن میں دوبارہ سے جان پیدا کر دی اور وہ ایک بار پھر سے ہڑ کر کھڑا ہونے لگا۔
تو میں نے بستر پر بدستور اپنی آنکھیں بند کیے لیٹی اپنی امّی پر نظر دوڑائی اور اس کے ساتھ ہی مستی میں آ کر اپنی بہن مدیحہ کے کان میں سرگوشی کی "میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لن سے چدی ہوئی ہماری امّی کی اس پھدی کو میرے سامنے اپنی زبان سے چاٹو میری بہن
میری بات سنتے ہی مدیحہ نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا۔ اور پھر دوسرے ہی لمحے امّی کی کھلی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر اپنی دونوں انگلیوں سے امّی کی چوت کے لب کھول دیے۔
امّی کی چوت کے لبوں کو اپنے ہاتھ سے کھول کر مدیحہ نے اپنا منہ آگے بڑھایا اور امّی کی پنک چوت میں بہتے امّی کی چوت کے نمکین پانی کو اپنی نوکیلی زبان سے چاٹ لیا۔
اوہ، اُففف، ہائے، یہ کیاااااااا کر رہی ہو تم میرے ساتھ مدیحہ" رات کی تاریکی میں اپنے ہی سگے بیٹے کے لن سے چدوانے کے بعد اب اپنی پانی چھوڑتی چوت پر اپنی ہی سگی بیٹی کے گرم لبوں کو محسوس کر امّی نے ایک دم اپنی بند آنکھیں کھولیں اور مزے کے سسکار کر مدیحہ سے کہا۔
ہائے راحیل بھائی سے چدوا کر آپ ان کے لن کا مزہ تو چکھ ہی چکی ہیں، اب آپ اپنی بیٹی کو بھی تو موقع دیں، کہ وہ بھی آپ کی چوت کو اپنے منہ اور زبان سے پیار کر کے آپ سے اپنے پیار کا اظہار کر سکے امّی جان" امّی کی سسکی سنتے ہی مدیحہ نے امّی کی چوت سے اپنا منہ نکال کر انہیں جواب دیا۔
اس کے ساتھ ہی مدیحہ نے اپنے ہاتھ کی تین انگلیاں ایک ساتھ امّی کی چوت کے دانے پر ا نگلی پھیرتے ہوے اپنی انگلی کو امی کی چوت میں ڈالا ور پھر امّی کی چوت کے دانے کو اپنے منہ میں پورا بھر لیا۔
اوہ تم دونوں اپنے لن اور زبان کے مزے دے دے کر مجھے تو پاگل ہی کر دو گے، آہہہ چاٹو اور چاٹو م م بہت مزہ آ رہا ہے مجھے" اپنی چوت میں اندر باہر
ہوتی اپنی سگی بیٹی کی انگلیوں کے ساتھ ساتھ اپنی چوت کے چاولے پر چلتی مدیحہ کی گرم زبان نے امّی کے جسم میں آگ لگا دی۔ تو مزے سے بے حال ہو کر امّی پاگلوں کی طرح بڑبڑانے لگیں۔
اپنی نظروں کے سامنے اپنی بہن کو اپنی ہی سگی امّی کی پیاسی چوت کو یوں دیوانہ وار چٹتے دیکھ کر میرا لن بھی جوش میں پاگل ہونے لگا۔
تو میں امّی کے پہلو سے اٹھ کر بستر پر لیٹی اپنی امّی کے سر کے پیچھے آیا۔ اور پھر پیچھے سے امّی کے سر کے اوپر چڑھ کر اپنے ڈھیلے لن کو امّی کے کھلے لبوں پر پھیرتے ہوئے سسکارا "میرے لن کو اپنے منہ میں لے کر اسے چوسیں اور چوس کر اسے اپنی بیٹی کی چوت کے لیے اچھی طرح سے تیار کریں امّی جان
میری بات سنتے ہی بستر پر لیٹی امّی نے میری آنکھوں میں دیکھا اور پھر اپنا منہ کھول کر اپنی چوت کے پانی سے بھرے میرے لن کا ٹوپا اپنے منہ میں بھر لیا۔
اُففف آپ کی چوت تو چوت، آپ کے تو منہ میں بھی بہت گرمی ہے امّی جان" امّی کے گرم منہ میں اپنے لن کا ٹوپا جاتے ہی مجھے جو مزہ ملا وہ میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر تھا۔
ہائے تمہارا لوڑا بھی تو کتنا گرم اور سخت ہے میرے بیٹے" میرے لن کے ٹوپے کو منہ میں بھرتے ہی امّی کو بھی جوش آیا۔ اور اسی جوش میں انہوں نے میرے لوڑے کو دیوانہ وار چوستے ہوئے میرے لن پر لگے اپنی ہی چوت کے پانی کو اپنے حلق میں اتارنا شروع کر دیا۔
ہائے لگتا ہے آپ ابو کے لن کو کافی چوستی رہی ہیں، اسی لیے تو لن چوسائی میں آپ کو بہت ہی مہارت ہے امّی" امّی کے چوسنے کے مزے سے پاگل ہوتے ہوئے میں نے پوچھا۔
تمہارے ابو نے تو مجھ سے کئی دفعہ لن چوسنے کی فرمائش کی تھی، مگر میں نے اس کام کو گندا سمجھتے ہوئے ہمیشہ ہی انکار کر دیا، لیکن آج تمہارے اس شاندار لن سے چدنے کے بعد مجھے اپنے بیٹے کے آگے انکار کی ہمت نہیں ہوئی راحیل
ہائے میرا لن کتنا خوش نصیب ہے جسے اس کی اپنی سگی امّی کے منہ نے اتنی عزت بخشی ہے" اپنی امّی کی یہ بات سن کر میں مزید جوش میں آ گیا۔
اور اس جوش میں اپنی امی کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے اپنی امی کے منہ کو اس طرح چودنے لگا جیسے وہ امی کا منہ نہیں بلکہ ان کی گرم چوت ہو۔
اب کمرے میں حالت یہ تھی کہ امی کی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر مدیحہ اپنے منہ کے ذریعے اپنی امی کی چوت کا رس پی رہی تھی۔
جب کہ میں امی کے پیچھے سے ان کے سر پر چڑھ کر اپنی امی کے منہ میں اپنا لن پھیلاتے ہوئے اپنی امی کے تنگ اور گرم منہ کے مزے لے رہا تھا۔
اور اپنی چوت پر چلتی اپنی ہی سگی بیٹی کی گرم زبان کے مزے سے بے حال ہو کر امی میرے لن کو کسی لالی پاپ کی طرح چوستی ہوئی خود بھی مزے لے رہی تھیں۔
جب کہ اس دوران "اوہ ہائے اف" قسم کی گرم سسکیاں ہم تینوں کے منہ سے پھوٹ پھوٹ کر کمرے کے ماحول کو مزید رنگین بنا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر اپنی امی سے لن چسوانے کے بعد میرا لن دوبارہ سے اپنی پوری سختی میں آ گیا۔ تو میں نے اپنے لن کو اپنی بہن کی چوت میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا۔
یہ ارادہ کرتے ہی میں نے امی کے منہ سے اپنا لن نکالا۔ اور اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل میں پڑا ہوا کنڈوم کا ایک پیکٹ ہاتھ میں لے کر اسے کھولنے لگا۔
یہ کیا کر رہے ہو راحیل بیٹا" سائیڈ ٹیبل سے کنڈوم کو نکال کر مجھے اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے دیکھ کر امی نے سوال کیا۔
ہائے آپ کی چوت کو چودنے کے بعد اب آپ کی بیٹی کی چوت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا ارادہ ہے، اور مدیحہ کی چوت میں لن ڈالنے سے پہلے کنڈوم اس لیے لگا رہا ہوں، تاکہ مدیحہ پریگننٹ نہ ہو جائے کہیں امی" میں نے کنڈوم کے پیکٹ کو کھولتے ہوئے امی کی بات کا جواب دیا۔
اوہ میں گھر کے صحن میں اپنے پوتے پوتیوں کو کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں، اس لیے آج سے تمہارا کنڈوم استعمال کرنا بند میرے بیٹے" یہ بات کہتے ہوئے امی نے میرے ہاتھ سے کنڈوم چھین کر فرش پر پھینک دیا۔
ہائے امی آپ واقعی ہی چاہتی ہیں کہ مدیحہ میرے بچوں کی ماں بنے" اپنی امی کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے میرے لن میں بجلی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اور میرا لن سانپ کی طرح اپنا پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔
مدیحہ کو چود کر تم نے اپنی بہن کی چوت کا قبضہ تو پہلے ہی حاصل کر لیا ہے، مگر آج سے میں نے تمہاری بہن کی چوت کی رجسٹری بھی تمہارے لن کے نام لکھ دی ہے، اس لیے اب اپنی بہن کے کوکھ میں اپنے لن کا بیج ڈال کر اسے اپنے بچوں کی ماں بنا دو بیٹا" میری بات کا جواب دیتے ہوئے امی نے اپنی گانڈ کو بستر سے اٹھا کر اپنی چوت کو گرم جوشی کے ساتھ مدیحہ کے منہ پر مارا اور مزے سے سسکار اٹھی۔
امی کی بات سنتے ہی میں تیزی سے مدیحہ کے پیچھے آیا اور گھوڑی بنی اپنی بہن کی خوبصورت گانڈ کے درمیان میں اپنا لوڑا رگڑنے لگا
اوہ امی کی باتوں اور آپ کے لن نے میری پھدی میں آگ لگا دی ہے، اس لیے اب جلدی سے میری چوت میں اپنا لن ڈال کر امی کی خواہش کو پورا کر دو بھائی" اپنی گانڈ کی پھاڑیوں میں میرے لوڑے کی گرمی کو محسوس کر کے میری بہن مدیحہ سسکاری۔
اف میرا لوڑا بھی تمہاری چوت سے ملاپ کے لیے بے چین ہو رہا ہے، اس لیے اب میرے لن کے استقبال کے لیے اپنی چوت کو تیار کر لو میری جان اپنی بہن کی بات سنتے ہی میں نے جھٹکا دیا اور امی کے تھوک سے بھرے ہوئے اپنے لن کو گھوڑی بنی اپنی بہن کی چوت میں پیچھے سے گھسا دیا۔
اوہ بھائی کا لوڑا تو پہلے بہت اچھا تھا، مگر بھائی کے لن کو اپنے منہ سے چوسا لگا کر اسے مزید سخت کر دیا ہے، اور اس نوازش کے لیے میری چوت آپ کی بہت ہی شکر گزار ہے امی" بغیر کنڈوم کے میرا ننگا لوڑا جب اپنی بہن کی چوت میں اترا۔
تو میرے گرم لوڑے کو اپنی چوت کی دیواروں کے درمیان سے گزر کر اپنی بچہ دانی کے منہ سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے میری بہن کے منہ سے سسکی نکل گئی۔
اپنی بہن کی چوت میں اپنا پورا لن ڈالتے ہی میں جوش سے زوردار جھٹکے مارتے ہوئے اپنی بہن کی چوت کو چودنے لگا۔
اف اپنی سگی امی کی چوت کو چٹتے ہوئے، اپنے ہی سگے بھائی کے سخت اور جوان لن سے چدوانے کا موقع کسی قسمت والی بہن کو ہی نصیب ہوتا ہے، اس لیے آج میری چوت کو چود چود کر مجھے اپنے بچے کی ماں بنا دو بھائی" میرے لن کو اپنی چوت کی گہرائی میں تیزی کے ساتھ آتے جاتے محسوس کر کے مدیحہ مزے سے چلا اٹھی۔
ایک تو مدیحہ کی باہر کو نکلی ہوئی دلکش گانڈ کا نظارہ اور اوپر سے اس کی گرم باتوں نے مجھے پاگل کر دیا۔
اس لیے جوش میں آتے ہوئے میں نہ صرف اور تیزی کے ساتھ اپنی بہن کی چدائی میں مصروف ہو گیا۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ میں نے مزے سے پاگل ہوتے ہوئے مدیحہ کے خوبصورت چوتڑوں پر چانٹے مارنا بھی شروع کر دیے۔
اب میں اپنی بہن کی چوت کو زور سے چودتے ہوئے اپنے لن کے ہر دھکے پر طاقت کے ساتھ مدیحہ کے چوتڑوں پر تھپڑ بھی مار رہا تھا۔
جس کی وجہ سے میرے ہر تھپڑ پر مزے اور تکلیف سے تڑپ کر مدیحہ کے منہ سے چیخ نکل جاتی۔ اور مزے سے پاگل ہوتے ہوئے وہ آگے سے اپنے منہ کو اپنی امی کی چوت میں زور سے گھسا دیتی
جس کی وجہ سے امی کو مزید مزہ آتا اور وہ بھی مستی میں سسکیاں لینے لگتیں۔
کیونکہ مدیحہ کے چوتڑ کافی بھاری تھے۔ اس لیے ان پر تھپڑ مارنے کی وجہ سے کافی تیز آواز پیدا ہو رہی تھی۔
اپنی بہن کے گداز چوتڑوں پر بار بار تھپڑ مارنے کی وجہ سے چند ہی سیکنڈز میں مدیحہ کے گورے گورے چوتڑ سوج کر لال ہو گئے۔
افف کیا تم اکیلی ہی امی کی چوت کا مزہ لیتی رہو گی، یا مجھے بھی اپنی امی کی پھدی کا سواد چکھنے کا موقع دو گی مدیحہ" اپنی بہن کی چوت میں پیچھے سے زور دار گھسے مارتے مارتے میں ایک دم آگے کو جھکا۔ اور امی کی چوت سے مدیحہ کے منہ کو ہٹا کر اپنا منہ اپنی امی کی چوت پر رکھ دیا۔
اور پھر اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں اور زبان سے اپنی امی کا موٹا پھدا بھی چوسنے میں مصروف ہو گیا۔
افف اپنی بیوی کی چوت کو چودنے کے ساتھ ساتھ اپنی ساس کی پھدی کو اپنی گرم زبان سے مزہ دینے کے تمہارے اس انداز نے یہ ثابت کر دیا ہے، کہ تم واقعی ہی میرے گھر داماد بننے کے قابل ہو راحیل بیٹا" مدیحہ سے اپنی چوت چٹوانے کے بعد اپنی پھدی پر میری گرم زبان محسوس کرتے ہی امی نے جوش سے اپنی گانڈ اٹھا کر میرے منہ پر رگڑی اور مزے سے چیخ پڑیں۔
اپنی بہن کو چودتے ہوئے مجھے اب کافی وقت ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے میں اب فارغ ہونے کے بہت نزدیک پہنچ چکا تھا۔
اس لیے اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کو ڈالتے ہوئے میں نے اپنی تمام طاقت سے ایک آخری دھکا مار کر اپنے لن کا آخری انچ بھی جڑ تک مدیحہ کی چوت میں اتارا۔
تو اس کے ساتھ ہی میرے لن نے میری بہن کی چوت میں اپنا پانی گرا کر مدیحہ کی پھدی می لن کی سفید منی کا سیلاب بنانا شروع کر دیا۔
میرے لن کے گرم مادے کو اپنی چوت کی گہرائیوں میں گرتے ہوئے محسوس کر کے مدیحہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ اور اپنے منہ کو امی کی پھدی پر زور سے دباتے ہوئے میری بہن چلا اٹھی "اوہ آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی فارغ ہو گئی ہوں بھائی
ادھر میرے لن اور مدیحہ کی چوت نے اپنا اپنا پانی خارج کیا۔ تو امی کی چوت پر لگنے مدیحہ کے منہ کی زور دار رگڑ نے اپنا کام دکھا دیا اور ہمارے ساتھ ساتھ امی کی پھدی بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی۔
اب حالت یہ تھی کہ گوری بنی مدیحہ کی چوت کو پیچھے سے چودتے ہوئے میں اپنی بہن کی کوکھ میں اپنے لن سے گاڑھے سفید کم کی پچکاریاں نکالتے ہوئے اپنی بہن مدیحہ کی چوت کو بھر رہا تھا۔
جب کے امی کی ٹانگوں کے درمیان بستر پر لیٹ کر مدیحہ نہ صرف اپنی چوت کا پانی بھی چھوڑ رہی تھی۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی امی کی چوت سے بہنے والے امی کی پھدی کے نمکین لعاب کو چوس کر اپنے حلق میں اتار رہی تھی۔
جب کم کا آخری قطرہ بھی میرے لن سے نکل کر مدیحہ کی سیکسی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ تو میں نڈھال ہو کر امی اور مدیحہ کے برابر میں ہی بستر پر لیٹ گیا۔
میں چاہتی ہوں کہ اب تم جلد از جلد ساری زمین جائیداد کو بیچ دو راحیل" اپنی بہن کی چوت سے اپنا لن نکال کر میں جونہی بستر پر کمر کے بل لیٹا۔ تو امی نے اپنی بکھری سانسوں کو سنبھالتے ہوئے مجھ سے کہا۔
ساری جائیداد بیچ دوں، مگر کیوں امی جی" مدیحہ کی زور دار چدائی کی وجہ سے اپنے چہرے پر آنے والے پسینے کو ہاتھ سے پونچھتے ہوئے میں نے امی سے سوال کیا۔
وہ اس لیے کہ اپنے ابو کی وفات کے بعد تم نے نہ صرف اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی زمین کو صحیح طریقے سے سنبھالا ہے، بلکہ اپنی بہن اور اپنی ماں کی چوت کو چود کر، یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ اپنے ابو کی ساری جائیداد کے اصل وارث تم ہی ہو، اسی لیے اب میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنی ساری جائیداد بیچ کر ہم دونوں ماں بیٹی کو کسی دوسرے شہر لے جاؤ، اور پھر میرا گھر داماد بن کر میری اور میری بیٹی کی چوت کو اپنے لن سے چود کر ہم دونوں ماں بیٹی کو مزے دو میری بات کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے امی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔
اوہ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی امی جان" اپنی امی کی یہ بات سنتے ہی مجھے جوش آیا۔
پھر میں بستر سے ایک دم اٹھا اور اپنی امی کو اپنی بانہوں میں لینے کے ساتھ ہی ان کے گداز لبوں کو اپنے منہ میں بھر کر مزے سے چوسنے لگا۔
افف آپ کی یہ بات سن کر میری چوت پھر سے پانی پانی ہونے لگی ہے، کہ اب ہم دونوں ماں بیٹی اپنے ہی بھائی اور بیٹے کی بیویاں بن کر ان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں گی امی جان
امی کی بات سن کر مدیحہ بھی بستر سے اٹھی اور امی کے موٹے مموں پر اپنا منہ رکھ کر اپنی امی کے لمبے نپل کو مزے سے چوستے ہوئے بولی۔
اس رات کے ایک مہینے کے بعد ہی ہم لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر گاؤں سے کراچی شفٹ ہو گئے۔ جہاں میں اور مدیحہ میاں بیوی بن کر ایک ساتھ رہنے لگے
میری بہن مدیحہ میری بیوی بننے کے بعد بہت ہی خوش تھی۔ اور اس خوشی میں اپنی ٹانگوں کو کھولے بستر پر پڑی رہتی اور دن رات دل کھول کر مجھ سے اپنی پھدی مرواتی۔
اپنی بہن سے کی جانے والی اس چودا ی کا صلہ میری بہن مدیحہ نے مجھے ایک بہت ہی پیاری سی بچی کی شکل میں کراچی آنے کے تقریباً 8 مہینے بعد دے دیا۔
اب میں ہر روز رات کو اپنی امی اور بہن کی چدائی ایک ساتھ ایک ہی بستر پر کر کے نہ صرف اپنی امی اور بہن کی پھدیوں کو اپنے لن سے ٹھنڈا کرتا ہوں۔
بلکہ ان دونوں کی چوتوں کو بھی ایک ساتھ چوس کر اپنے منہ سے اپنی امی اور بہن کی چوتوں کو مزہ بھی دیتے ہوئے اپنے آپ سے یہی کہتا رہتا ہوں۔
واہ میری قسمت
ختم شد
واہ میری قسمت (ایک انسسٹ کہانی)
میرا نام چوہدری راحیل حسین ہے میری عمر اس وقت 27 سال ہے۔ میں ایک گورا چٹا تندورست بنکا جوان ہوں اور اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ آج جو کہانی میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں، اس کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا۔ آج سے چند سال پہلے زمیندارا کالج گجرات سے گریجویشن کرنے کے بعد جب مجھے ایک جانے والے کی مہربانی سے لاہور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری ملی۔ تو میں اپنے گاؤں کو خدا حافظ کہہ کر لاہور چلا آیا اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگا۔ مجھے لاہور میں نوکری شروع کیے ابھی تقریباً 6 مہینے ہی ہوئے تھے۔ کہ گاؤں سے آنے والی ایک منحوس خبر نے میری دل کو توڑ دیا۔
خبر یہ تھی کہ گجرات شہر سے اپنے گاؤں جاتے ہوئے میرے ابو کے ٹریکٹر کا ایک ٹرک سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اور اس ایکسیڈنٹ میں میرے 23 سالہ چھوٹے بھائی اعجاز اور میرے 55 سالہ ابو چوہدری قادر حسین دونوں کا انتقال ہو گیا تھا۔
یہ خبر 50 سال سے کچھ اوپر میری امی فاخیرہ
اور میری 24 سالہ چھوٹی بہن مدیحہ
کے لیے تو بری تھی ہی۔ مگر ان دونوں کے ساتھ میرے لیے زیادہ بری اس لیے تھی۔ کہ نہ صرف اب مجھے لاہور جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانا پڑ گیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے والد کی ساری زمین کی دیکھ بھال اور اپنے گھر کو سنبھالنے کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آں پڑی تھی۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے کو میرا ہرگز دل نہیں تھا۔ مگر اپنے والد کا اکلوتا بیٹا رہ جانے کی وجہ سے اب چاروں ناچار اپنی زمین کی دیکھ بھال مجھے ہی کرنی تھی۔ اس لیے اپنے بھائی اور والد کے کفن دفن کے بعد میں نے اپنی زمین کو سنبھال لیا اور اب میں پچھلے 6 ماہ سے دن رات کے کھیتی باڑی میں مصروف ہو گیا۔ ویسے تو اپنی زندگی میں میرے والد ہماری زمین پر زیادہ تر سبزیاں ہی اگاتے تھے۔ مگر ان کی موت کے بعد میں نے کوئی مختلف فصل لگانے کا سوچا اور چند دوسرے لوگوں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد میں نے اپنی زمین پر گنا لگا دیا۔
اگست کے مہینے میں گنے کی فصل کھڑی تو ہو گئی مگر اس کے باوجود اسے کٹنے کے لیے مجھے ایک مہینہ مزید انتظار کرنا تھا۔ اس دوران چونکہ فصل کی رکھوالی کے علاوہ مجھے کھیتوں پر اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے کچھ نوکروں کو کچھ وقت کے لیے چھٹی دے دی اور صرف رات کی نگرانی کے لیے دو آدمیوں کو رکھ لیا۔ جو کہ رات کو ڈیرے پر رہتے اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر واپس چلے جاتے۔
چونکہ ہماری زمین ہمارے گاؤں کے باقی لوگوں کی زمینوں اور مکانات سے کافی ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے میں ایک بار جب اپنے گھر سے نکل کر اپنی زمین پر آ جاتا۔ تو پھر میری گھر واپسی شام سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ گنے کی کاشت کے بعد اب میری روٹین یہ بن گئی تھی۔ کہ صبح صبح ڈیرے پر چلا آتا اور میں سارا دن اپنے اس ڈیرے پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں کی نگرانی کرتا جسے میرے والد نے اپنی زندگی میں تعمیر کیا تھا۔ ابا نے یہ ڈیرہ ہماری ساری زمین کے بالکل سینٹر میں بنوایا تھا۔ جس میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان دونوں کمروں میں سے ایک میں ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ جس سے میں اپنی ساری فصل کو پانی دیتا تھا۔ اس کمرے کی چھت کی اونچائی کم تھی۔ جب کہ دوسرا کمرہ آرام کرنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اس کمرے کی چھت ٹیوب ویل والے کمرے سے کافی اونچی تھی۔
ٹیوب ویل والے کمرے کی پچھلی طرف لکڑی کی ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے اوپر چڑھ کر ٹیوب ویل کی چھت پر جا سکتے تھے۔ یہاں پر ایک روشندان بھی بنا ہوا تھا۔ جو کہ آرام کرنے والے بڑے کمرے کو ہوا دار بنانے کے لیے تھا۔ اس روشندان پر لکڑی کی ایک چھوٹی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی جو ہمیشہ آدھی بند ہی رہتی۔ جب کہ روشندان کے باہر کی طرف اسٹیل کی ایک جالی بھی لگی ہوئی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی۔ کہ اگر کوئی انسان ٹیوب ویل کی چھت پر کھڑے ہو کر بڑے کمرے کے اندر جھانکتا تو کمرے کے اندر موجود لوگوں کو باہر کھڑے شخص کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکتا تھا۔
ٹیوب ویل کی چھت پر بھی ایک سیڑھی رکھی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے آرام والے کمرے کی اونچی چھت پر چڑھا جا سکتا تھا۔ اس چھت سے چونکہ ہماری پوری زمین پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ اس لیے دن میں اکثر میں سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چلا جاتا اور چھت پر بیٹھ کر اپنی فصل کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہر روز دوپہر میں میری چھوٹی بہن مدیحہ میرے لیے گھر سے کھانا لاتی۔ اور جب تک میں کھانے سے فارغ نہ ہو جاتا وہ بھی میرے ساتھ ہی کمرے میں سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے کھیلتی رہتی۔ جب میں کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو مدیحہ برتن سمیت گھر واپس چلی جاتی اور میں کمرے میں جا کر آرام کر لیتا۔ یہ روٹین پچھلے دو ماہ سے چل رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مدیحہ کی جگہ میری امی فاخرہ بھی میرے لیے کھانا لے آتیں۔
لاہور سے واپس اپنے گاؤں آ کر اب پچھلے 6 مہینوں سے میری زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں اب تھوڑا بور ہونے لگا تھا۔ اور میری اس بوریت کی سب سے بڑی وجہ چوت سے محروم ہونا تھی۔ اصل میں لاہور میں قیام کے دوران میں نے اپنے روم میٹس کے ساتھ مل کر بڑی عمر کی دو گشتوں کا بندوبست کر لیا تھا۔ اور پھر جتنا عرصہ میں وہاں رہا میں ہفتے میں کام از کام دو دفعہ تو ان آنٹیوں میں سے ایک کی چوت کا ذائقہ چکھ ہی لیتا تھا۔ اس لئے یہ ہی وجہ تھی کہ گاؤں میں آ کر میں عورت کی چوت کے مزے سے محروم ہو گیا تھا۔ ویسے تو میں نے ڈیرے پر دو تین ننگی فوٹوز والے میگزین چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ جن کو میں لاہور سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس لئے جب بھی میرا دل چاہتا تو میں موقع پا کر ڈیرے پر بنے کمرے میں جاتا اور چارپائی پر لیٹ کر ان میگزین میں موجود لڑکیوں کی گندی فوٹوز کو دیکھ دیکھ کر مٹھ لگا لیتا اور اپنے جسم کی آگ کو ہلکا کر لیتا تھا۔ بے شک میں مٹھ لگا کر فارغ تو ہو جاتا مگر میرے لن کو عورت کی چوت کا ایسا نشہ لگ چکا تھا۔ کہ اب میرے لن کو ایک گرم پھدی کی شدت سے طلب ہو رہی تھی۔ میرا لوڑا میری شلوار میں صبح صبح کھڑا ہو کر ہر روز کسی گرم پھدی کی مانگ کرتا مگر میں ہمیشہ تھپڑ مار مار کر اپنے لن کو خاموش کر دیتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ "سو سال بعد تو روری کی بھی سنی جاتی ہے" بالکل یہ میرے ساتھ ہوا کہ جس گرم چوت کی میرے لن کو تلاش تھی۔
وہ اسے میری بہن مدیحہ کی سہیلی شکیلہ کی شکل میں بالآخر ایک دن مل ہی گئی۔ شکیلا ویسے تو میری بہن مدیحہ سے عمر میں ایک سال بڑی تھی۔ مگر گاؤں میں ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے ان دونوں میں بچپن ہی سے بہت اچھی دوستی تھی۔ جب کہ اسکول کی پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک ایک ہی کلاس میں پڑھنے کی وجہ سے جوان ہوتے ہوتے ان دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ میری بہن کی سہیلی ہونے کی حیثیت سے شکیلہ کا اکثر ہمارے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ شکیلہ جب بھی میری بہن مدیحہ کو ملنے ہمارے گھر آتی تو مدیحہ اسے لے کر اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ جہاں دونوں سہیلیاں بیٹھ کر کافی دیر تک گپ شپ لگاتی رہتی تھیں۔ شکیلہ چونکہ عمر میں مدیحہ سے ایک سال بڑی تھی۔ اس لیے اس کے گھر والوں کو اس کی شادی کی شاید کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جن دنوں میں زمین دارہ کالج میں بی اے کر رہا تھا تو اسی دوران شکیلہ کی شادی ہوگئی۔ اس کے سسرال والے چونکہ ملتان کے پاس ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ اس لیے شادی کے بعد شکیلہ ہمارے گاؤں سے رخصت ہو کر اپنے شوہر کے ساتھ ملتان میں رہنے لگی۔ اب جن دنوں میرا لن کسی عورت کی پھدی میں جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ تو انہی دنوں شکیلہ اپنے ماں باپ کو ملنے اپنے گاؤں واپس آئی۔ تو اس دوران وہ میری بہن مدیحہ کو بھی ملے ہمارے گھر چلی آئی۔ اس دن میں بھی اتفاق سے دیر سے جلدی گھر واپس آ گیا تھا۔ اس لیے مدیحہ کے ساتھ شکیلہ کے ساتھ میری بھی ملاقات ہو گئی۔ میں نے اس دن شکیلہ کو تقریباً دو سال بعد دیکھا تو اسے دیکھتے ہی میں اس کے حسن کا دیوانہ ہو گیا۔ شکیلہ شادی کے ان دو
سالوں میں لڑکی سے ایک بھرپور عورت بن چکی تھی۔ اس کی قمیض میں سے اس کے گول موٹے ممے بہت ہی مزیدار نظر آ رہے تھے۔ جن کو دیکھتے ہی میرے منہ میں پانی آ گیا تھا۔ جب کہ شکیلہ کی شلوار میں پوشیدہ اس کی لمبی گداز رانوں کو دیکھتے ہی میرا دماغ اس کی رانوں کے درمیان موجود چھوٹ کا
سوچ کر ایک دم میری شلوار میں ھڑنےلگا تھا۔
مدیحہ اور شکیلہ ہمارے گھر کے سیہان میں ہی بیٹھ کر آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئیں تھیں۔ جب کہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اس دوران شکیلہ کے جسم کو بھوکی نازوں سے دیکھنے میں لگا رہا۔ شکیلہ نے مدیحہ سے باتوں کے دوران اپنے جسم پر پڑنے والی میری گرم نظروں کو محسوس تو کر لیا تھا۔ مگر اس نے اپنے چہرے سے مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میرا یوں تاڑنااسے اچھا لگا ہے یا نہیں۔
دوسرے دن دوپہر کو میں دیر کے کمرے میں چارپائی پر لیٹ کر آرام کر رہا تھا تو مدیحہ میرے لیے کھانا لے کر آئی۔ تو اس دن میری بہن مدیحہ کے ساتھ اس وقت شکیلہ بھی تھی۔ شکیلہ کو یوں دوبارہ اپنے سامنے دیکھ کر میرے لن میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔
جب میں کھانا کھانے بیٹھا تو مدیحہ اور شکیلہ سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ مدیحہ سے باتوں کے دوران شکیلہ چوری چوری میری طرف بھی دیکھ رہی تھی۔ اس دوران میری نظر ایک دو دفعہ شکیلہ کی نظر سے ملی۔ تو اس کی آنکھوں میں میرے لیے جو حوس کا پیغام تھا اسے پڑھنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں تھا۔
ہائے لگتا ہے کہ شکیلہ بھی میری طرح چودائی کی آگ میں جل رہی ہے" اپنی بہن کی سہیلی کی آنکھوں میں چودائی کی پیاس دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا اور میری شلوار میں میرا لوڑا گرم ہو گیا۔ میں روٹی سے فارغ ہوا تو مدیحہ نے برتن اٹھائے اور شکیلہ کو ساتھ لے کر گھر چلی گئی۔ جبکہ میں چارپائی پر لیٹ کر شکیلہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ دوسرے دن شکیلہ پھر میری بہن مدیحہ کے ساتھ مجھے روٹی دینے آئیں۔ اس دن کھانے کے بعد مدیحہ نے برتن سمیٹے اور انہیں دھونے کے لیے اکیلی ہی باہر ٹیوب ویل کی طرف چلی گئی۔ جس کی وجہ سے اب کمرے میں صرف میں اور شکیلہ ہی رہ گئے تھے۔ مدیحہ کے باہر جاتے ہی میں نے موقع غنیمت جانا اور شکیلہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ تمہارا شوہر کیسا ہے شکیلہ" شکیلہ کو اپنی طرف دیکھتے ہی میں نے اپنے آپ میں ہمت پیدا کی اور اپنی چارپائی سے اٹھ کر اس کے نزدیک ہوتے ہوئے یہ سوال کر دیا۔ ٹھیک ہے وہ شکیلہ نے جواب تو دیا مگر مجھے اپنے نزدیک آتے دیکھ شکیلہ ایک دم گھبرا گئی اور اس کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ تم خوش تو ہو نا اس کے ساتھ میں نے شکیلہ کے نزدیک قریب ہوتے ہوئے اس کے نرم ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا۔
شکیلہ نے کوئی جواب نہیں دیا تو میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے گداز جسم کو اپنے قریب کھینچ لیا۔ اب اس کا جسم میرے جسم سے جڑ گیا اور ہم دونوں کے منہ ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ چھوڑو مجھے مدیحہ آتی ہی ہوگی اپنے آپ کو میرے بازوؤں کے گہرے میں آتے دیکھ کر شکیلہ ایک دم گھبرا گئی اور میری بازوؤں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ شکیلہ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے میں نے اپنے منہ کو آگے بڑھایا اور اپنے ہونٹ شکیلہ کے گرم ہونٹوں پر رکھ دیا۔ ایک لمحے کے لیے شکیلہ نے مزاحمت کی مگر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھولا تو میری زبان اس کے منہ میں داخل ہو کر اس کی زبان سے ٹکرانے لگی۔ آج اتنے مہینے بعد ایک عورت کے جسم کو چھوتے اور لبوں کو چوستے ہوئے مجھے بہت مزہ آیا۔ تو میں نے مستی میں آتے ہوئے شکیلہ کے جسم کے گرد اپنی بازوؤں کو کسا۔ جس کی وجہ سے شکیلہ کا جسم میرے جسم کے ساتھ چمٹتا چلا گیا اور ساتھ ہی اس کے گداز ممے میری چھاتی میں دبنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید آگے بڑھتا شکیلہ نے ایک دم مجھے دھکا دیتے ہوئے اپنے آپ کو میرے بازوؤں کی گرفت سے الگ کیا اور پھر جلدی سے کمرے کے دروازے کے پاس جا کر کانپتی آواز میں بولی "تمہیں تمیز ہونی چاہیے کہ شادی شدہ عورتوں سے کیسے پیش آتے ہیں
اگر ایک چانس دو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ شادی شدہ عورتوں کے ساتھ پیش آنے کی مجھے کتنی تمیز ہے، ویسے اب دوبارہ کب ملو گی مجھے شکیلہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے اس کی طرف دیکھ کر بے شرمی سے شلوار میں ھڑے ہوئے اپنے لن پر ہاتھ پھیرااور اس سے سوال کیا۔ کل، اسی وقت اور اسی جگہ میری اس ہرکت پر شکیلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے ایک دم اپنی نظروں نیچے کیں اور پھر میری بات کا جواب دیکھتے ہوئے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ شکیلہ کے کمرے سے باہر نکلتے ہی میں نے شلوار میں ھڑے ہوئے لن کو ہاتھ میں تھاما اور خوشی سے جھوتے ہوئے کہا "لے بھائی تیری تو سنی گئی ہے یار"۔ میرے لن اس وقت پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا اس لئے میرے لئے صبر کرنا بہت ہی مشکل ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب کمرے کی کھڑکی سے میں نے شکیلہ کو میری بہن مدیحہ کے ساتھ گھر واپس جاتے دیکھا تو میں نے فوراً دروازے کو کنڈی لگائی اور اپنی شلوار اتار کر شکیلہ کے نام کی مٹھ لگانے لگا۔
دوسرے دن میں صبح ہی صبح شکیلہ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ شکیلہ آئے گی ضرور مگر اس کے ساتھ میرا اندازہ یہ بھی تھا کہ وہ میری بہن مدیحہ کے گھر واپس جانے کے بعد ہی میرے پاس آئے گی۔ لیکن جب میں نے شکیلہ کو مدیحہ کے ساتھ ہی آتے دیکھا تو مجھے بہت ہی مایوسی ہوئی اور میرا کھڑا لن موتر کی جہاگ کی طرح بیٹھ گیا
میں نے مدیحہ کے ہاتھ سے کھانےکے برتن لیے اور اپنی چارپائی پر خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ جب کہ شکیلہ میری بہن مدیحہ کے ساتھ دوسری چارپائی پر بیٹھ کر گفتگو کرنے لگی۔ ابھی میرا کھانا ختم ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔ کہ اتنے میں مدیحہ چارپائی سے اٹھی اور بولی، "بھائی مجھے ایک بہت ضروری کام یاد آ گیا ہے، اس لیے مجھے فوراً ہی جانا پڑے گا، ویسے تو میری واپسی 10، 15 منٹس میں ہو جائے گی، مگر آپ فکر نہ کریں آپ کے کھانے کے بعد شکیلہ برتنوں کو سنبھال لے گی" یہ کہہ کر مدیحہ ایک دم چارپائی سے اٹھ کر باہر کی طرف چل پڑی اور جاتے جاتے وہ کمرے کے دروازے کو اپنے پیچھے سے بند کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اپنی بہن کو یوں اچانک کمرے سے باہر جاتے دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی اور میں نے فورا شکیلہ کی طرف دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتی لگی۔ یہ کیوں اس طرح اچانک اٹھ کر باہر چلی گئی ہے، کیا بات ہےتم نے مدیحہ کو تو کچھ تو نہی بتایا شکیلہ کے چہرے پر معنی خیزمسکراہٹ دیکھ کر میرا ماتھا ٹنکا اور میں نے فورا اس سے پوچھا۔ میں نے کچھ نہیں بتایا اس کو، بس اتنا ہی کہا ہے کہ میں نے تم سے تنہائی میں کوئی ضروری بات کرنی ہے، تم جانتے ہو کہ مدیحہ اور میں بہت اچھی سہیلیاں ہیں شکیلہ نے میری بات کا جواب دیا۔
شکیلہ نے میری بہن کو اصل بات یقینا نہیں بتائی ہوگی شکیلہ کے جواب سنتے ہی میں نے اپنے آپ سے کہا اور یہ بات سوچ کر میرے دل کو اطمینان سا ہو گیا۔ ویسے بھی اصل بات یہ تھی کہ شکیلہ کو ایک بار پھر اپنے ساتھ کمرے میں اکیلا پا کر میرے لن میں اتنی گرمی چھا گئی تھی۔ کہ اب میرے دماغ میں پھدی لینے کے علاوہ کسی اور بات کی سوچ ہی ختم ہو چکی تھی۔
ابھی میں اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ اتنے میں شکیلہ اپنی چارپائی سے اُٹھائی اور میرے قریب آنے لگی۔ ہالہ کے مجھے شدت سے آج ایک چوت کی طلب ہو رہی تھی اور شاید شکیلہ کو بھی ایک مرد کے لن کی پیاس تھی۔ مگر اس کے باوجود شکیلہ کو یوں اپنی طرف آتے دیکھ کر نہ جانے کیوں میری سیٹی ہی گم ہو گئی اور کل کے برعکس آج میں خود گھبرا گیا۔ کیا بات ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو گئے ہو ایک دم شکیلہ نے چارپائی پر میرے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ شکیلہ کو یوں اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر مجھے اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ میں اسے کوئی جواب نہیں دے پا رہا تھا۔
تم کل مجھ سے میرے شوہر کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا، تو میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اپنے شوہر کو بہت مس کر رہی ہوں راحیل شکیلہ نے اپنے منہ کو میرے منہ کے قریب کرتے ہوئے سرگوشی کی اور پھر ایک دم اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر چپکا دیا۔ شکیلہ کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چپکتے ہوئے محسوس کرتے ہی مجھے ہوش آیا۔ تو میں بھی شکیلہ کے نرم جسم کو اپنی بانہوں میں کسنے لگا اور اس کا لبوں کو چومنے لگا۔
مجھے اپنے شوہر کی شدت سے طلب ہو رہی ہے، کیا تم میرے شوہر کی کمی کو پورا کرو گے راحیل میری گرم جوشی کو دیکھتے ہوئے شکیلہ گرم ہو گئی اور اس نے اپنا منہ کھول کر اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانے کے دوران مجھ سے سوال کیا۔ ہاں میں نے کل بھی یہی کہا تھا کہ اگر تم مجھے موقع دو تو میں تمہیں تمہارے شوہر کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا میری جان
یہ کہتے ہوئے میں نے شکیلہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کا دباو بڑھاتے ہوئے اسے چارپائی پر لٹا دیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے شکیلہ کی موٹی گانڈ کی پھاریوں پر ہاتھ رکھتے ہوئےاس کے جسم کو اپنی طرف کھینچا تو اس کی چوت میری شلوار میں اکڑےہوئے میرے لُن سے ٹکرا گی
ہاے کیا گرم اور سخت لورا ہے تمھارا راحیل میرے سخت لوڑے کو یوں اپنی پیاسی چوت سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے شکیلہ کے منہ سے سسکی
ادھر جوںہی ہماری کسنگ کا سلسلہ تیز ہوا تو اس کے ساتھ ہی شکیلہ نے اپنے ایک ہاتھ کو نیچے کیا۔ اور اس نے میرے سخت لوڑے کو شلوار کے اوپر سے اپنی گرفت میں لے کر کسنگ کے دوران ہی میرے لوڑے کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔ آج اتنے عرصے بعد اپنے تنے ہوئے لوڑے پر کسی عورت کے
نرم و نازک ہاتھ محسوس کرتے ہی میرے منہ سے بھی سسکی نکلی اور میرا لوڑا مزید سخت ہو گیا۔
اب میں نے بھی شکیلہ کے ہاتھ کے مزے سے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ کو نیچے لے جا کر شلوار کے اوپر سے ہی شکیلہ کی گرم چوت کو اپنی مٹھی میں دبوچا
تو سواد کے مارے وہ بھی اپنے منہ سے اوہ کی آوازیں نکلنے لگی۔ تھوڑی دیر شکیلہ کے ہونٹوں کو چومنے اور اس کی چوت کو اپنے ہاتھ سے رگڑنے کے بعد میں نے اس کی شلوار کا نارا کھولا کر پہلے اس کی شلوار اور پھر ساتھ ہی اس کی قمیض بھی اتار کر چارپائی پر پھینک دی۔ اور پھر میں شکیلہ سے تھوڑا الگ ہو کر اس کے جسم کا دیدار کرنے لگا۔
اب کمرے میں شکیلہ صرف اپنے بریزیئر میں ملبوس میرے سامنے ادھی ننگی کھڑی تھی۔ اور میں اس کی ہلکے بالوںوالی چوت اور اس کے بریزیئر میں سے چُھلکتے ادا ننگے مموں کا دیدار کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر رہا تھا۔
اب سارا دن یوں ہی میرے جسم کو ترستے ہی رہو گے یہ میری چوت میں اپنا لن ڈال کر میری پھدی کی آگ کو ٹھنڈا بھی کرو گے” مجھے یوں بت بن کر پیاسی نظریں اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر شکیلہہ بےچینی سے بولی۔
اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر اپنی بریزیئر کی ہک بھی کھول دی تو اس کے موٹے جوان ممے پہلی بار میری نظروں کے سامنے ننگے ہو گئے۔
چدای کا تو اپنا مزہ ہوتا ہی ہے مگر کسی پیاسی عورت کے جوان خوبصورت جسم کو تاڑنےکا بھی الگ ہی سوا د ہے میری جان، ویسے فکر نہ کرو آج تمہاری چوت چودےبغیر تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا میں” شکیلہہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے اپنے کپڑے اتارے اور خود بھی شکیلہہ کے سامنے پوراننگا ہو گیا
اففف تمہارا لوڑا تو میرے شوہر سے بھی تھوڑا موٹا اور لمبا ہے راحیل تمھاری بیوی بہت قسمت والی ہوگی جسے اتنا صحت مند اور جوان لوڑا زندگی بھر نصیب ہوگا اپنی شلوار قمیض اتار کر میں جوں ہی ننگا ہوا تو میرے لوڑے کو دیکھ کر شکیلہہ کی آنکھوں میں ایک چمک آئی اور وہ سسکتے ہوئے بول پڑی۔
شکیلہہ کی بات سنتے ہی میں آگے بڑھا اور میں نے شکیلہہ کے موٹے ممو ں کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں تھام کر پیار سے اس کا ممہ دباتے ہوئے ایک بار پھر سے شکیلہہ کے لبوں کا رس پینے لگا۔
میں نے شکیلہ کے ممے دباتے ہوئے اس کے پنک نیپل اپنی ہاتھوں سے مسلتے ہوئے انہیں اپنی انگلیوں میں لے کر کھینچا۔ تو وہ میرے ہاتھ کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے سسکیاں لیتے ہوئے بولی "آہ آہ دباؤ میرے ممے آہ او راحیل میرے ممو کو چو سوں
شکیلہہ کی بات سنتے ہی میں نے فوراً عمل کیا اور شکیلہہ کا ایک ممہ پکڑ کر اسے پاگلوں کی طرح چوسنے لگ گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے دوسرے ممےکو بھی اپنے ہاتھ سے دبانے لگ گیا۔ اور میری ممہ چوسائی کے دوران شکیلہہ اپنی آنکھیں بند کر کے سسکیاں لیتی رہی۔
شکیلہہ کے مموںکو چوستے ہوئے میں نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کو چھوا۔
تومجھے انداز ہو گیا کہ میری چھڑ چھاڑ کی وجہ سے شکیلہہ کی پھدی پانی پانی ہو رہی تھی۔
میرا ہاتھ چوٹ سے لگتے ہی شکیلہ تو جیسے پاگل ہو گئی اور وہ میرے سرکو بالوں سے پکڑ کر اپنی مموں پر زور سے دباتے ہوئے چلای“آہ بہت مزہ آ رہا ہے، میری چوت میں اپنی انگلی ڈال دو راحیل”
شکیلہہ کی یہ فرمائش سنتے ہی میں نے اپنے ہاتھ کی انگلی اس کی پھدی میں ڈالی اور اس کی پھدی کو اپنی انگلی سے چودنے لگا۔ اب میں شکیلہہ کے ممے کو چوستے بھی جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ شکیلہہ کی پھدی میں فنگرنگ کر رہا تھا اور شکیلہہ مزے سے چلا رہی تھی " اُف ہاے"
شکیلہ کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اب میں اپنی انگلی کو گول گول گھمانے لگا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اُس نے میرے ہاتھ کو دونوں ٹانگوں میں زور سے دبایاya اور لمبا سا سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے ایسے خاموش ہو گئی جیسے اُس کی سانس ہی رک گئی ہو۔
شکیلہہ کی یہ حالت دیکھ کر ایک بار تو میں بھی گھبرا گیا۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنے ہونٹ دانتوں میں دبا رہی ہے تو میں سمجھ گیا کہ اس کو میری انگلیوں سے اپنی چوت چھڑواتے ہوئے مزہ آ رہا ہے۔ کچھ دیر بعد شکیلہہ کے مموں سے منہ ہٹا کر میں چارپائی سے اٹھ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ زمین پر بیٹھتے ہی میں نے چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں سے چوڑا کیا۔ اور ایک دم سے اپنے منہ کو آگے کرتے ہوئے اپنی گرم زبان کو چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی پانی چھوڑتی چوت کے لبوں کے درمیان ڈال دیا
یہ کیا مزہ دیا ہے تم نے مجھے” اپنی چوت سے میری گرم زبان ٹکراتےہی شکیلہہ ترپ کر ایک دم چارپائی سے اچھلی۔ اس کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھ سے میرے منہ کو ہٹاتے ہوئے اپنی ٹانگوں کو بھینچنے کی کوشش کی۔
لیکن میں نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیے اور اپنے منہ کو زور سے اس کی چوت پر پریس کرتے ہوئے اپنی زبان اس کی چوت کے اندر ڈال دی۔
شکیلہہ کی گرم پھدی مجھے پاگل کر رہی تھی۔ اس لیے اب میں چارپائی سے نیچے زمین پر بیٹھ کر چارپائی پر لیٹی شکیلہہ کی چوت کو مزے لے لے کر چاٹنے میں مصروف ہو گیا۔
میری زبان کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے اب شکیلہہ نے مجھے سر سے پکڑ رکھا تھا اور میں بہت مزے سے شکیلہہ کی پھدی چوس رہا تھا۔
جب کہ شکیلہہ چارپائی سے اوپر اچھل اچھل کر اپنی چوٹ کو میرے منہ پر زور زور سے مارتے ہوئے سسکیاں نکال رہی تھی "آآااا، ہہہہہہہ، ہاہاہییی" تھوڑی ہی دیر کی چوٹ چٹائی کے بعد شکیلہہ کا جسم زور زور سے کانپنے لگا اور اس کی چوٹ سے پانی کا ایک جھڑنا بہتے ہوئے پورا کا پورا میرے منہ میں اتر گیا اور وہ فارغ ہو گئی۔
شکیلہہ کو اپنے منہ کے مزے سے فارغ کرواتے ہی میں ایک دم زمین سے اٹھ کر چارپائی پر کھڑا ہوا اور بولا 'اب نیچے لیتا ہوں اور تم میرے اوپر بیٹھ کر میرا لن اپنی پھدی میں ڈال دو'۔
شکیلہہ سے یہ بات کہہ کر میں چارپائی پر لیٹ گیا تو میرا لوڑا تن کر اوپر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ میری بات پر عمل کرتے ہوئے شکیلہہ میرے اوپر چڑھی
اور پھر اپنے جسم کو دہلا چھوڑتے ہوئے نیچے کو ہوئی۔ تو نیچے سے میرا تنا ہوا لوڑا آہستہ آہستہ شکیلہہ کی گرم چوت میں سمانےلگا۔
ہائے کیا مزے دار لن ہے تمہارا، اوففف کیا بتاوں کتنا مزہ آ رہا ہے مجھے”سسکیاں لیتی شکیلہہ آہستہ آہستہ میرے لن پر بیٹھ گئی تو میرا لن اس کی پھدی میں پورے کا پورا سما گیا۔
اوہ کیا گرم اور تنگ چوت ہے تماری" اتنے مہینوں بعد میرے لن کو بھی جب ایک گرم چوت کا سواد ملا تو مزے کے مارے میں بھی سسکا اٹھا۔ میرے لن کو اپنی چوت میں لیتے ہی، ہواس کے مارے شکلا اتنی گرم ہوئی کہ اب وہ میرے لن پر بیٹھ کر تیزی کے ساتھ اوپر نیچے ہونے لگی اور اپنی چوت کو پاگلوں کی طرح میرے تنے ہوئے لن پر زور زور سے مارنے لگی۔
میری اس زور دار چدای کی وجہ سے شکیلہ کے موٹے بڑے ممے ہوا میں ادھر ادھر اچھلنے لگے۔
شکیلہ کے اس جوش اور اس کے ہوا میں اچھلتے ممے دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے بھی اس کے بڑے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر مسلتے ہوئے اپنی گانڈ کو چارپائی سے اٹھا اٹھا کر نیچے سے شکیلہ کی چھوت میں اپنا لورہ گھسانا شروع کر دیا۔
اب کمرے میں عالم یہ تھا کہ شکیلہ میرے لُن پر بیٹھ کر زور دار طریقےکے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھی۔
جب کے میں اپنی گانڈکو چارپای سےاٹھا اٹھا کر نیچے سے اپنی بہن کی دوست کی زور دار طرح سے چودائی کر رہا تھا۔
شکیلہہ کی موٹی گانڈکے میرے ٹٹوں سے ٹکرانے اور نیچے سے میرا لن بھی زور دار ٹکرانے سے اس کی پھدی میں گھسنے کی وجہ سے “تھپ تھپ” کی آوازیں کمرے میں گُونج کر ہم دونوں کے جوش میں اضافہ کر رہی تھیں
تھوڑی دیر شکیلہ کو اس طرح سے چودنے کے بعد میں بولا "اب تم نیچے لیٹو اور میں تم پر چڑھ کر تمہاری پھدی کو چودوںگا میری جان
میری بات سنتے ہی شکیلہہ نے میرے لن کو اپنی پھدی سے نکالا اور چارپائی پر میرے برابر لیٹ گئی۔ چارپائی پر شکیلہہ کے لیٹتے ہی میں نے اٹھ کر اس کی ٹانگوںکو اپنے ہاتھوں میں تھام کر کھولا اور اس کی چوت کو دیکھنے لگا۔
اف شکیلہہ کی پھدی میری چدائی کی وجہ سے کافی گیلی ہو چکی تھی اور اس میں سے چوت کا پانی ٹپک ٹپک کر اس کی رانوں کو بہہ رہا تھا۔ شکیلہہ کی ٹانگوں کو اپنے سامنے چوڑا کرتے ہوئے میں اپنا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنا ٹوپا شکیلہہ کی پھدی پر رکھ کر اس کی چچوت کے دانے کو لوڑے کی ٹوپی سے مسلنے لگا۔
ہائے کیوں تڑپا رہے ہو مجھے، اب ڈال بھی دو اندر” میرے لن کی رگڑ کو اپنی چوت کے بھیگی لبوں پر محسوس کرتے ہی شکیلہہ مچل اٹھی۔
اوؤففففففففف تماری چوت واقعی ہی میرے لن کے لیے تڑپ رہی ہے، تو یہ لو میری رانی” شکیلہہ کی سسکی بھری التجا سنتے ہی میں آگے بڑھا اور ایک جھٹکے میں اپنا پورا لن ایک بار پھر شکیلہہ کی پیاسی چوت میں اتار دیا۔
ہائے مار دیا تم نے ظالم کہتے ہوے میرے زوردار گھسے کی وجہ سے جیسے ہی میری لورا پھسلتاہوا شکیلہ کی پھدی کی تہہ تک پہنچا تو مزے کے مارے شکیلہ ایک بار پھر سسک اٹھی۔
میں نے شکیلہہ کی دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا اور اس کے اوپر چڑھ کر میں اس کی پھدی کی چودائی میں مصروف ہوگیا۔ میں اب تیزی کے
ساتھ اپنا لن شکیلہہ کی پھدی میں ڈال رہا تھا اور وہ نیچے سے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا اٹھا کر میرے لوڑے کو اپنی پیاسی چوت میں جذب کرتی جا رہی تھی۔
کَمرے میں ہماری چدای کی وجہ سے پیدا ہونے والی “پُچھ پُچھ اور تھاپ تھاپ” کی آوازوں کے ساتھ چارپائی کی “چین چین” بھی ماحول کو بہت ہی رنگین بنا رہی تھی۔
اب ہم دونوں ہر بات سے بے فکر ہو کر صرف اپنی اپنی جنسی ہوس کو مٹانے کے لیے جوش میں اپنے لن اور پھدی کا ملاپ کروانے میں مصروف تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد شکیلہہ نے اپنے ہاتھ میرے بالوں میں پھیرتے ہوئے مجھے زور سے پکڑا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔
اس نے ایک آہ، ہوں کی ٹوٹتی ہوئی آواز اپنے منہ سے نکالی۔ اور وہ زور سے کانپی اور پھر ساتھ ہی اس کا جسم ایک دم ڈھیلا پڑ گیا اور وہ ایک بار پھر فارغ ہو گئی۔ شکلہ کو یوں فارغ ہوتے دیکھ کر میرے لن کو بھی جوش آیا۔ اور میں نے بھی ایک جھٹکے میں "آہ" کرتے ہوئے اپنے سارے پانی شکلہ کی گرم پیاسی پھدی میں خارج کر دیا۔
میرے لن سے بہت پانی نکلا جس سے شکیلہہ کی ساری چوت بھر گئی اور میں ایک دم نڈھال ہو کر شکیلہہ کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں اور شکیلہہ اس طرح لیٹ کر اپنی اپنی بے خیالی سانسوں کو بحال کرتے رہے۔
اف راحیل یقین مانو میرے شوہر نے مجھے آج تک اتنے مزےدار طریقے سے نہیں چودا، جتنے مزےدار انداز میں تم نے میری پھدی ماری ہے، تمہارے انداز سے لگتا ہے کہ تم آج سے پہلے بھی کافی دفعہ کسی کی چوت مار چکے ہو، کہاں سے سیکھا ہے یہ سب" اپنی بکھری سِانسوں کوسنبھالتے ہی شکیلہ نے میرے جسم کے نیچے سے بولی اور اس نے ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال ایک ساتھ کر دیے۔
تمہارے سارے سوالوں کا جواب میں بعد میں دوں گا، اب جلدی سے اپنے کپڑے پہن لو، کیونکہ مدیحہ ابھی واپس آتی ہوگی" اپنے لن کی گرمی دور کرتے ہی مجھے اپنی بہن مدیحہ کا خیال دماغ میں ایک دم آیا اور میں تیزی کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کر اپنے کپڑے پہنتے ہوئے شکیلہہ سے بولا۔ تم اس کی فکر مت کرو، اس کی واپسی میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے" میری بات سن کر شکیلہہ نے بڑے آرام سے میری بات کا جواب دیا اور اسی طرح انتہائی غیر پریشان حالت میں چارپائی پر لیٹی رہی۔ شکیلہہ کی بات اور اس کا پرسکون انداز دیکھتے ہوئے مجھے بہت ہی حیرانی ہوئی تو میں سوالی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا "کیا تم نے مدیحہ کو یہ سب کچھ بتایا ہے شکیلہہ؟
نہیں میں نے اس سے ایسی کوئی بات نہیں کی، مگر میں جانتی ہوں کہ وہ ایک سمجھی دار لڑکی ہے" میری بات کا جواب دیتے ہوئے شکیلہہ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ شکیلہہ کی بات سن کر میں نے ایک بار پھر حیرانی کے ساتھ اسے دیکھا۔ مگر اب کی بار میں خاموش رہا۔ کیونکہ اس کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اصل میں غلطی میری ہی ہے، مجھے یہ انداز نہیں تھا کہ مدیحہ کو اس بات کی بھنک پڑ جائے گی، کہ میں اس کی سہیلی کے ساتھ کیا حرکت کرنے جا رہا ہوں، مجھے چاہیے تھا کہ میں شکیلہ کو کسی اور وقت دیر سے بلاتا۔ اپنے لن پانی نکل جانے کے بعد جب میرے دماغ سے مانی اتر گئی تو میرے ذہن میں اب یہ بات آئی، مگر اب پیچھے ہٹنے کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ رحیل، تمہاری بہن اب بچی نہیں کہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے، مگر یہ بات مت بھولو کہ مدیحہ تمہاری بہن ہونے کے ساتھ ساتھ میری ایک بہت اچھی سہیلی بھی ہے، اس لیے تم فکر مت کرو۔" میرے چہرے پر پہلی پریشانی کو دیکھتے ہوئے شکیلہ چارپائی سے اٹھی اور اپنے کپڑے پہنتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں مجھے سمجھانے لگی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ 'اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اس لئے میں نے بھی اس بارے میں مزید پرشان ہونامناسب نہ سمجھا اور خاموشی کے ساتھ واپس چارپائی پر آ بیٹھا۔ شکیلہہ نے اس دوران اپنے کپڑے پہننے اور پھر کمرے کا دروازہ کھول کر خود بھی سامنے والی چارپائی پر آ بیٹھی اور میرے ساتھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ مدیہ کے بارے میں شکیلہہ کا اندازہ صحیح تھا۔ کیونکہ واقعی مدیہ کی واپسی ہماری چودائی کے ختم ہونے کے ٹھیک ادھا گھنٹہ بعد ہی ہوئی۔
مدیحہ کو کمرے میں آتا دیکھ کر نا چاہنےکے باوجود میں نے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔ مگر اپنی بہن مدیحہ کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھ کر مجھے کسی بھی قسم کا اندازہ لگانے میں بہت دقت ہوئی۔ شکیلہہ کی مدیحہ کے بارے میں کہی جانے والی بات کے بعد شکیلہہ کے سامنے اپنی بہن کا سامنا کرنا میرے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس لیے مدیحہ کے کمرے میں آتے ہی میں دوسرے ہی لمحے خود اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ میرے کمرے سے باہر جانے کے بعد مدیحہ نے سارے برتن سمیٹے اور پھر وہ دونوں بھی کمرے سے نکل کر خاموشی سے واپس گاؤں کی طرف چل پڑیں۔
پھر شکیلہہ اس کے بعد میری بہن مدیحہ کے ساتھ روزانہ ہی ہمارے ڈیرے پر آنے لگی۔ یہ سچ بات ہے کہ شکیلہہ سے چدای کے پہلے دن کے بعد میں اپنی بہن مدیحہ کے حوالے سے فکر مند تھا۔ کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچے گی۔ مگر مدیحہ نے پہلے دن کے واقعے کے بعد اپنی کسی بات سے مجھے اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کروایا تو اس کی اس بات سے میرا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر اس دن کے بعد مدیحہ اور میرے درمیان شکیلہہ کے حوالے سے ایک خاموش سمجھوتہ پیدا ہوگیا۔ اس دن کے بعد میں جب بھی کھانے سے فارغ ہوتا تو مدیحہ برتن دھونے کے بہانے کمرے سے نکل کر اپنی سہیلی شکیلہہ کو میرے ساتھ کمرے میں اکیلا چھوڑجاتی
مدیحہ کے کمرے سے باہر جاتی ہی شکیلہ میری باہوں میں سما جاتی اور ہم دونوں پریمی اپنے اپنے کپڑے اتار کےبھوکوں کی طرح ایک دوسرے سے لپٹ کر کافی دیر ایک دوسرے کو مختلف سٹاہیل میں چود چودکر اپنے پیاسے جسموں کی پیاس بھجاتے
یہ سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا اور مجھے یہ وقت اپنی زندگی کا ایک حسین وقت لگ رہا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ خوشی کے دن چار ہی ہوتے ہیں
دو ہفتے بعد ایک دن مدیحہ میرے لیے کھانا لے کر آئی تو اس دن وہ اکیلی ہی تھی۔ کیا بات ہے آج تمہاری شکیلہ نہیں ساتھ آئی تمہارے شکیلہہ کو مدیحہ کے ساتھ نہ دیکھ کر میں نے اپنی بہن سے پوچھا۔ رات کو اس کا شوہر آیا تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ واپس ملتان لے گیا ہے
میری بات کو سن کر مدیحہ نے جواب دیا تو شکیلہ کی واپس جانے کی یہ خبر دل کے ساتھ ساتھ میرے لن پر بھی جلی بن کر گری۔
اس دن کے بعد تو میرے لیے ایک بار پھر سے خزاں کا ہی موسم آ گیا تھا۔ اور اب شکیلہہ کے جانے کے بعد میں نے ایک بار پھر اپنے پرانے ننگے سیکیسی رسالوں کا سہارا لے کر مٹھ مارنے پر مجبور ہو گیا مگر اس دوران میں ایک بات کو محسوس کرنے لگا تھا ۔ اور وہ بات تھی میری بہن مدیحہ کا میرے ساتھ پیش آنے والا رویہ۔ جو شکیلہہ کے جانے کے بعد ایک دم سے تبدیل ہو چکا تھا۔ مگر مجھے اس بات کو نوٹ کرنے میں تھوڑی دیر لگ گئی۔ مدیحہ اب میرے لیے ہر روز کھانا لاتی اور جب تک میں کھانا ختم نہ کر دیتا وہ میرے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ کر چوری چوری مجھے دیکھتی رہتی۔
کھانے کے دوران جب بھی مجھے محسوس ہوتا کہ مدیحہ کی نظریں میرے جسم پر گڑی ہوئی ہیں تو میں روٹی سے نظر ہٹا کر اس کی طرف دیکھتا تو وہ ایک دم اپنی نظریں چراکر کمرے سے باہر دیکھنے لگتی۔ یہ میری بہن مدیحہ کو کیا ہو گیا ہے، یہ اب میرے ساتھ پہلے کی طرح بات چیت بھی نہیں کرتی آج کل مدیحہ کی آنکھوں میں جو بات چھپی تھی وہ مجھے جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ مگر کوشش کے باوجود میں مدیحہ کی آنکھوں میں پوشیدہ پیغام کو پڑھنے سے قاصر تھا۔ اگرچہ مدیحہ نے مجھ سے بات چیت کرنا کم کر دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود میں نے اس میں ایک اور تبدیلی محسوس کی۔ کہ اب وہ نہ صرف کھانا پکانے میں میری پسند اور ناپسند کا خیال رکھنے لگی تھی۔
بلکہ وہ میرے کہے بغیر ہی گھر میں میرے کپڑوں کو دھونے اور ان کو استری کرکے میرے کمرے کی الماری میں رکھنے لگی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ میرے کھانا کھانے کے بعد بھی وہ دیر سے پہلے کے برعکس زیادہ دیر رک کر اس انتظار میں بیٹھی رہتی۔ کہ میں کب اسے کسی بات کا حکم دوں تو وہ فوراً اٹھا کر میرا وہ کام کر دے۔
مجھے اپنی بہن کے رویے میں آتی ہوئی اس تبدیلی پر حیرت ہوی۔ مگر میں نے اس سے اس بارے میں کچھ بات نہیں کی۔ شکیلہ کو گاؤں سے گئے اب ایک مہینہ ہونے کو تھا۔ مگر شکیلہ کے جانے کے بعد سے میں نے اپنی بہن مدیحہ سے اس کی سہیلی کے بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ پھر ایک دن جب میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ اس دوران مدیحہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے گندے برتن اٹھائے اور انہیں خود ہی دھونے کے لئے ٹیوب ویل کے ساتھ بنی ہوئی پانی کی ھودی (ریزروائر) پر لے آیا۔
ٹیوب ویل سے نکلنے والا پانی اسی ہودی میں جمع ہوتا رہتا۔ اور پھر ہودی میں جمع ہونے کے بعد وہ پانی یہاں سے نکل کر ہمارے سارے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا۔ پانی کی یہ ہودی اتنی بڑی اور گہری تھی کہ اس میں تین چار انسان اکٹھے ہو کر بہت آرام سے ایک ساتھ نہا بھی سکتے تھے۔ ھودی میں کھڑے پانی میں برتن دھوتے ہوئے میری نگاہوں نے مدیحہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ تو ادھر ادھر دیکھنے کے بعد مجھے اپنی بہن ڈیرےکے بڑے کمرے کی چھت پر کھڑی نظر آ ہی گئی۔ مدیحہ بڑے کمرے کی چھت پر کھڑی اپنے کھیتوں کا منظر دیکھنے میں مصروف تھی۔
میں تمہیں نیچے تلاش کر رہا ہوں اور تم اوپر چھت پر چڑھ گئی ہو، میں نے برتن دھو دئیے ہیں انہیں لے کر گھر چلی جاؤ، امی انتظار کر رہی ہیں تمہارا میں نے مدیحہ کو چھت پر کھڑے دیکھ کر اسے آواز دی۔ اچھا بھائی میں ابھی آئی میری بات سنتے ہی مدیحہ نے جواب دیا اور چھت پر لگی سیڑھی کے راستے نیچے اترنے لگی۔
بڑی چھت سے اتر کر مدیحہ پہلے ٹیو ب ویل کی چھت پر آئی۔ اور پھر ٹیو ب ویل کی چھت سے بھی دوبارہ سیڑھی کے ذریعے اتر کر اسے نیچے زمین پر آنا تھا۔ برتن دھونے کے بعد نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ میں ٹیو ب ویل کے ساتھ لگی سیڑھی کے نیچے آکھڑا ہوا۔ اور اپنی بہن کے چھت سے نیچے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹیو ب ویل کے ساتھ لگی سیڑھی پر آکر مدیحہ نے اپنا منہ چھت کی طرف کیا اور خود سیڑھی پر لگے ڈنڈے پر پاؤں رکھ کر الٹی حالت میں سیڑھی سے نیچے اترنے لگی۔
ادھر مدیحہ نے چھت سے الٹا ہو کر سیڑھی سے اترنا شروع کیا اور ادھر میں نے نیچے سے اپنے سر کو اوپر اٹھا کر مدیحہ کی طرف دیکھا۔ تو سیڑھی کے اوپر کا منظر دیکھتے ہی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اصل میں سیڑھی سے نیچے اترتے ہوئے مدیحہ کو گرنے کا ڈر لگا ہوا تھا۔ اس لئے نیچے اترتے وقت اس نے آگے کو جھک کر سیڑھی کے بھانس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔
اس لئے جھک کر نیچے اتارنے کے اس طریقے میں اب مدیحہ کی بھاری گانڈ پیچھے سے ہوا میں اٹھ گئی تھی۔ میرا لن تو ایک مہینہ چوت سے دوری کی وجہ سے کسی عورت کی پھدی کا پہلے ہی پیاسہ ہو رہا تھا۔ جب کہ مدیحہ بے شک میری بہن تھی۔ مگر بہن ہونے سے پہلے وہ ایک جوان لڑکی بھی تھی۔
اس لیے آج ہوا میں اُٹھی ہوئی اپنی ہی بہن کی موٹی بھاری گانڈ کو دیکھتے ہی میرے لن میں ایک جوش سا آ گیا۔ اور میرے نہ چاہنے کے باوجود میں نے
پیاسی نظروں سے سیڑھی اترتی اپنی بہن کی مزے دار گانڈ کو دیکھنا جاری رکھا تو میرے لن نے میری شلوار میں اپنی ہی بہن کی موٹی گانڈ کے لیے ھٹرنا شروع کر دیا۔ اب مدیحہ الٹی حالت میں سیڑھی سے نیچے اتر کر جوں جوں میرے نزدیک آ رہی تھی۔
تون تون میری شلوار میں موجود میرے لوڑے میں اپنی بہن کی اُٹھی ہوئی مست گانڈکو دیکھتے ہوئے سختی آتی جا رہی تھی۔ پھر مدیحہ سیڑھی سے اتر کر جیسے ہی زمین پر آئی۔ تو میں ایک دم وہاں سے ہٹ کر دوبارہ کمرے کی طرف چل پڑا۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری بہن کی نظر میری شلوار میں ھڑےہوئے میرے لوڑے پر پڑے۔
اچھا بھائی میں گھر جا رہی ہوں چھت سے نیچے آتے ہی مدیحہ نے ٹیوب ویل کی ھودی کے پاس پڑے برتن اٹھائے اور گھر کی طرف چل پڑی۔ ٹھیک ہے
میں نے مدیحہ کو ہلکی آواز میں جواب دیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر اپنی بہن کو گھر جاتا دیکھا۔ میرے دل و دماغ میں اس وقت ایک عجیب سا طوفان مچا ہوا تھا۔ آج مجھے انجانے میں اپنی ہی بہن کی بھاری گداز گانڈ کا دیدار ہوا تھا۔ اور میرے نہ چاہنے کے باوجود میرے لن کو اپنی ہی بہن کی گانڈ کی گرمی چھا چکی تھی۔
مدیحہ کے دیر سے چلے جانے کے باوجود میرے لن میں آئی ہوئی یہ گرمی ابھی تک کم نہیں ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے میرا لن تن کر میری شلوار میں ابھی
تک ایک شان سےاکڑا کھڑا تھا۔ میں کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر مدیحہ کو دور تک جاتا دیکھتا رہا۔ پھر جیسے ہی مدیحہ کا وجود میری نظروں سے اوجھل ہوا۔ تو میں نے ایک دم سے کمرے میں داخل ہو کر اپنی شلوار اتار دی۔ میرے لن میں اس وقت بہت گرمی چڑھ چکی تھی۔ اور اس گرمی کو اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرنے کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
میں نے اپنے لوڑے کو ہاتھ میں تھامتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے ذہن میں شکیلہہ کے جسم کو لا کر اپنے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔ ہائے شکیلہہ
میں آنکھیں بند کر کے اپنی بہن کی سہیلی شکیلہہ کی چوت کی مٹھ لگا رہا تھا۔ کہ مٹھ لگتے لگتے اچانک میرے ذہن میں سیڑھی سےاترتی ہوئی اپنی بہن مدیہ کی موٹی اور بھاری گانڈ کا تصور ایک بار پھر سے آ گیا۔
نہ کربہن چود وہ بہن ہے میری مٹھ لگتے وقت جون ہی میرے ذہن میں مدیحہ کے بارے خیال آیا۔ تو میں نے ایک دم اپنی آنکھیں کھول کر اپنے ذہن میں آتے اس خیال کو جھٹکے ہوئے اپنے دل اور لن کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر پھر اپنی آنکھوں کو دوبارہ سے بند کرتے ہوئے میں نے جیسے ہی شکیلہہ کے بارے میں سوچنا چاہا۔ تو میری بہن مدیحہ کی باہر کو نکلی گانڈ ایک بار پھر میرے حوش و حواس میں آتی چلی گئی۔
چونکہ لن کی گرم کے ہاتھوں میں اب پاگل ہو چکا تھا۔ اس لیے اب کی بار اپنی بہن کی بھاری گانڈ کی تصویرکو اپنے ذہن سے نکالنا میرے لیے ناممکن ہو گیا۔ اور پھر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر میں نے اپنے لن پر تیزی کے ساتھ ہاتھ مارا اور کچھ ہی دیر بعد جوش سے چلا اٹھا 'ہاے مدیحہ '۔
اس کے ساتھ ہی میرے لن کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور میرے لن سے پانی کا ایک فوارہ ابل پڑا۔ جس کے ساتھ ہی میرے لن سے منی نکل نکل کر کمرے کے فرش پر گرنے لگی۔
آج پہلی بار اپنے بہن کے نام کی لن کی مٹھی لگنے کے بعد جب میرے دماغ کو چڑھی منی اتری تومیرے دماغ نے مجھے برا بھلا کہا ۔تو میں نے پشمان ہوتے
ہوے اپنے لن کو پاس پڑے ایک گندے تولیے سے صاف کرنے کے بعد چارپائی پر پڑی اپنی شلوار دوبارہ پہنی۔ مگر میری شلوار میں میرا لن کچھ سکون ملنے کے باوجود ہلکے ہلکے جھٹکے کھاتا ہوا اب بھی مجھے بدستور یہ ہی کہہ رہا تھا کہ "جانی یہ لن مانگے مور"۔ پھر اس رات گھر واپس آ کر جب میں سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا۔ تو دن کو پیش آنے والا واقعہ میرے دماغ میں ابھی تک گھوم رہا تھا۔
جس کی وجہ سے بستر پر کافی دیر ادھر اُدھر کروٹیں بدلنے کے باوجود مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں بستر پر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر نیند آنے کی بجائے میری بہن مدیحہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے بار بار گھوم رہا تھا۔ میرے بار بار کی کوشش کے باوجود میری بہن کا خوبصورت اور جوان جسم میرے ہوش و حواس پر چھا چکا تھا۔ تو پھر اس رات اپنے بستر پر لیٹ کر میں ایک بار پھر اپنی بہن مدیحہ کے بارے میں سوچنے لگا۔ اپناسارا وقت کھیتی باڑی میں صرف کرنے کے دوران مجھے تو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میری بہن مدیحہ ہ اب بچی نہیں رہی بلکہ وہ تو 24 سال کی ایک مست جوان لڑکی بن چکی ہے
اس کی سانولی رنگت کے باوجود اس کے جسم میں ایک عجیب سی کشش ہے، اوپر سے مدیحہ کا بھرا ہواجسم، رسیلے ہونٹ، پتلی کمر، اس کے سینے پر اس کی بڑی
اور بھاری نرم چھاتیاں اور سب سے بڑھ کر اس کی باہر کو نکلی ہوئی گانڈ کی وجہ سے میری بہن مدیحہ ایک قیامت خیز دُو شیزہ بن چکی ہے۔ میں آج ایک بار
اپنی ہی بہن کی جوانی کے متعلق نہ صرف یوں سوچ رہا تھا۔
بلکہ اپنی بہن کی جوانی کو سوچتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنے لنڈ کو بھی ہاتھ میں پکڑ کر آہستہ آہستہ مسلنے بھی لگا۔
ابھی میں مَدیحہ کے بارے میں یہ سب کچھ سوچتے ہوئے گرم ہو رہا تھا کہ اتنے میں شکیلہہ کی کہی ہوئی ایک بات دوبارہ سے میرے کانوں میں گونج اُٹھي کہ راحیل تمہاری بہن اب بچی نہیں کہ ان باتوں کو نہ سمجھ سکے
یہ بات سوچتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میری آنکھیں بند تھیں تو میری بند آنکھوں کے سامنے اچانک ہی مَدیحہ کی آنکھیں آ گئیں اُف جس طرح کی جنسی ہوس میں نے پہلی ملاقات میں شکیلہہ کی آنکھوں میں دیکھی تھی، اسی طرح کی پیاس تو میری اپنی بہن مَدیحہ کی آنکھوں سے جھلک رہی ہے، جسے پڑھنے میں اب تک قاصر ہی رہا ہوں
اس بات کا خیال آتے ہی میں نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولیں تو ایک اور بات میرے ذہن میں دوڑگئی کہ ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے میری بہن مَدیحہ میں بھی جنوانی کے جذبات تو ہوں گے، تو اگر میں کوشش کر کے مَدیحہ سے شکیلہہ کی طرح کے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو مجھے اپنے ہی گھر میں ایک جوان اور گرم چوت دستیاب ہو سکتی ہے
یہ بات سوچتے ہی میں نے اپنے دل میں اس بات پر جلد عمل کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر کے سو گیا۔
؎
دوسرے دن ڈیرے پر جا کر کام کاج میں لگ گیا دوپہر کو مدیحہ کھانا لے کر ای اور میں کھانے سے فارغ ہوا تو مدیحہ نے گھر واپس جانے کے لیے گئی برتن سمیٹنا شروع کر دی۔
مدیحہ گھر واپس جانے سے پہلے تم آج میری بات سن کر جانا مدیحہ کو برتن اکٹھے کرتے دیکھ کر اپنی بہن سے کہا۔ مدیحہ نے برتن سمیٹتے ہوئے بہت غور سے میری طرف دیکھا اور جواب دیے بغیر برتن دھونے باہر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اپنے گیلے ہاتھوں کو تولیہ سے صاف کرتے ہوئے مدیحہ دوبارہ واپس کمرے میں داخل ہوئی اور دروازے پر کھڑے ہو کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا "جی بھائی
اندر او آؤ میرے پاس بیٹھ کر میری بات سنو مدیحہ " میں نے مدیحہ کو اپنے پاس چارپائی پر آ کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ میری بات سنتے ہوئے مدیحہ کمرے میں داخل ہوئی اور خاموشی سے میرے پاس چارپائی پر آ بیٹھ گئی۔ مدیحہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ شکیلہہ کب تک دوبارہ گاؤں واپس آئے گی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اپنی بہن سے بات کیسے شروع کروں اس لیے میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
کیوں خیرہے؟” میرے سوال کے جواب میں مدیحہ نے معصومانہ انداز میں الٹا مجھ سے سوال کیا۔ نہیں بس ایسے ہی پوچھ رہا ہوں
مدیحہ کے جواب کے سوال پر میں ایک دم بوکھلاتے ہوئے میں نے بولا
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتی اب اگلی سردیوں میں ہی گاؤں آئے گی شاید مدیحہ نے میرے سوال کا جواب تو منہ سے بول کر ہی دیا۔
مگر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے منہ کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں بھی مجھے کچھ بتانا چاہ رہی تھیں۔
اف نہیں، سردیوں آنے میں تو ابھی چھ ماہ باقی ہیں مدیحہ کی بات سنتے ہی میں بےصبری سے بولا۔
بھائی آج آپ بار بار شکیلہہ کا ہی پوچھے جا رہے ہیں، کوئی خاص کام ہے اس سے کیا میری بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے مدیحہ نے میری طرف دیکھا اور جھجکتے ہوئے پھر سوال کیا۔ تو اس بار مجھے اپنی بہن کے لہجے میں تھوڑی جیلسی سی محسوس ہوئی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میں شکیلہہ کو بہت زیادہ مس کر رہا ہوں اب کی بار میں نے جھجکتے ہوئے اپنی بہن مدیحہ سے یہ بات کہہ ہی دی۔
مدیحہ نے میری بات سن تو لی مگر اس بار اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔
مدیحہ ، تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہاری سہیلی کو کیوں مس کر رہا ہوں مدیحہ کی خاموشی دیکھتے ہوئے، دھڑکتے دل کے ساتھ میں دوبارہ بولا۔ مگر میری بات کے جواب میں مدیحہ اس بار بھی خاموش ہی رہی۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ عرصہ پہلے میرے اور شکیلہہ کے درمیان جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں نہ صرف تمہیں سب پتہ ہے، بلکہ مجھے یقین بھی ہے کہ تم چپ کر میری اور شکیلہہ کی ساری ملاقاتوں کو دیکھتی بھی رہی ہو مدیحہ ” مدیحہ کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی بہن سے اس بالآخر اپنی دل کی بات کر ہی دی۔
مدیحہ سے یہ بات کہتے ہی میں نے اپنی بہن کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو مدیحہ کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر میں فوراً سمجھ گیا۔ کہ نہ صرف اپنی بہن مدیحہ کے متعلق میرا اندازہ بالکل صحیح تھا۔ بلکہ اب مدیحہ کے ساتھ باتیں کرنے کے دوران شکیلہہ کے حوالے سے میں نے اپنی بہن صحیح وار کیا تھا۔ مدیحہ نے اب کی بار بھی مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں ایک بار پھر بولا "تو تم واقعی ہی میری اور شکیلہہ کی جاسوسی کرتی رہی ہو نا مدیحہ
میری اس بات کو سنتے ہی مدیحہ نے ایک دم گھبرا کر میری طرف دیکھا۔ اور پھر اسی گھبراہٹ اور بے اختیاری کے عالم میں اُس نے اپنی نظروں
کو میرے چہرے سے ہٹا کر کمرے کی چھت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔
اپنی بہن کی آنکھوں کا پیچھا کرتے ہوئے میری اپنی آنکھیں بھی کمرے میں بنے ہوئے اس روشندان پر جا ٹکیں۔ جس کی کھڑکی ٹیوب ویل کی چھت پر کھلتی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ ایسی تھی کہ ٹیوب ویل کی چھت پر بیٹھ کر روشندان کے ذریعے بڑے کمرے کے اندر تو دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر کمرے کے اندر سے کھڑکی کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص باہر بیٹھ کر کمرے میں جھانک رہا ہے۔
اچھا تو میری بہن ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھ کرکے شکیلہہ کے ساتھ میری چودائی کے کھیل کو دیکھتی رہی ہے" اپنی بہن کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے میری نظر جیسے کہ کمرے کے روشن دان پر پڑی تو مجھے فوراً ساری بات سمجھ آ گئی۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے روشن دان سے نظریں ہٹا کر ایک بار کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو میں نے مدیحہ کو بھی اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا۔
اس بار جب ہم دونوں بہن بھائی کی نظریں آپس میں ملیں۔ تو اپنی چوری پکڑے جانے کی وجہ سے میری بہن مدیحہ کا چہرہ شرم سے لال ہو چکا تھا۔ میں گھر جا رہی ہوں” پھر جیسے ہی میری اور مدیحہ کی نظریں ملیں۔ تو وہ مجھ سے نظریں چراتے اور ساتھ ہی چارپائی سے ایک دم اٹھتے ہوئے بولی۔ ابھی نہیں جاؤ ناں" مدیحہ کو چارپائی سے اٹھتے دیکھ کر میں نے ایک دم سے اس کی ہاتھ کی کلائی کو اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔ تو میری شلوار میں میرا لوڑا گرم ہو کر ھڑنے لگا۔
میرا ہاتھ چھوڑو بھائی مجھے جانا ہے" مجھے یوں اچانک اپنا ہاتھ پکڑتے ہوئے دیکھ کر مدیحہ نے مزید گھبراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ اور ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ مگر میں نے اس کی کلائی کو نہیں چھوڑا۔ آج میں نے ہمت کرکے اپنی ہی جوان بہن کی کلائی پکڑ تو لی تھی۔ مگر میری اس حرکت پر میرے دماغ نے مجھے اسی وقت ججھجوڑتے ہوئے کہا "شرم کر بے غیرت، جانے دے اسے، آخر بہن ہے یہ تیری
ابھی میں اپنے دماغ کی بات سن ہی رہا تھا۔ کہ اتنے میں میرے دل اور لُن نے میرے اندر کے شیطان کو ایک دم جگاتے ہوئے مجھے کہا “آج اگر تم نے ہمت کر کے اپنی بہن کی کلائی پکڑ ہی لی ہے، تو اسے چھوڑنا مت، کیوں کہ آج اپنی بہن کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کا تمہارے لیے ایک بہت ہی سنہری موقع ہے اور اگر تم نے آج بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو یاد رکھو زندگی بھر پچھتاؤ گے راحیل
میرے اندر کے شیطان نے جونہی مجھے اپنی ہی بہن کی عزت سے کھیلنے کے لیے اکسانا شروع کیا۔
تو کسی جوان اور گرم چوت کی طلب میں میرے شلوار میں پاگلو ںکی طرح ادھر ادھر آنے والا ٹکریں مارنے والے میرے لن نے خوشی سے دھمال ڈالنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لن سے گرمی کی ایک لہری اٹھی۔ جو سیدھا میرے سر میں گھس کر میرے دماغ کو ماؤف کر گئی۔ جس کی وجہ سے میرے دماغ نے کام کرنا بند کر دیا۔ اب اپنی جنسی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں چارپی سے اٹھا۔ اور پھر اپنی بازیاں پھیلاتے ہوئے ایک دم اپنی سگی بہن کے جوان گداز جسم کو اپنی بازوں کے گہرے میں جکڑلیا۔
اوف میری بہن کے جسم میں تو جیسے آگ ہی بھری ہوئی ہے اپنی بہن کے جسم کو اپنی بازوؤں میں لیتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میں نے صحرا کی تپی ریت کو ہاتھ میں لے لیا ہو۔ مدیحہ کے جسم سے نکلتی آگ نے میرے اندر کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ جس کی وجہ سے اب میرا لن ایک انگڑائی لے کر پورے جوش سے میری شلوار میں آکر چکا تھا۔ بھائی یہ کیا کررہے ہیں آپ میرے ساتھ میرے اس اچانک حملے سے مدیحہ ایک دم بُھکلاتے ہوئے بولی۔ اور اس نے اپنے آپ کو میری بازوؤں کے شکنجے سے چھڑانے کی کوشش بھی کی۔ مگر میں نے اسے اپنی بازوؤں سے نکلنے کا موقع نہیں دیا۔
میں تمہارے ساتھ بھی وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہوں، جو تم مجھے شکیلہ کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھ چکی ہو مدیحہ" یہ کہنے کے ساتھ ہی اپنی بہن مدیحہ کے جسم کے گرد اپنے بازوں کستے ہوئے میں اپنا چہرہ اس کے چہرے کے اتنے قریب لے آیا کہ ہم دونوں کے منہ سے نکلنے والی گرم سانسیں اب ایک دوسرے کی سانسوں سے ٹکرانے لگیں تھیں۔
نہیں نہیں، میں آپ کی بہن ہوں اور ہمارے درمیان یہ سب صحیح نہیں ہے بھائی "میری بات سنتے ہی مدیحہ بولی اور اُس نے میری بازوؤں کی گرفت سے نکلنے کی ایک بار پھر کوشش کی۔ مگر مدیحہ کے جسم کے گرد میری بازوؤں کا گہرا تنگ ہونے کی بجائے اب تنگ ہوتا گیا۔ جس کی وجہ سے میری بہن کے موٹے گداز ممے میری چوڑی چھاتی میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا۔ جب میں اپنی بہن مدیحہ کو اتنے قریب سے دیکھ اور چھو رہا تھا۔ اور اب اپنی بہن کے نرم مموں کے لمس اور اس کی چوت کی پیاس کی وجہ سے میں اس وقت "ابھی نہیں تو کبھی نہیں" والی صورت حال میں پھنس چکا تھا۔ جس کی وجہ سے میرے لیے اب پیچھے ہٹنا ایک ناممکن سی بات ہوگئی تھی
یہی بات ذہن میں لے کر میں نے اپنے منہ کو تھوڑا اور آگے بڑھایا اور ایک دم سے اپنی سگی بہن کے نرم اور ملائم ہونٹوں کو پہلی بار ہلکا سا چوم لیا۔ میرے ہونٹوں کے اپنے ہونٹوں سے چھوتےہی میری بہن مدیحہ نے اس اچانک حملے سے بکھلا کر شرم کے مارے نہ صرف اپنی آنکھیں فوراً بند کر لیں۔ بلکہ اپنے بھائی کے لبوں کا لمس پہلی بار اپنے جوان کنوارے ہونٹوں پر محسوس کرتے ہی شرم کے مارے مدیحہ کے جسم میں کپکپاہٹ سی ہونے لگی۔ بھائی کیوں تنگ کر رہے ہو، جانے دو نا مجھے" میری بے شرمانہ حرکت کو روکنے میں ناکام ہونے کے باوجود مدیحہ نے ایک بار پھر میری بازوں سے نکلنے کی کوشش کی۔ مگر پہلے کی نسبت اب کی بار اس کی مزاحمت میں زیادہ زور نہیں تھا۔
ہائے لگتا ہے کہ میرے لبوں کی گرمی نے میری بہن کی جوانی میں بھی آگ لگنا شروع کر دی ہے” پہلی بار یوں اپنی سگی بہن کے لبوں کی چومی لینے کے مزے کو محسوس کرتے ہوئے میرا حوصلہ مزید بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے ہونٹوں کو مدیحہ کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے اپنے گرم ہونٹوں کو اپنی بہن کے موٹے گالوں پر رکھ دیا۔ نہ کرو نہ بھائی میری گرم زبان کو اپنے گورے گالوں پر چلتا محسوس کرتے ہوئے مدیحہ نے ایک بار میری منت کی۔
لیکن اپنی بہن کی بات اُن سُنتے ہوئے میں مدیحہ کے پھولے ہوئے نرم گالوں پر ہلکا ہلکا اپنی زبان گھماتے ہوئے اپنا منہ اپنی بہن کے کان کے نزدیک لے آیا۔ اور پھر اپنی بہن کے کان میں آہستہ سے سرگوشی کی “تم بہت ہی خوبصورت ہو مدیحہ ، شاید تمہیں یقین نہ آئے، مگر میں تم سے بہت پیار کرنے لگا
یہ کہتے ہوئے میں مدیحہ کے دائیں کان کو اپنے منہ میں بھر گیا اور اپنی بہن کے کان کی لوپر اپنی گرم زبان پھیرنے لگا۔
میری گرم زبان کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے میری بہن سسکاری۔ مگر اُس نے اپنی آنکھیں بدستور بند ہی رکھی۔
مدیحہ کی بند آنکھوں اور اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ یوں لگتا ہے کہ جیسے میری بہن اس وقت کسی گہری سوچ میں مبتلا ہے، بے شک مدیحہ میری بہن ہے لیکن اس سے پہلے وہ ایک جوان لڑکی بھی ہے، ایک لڑکی کی حیثیت سے اپنی سہیلی شکیلہہ کی طرح شاید وہ میرے ساتھ سب کچھ کرنا تو چاہ رہی ہو، لیکن بہن ہونے کی نسبت اسے اپنے ہی بھائی سے یہ سب کرتے ہوئے شرم بھی محسوس ہو رہی ہے۔ اپنی بانہوں میں قید اپنی چھوٹی بہن مدیحہ کو اپنی بند آنکھوں سے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔
میں ایک طرف اپنی باہوں میں جکڑی مدیحہ کو اپنی بند آنکھوں کے ساتھ اپنی سوچ میں مگن دیکھ رہا تھا۔ مگر دوسری طرف اپنی بہن کے جسم کی حرکات اور اس کے چہرے کے تاثرات سے میں یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اپنی بہن مدیحہ کے ساتھ جانے والی میری چھیڑ چھانی اب آہستہ آہستہ اپنا کام دیکھنے لگی ہے۔ اسی لیے مدیحہ کے چہرے کے تاثرات پر نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنا کام جاری رکھا۔ اور پھر اپنے ہاتھوں سے مدیحہ کی کمر سے آہستہ آہستہ نیچے لاتے ہوئے
میں نے اپنی بہن کی چوڑی اور گداز پھاڑیوں کو پہلی بار اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا۔ "اوہ کیا مزے دار جسم ہے تمہارا میری بہن"
اپنی بہن کی بھاری گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں کستے ہوئے میں نے مدیحہ کے جسم کو زور سے اپنی طرف کھینچا۔
تو میری شلوار میں ہڑا ہوا میرا لوڑامیری بہن کی گداز رانوں میں سے سرکتا ہوا پہلی بار شلوار کے اوپر سے ہی میری بہن کی کنوای چوت سے جا ٹکراگیا۔ اوہ" بھائی کے سخت لوڑےکی اپنی بہن کی نرم کنواری چوت پر پہلی دستک ہوتے ہی، ہم دونوں بہن بھائی کے منہ سے سسکیاں نکل پڑیں۔
تو ساتھ ہی مزے کے مارے مدیحہ نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں جکڑلیا۔ جس کی وجہ سے میرا لُن اب اس کی گداز رانوں میں پھنس کر رہ گیا۔
ہائے مزے دار” اپنے لن کو پہلی بار یوں اپنی سگی بہن کی رانوں میں پھنسا ہوا محسوس کرتے ہی میں نے اپنے جسم کو تھوڑا سا پیچھے کرتے ہوئے پھر ہکلا سا جھٹکا دیا۔ تو شلوار کے اندر سے میرا لن ایک بار پھر میری بہن کی گوشت بھری رانوں میں سرکتا ہوا دوبارہ مدیہ کی چوت سے ٹچ ہو گیا۔
اف بھائی جان” اپنی کنواری چوت کے ساتھ اپنے ہی سگی بھائی کے گرم اور سخت لوڑے کے لمس کو محسوس کرتے ہی مدیحہ کا صبر کا پیمانہ بھی ٹوٹ گیا۔
اور پھر خود سپردگی کے عالم اپنی بازوؤں کو میں میری گردن کے گرد کستا ہوا میری بہن چلا اٹھی۔ اور جوش کے مارے مدیحہ نے میرے ہونٹوں کو اپنے
ہونٹوں میں لیتے ہوئے گرم جوشی سے میرے لبوں کو چوسنا ہوئے شروع کر دیا۔
اوہ میرے ہونٹوں اور لُن کی گرمی کی بدولت میری بہن کی کنواری چوت بھی مچل ہی گئی ہے بالآخر” اپنی بہن مدیحہ کو اپنی جنسی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے یوں دیوانہ وار چومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل اور لُن دونوں باغ باغ ہو گئے۔
اب ایک طرف مدیحہ مست ہو کر میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ تو دوسری طرف میں بھی اس کی گرم جوشی کا جواب دیتے ہوئے دیوانہ وار اپنی بہن کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔ اپنی بہن کے وجود پر جوانی کی گرمی کا اثر دیکھتے ہوئے مجھے مزید جوش آیا۔
اور اسی جوش میں جپھی ڈال کر میں نے مدیحہ کے جسم کو زمین سے تھوڑا اٹھا لیا۔
اور پھر مدیحہ کے منہ میں زبان ڈال کر اس کی زبان چوستے ہوئے میں نے مدیحہ کی قمیض کے اوپر سے اس کے گول گول ممے کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔
تو بہن کے مموں کی موٹیائی کی وجہ سے مجھے یوں لگا جیسے میں نے اپنے ہاتھ میں کوئی غبارہ پکڑ لیا ہو۔ اپنی بہن کی جوان کنواری چھاتی کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے میں نے مدیحہ کے موٹے ممے کو جوش سے مسلا۔ تو درد اور مزے کی ملی جلی کیفیت سے مدیحہ کے منہ سے آواز نکلی "اچھ، اوہ"۔ اُف آج زندگی میں پہلی بار ایک مرد میری بہن کی جوان چھاتیوں کو اپنی مٹھی میں لے کر دبالا رہا ہے، اور وہ مرد کوئی اور نہیں بلکہ خود اس کا اپنا سگا بھائی ہے" اپنی بہن کے گداز ممے کو اپنی مٹھی میں لے کر پیار سے آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے میرے دماغ میں یہ خیال آیا تو میرے لن کی گرمی مزید بڑھنے لگی۔
قمیض کے اوپر سے مدیحہ کے مموں کو مسلنے میں مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اس لیے کسنگ کے ساتھ ساتھ میں اپنی بہن کے جوان اور بھاری ممو ںکو اپنے ہاتھوں میں لے کر کافی دیر تک دباتا اور مسلتا رہا۔ اور میرے ہاتھوں کے سوا د سے مدیحہ کے منہ سے سسکیاں نکلتی رہیں۔
پھر کچھ دیر اپنے بہن کے ہونٹوں کو چوستے اور اس کے موٹے ممو ں سے کھیلنےکے بعد میں مدیحہ کی کمر سے اپنا ایک ہاتھ ہٹا کر مدیحہ کی شلوار پر لے گیا۔ اور پھر اپنے ہاتھ کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنی بہن کی پھولی ہوئی کنواری چوت پر رکھ دیا
شلوار کے اوپر سے اپنی بہن کی چوت پر ہاتھ رکھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ اپنی جنسی ہوس کی آگ میں جلنے کی وجہ سے اس وقت میری بہن کی کنواری چوت پانی پانی ہو رہی تھی۔ اور گیلا ہونے کی وجہ سے مدیحہ کی شلوار کا اگلا حصہ بھی کافی گیلا ہو چکا تھا۔
اُف بھائی” جوں ہی میرے ہاتھ نے اپنی بہن کی اُن چھوئی چوت کو چھوا۔ تو لذت کے مارے مدیحہ کے منہ سے سسکیاں سی پھوٹنےلگیں اور جوش میں آ کر وہ میرے لبوں کو اپنی دانتوں سے کاٹنے لگی۔
ہائے کیا ملائم پُھدی ہے تمھاری” شلوار پہنے ہونے کے باوجود اپنی بہن کی نرمی کا مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا۔ اس لیے مدیحہ کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کی چوت کو آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے میں نے کہا۔ اسی دوران میں نے مدیحہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے لا کر شلوار میں تنےہوئے اپنے موٹے سخت لن کر رکھ دیا۔
کیسا ہے میری لن مدیحہ ” اپنے تنے ہوئے لن کو اپنی سگی بہن کے ہاتھ میں پہلی بار دیتے ہوئے میں نے مدیحہ سے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔ “او بھائی ایسی گندی باتیں تو نہ کرو نا پلیز مدیحہ نے شلوار میں ہیرے میرے لوڑے سے ایک دم اپنا ہاتھ الگ کرتے ہوئے جواب دیا۔
ہائے اب اپنے آپ کو ایسی گندی باتیں سننے کا عادی کر لو، کیونکہ آج کے بعد میں نے ایسی کئی گندی باتیں تم سے کرنی بھی ہیں اور تمہارے منہ سے سننی بھی ہیں میری جان” مدیحہ کی بات کا جواب دیتے میں بولا۔ اور پھر اپنی بہن کی شلوار کے ناڑےکو پکڑ کر جھٹکے سے کھنچ دیا۔ جس کی وجہ سے میری بہن مدیحہ کی شلوار اس کی کمر سے ڈھیلی ہو کر کمرے کے فرش پر جا گری۔
آج اپنے ہی ہاتھ سے اپنی بہن کی شلوار کا نارا کھول کر اسے ننگا کرنے کے بعد میں نے ایک بار پھر مدیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ اپنی لوڑے پر رکھا۔ اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کی چکنی گداز رانوں کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر مسلنا شروع کر دیا۔
او بھائی جان" اپنی نرم گداز ران پر پہلی بار اپنے جوان سگے بھائی کے ہاتھوں کی گرمی محسوس کرتے ہی مدیحہ ا نے مزے سے چلاتے ہوئے میرے کہے بغیر ہی جوش سے میرے لن کو اپنی گرفت میں لیا۔ اور ساتھ ہی نیچے سے اپنی ٹانگیں میرے ہاتھ کے لیے مزید کھول دیں۔
اپنی بہن کی اس مہربانی سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے مدیحہ کی گداز رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہاتھ کو آہستہ آہستہ اوپر لے کر اپنے ہاتھ کو دوبارہ اپنی بہن کی ننگی چوت پر رکھ دیا۔
او لگتا ہے تم نے مجھ سے چدوانےکے لئے ہی، آج ہی اپنی پھدی کی تازہ تازہ صاف کی ہے شاید" اپنی بہن کی بغیر بالوں والی مخملی نرم گرم چوت پر پہلی بار اپنا ہاتھ پھرتے ہوئے میں مزے سے بولا۔
اور پھر مدیحہ کی پانی پانی ہوتی چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میں اپنی انگلی کو اپنی بہن کی چوت کےکنوارے لبوں پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا۔ جوں ہی میری ہاتھ کی انگلیاں اپنی بہن کی چوت کے لبوں پر چلیں، تو میری انگلیوں کے مزے سے بےحال ہو کر مدیحہ کا جسم کانپ اٹھا اور وہ سسکیاں بھرتے ہوئے مجھ سے چپکتی چلی گئی۔
کیا تم واقعہ ہی چھپ چھپ کر میری اور شکیلہ کی چدائی کا نظارہ کرتی رہی ہو”پوچھا اپنی بہن کی چوت کو اپنے ہاتھ سے ہلکا ہلکا مسلتے ہوئے میں نے
ہاں بھائی میرے ہاتھ کی لذّت سے محظوظ ہوتے ہوئے مدیحہ نےجواب دیا
اصل میں مجھے شکیلہ اور اپ کے درمیان قائم ہونے والے تعلق کا علم تو اسی دن ہو گیا تھا جب شکیلہ ملتان سے واپس ا کر ہمارے گھر مجھے ملنے ائی پھر جب اپ اور شکیلہ کی اکیلے میں پہلی ملاقات سٹارٹ ہوی تو میں اپ دونوں کو کمرے میں اکیلے چھوڑ کر باہر ادھر ادھر اپنا وقت گزارنے لگلی
اسی وقت گزاری کے دوران میں جب ٹیوب ویل کی چھت پر گی تو اچانک بے اختیاری میں میری نظر روشندان کے ذریعے کمرے کے اندر پڑی تو اپ اور شکیلہ کے درمیان ہونے والے جنسی کھیل کو دیکھ کر میری انکھیں کھلی کی کھلی رہ گیں
میں نے پہلے تو وہاں سےہٹنا چاہ مگر میرے اندر کے تجسس کی وجہ سے میں چاہنے کے باوجود وہاں ہی کھڑی رہ کر کمرے کے اندر ہونے والی ساری کاروای دیکھتی رہی
تو اپنی سہیلی کی چوت میں میرا لن جاتا دیکھ کر کیا تمھاری چوت بھی گرم ہوتی تھی مدیحہ اپنی بہن کی بات سن کر میں نے جوش میں اپنے ہاتھ سے اس کی چوت زور سے مسلتے ہوئے پِھر سوال کیا
جی بھائی" میرے ہاتھ کے سوا سے مدیحہ مزید گرم ہوتے ہوئے بولی۔
تو پھر پھر میری اور شکیلہہ کی چدائی دیکھنے کے دوران تم کیا سوچا کرتی تھی میری جان" اپنی بہن کا جواب سنتے ہی میں نے اس سے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
مہربانی کرکے ایسا سوال نہ کریں نہ مجھ سے بھائی” میرے اس سوال کا ڈائریکٹ جواب دینے کے بجائے مدیحہ نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
بتاؤ نا، میں تمھارے منہ سے یہ بات جاننا چاہتا ہوں میری جان” اپنی بہن کی چوت کے چھولے پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے میں نے مدیحہ سے دوبارہ وہی سوال پوچھا۔
اف شکیلہہ کی اپ کے ساتھ ہونے والی ہر روز کی چودائی دیکھ کر اہستہ اہستہ میرا دل بھی چاہنے لگا کہ اس کی جگہ میں اپنی ٹانگیں کھول کر آپ کے سامنے لیٹ جاؤں، اور شکیلہہ کی طرح میں بھی آپ سے اپنی چوت کو چدوا لوں بھائی
اپنی پھدی پر چلنے والے میرے ہاتھ ہی گرمی سے بے حال ہوتے ہوئے مدیحہ نے دل میں چھپی خواہش کا پہلی بار اپنی زبان سے اقرار کر لیا۔
اسی کے ساتھ ہی مدیحہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے میرے لوڑے کی شلوار کے اوپر سے ہی بے شرمی کے ساتھ مٹھ لگانا شروع کر دی۔
اپنی بہن کی بات کے ساتھ ساتھ اپنے لن پر چلنے والے بہن کے ہاتھ کے کمال کی وجہ سے میرا روم روم کھل اٹھا اور میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
جوش میں آ کر میں نے اپنی انگلی اپنی پیاری بہن کی کنواری چوت کے گلابی ہونٹوں پر زور سے رگڑی اور ساتھ ہی مزے سے سسکتے ہوئے کہا "ہائے اگر اس بات کا مجھے پہلے علم ہوتا، کہ شکیلہ کے ساتھ ساتھ میری بہن کی چوت بھی میرے لن کی طلبگار ہے، تو یقین مانو میں اب تک نہ جانے کتنی بار تمہیں چود چکا ہوتا میری بہن" اپنی بہن کی پھولی ہوئی چوت پر انگلیاں پھیرتے ہوئے میں بولا۔
تو مدیحہ کا مخملی جسم میری بانہوں میں مچل اٹھا اور وہ بھی سسکتے ہوئے بول پڑی "اففف آپ نے اپنی حرکتوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی باتوں سے بھی میری چوت میں آگ لگا دی ہے بھائی"
اپنی بہن کی یہ گرم بات سنتے ہی میں نے اپنی بہن کی چوت کو اپنی مٹھی میں دبوچا۔ تو دوسری طرف مدیحہ کے ہاتھ کی گرفت میرے لن کے گرد مضبوط ہوتی چلی گئی۔
اور پھر سب رشتے ناتے بھلا کر ہم دونوں بہن بھائی نے ایک دوسرے کے لن اور پھدی پر اپنے اپنے ہاتھ تیزی کے ساتھ چلانا شروع کر دیے۔
کچھ دیر اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کی چوت کو مزید گرم کرنے کے بعد میں نے مدیحہ کی قمیض کو اس کے کونوں سے پکڑا۔
اور پھر پہلے اپنی بہن کی قمیض اور ساتھ ہی اس کا برا اور پینٹی بھی اتار کر اپنے ہاتھ سے اپنی سگی بہن کو مکمل برہنہ کر دیا۔
اپنے ہاتھوں اپنی بہن کے جسم سے ایک ایک کر کے سارے کپڑے اتارنے کے بعد میں مدیحہ سے الگ ہوا۔ اور تھوڑا پیچھے ہو کر کمرے میں کھڑی اپنی بہن کی ننگی جوانی کا نظارہ کرنے لگا۔
واہ اس وقت ڈیرے کے کمرے میں کیا غضب کا نظارہ تھا۔ میری اپنی سگی بہن میری پیاسی آنکھوں کے سامنے کمرے میں پوری ننگی حالت میں کھڑی تھی۔ اور کمرے کی کھڑکی سے آتی روشنی میں چمکتے ہوئے میری سگی بہن مدیحہ کا دودھیا جسم اس وقت مجھے دعوت گناہ دے رہا تھا۔
میری بہن مدیحہ کی بڑی اور گول گول چھاتی بہت سفید تھی۔ جس پر براؤن رنگ کے موٹے موٹے نپلز تھے۔ اور جو اس وقت میری بہن کی چوت کی گرمی کے اثر کی وجہ سے اکڑ کر اس کی جوان چھاتیوں پر کھڑے ہو چکے تھے۔
اپنی بہن کی رس بھری چھاتیوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد مدیحہ کے پیٹ سے نیچے آتے ہوئے میں جونہی اپنی نظروں کو اپنی بہن کی ٹانگوں پر لایا۔ تو اپنی بہن کی گوشت بھری رانوں کے درمیان چھپے ہوئے اپنی بہن کے پوشیدہ خزانے پر میری نظر جم گئی۔
"ہائے میں ہی وہ پہلا کھوجی ہوں، جس نے آج اپنی ہی جوان سگی بہن کی ٹانگوں میں چھپے قارون کے خزانے کا پتہ چلا لیا ہے" اپنی بہن کی کنواری چوت کے پھولے لبوں کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی آ گیا۔
میری بہن کی ٹانگوں کے درمیان اس ان چھوئی شیوڈ چوت میرے ہاتھوں کی گرمی سے بے حال ہو کر ہلکا ہلکا پانی چھوڑ رہی تھی۔ اور یہ پانی اس وقت مدیحہ کی چوت سے ٹپک کر میری بہن کی گوشت بھری رانوں پر بہہ رہا تھا۔
"ہائے دودھ کی طرح یہ سفید بازو، بغیر کسی داغ کے صاف ستھرا ایسا جسم، اور اوپر سے ریشم کی طرح نرم جلد (سکن) اففف کیا غضب کا خوبصورت جسم ہے میری بہن کا" میں اپنے سامنے کھڑی اپنی بہن کی جوانی کو دیکھتے ہوئے یہ سب سوچ رہا تھا۔
اپنی بہن کو اس کے کپڑوں کی قید سے آزاد کرنے اور اپنی آنکھوں کو اپنی بہن کے ننگے حسن سے اچھی طرح سیراب کرنے کے بعد میں نے بھی اپنی شلوار
قمیض اتاری اور پھر میں خود بھی اپنی بہن کے سامنے پورا ننگا کھڑا ہو گیا۔
find the next gas station
"کیسا لگا میرا لن مدیحہ" اپنی سگی بہن کی نظروں کے سامنے مکمل ننگا ہو کر میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ہیرے ہوئے ننگے لوڑے کو مسلتے ہوئے پوچھا۔
"نہ نہ پوچھیں مجھ سے ایسے سوال بھائی مجھے شرم آتی ہے ایسی باتیں کرتے ہوئے" میرے سامنے پوری ننگی حالت میں کھڑے ہو کر بھی میرے سوال پر مدیحہ شرماتے ہوئے بولی۔
"ہم دونوں کے درمیان اب اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی تم اتنا کیوں شرما رہی ہو میری جان" مدیحہ کی بات کے جواب میں گنگناتے ہوئے میں نے کہا
اچھا بھائی اگر آپ مجبور کرتے ہیں تو بتا دیتی ہوں، کہ آپ کا لن دور سے دیکھنے میں بھی موٹا اور لمبا نظر آتا تھا، مگر آج اتنے نزدیک سے دیکھنے میں تو یہ اور بھی بہت بڑا لگ رہا ہے، ویسے مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اتنا موٹا اور لمبا لن میری سہیلی شکیلہ کے اندر جاتا کیسا تھا بھائی"۔ میرے ننگے لن کو پیاسی نظروں سے دیکھتے ہوئے میری سگی جوان بہن نے جوں ہی بے شرمی سے یہ بات کہتے ہوئے میرے لن کی تعریف کی۔
تو فخر اور غرور کے مارے میرا لن مزید اکڑتا چلا گیا۔
ابھی چند لمحوں بعد جب میرا لن تمہاری چوت میں جائے گا نا، تو تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا، کہ تمہاری سہیلی میرے لن کو کیسے اپنی چوت میں لے لیتی تھی میری جان"۔ اپنی بہن کے سوال پر مست ہوتے ہوئے میں نے جواب دیا۔
اس کے ساتھ ہی مستی میں آتے ہوئے میں نے مدیحہ کو چارپائی پر لٹایا اور اس کے مخملی چوتڑ کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا۔
جس کی وجہ سے میری پیاری بہن کی چوت اوپر کو اٹھ گئی۔
مدیحہ کو چارپائی پر لٹانے کے بعد میں بھی چارپائی پر آیا اور پھر اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں نے اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کے لبوں کو اپنے ہاتھوں سے کھول دیا۔
اففف کتنا دلکش اور حسین چوت ہے میری بہن کی"۔ اپنی بہن کی چوت کے اندر کا گلابی حصہ میری نظروں کے سامنے آیا تو اپنی بہن کی چوت کی اندرونی خوبصورتی دیکھ کر میری رال ٹپک پڑی۔
ہائے چدائی سے پہلے کیوں نہ اپنی بہن کی اس پیاری اور کنواری چوت کا سواد چکھنے کے ساتھ اپنی بہن کی ان چدی پھدی تھوڑی سی مہک بھی سونگھ لوں میں۔ اپنی نظروں کے سامنے کھلی پھدی کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ تو اس کے ساتھ اپنے سر کو نیچے جھکاتے ہوئے میں فوراً اپنا منہ اپنی بہن کی چوت کے عین اوپر لے آیا۔
ہو کیا خوشبودار پھدی ہے تمہاری مدیحہ"۔ اپنی بہن کی چوت کے لبوں کے نزدیک اپنی ناک لاتے ہوئے میں نے مدیحہ کی کنواری چوت کی خوشبو کو سونگھا۔
اور ساتھ ہی اپنی بہن کے ممے کو اپنے ہاتھ سے دباتے ہوئے اپنا منہ اپنی بہن کی چوت پر چپکا کر اپنی بہن کی چوت کو مزے سے چاٹنے لگا۔
افف بھائی یہ کیسی آگ لگا دی ہے تم نے مجھے"۔ اپنی چوت پر پہلی بار کسی مرد کے گرم ہونٹوں کے لبوں کو چسپاں ہوتے اور چوت پر چلتی گرم زبان کے
مزے سے بے حال ہو کر مدیحہ مزے سے چلاتی ہوئی بولی۔
اب کمرے میں یہ حالت تھی کہ میرے منہ اور زبان کی گرمی سے بے حال ہو کر میری بہن مدیحہ تو جیسے بے سد ہو چکی تھی۔
اور اسی بے خودی کے عالم میں وہ چارپائی پر نیچے سے اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا اٹھا کر میرے منہ پر مار رہی تھی۔
جب کہ میں چارپائی پر لیٹی ہوئی اپنی بہن کی کھلی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر اپنی بہن کی چوت کو اپنے منہ اور زبان سے چاٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بہن کی چوت سے نکلنے والے گرم پانی کو شربت سمجھ کر پینے میں مصروف تھا۔
کچھ دیر یوں ہی اپنی بہن کی چوت کا پانی پینے کے بعد اب میرا دل اپنی بہن کی چوت کو چودنے کو مچل اٹھا۔ تو اپنے منہ کو مدیحہ کی چوت سے الگ کرنے کے بعد میں اپنی بہن کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا اور بولا۔ "تیار ہو جاؤ مدیحہ، اب میں تمہیں ایک لڑکی سے عورت بنانے جا رہا ہوں، اور وہ بھی اپنی عورت"۔
"ہائے جب سے آپ کو اپنی سہیلی کی چدائی کرتے دیکھا ہے، میں تو اسی وقت اس لمحے کے انتظار میں ترس رہی ہوں، کہ جب تم مجھے اپنی عورت بناؤ گے بھائی"۔ میری بات سنتے ہی مدیحہ کی جنسی بھوک اپنے عروج پر جا پہنچی۔ اور میرے لن کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ سسک اٹھی۔
اب چارپائی پر اپنی بہن کی کھلی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میں بھی ہوس بھری نظر سے اپنی بہن کے ننگے حسن کو نہارتے ہوئے آگے کو جھکا۔ اور اپنے
لوڑے کو پہلی بار اپنی بہن کی چوت پر رکھ کر اپنے لن کے موٹے ٹوپے کو اپنی بہن کی کنواری چوت پر رگڑنے لگا۔ "اوہ"۔ اپنی بہن کی کنواری چوت پر میرے لن کی رگڑ سے ہم دونوں بہن بھائی کے منہ سے لذت بھری سسکی پھوٹ پڑی۔
اپنی بہن کی یہ سسکی سن کر میں مست ہوا اور اسی مستی کے عالم میں میں نے مدیحہ کی چوت پر پھرنے والے اپنے لن پر دباؤ بڑھا دیا۔
جس کی وجہ سے میرے لن کا ٹوپا میری بہن مدیحہ کی کنواری چوت کے لبوں میں دھنسنا شروع ہو گیا
اف کیا ہو رہا ہے مجھے، اب ڈال بھی دو نہ اندر بھائی" اپنی پھدی کے لبوں میں پھنسے ہوئے میرے لوڑے کی گرمی سے بے حال ہوتے ہوئے مدیحہ چلائی۔
اور اس کے ساتھ ہی اس نے چارپائی سے اپنی گانڈ کو اٹھا کر میرے لن کو اپنی کنواری چوت کے اندر لینے کی کوشش کی۔
ٹھیک ہے تو پھر اب اپنی پھدی کو میرے لن کے استقبال کے لیے تیار کر لو میری بہن" اپنی بہن کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا۔ اور اس کے ساتھ میں نے مدیحہ کے جسم سے تھوڑا اوپر ہوتے ہوئے اپنے لن کو اپنی بہن کی چوت کے لبوں سے باہر نکال لیا۔
مجھے اپنے لن کو اس کی چوت سے یوں الگ کرتے دیکھ کر مدیحہ نے حیرت کے عالم میں میری طرف دیکھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بول سکتی، میں نے اپنے جسم کو تیزی کے ساتھ نیچے لا کر ایک جھٹکا مارا۔
تو لوہے کی طرح سخت میرا لن مدیحہ کی چوت کے گلابی لبوں کو چیرتا ہوا میری بہن کی چوت میں گھستا چلا گیا۔
میرے لوڑے نے میری بہن کی چوت کے کنواری پردے کو پھاڑ کر جونہی اپنی ہی بہن کی "نتھ" کھولی۔
تو درد اور مزے کے ملے جلے احساس سے مدیحہ چیخ پڑی "ہائے مار گئی" اور اس کے ساتھ ہی اس کا جسم اکڑتا چلا گیا۔
اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دو، ابھی تھوڑی ہی دیر میں درد کم ہوتا چلا جائے گا میری جان" اپنے لن سے اپنی بہن کو اپنی عورت بنانے اور اس کی چوت کو جنسی درد سے روشناس کروانے کے دوران میں نے مدیحہ کو تسلی دیتے ہوئے سمجھایا۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے لوڑے کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے میں نے تھوڑا رکتے ہوئے اپنی بہن کے چہرے کی طرف دیکھا۔
تو پتہ چلا کہ میرے لن کے زور دار جھٹکے کی وجہ سے درد کے مارے نہ صرف میری بہن مدیحہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ٹھہرنے لگے تھے۔
اوہ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اپنی پیاری بہن کو اتنی تکلیف دی ہے آج، کہ درد کے مارے تمہارے آنسو نکل پڑے ہیں میری بہن" اپنی بہن کی آنکھوں میں سے بہتے آنسو دیکھتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہونے لگی تو میں مدیحہ سے بولا۔
اپنے ہی سگے بھائی سے اپنی کنواری چوت کی سیل تڑوانے کا اعزاز کسی قسمت والی کو ہی نصیب ہوتا ہے، اس لیے یہ درد کے نہیں بلکہ خوشی کے آنسو ہیں بھائی" میری بات کے جواب میں نیچے سے اپنی چوت اٹھا کر میرے لوڑے کو اپنے اندر مزید جذب کرتے ہوئے مدیحہ بولی۔ تو اپنی بہن کے اس جواب سے مجھے حوصلہ ملا اور ساتھ ہی میرے لن کو مزید جوش آتا چلا گیا۔
پھر اسی جوش کے ساتھ میں نے اپنے منہ کو نیچے لایا اور اپنی بہن کی جوان چھاتیوں کو اپنے منہ میں بھر لیا۔
"بہت پیاسے ہیں میرے ممے تمہارے ہونٹوں کے لیے، اوہ چوسو میرے مموں کو، چوسو میرے نپلز میرے بھائی"
میں نے جونہی اپنی بہن کے نپل پر اپنی گرم زبان پھیری تو مزے کے مارے مدیحہ چلائی۔
تھوڑی دیر اپنی بہن کے موٹے مموں کو چوسنے کے بعد میں نے اپنے منہ کو اپنی بہن کے رس بھرے نپلز سے الگ کیا اور مدیحہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے بولا "میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں کہ تم نے اپنی یہ کنواری چوت چودنے کا موقع مجھے دیا ہے مدیحہ"
اپنی بہن سے یہ بات کہتے ہوئے میں پھر پیچھے ہٹا اور اپنے لن کو بہن کی چوت سے باہر نکال کر پھر تیزی کے ساتھ ایک اور جھٹکا لگایا۔
تو اس بار میری بہن مدیحہ کی چوت سے بہنے والے خون اور بہن کی چوت کے رس نے میرے لن کا راستہ بہت آسان بنا دیا۔
اور میرا لوڑا پھسلتا ہوا میری بہن کی پھدی میں پورا جڑ تک گھس گیا۔
میرے لوڑے کے اندر جاتے ہی میری بہن مدیحہ کی مخملی چوت کی ملائم دیواروں نے میرے لن کو اپنی آغوش میں ایسے جکڑا کہ جیسے میری بہن کی چوت کی دیواریں صدیوں سے میرے لوڑے کے استقبال کی منتظر تھیں۔
ہاے شکیلہ کی چوت اچھی ہے یا میری بھائی" اپنی چوت میں میرے لن کو پوری طرح جذب کرتے ہی میری بہن مدیحہ نے مزے سے کراہتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔
اپنی سگی بہن کی چوت میں جو مزہ ہے، وہ شکیلہ تو کسی دنیا کی کسی اور چوت میں میسر نہیں ہے میری جان" اپنی بہن کی بات سن کر میں نے جواب دیا۔ اور اپنا سر جھکا کر مدیحہ کی کھلی ٹانگوں کی طرف نظر ڈالی جہاں میرا لن اس وقت اپنی بہن کی چوت میں مکمل طور پر داخل ہو چکا تھا۔
اپنے لن کے گرد لپٹے اپنی بہن کی چوت کے لبوں کی گرمی محسوس کر کے مجھے اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرا لن آگ کی بھٹی میں گھس گیا ہو۔
مگر چوت کی اتنی تپش اور گرمی کے باوجود بھی مجھے اپنی بہن کی چوت میں اپنا لوڑا ڈال کر اس وقت جنت کا مزہ مل رہا تھا۔
اب میں اپنی بہن کی چوت کا پورا مزہ لینے کے موڈ میں آ گیا اور پھر اپنی بہن کے گلابی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چومتے اور اپنی بہن
مدیحہ کی چوت میں زور دار گھسے مارتے ہوئے میں اپنی بہن کی ٹائٹ چوت کو اپنے لن سے مزید کھولنے میں لگ گیا
آج اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کی سیل کھول کر آپ نے یہ بات سچ ثابت کر دی ہے، کہ مرد اور عورت کا ایک ہی رشتہ ہوتا ہے اور وہ ہے لن اور چوت کا رشتہ، اور اس رشتے کے آگے باقی سب رشتے بے کار ہیں
میری چدائی کے زوردار گھسے کا مزہ لیتے ہوئے مدیحہ بولی۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے چارپائی سے اپنی گانڈ اٹھائی اور نیچے سے اپنے چوتڑ اوپر اٹھا اٹھا کر میرے زور دار گھسوں کا جواب دینے لگی۔
میری بہن چارپائی سے اپنے چوتڑ اٹھا کر مجھ سے چدوا رہی تھی۔ جبکہ میرے ہاتھ مدیحہ کے چوتڑ کو تھام کر اس دوران مدیحہ کو اپنے جسم سے چپکا رہے تھے۔
اففف مدیحہ، تمہاری چدائی کا یہ انداز دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا کہ تم ایک کنواری لڑکی ہو، جو آج پہلی بار اپنی چدائی کروا رہی ہے۔ اپنی بہن کو یوں چارپائی سے اپنی گانڈ اٹھا کر اپنی پھدی کو میرے لن پر زور زور سے مارتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے چدائی کے دوران مدیحہ سے سوال کیا۔
ہاں ابھی چند لمحے تک بے شک میں کنواری ضرور تھی، مگر چدائی کے یہ طریقے میں نے کسی اور سے نہیں، بلکہ آپ اور شکیلہ کی چدائی کو دیکھتے ہوئے ہی سیکھے ہیں بھائی۔ میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنی گانڈ کو ایک بار پھر اوپر کیا اور میرے لن کو اپنی چوت میں جذب کر لیا۔
اوہ مجھے خوشی ہے کہ میری بہن نے کمرے کے روشن دان سے چھپ چھپ کر دیکھتے ہوئے پیار کا یہ سبق نہ صرف مجھ سے سیکھا ہے، بلکہ اسی سبق کی ٹیوشن میری بہن اب مجھے ہی پڑھا بھی رہی ہے۔ اپنی بہن کی بات سنتے ہی میرے لن میں مزید جوش آیا۔
اور میں چارپائی پر لیٹی اپنی بہن کی ٹانگوں کو کھول کر اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کے گھسے زور زور سے مارنے لگا۔
میں اب اپنی کمر ہلا ہلا کر اپنی سگی بہن کو چودنے میں مصروف تھا۔ میں چدائی کے نشے میں اس وقت بالکل جانور بنا ہوا تھا اور شاید مدیحہ بھی۔
مدیحہ کو اب میری چدائی سے درد نہیں ہو رہا تھا۔ بلکہ اب وہ فل مزے میں تھی اور میرے دھکوں کا جواب اوپر کی طرف اچھل کر اپنی چوت میرے لن کی طرف دھکا مار کر دے رہی تھی۔
مدیحہ کو چودنے کے دوران میں نے چدائی کی رفتار میں تیزی کر دی۔ اور اسی تیزی کی وجہ سے میرے ٹٹے میری بہن کی گانڈ کی پھریوں پر زور سے ٹکراتے تو کمرے میں پھچک پھچک کی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
ہم دونوں بہن بھائی کی چدائی اس وقت اپنی انتہا تک پہنچ چکی تھی۔
زور دار چدائی کی وجہ سے ہمارے جسم پسینہ پسینہ ہو چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح چود رہے تھے۔
اس زبردست چدائی کے اثر کی وجہ سے میرے ٹٹوں میں میرے لن کا رس اس وقت اتنے زور سے ابل رہا تھا کہ میں اب کسی بھی وقت اپنے لن کا رس اپنی بہن کی چوت میں چھوڑ سکتا تھا۔
ادھر دوسری طرف مدیحہ بھی جس رفتار سے اپنی گانڈ اچھال رہی تھی، اسے دیکھ کر میرے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اب اس کی پھدی بھی فارغ ہونے کے نزدیک پہنچ چکی تھی۔
ہائے میں تمہاری چوت میں فارغ ہونے لگا ہوں مدیحہ۔ اپنی بہن کی چوت میں زور دار گھسے مارتے ہوئے میں نے اپنی بہن سے کہا۔
ہاں ڈال دو میری چوت میں اپنے لن کا پانی بھائی۔ میری بات سنتے ہی مدیحہ مزے سے سسکتے ہوئے بولی۔ اور اپنی چوت کے لبوں کو میرے لن کے گرد مزید کس لیا۔
اپنی بہن کی چوت کو یوں اپنے لن کے گرد کستا ہوا محسوس کرتے ہی میرے لن کا بند ٹوٹ گیا۔ اور میں نے اپنے رس کا فوارہ اپنی سگی بہن کی چوت میں چھوڑ دیا۔
میرے لن سے گرم منی نکل کر جونہی مدیحہ کی چوت کے اندر گری، تو میرے لن کے گرم پانی سے مدیحہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور اس کے ساتھ وہ بھی چلّا اٹھی، میں بھی گئی، میری چوت بھی فارغ ہونے لگی ہے بھائی۔
اب کمرے میں ہم دونوں بہن بھائی کے جھٹکے کھاتے جوان جسم اپنا اپنا گرم پانی خارج کر رہے تھے۔
جس کی وجہ سے اب ایک سگے بھائی کے لن کا گرم مواد اپنی بہن کی چوت کی تہہ میں گر کر بہن کی چوت کے رس میں مکس ہو رہا تھا۔
host image
اپنے لن کا سارا جوس اپنی بہن کی پھدی میں چھوڑ کر میں نے اپنا منہ نیچے کیا۔ اور اپنی بہن کے موٹے مموں کو اپنے منہ میں بھر کر چوستے ہوئے کہنے لگا
اففففف مدیحہ، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ ممنوعہ پھل کھانے کا ایک الگ ہی مزہ ہے اور آج اپنے ہی گھر کا سب سے ممنوعہ پھل کھا کر مجھے جو مزہ ملا ہے وہ آج سے پہلے کبھی زندگی میں نہیں ملا میری بہن۔
ہائے مجھے بھی خوشی ہے کہ میری چوت سے آپ کے لن کو ایک نئی راحت ملی ہے، اس لیے اب میرا آپ سے وعدہ ہے کہ آج کے بعد آپ کی بہن کی چوت آپ کے لن کے لیے ہمیشہ تیار رہے گی اور میں آپ کو شکیلہ کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دوں گی بھائی۔ میری بات کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنی چھاتی پر جھکے میرے سر کو اپنے ہاتھوں سے نیچے دباتے ہوئے میرے منہ میں اپنا موٹا نپل ٹھونس دیا
مدیحہ کی بت سنتے میں بھی جوش میں آتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی بہن کی جوانی کا رس پینے لگا۔
بھائی اب بس کرو اور مجھے گھر جانے دو، امی میرا انتظار کر رہی ہوں گی۔ اپنی بہن کی چوت میں فارغ ہونے کے بعد بھی جب میں کافی دیر تک اپنی بہن کے مموں کو چومتا اور چاتتا رہا۔ تو پھر تنگ آ کر مجھے اپنے آپ سے زبردستی الگ کرتے ہوئے مدیحہ بالآخر بول ہی پڑی۔
اپنی بہن کے گرم اور حسین بدن سے الگ ہونے کو میرا دل تو نہیں چاہ رہا تھا۔
مگر ہماری چدائی کی وجہ سے مدیحہ کو گھر جانے میں واقعی ہی آج کافی دیر ہو گئی تھی۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی میں مدیحہ سے الگ ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا۔
مدیحہ بستر سے اٹھی اور اس نے اٹھ کر کمرے کے ایک کونے میں پڑے ایک پرانے تولیے سے اپنی چوت سے نکلنے والے خون اور میرے لن کے پانی کو اچھی طرح صاف کیا۔ اور پھر اس نے کمرے کے فرش پر بکھرے ہوئے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لیے۔
اس دوران میں چارپائی پر لیٹ کر اپنی بہن کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔
کپڑے پہننے کے بعد مدیحہ نے کھانے کے برتن اٹھائے اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔
مدیحہ بات سنو۔ اپنی بہن کو کمرے سے باہر جاتے دیکھ کر میں نے چارپائی پر بدستور لیٹے لیٹے مدیحہ کو آواز دی۔
جی بھائی۔ مدیحہ نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو شرم سے اس کا منہ لال ہو رہا تھا اور اب وہ مجھ سے نظریں ملانے سے کترا رہی تھی۔
ابھی چند لمحے پہلے میری بہن اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر مزے سے اپنی چوت کو پہلی بار مجھ سے چدوا رہی تھی، اور اب میری وہی بہن شرم کے مارے مجھ سے نظریں چرا رہی ہے،
واہ رے عورت، تجھے سمجھنا کتنا مشکل ہے۔ مدیحہ کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے میرے ہونٹوں پر ہنسی پھیلتی چلی گئی۔
آج رات اپنے کمرے میں میرا انتظار کرنا۔ میں کمرے کے دروازے پر انتظار کرتی اپنی بہن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی اپنے ڈھیلے لن پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بہن کو آنکھ بھی مار دی۔
میری بات اور میری آنکھ کی حرکت کا مطلب سمجھتے ہی مدیحہ کے چہرے پر بھی ایک مہنی خیز مسکراہٹ پھیلی اور وہ مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر دوڑ گئی۔
ہائے میں نے اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کو چود کر اس کی پھدی میں اپنے لن کا پانی چھوڑ تو دیا ہے، لیکن اگر وہ پیٹ سے ہو گئی تو امی اور گاؤں کے باقی لوگوں کو کیا جواب دوں گا
میں اپنی جنسی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں آج اپنی سگی بہن کی چوت کا سواد تو چکھ چکا تھا۔ مگر اب اپنے لن کی گرمی کم ہونے کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا
مجھے ابھی ہر صورت اس بارے میں بہت احتیاط کرنی پڑے گی راحیل۔ اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد میں نے سوچا تو میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اور پھر میں بھی اپنے کپڑے پہن کر موٹر سائیکل پر گجرات سٹی چلا گیا۔
گجرات شہر پہنچ کر میں نے وہاں ایک میڈیکل اسٹور سے اپنے لیے کنڈومز کا ایک پورا ڈبہ لیا۔
اور ساتھ میں اپنی بہن مدیحہ کے لیے حمل روکنے والی گولیاں بھی خرید لیں۔
میں آج گھر جاتے ہی مدیحہ کو ایک گولی کھانے کے لیے دے دوں گا، تاکہ ہماری چدائی کے دوران میری بہن پریگنٹ ہونے سے بچ سکے۔ اپنی ہی بہن کے لیے منع حمل گولیاں خریدتے وقت میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو آنے والی رات کے تصور سے ہی میرے لن میں دوبارہ سے ہلچل ہونے لگی
چونکہ کنڈومز کے ساتھ چدائی کی وجہ سے لن اور چوت کی جلد آپس میں رگڑ نہیں کھاتی۔ جس کی وجہ سے کنڈوم پہن کر چدائی کرنے میں مجھے زیادہ مزہ نہیں آتا۔
مگر مجھے پتہ تھا کہ پریگنسی روکنے والی ان گولیوں کا اثر انہیں کھانے کے کچھ دن بعد ہوتا ہے۔
اس لیے جب تک حمل روکنے والی گولیاں اپنا اثر دکھانا شروع نہ کر دیں، اس وقت تک کنڈومز استعمال کرنا اب میری مجبوری ہی تھی۔
اس شام جب میں گھر واپسی پر میری نظریں اپنی بہن کے جوان جسم کی متلاشی تھیں۔
لیکن شاید وہ مجھے تڑپانا چاہ رہی تھی۔ اس لیے مدیحہ جان بوجھ کر فوراً میرے سامنے نہیں آئی۔
بلکہ وہ کافی دیر اپنے کمرے میں ہی بیٹھ کر میرا سامنا کرنے سے کتراتی رہی۔
مگر گھر میں صرف تین افراد ہونے کی وجہ سے اس کے لیے بہت دیر تک مجھ سے چھپ کر رہنا ایک ناممکن سی بات تھی۔
اس لیے میرے گھر آنے کے دو گھنٹے بعد بالآخر مدیحہ کو میرا سامنا کرنا ہی پڑ گیا۔
مگر اپنی بہن کی چدائی کے بعد پہلی دفعہ اپنے گھر میں ہمارا آمنہ سامنا ہونے کے باوجود میں نے اپنی امی کے سامنے اسے ایسے ہی شو کیا جیسے ہمارے درمیان کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
پھر جب امی کسی کام کے لیے کچن میں گئیں تو میں نے اپنی جیب سے نکال کر مدیحہ کو گولیوں کا پیکٹ دیا اور بولا کھانے کے فوراً بعد اس پیکٹ میں سے ایک گولی نکال کر کھا لینا مدیحہ۔
میری بات سنتے ہوئے مدیحہ نے اپنے ہاتھ میں تھامی گولیوں کی طرف دیکھا اور پھر حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کوئی سوال کر پاتی، امی دوبارہ کمرے میں داخل ہو گئیں۔ جس کی وجہ سے میری بہن گولیوں کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔
پھر امی کے سونے کے بعد رات کے ایک بجے میں اپنے کمرے سے اٹھ کر دبے پاؤں اپنی بہن مدیحہ کے کمرے میں داخل ہوا تو بستر پر چادر لپیٹ کر لیٹی اپنی بہن مدیحہ کو اپنا منتظر پایا۔
آپ رات کے ایک بجے اپنی جوان بہن کے کمرے میں کیا کرنے آئے ہیں بھائی؟ مجھے آہستہ سے دروازہ کھول کر چوروں کی طرح اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر بستر پر لیٹی میری بہن نے مجھے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
رات کی تنہائی میں اس وقت تمہارا بھائی نہیں بلکہ تمہارا یار تمھارا عاشق تم سے ملنے آیا ہے میری جان۔ مدیحہ کی شوخی بھری بات کا جواب دیتے ہوئے میں
نے دروازے کی کنڈی لگائی۔ اور اپنے کپڑے اتار کر بستر پر موجود اپنی گرم بہن کے پہلو میں جا لیٹا۔ تو چادر کے نیچے مدیحہ پہلے ہی سے ننگی حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔
ہائے تم تو اپنے سارے کپڑے اتار کر پہلے سے ہی چدنے کے لیے تیار لیٹی ہوئی ہو مدیحہ۔ میرے ہاتھوں نے چادر کے نیچے سے اپنی بہن کے گرم جسم کو جونہی چھوا تو اپنی بہن کو میرے انتظار میں یوں ننگا لیٹا ہوا پا کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی تو میں نے خوشی کے عالم میں اپنی بہن کے کان میں سرگوشی کی۔
آج دن میں اپنی چوت آپ سے چدوانے کے بعد سے اب تک میری پھدی آپ کے لن کی طلب میں پاگل ہو رہی ہے، اس لیے بغیر کوئی وقت ضائع کیے
بغیر میری چوت میں اپنا لن ڈال دو بھائی۔ میری بات کے جواب میں مدیحہ نے نہایت بے شرمی سے فرمائش کی۔ اوراٹھ کر بستر پر بیٹھتے ہوے اپنے جمس پر پڑی چادر اتار دی تو اپنی سگی بہن کے جوان گرم اپنی نظروں کے سامنے یوں عریاں دیکھ کر میرا لن بھی فل تن گیا اورمیرے لیے بھی اپنی بہن سے مزید دور رہنا ناممکن ہو گیا
اس کا مطلب ہے کہ جوانی کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے میری جان۔ اپنی بہن کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے مدیحہ کو الٹا کیا اور پھر اپنے
لن پر کنڈوم چڑھا کر گھوڑی بنی اپنی بہن کی چوت میں اپنا لوڑا ڈال دیا۔
ہاے کیا سخت اورمزے دار لن ہے میرے عاشق بھائی کا اج دوسری بار جب میرا لورا اپنی ہی سگی بہن کی چوت میں گھسا تو مدیحہ نے مزے کے مارے سسکارتے ہوے میری بہن اہستہ سے بولی
اور پھر اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیلا اورمیرے لمبے موتے لورے کو اپنی گرم پیاسی چوت میں پورا جزب کر لیا
اس کے ساتھ ہی کمرے میں دو جوان اور سگے بہن بھائی کا ایک نیا زوردار اور گرم جنسی کھیل شروع ہوگیا
اس رات پھر میں نے دو بار اپنی بہن مدیحہ کی چوت کا مزہ لیا۔ اور پھر اپنے لن کا پانی آخر کار کنڈوم میں ہی نکالا اور تقریبن صبح کے اوجالا ہونے اور امی کے اٹھنے سے پہلے ہی اپنے کمرے میں آ کر سکون کی نیند سو گیا۔
اس دن کے بعد تو جیسے میری زندگی میں بہار ہی آ گئی تھی۔ کیونکہ اگلے ایک ہفتے کے دوران میں اور مدیحہ نے اپنی رہی سہی شرم بھی اتار پھینکی اور ہم دونوں بہن بھائی آپس میں کافی کھل گئے
جس کی وجہ سے ہمیں جب بھی موقع ملتا تو ہم گھر اور ڈیرہ دونوں جگہ پر کھل کر چدائی میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اور میں اپنی بہن کو مختلف انداز میں
چودنے کے ساتھ ساتھ میں نے نہ صرف مدیحہ کو اپنے لن کی چسائی پر آمادہ کیا۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی بہن کو 69 اسٹائل سے بھی روشناس کروا کر اس کی چوت کو جنسی مزے کی ایک نئی منزل پار پہنچا دیا۔
چونکہ ہمارا ڈیرہ گاؤں سے کافی ہٹ کر تھا۔ جہاں پر چاروں طرف صرف ہماری اپنی زمین تھی۔جس کی وجہ سے ہمیں ڈیرے کی طرف گاؤں کے عام لوگوں کا آنا جانا بہت ہی کم تھا۔
اس لیے مدیحہ کے ساتھ ڈیرے پر کسی روک ٹوک اور ڈر کے بغیر چدائی کرنے میں مجھے زیادہ مزہ آتا تھا۔
ایک دن جب مدیحہ ڈیرے پر آئی تو میرے دماغ کو نہ جانے کیا سوجھا کہ میں اپنے اور مدیحہ کے سارے کپڑے اتار کر اپنی بہن کے ساتھ ننگی حالت میں ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھ گیا۔
چونکہ ٹیوب ویل کی چھت پر سے ہمارے کھیتوں کے چاروں طرف بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
چونکہ ٹیوب ویل کی چھت پر سے ہمارے کھیتوں کے چاروں طرف بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
اس لیے میں نے بغیر کسی خوف اور خطرے کے اپنی بہن کو گھوڑی بنا کر چھت کی دیوار کے ساتھ لگا کر الٹا کیا
اس روز کھلے آسمان تلے دن کی روشنی میں اپنی ہی بہن سے رنگ رلیاں مناتے ہوئے مجھے بہت مزہ آیا۔
ٹیوب ویل کی چدائی کے دوسرے دن مدیحہ ڈیرے پر آئی اور مجھے کھانا دے کر خود کمرے سے باہر نکل گئی۔
کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اپنے کھیتوں کو پانی دینے کے لیے ٹیوب ویل کو آن کیا اور پھر خود بھی کمرے سے باہر آ گیا۔
تو اپنی بہن مدیحہ کو ٹیوب ویل کے ساتھ بنی ہوئی پانی کی حوض میں کپڑوں سمیت نہاتے ہوئے دیکھا۔
خیریت تو ہے آج گھر کی بجائے ٹیوب ویل پر ہی نہانا شروع کر دیا ہے تم نے مدیحہ" اپنی بہن کو اس کے کپڑوں سمیت پانی کی حوض میں مزے سے اچھلتے کودتے دیکھ کر میں نے مدیحہ سے سوال کیا۔
جب آپ مجھے اپنے گھر کے کمرے کی بجائے ٹیوب ویل کی چھت پر چڑھا کر چود سکتے ہیں، تو میں گھر کی بجائے اپنے ٹیوب ویل پر نہا کیوں نہیں سکتی بھائی
میرے سوال کے جواب میں مستی سے پانی میں اپنے ہاتھ مارتے ہوئے مدیحہ نے جواب دیا۔ تو اپنی بہن کے گیلے بدن کو دیکھ کر میرے لوڑے میں بھی جوش آ گیا۔
اچھا تو چلو دونوں مل کر نہاتے ہیں پھر" مدیحہ کی بات کے جواب میں بولتے ہوئے میں نے اپنے کپڑے اتارے اور پھر دوڑتے ہوئے میں بھی پانی کی حوض میں چلا گیا۔
پانی کی حوض میں آتے ہی میں نے ایک ایک کر کے اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کے سارے کپڑے اتار کر حوض سے باہر پھینکے۔اور پھر ہم دونوں بہن بھائی مل کر پانی کی حوض میں ایک ساتھ نہانے لگے۔
ٹیوب ویل سے آتے تیز پانی کے نیچے نہاتے ہوئے ہمیں بہت مزہ آ رہا تھا۔
نہانے کے دوران میں مدیحہ کے جسم سے چمٹتے ہوئے اپنی بہن کے ممے اور چوت کو چھیڑ رہا تھا۔ جبکہ جواب میں مدیحہ بھی میرے لن سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں مصروف تھی۔
جس کی وجہ سے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کے باوجود ہمارے جسموں میں جوانی کی گرمی چڑھتی جا رہی تھی۔
اچھا مدیحہ تم میری گود میں بیٹھ کر اپنی چوت میں میرا لن ڈالو اور میرے لن اور اپنی چوت میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرو میری جان" تھوڑی دیر کی چھیڑ چھاڑ کے بعد جب ہم دونوں بہن بھائی بہت گرم ہو گئے۔ تو حوض کے ایک کونے میں بیٹھتے ہوئے میں نے مدیحہ سے کہا۔
ٹھیک ہے آپ نیچے بیٹھیں میں آپ کے اوپر چڑھ کر آپ کے لن کی گرمی نکالتی ہوں بھائی" میری بات کا جواب دیتے ہوئے مدیحہ نے اپنا منہ ڈیرے کے دروازے کی طرف اور اپنی کمر میری طرف کرتے ہوئے میرے تنے ہوئے لن کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں اس طرح ایڈجسٹ کیا۔
کہ جس کی وجہ سے میرا لن اب اپنی بہن کی گیلی چوت کے پھولے ہوئے لبوں سے رگڑ کھانے لگا تھا۔
اوہ آپ کے سخت لن کا کیا مزہ ہے بھائی" اپنی ٹانگوں کے درمیان پھنسے ہوئے میرے موٹے سخت لن کے اوپر اپنی چوت کو تیزی سے سرکاتے ہوئے مدیحہ نے سسکی بھرتے لہجے میں مجھے کہا۔
اس کے ساتھ مدیحہ نے اپنی گانڈ کو ہلکا سا نیچے لاتے ہوئے حوض کے پانی میں کھڑے میرے لوڑے کو اپنی مٹھی میں قابو کیا۔
اور ساتھ ہی میرے موٹے سخت لن کو پانی میں اپنی پانی پانی ہوتی ہوئی پیاسی چوت پر ٹکا دیا
اف کیا گرم چوت ہے تمہاری مدیحہ" ٹیوب ویل کی حوضی کے ٹھنڈے پانی میں بھی اپنی بہن کی چوت کی تپش کو اپنے لن میں محسوس کرتے ہی میں نے نیچے سے اوپر کی طرف دھکہ مارا۔
تو ایک میزائل کی طرح تیزی کے ساتھ اوپر کو اٹھ کر میرا لن اپنی بہن کی چوت کے نشانے پر جا لگا۔ اور میرے لن کے ساتھ ساتھ حوض کا تھوڑا سا پانی بھی میری بہن کی چوت میں داخل ہو گیا۔
ہائے آپ سے اپنی چوت مروا کر ہر بار ایک نیا مزہ ملتا ہے مجھے" میرے لن کے جھٹکے کے ساتھ ساتھ چوت کے چولے اور پھدی کی دیواروں سے ٹکرانے والے حوضی کے پانی سے پیدا ہونے والی لذت کی وجہ سے مدیحہ لذتوں کی نئی منزل پر پہنچتے ہوئے چلّا اٹھی۔
اس کے ساتھ ہی مدیحہ میری گود میں بیٹھ کر اوپر نیچے ہوتے ہوئے مجھ سے اپنی چوت چدوانے لگی۔
اور میں پانی میں بیٹھ کر اپنی بہن کی چوت کو مزے سے چودنے لگا۔
اب ٹیوب ویل کے پانی میں دو جوان ننگے جسم جل رہے تھے۔ اور ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو چود کر اپنے جسم کی گرمی کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
ٹیوب ویل کی حوضی کے بہتے پانی میں ہماری چدائی کی وجہ سے "فچا فچا فچا فچا، فکا فک فکا فک" کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔
کچھ دیر یوں ہی اپنی بہن کی زور دار چدائی کے بعد مجھے یوں لگا کہ جیسے میں اپنے لن کا پانی چھوڑنے والا ہوں۔
کیونکہ میں نے آج اپنی بہن مدیحہ کی چدائی کے دوران کنڈوم نہیں پہنا ہوا تھا۔
اس لیے میں اپنے لن کا پانی اپنی بہن کی چوت میں چھوڑنے کی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا تھا۔
مدیحہ میں چاہتا ہوں کہ تم اب میرے لن کو اپنی چوت سے نکال کر اسے اپنے منہ میں لو، اور میرے لوڑے کا چوسا لگا کر میرا پانی نکال دو میری جان تھوڑی دیر مزید اپنی بہن کو چودنے کے بعد میں نے مدیحہ کو اپنے لن سے اتارا اور پھر اپنی بہن سے فرمائش کی۔
اچھا لو میں ابھی اپنے منہ سے اپنے بھائی کے لن کو ٹھنڈا کر دیتی ہوں" میری بات سنتے ہی مدیحہ میری گود سے اٹھی اور میری کھلی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھ کر اس نے اپنا منہ کھولا۔
اور اپنی چوت کے جوس سے بھرے ہوئے میرے لوڑے کو اپنے منہ میں لے کر مزے سے میرا لن چوسنے لگی۔
اوہ چوسو میرے لن کو میری بہن میری جان" اپنی گانڈ کو اٹھا کر اپنی بہن کے گرم منہ میں اپنے لوڑے کو زور سے ٹھونستے ہوئے میں مزے سے چلّا رہا تھا۔ اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر میری سگی بہن اپنے بھائی کے سخت لوڑے کو چوسنے میں مصروف ہو گئی۔
میری بہن کا میرے لن کو چوسنے کا انداز اتنا سیکسی اور مزے دار تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا لن جوش کے عالم میں جھٹکے کھانے لگا۔ اور ساتھ ہی میرے منہ سے خود بخود سسکیاں جاری ہو رہی تھیں "اوہ ہائے
اب ٹیوب ویل کی حوضی میں صورتحال یہ تھی کہ ادھر اپنی بہن کے منہ کے ذائقے کی وجہ سے جوں جوں میرے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کی رفتار تیز ہو رہی تھی، توں توں میری بہن کے چوسنے کی رفتار بھی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔
جس کی وجہ سے چند ہی لمحوں بعد میں ایک تیز "آہ" بھر کر اپنی سگی بہن کے منہ کے اندر ہی ڈسچارج ہو گیا۔ تو میرے لن کے گرم مادے سے میری بہن کا منہ اور ہونٹ پوری طرح بھر گئے۔
"اوہ کیسا لگا میرے لن کا پانی میری جان" اپنے لن کے گاڑھے مادے کو اپنی بہن کے منہ میں چھوڑتے ہوئے میں نے مدیحہ سے پوچھا۔
اوہ آپ کے لن کا یہ نمکین پانی بہت ہی ذائقہ دار ہے بھائی" میرے لن کے لیسدار مادے کو اپنے حلق میں اتارتے ہوئے مدیحہ نے جواب دیا اور پھر اٹھ کر میرے پہلو میں آ بیٹھی
اس دن چدائی کے دوران ہم دونوں بہن بھائی اتنے مگن ہوئے کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
پھر اپنی چدائی کے بعد ہم دونوں بہن بھائی جب تھک ہار کر پانی کی حوضی میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں اپنے پیچھے سے ہمیں غصے بھری ایک آواز سنائی دی "یہ کیا چل رہا ہے یہاں
یہ آواز سنتے ہی ہم دونوں نے اپنے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ تو پیچھے دیکھتے ساتھ ہی ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں بیٹھے ہونے کے باوجود ہم دونوں بہن بھائی کے پسینے چھوٹ گئے۔کیونکہ ادھر اس وقت کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی سگی امی ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔ اور غصے سے لال سرخ منہ کے ساتھ وہ اپنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھ ری تھیں
اوہ امی آپ اور یہاں؟ اپنی امی کے ہاتھوں اپنے ہی سگے بھائی کے ساتھ یوں ننگے نہاتے ہوئے پکڑے جانے پر مدیحہ کے منہ سے ایک دم نکلا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ پانی سے نکل کر پاس پڑے اپنے گیلے کپڑوں سے اپنے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کمرے کی طرف دوڑ گئی۔
لے وئی راحیل پتر آج تو تُو لورے لگ گیا ہے دوست۔ مدیحہ کے کمرے میں جاتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے امی کو آہستہ آہستہ پانی کی حوض کے نزدیک آتے دیکھا۔
اچھا ہوا کہ امی نے ہم دونوں کو چدائی کرتے ہوئے نہیں پکڑ لیا، ورنہ آج تو امی کے ہاتھوں ہم دونوں نے قتل ہی ہو جانا تھا۔ امی کو غصے بھری حالت میں اپنے نزدیک آتا دیکھ کر میں نے سوچا۔
مگر اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک اور بات آئی کہ جوان بہن کے ساتھ ڈیرے پر یوں کھلے عام ننگا نہانا بھی تو کوئی کم جرم نہیں، جس کی سزا امی سے ضرور ملے گی مجھے، مگر اب جو بھی ہو مجھے ہر حالت میں مردانہ وار اپنی امی کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔
میں اپنی انہی سوچوں میں مگن تھا کہ اتنے میں امی حوض کے کنارے کے بالکل قریب آ کر کھڑی ہو گئیں۔
میں اس دوران ابھی تک پانی میں ننگا ہی بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ میرا جسم پانی میں ہونے کے باوجود بھی میرے اتنے نزدیک کھڑی ہونے کی وجہ سے امی کو میرے جسم کا نچلا حصہ اور خاص طور پر میرا نیم کھڑا ہوا لن حوض کے صاف پانی میں واضح نظر آ سکتا تھا۔
تم دونوں کیا کر رہے تھے؟ امی نے میرے قریب آ کر کھڑے ہوتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔
کچھ نہیں ہم تو دونوں بس نہا رہے تھے امی۔ اپنی امی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں بولا۔
بکو مت اور اٹھ کر پانی سے فوراً باہر نکلو خبیث انسان۔ میری بات کے جواب میں امی نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چیختے ہوئے بولیں۔
امی کی بات سنتے ہی میں گھبرا کر ایک دم پانی سے نکلا اور اسی طرح اپنی ننگی حالت میں ہی اپنی امی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
مجھے پانی سے نکل کر اپنے سامنے کھڑا ہوتے دیکھتے ہی امی کی نظر میرے گیلے جسم پر پڑی۔ اور پھر میرے جسم کو دیکھتے دیکھتے ان کی نظر میری ٹانگوں کے درمیان ڈھیلے پڑتے میرے لن پر بھی جا ٹکی۔
اب یہاں کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو، جاؤ اور جا کر اپنے کپڑے پہنو بے غیرت۔ میری ٹانگوں کے درمیان میرے لورے کو ایک شان سے ادھر ادھر جھولتا دیکھ کر امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور انہوں نے فوراً ہی مجھ سے نظریں چراتے ہوئے ایک بار پھر چیختے ہوئے مجھے کہا۔
امی کا غصے بھرا حکم سنتے ہی میں اپنی جگہ سے ہلا اور زمین پر بکھرے اپنے کپڑے اٹھا کر مدیحہ کی طرح میں نے بھی ڈیرے کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔
دوڑتے ہوئے میں ابھی کمرے کے دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ میری نظر مدیحہ پر پڑی جو اپنے کپڑے پہن کر کھانے کے برتن اٹھائے کمرے سے باہر نکل رہی تھی۔
شرم کے مارے مدیحہ کی آنکھیں اس وقت جھکی ہوئی تھیں۔ اس لیے وہ میری طرف دیکھے اور کوئی بات کیے بغیر ہی خاموشی سے گھر کی طرف چل پڑی۔
اپنی بہن کے باہر جاتے ہی میں کمرے میں داخل ہوا اور جسم کو خشک کیے بغیر ہی میں نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہن لیے۔
کپڑے پہن کر میں باہر آیا تو دیکھا کہ مدیحہ کے ساتھ ساتھ امی بھی گھر واپس جا چکی تھیں۔
اُف شکر ہے کہ امی چلی گئی ہیں، ورنہ انہوں نے تو مار مار کر میرا حشر کر دینا تھا آج۔ ڈیرے کے کمرے سے باہر آ کر جب میں نے امی کو موجود نہیں پایا تو دل میں یہ بات سوچتے ہوئے میں نے سکھ کا سانس لیا۔
بظاہر تو امی یہاں سے گھر چلی گئی ہیں، لیکن پتہ نہیں گھر جانے کے بعد امی مدیحہ سے نہ جانے کیا سلوک کریں گی، اور جب شام میں گھر لوٹوں گا، میری پھر واپسی پر نہ جانے وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گی آج۔ اپنی امی اور بہن کے گھر جانے کے بعد میرا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے باقی کا سارا دن چارپائی پر لیٹ کر میں آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کر فکرمند ہوتا رہا۔
مجھے اس دن کو ہونے والے واقعے کے بارے میں سوچتے سوچتے شام ہو گئی۔ تو پھر میں نہ چاہتے ہوئے بھی گھر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
تجھے بڑا شوق تھا نا اپنی ہی بہن کی کنواری چوت کو چودنے کا، اب بہن چود تو لی ہے، تو اب اس کا نتیجہ بھی بھگتو بیٹا۔ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر میرے دل میں یہ بات آئی۔ تو آنے والے لمحے کو سوچتے ہوئے میرا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا
جب اُڑتا تیر بنڈ میں لیا ہے تو انجام تو بھگتنا ہی پڑے گا تمہیں بچے، اس لیے اب سوچ مت اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر لو راحیل۔ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے میرے دل میں یہ دوسرا خیال آیا۔ تو پھر دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گھر کے دروازے پر دستک دے ہی دی۔
دروازے پر دستک دیتے ہی گھر کا دروازہ ایک دم سے کھلا۔ تو اپنی بہن مدیحہ کو میں نے اپنے سامنے کھڑا پایا۔
اوہ امی کی ڈانٹ اور مار کے بعد تو مدیحہ کو اس وقت اپنے کمرے میں بند ہو کر رونا دھونا چاہیے تھا، مگر یہ تو اس وقت میرے سامنے یوں کھڑی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اپنے اندازے کے برعکس اپنی بہن کو یوں مطمئن حالت میں میرے لیے دروازہ کھولتے دیکھ کر مجھے بہت ہی حیرت ہوئی۔
امی کدھر ہیں مدیحہ؟ میں نے دروازے پر کھڑے کھڑے سوال کیا۔
وہ باتھ روم میں نہا رہی ہیں۔ میری بات کے جواب میں مدیحہ دھیمی آواز میں بولی۔
تو گھر آ کر کیا کہا تم سے امی نے؟ مدیحہ کی بات سنتے ہی میں نے فوراً ایک اور سوال کیا۔
کچھ بھی نہیں۔ میری بات کا اسی دھیمے انداز میں جواب دیتے ہوئے مدیحہ بولی۔
کیا؟ اپنی بہن کے جواب پر میں نے مدیحہ کے چہرے کی طرف دیکھا اور حیرت زدہ انداز میں میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
ہمیں یوں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے بعد بھی امی نے گھر آ کر تم سے کوئی سوال جواب نہیں کیا، یہ کیسے ممکن ہے مدیحہ؟ اپنی بہن کی بات سنتے ہوئے میں نے حیرانی سے اسے دیکھا اور بولا۔
ہاں گھر آ کر واقعی ہی امی نے مجھے کچھ نہیں کہا، جس پر مجھے بھی بہت حیرانی ہے۔ اپنی بات کے جواب میں مجھے یوں ایک دم حیران ہوتا دیکھ کر مدیحہ نے جواب دیا۔
اپنی امی کے اس رویے پر میں ایک شاک میں آیا اور پھر شاک کی حالت میں ہی چلتا ہوا گھر کے اندر داخل ہو کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
میں کافی دیر تک اپنے کمرے میں ہی قید ہو کر اپنی امی کے اس غیر متوقع ردعمل کے بارے میں سوچتا رہا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو امی کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کرتا رہا۔
مجھے گھر واپس آئے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ ہو چلا تھا۔ جب اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے امی کی آواز میرے کان میں گونجی "کھانا لگ گیا ہے آ جاؤ سب
دن والے واقعے کے بعد اپنی امی کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی تھی
اس لیے امی کی آواز سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میں بوجھل قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا ہوا کچن میں جا پہنچا۔
کچن میں جاتے ہوئے مجھے امی اور مدیحہ وہاں پہلے سے موجود نظر آئیں۔ مگر مگر میرے کچن میں داخل ہوتے وقت نہ تو مدیحہ اور نہ ہی امی نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور نہ ہی کوئی بات کی۔
اپنی امی کا انداز دیکھ کر میرے دل کو تھوڑی سی تسلی ہوئی۔ تو میں نے سالن کے ڈونگے سے اپنے لیے کھانا لیا اور کچن کے ایک کونے میں پڑے موڑے پر بیٹھ کر خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔
ہمارے گھر کے کچن میں تین افراد کی موجودگی کے باوجود کھانا کھانے کے دوران کچن میں ایک پرسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اور یہ خاموشی مجھے آگے آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد جب ہم سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو امی نے سر اٹھا کر میری اور مدیحہ کی طرف دیکھا اور بولیں "مدیحہ تم اپنے کمرے میں جاؤ اور راحیل تم ادھر ہی رکو میں نے تم سے بات کرنی ہے۔
امی کی بات سنتے ہی مدیحہ نے پریشانی کے عالم میں ایک دم میری طرف دیکھا۔ مگر پھر امی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی۔
مدیحہ کے باہر جاتے ہی امی نے سارے برتن سمیٹے اور انہیں کچن کے سنک میں رکھتے ہوئے واپس میری طرف پلٹیں اور مجھے دیکھتے ہوئے ایک دم غصے سے بولیں "یہ سب کتنی دیر سے چل رہا ہے راحیل۔
امی کی بات سنتے ہی میں ڈر تو گیا۔ مگر اس کے باوجود میں نے معصومانہ انداز میں ڈرتے ڈرتے امی سے پوچھا "کیا امی جی۔
تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیا پوچھ رہی ہوں۔ میرے اس معصومانہ سوال پر امی نے مجھے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
آج چونکہ گرمی بہت تھی، جس کی وجہ سے ہم نے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی میں ایک ساتھ نہانے کی غلطی کر لی، مگر یقین مانیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا ہم نے امی جی۔ امی کے ڈانٹنے پر میں نے ایک بار پھر معصوم بنتے ہوئے اپنی امی کی بات کا جواب دیا۔
اچھا تو تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کوئی بھی جوان لڑکی کسی بھی جوان لڑکے کے سامنے یوں ہی اپنے کپڑے نہیں اتار دیتی راحیل۔ میری بات سنتے ہی امی نے غصے سے ایک دم چنگھاڑتے ہوئے مجھے کہا۔
آپ میرا اعتبار کریں، ہم واقعی ہی نہا رہے تھے امی جان۔ امی کی بات کے جواب دیتے ہوئے میں پھر ہلکی آواز میں بولا
اچھا اگر یہ بات ہے تو مدیحہ نے ان گولیوں کو کیوں اپنے کمرے میں چھپا کر رکھا ہوا ہے پھر” میری بات ختم ہوتے ہی امی نے اپنی بند مٹھی کھولی۔
اور مجھے حمل روکنے والی وہ گولیاں دکھا دیں جو میں نے اپنی بہن کے لیے گجرات سے خریدی تھیں۔
اب اپنی امی کی اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس موقع پر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔
ویسے ان گولیوں کے ساتھ ساتھ ڈیرے کے کمرے سے مجھے کچھ اور چیز بھی ملی ہے” یہ کہتے ہوئے امی نے کچن کی الماری کھولی۔ اور کنڈومز کے تین غیر استمعال شدہ پیکٹس نکال کر میرے سامنے رکھتے ہوئے بولیں “تم انہیں کدھر استعمال کرتے ہو راحیل
افف گھر تو گھر امی تو ڈیرے پر بھی میری ساری خفیہ جگہوں کے بارے میں جانتی ہیں یار” اپنے سامنے پڑے ہوئے کنڈومز دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی امی کی بات کا کوئی جواب دے پاتا۔ میری امی مجھ پر ایک اور بم گراتے ہوئے بولیں۔ “ان سب کے علاوہ تمہیں ایک اور چیز بھی دکھاتی ہوں میں
وہ کیا ہے امی جان” اپنی امی کی بات کے جواب میں سوالیہ نظروں سے امی کو دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا۔
یہ دیکھو یہ ہے وہ کنڈوم ہے جسے استعمال کرنے کے بعد تم اسے کچرے میں پھینکنا بھول گئے تھے شاید” میری بات کے جواب میں امی نے اپنے بریزر میں ہاتھ ڈالا۔ اور میرا ایک تازہ استعمال شدہ کنڈوم اپنے بریزر سے نکال کر میرے سامنے لہرانا شروع کر دیا۔
یہ کنڈوم میں نے ایک رات پہلے ہی اپنی بہن مدیحہ کو چودنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اور چدائی کے بعد اتار کر جلد بازی میں اپنی بہن کے پلنگ کے نیچے پھینک دیا تھا۔
لگتا ہے امی نے پوری تیاری سے ہم دونوں بہن بھائی کو پکڑا ہے، لے بچو تو تو لورے لگ گیا آج راحیل” اپنے لن کی منی سے بھرے کنڈوم کو اپنی نظروں کے سامنے اپنی امی کے ہاتھ میں جھولتا دیکھ کر حیرت سے میرا منہ اس لیے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
کیونکہ ایک رات پرانا ہونے کے باوجود بھی میرے لن کا گاڑھا پانی کنڈوم میں ابھی تک پوری طرح سوکھا نہیں تھا۔
“مجھے جواب دو یہ سب کیا ہے راحیل” یہ ساری چیزیں میرے سامنے رکھنے کے بعد امی نے غصے میں مجھ سے سوال کیا۔
ہاں میں مانتا ہوں کہ جوانی کے جذبات میں بہک کر ہم دونوں نے آپس میں گناہ بڑا کام کیا ہے، مگر یقین جانیے یہ سب کچھ ہم سے انجانے میں ہوا ہے امی جان” اپنی نظروں کے سامنے پڑے ہوئے اتنے سارے ثبوت دیکھتے ہوئے کسی بات سے انکار کرنا اب میرے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔ اس لیے ڈرتے دل کے ساتھ بلا آخر میں نے اپنے جرم کا اقرار کر کے شرم سے اپنی نظریں جھکا لیں
اپنی امی کے سامنے اپنی ہی سگی بہن کو چودنے کا اقرار کرنے کے بعد میں تو اس امید میں تھا۔ کہ میری بات ختم ہوتے ہی امی پر قیامت ٹوٹ پڑے گی اور پھر غصے کے عالم میں وہ مجھ پر تھپڑوں اور لاتوں کی برسات کر دیں گی۔
مگر ان سب باتوں کے برعکس میری بات ختم ہوتے ہی جب امی کی طرف سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی۔ تو حیرانی کے عالم میں ڈرتے ڈرتے ہوئے میں نے اپنی نظریں اٹھا کر اپنی امی کے چہرے کی طرف دیکھا۔
تو مجھے ان کے چہرے پر سنجیدگی تو نظر آئی۔ لیکن امی کی آواز کے برعکس غصے کا کوئی نام و نشان امی کے چہرے پر موجود نہیں تھا۔
تمہیں اپنی ہی بہن کے ساتھ ہم بستری کرنے سے پہلے یہ خیال نہیں آیا، کہ اگر کسی اور کو اس بارے میں علم ہو گیا، تو گاؤں میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی، اور پھر اس کے بعد تمہاری بہن سے شادی کون کرے گا راحیل” میری بات ختم ہوتے ہی مجھ پر غصہ ہونے یا ڈانٹنے کی بجائے امی نے میری طرف دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں مجھے کہا۔
آپ کہہ تو صحیح رہی ہیں، مگر آپ فکر مت کریں، میں کروں گا مدیحہ سے شادی” اپنے ہی سگے بچوں کے بارے میں اپنے ہی بیٹے کے منہ سے گناہ کبیرہ والی بات سن کر غصے بھرے کوئی ردعمل دینے کی بجائے امی کو نارمل انداز میں مجھ سے بات کرتے دیکھ کر مجھے حیرت تو بہت ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی میرا حوصلہ بھی بڑھ گیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے اپنی امی سے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی
ایک تو تم نے اپنی ہی بہن سے زنا کیا ہے اور اوپر سے اپنی ہی سگی بہن سے شادی کے سپنے دیکھنے لگے ہو، کیا تم پاگل تو نہیں ہو گئے، تم جانتے ہو ایسا ہونا ناممکن ہے راحیل۔ میری بات سنتے ہی اس بار امی کے چہرے پر ہلکا سا غصہ آیا اور وہ ایک دم بول پڑیں۔
ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا، ہم ساری زمین بیچ کر کراچی چلے جائیں گے، جہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا اور وہاں میں اور مدیحہ میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ لیں گے امی جی۔ امی کے سامنے اپنا گناہ قبول کرنے کے بعد ان کے رویے سے میرا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ اب میں کھل کر اپنے دل کی بات اپنے منہ پر لے آیا
اپنی ہی بہن کا کنوارا پن لوٹ کر، اب اسے اپنی بیوی بھی بنانا چاہتے ہو تم، بہت خوب میرے بیٹے، کیا میں نے اسی دن کے لیے تجھے پال پوس کر جوان کیا تھا حرام خور۔ میری بات سن کر امی نے پہلی بار غصے والا منہ بناتے ہوئے مجھے جواب دیا۔
میں اور مدیحہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اب، اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو بے شک مدیحہ سے پوچھ لیں آپ۔ اپنی امی کے غصے بھرے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر امی سے یہ بات دہرائی۔
اپنی بہن مدیحہ سے پیار کرنے والی بات سن کر امی نے میری بات کے جواب میں خاموشی اختیار کی۔ تو میں نے بھی اب کی بار امی سے مزید کوئی اور بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
کچن میں اس وقت اب ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جس کے دوران ہم دونوں ماں بیٹا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر خاموشی سے ایک دوسرے کے منہ کو دیکھے جا رہے تھے۔
تھوڑی دیر یوں ہی اپنی امی کو خاموشی سے دیکھنے کے بعد میں نے ادھر مزید بیٹھنا ٹھیک نہیں لگا۔
اس لیے میں ایک دم وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلتے ہوئے بولا اچھا خدا حافظ میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں امی۔
رکو میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ابھی راحیل۔ مجھے کچن سے باہر جاتے دیکھ کر امی نے پیچھے سے آواز دی۔
کوئی تو بات نہیں، اب میں آپ سے کل صبح بات کروں گا امی جان۔ اپنی امی کو جواب دیتے ہوئے میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اپنے بستر پر بیٹھ کر میں دن کو پیش آنے والے واقعے اور پھر امی کے رویے کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔
دن کی روشنی میں کھلے آسمان کے نیچے اپنی ہی جوان بہن کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے اپنی ہی امی کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ، اسی وقت ہم دونوں کو اپنے ہی ہاتھوں مار کر امی خود بھی خود کشی کر لیتیں، یا پھر اپنی ہی جوان بہن کا کنوارا پن ختم کرنے کے جرم میں امی مجھے اپنے گھر سے بے دخل کر دیتیں، مگر ان سب باتوں کے برعکس، امی بہت ہی پرسکون نظر آ رہی ہیں، تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے بھلا۔ اپنی امی کے محتاط رویے کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آ رہے تھے اور میں اس سوچ میں گم تھا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ مگر ہزار بار سوچنے کے باوجود بھی مجھے اس کیا کالا ہے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
سوچتے سوچتے امی کا اپنے موٹے مموں کے درمیان سے میرے لن کے مادے والے بھرے ہوئے کنڈوم نکالنے والی بات میرے ذہن میں دوبارہ سے چلی آئی۔ تو میں نے اپنے آپ سے خود کلامی کی اوہ امی نے میرے لن کے گرم پانی سے بھرے ہوئے کنڈوم کو اپنے مموں کے درمیان اپنے بریزیئر میں چھپا کر کیوں رکھا تھا، مدیحہ کے ساتھ ساتھ امی کو بھی میرے لن کی طلب تو نہیں ہو رہی کہیں۔
اس بات کے بارے میں سوچتے سوچتے امی کا چہرہ اور ان کا جسم کا سراپا میرے ذہن میں ایک دم سے دوڑنے لگا،
ہائے میری امی فاخرہ کی عمر تو تقریباً 50 سال ہے، مگر گھر اور کھیتوں میں کام کاج کرنے کی وجہ سے عمر کے لحاظ سے ان کا جسم کافی فٹ ہے۔
جس کی وجہ سے امی اپنی عمر سے کافی کم کی لگتی ہیں، امی کا رنگ کافی صاف اور گورا ہے اور ان کا قد بھی کافی اونچا ہے اور ان کے لمبے اور گھنے بال تو ان کی
پرسنلٹی کو مزید جاذب نظر بناتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر امی کے موٹے بڑے ممے تو قیامت ہیں بس۔ آج پہلی بار اپنی امی کے جسم کو یوں اپنے تصور میں لا کر سوچتے ہوئے میرے لن میں ایک دم ہلچل مچ گئی اور میرا لن ہڑ کر میری شلوار میں ایک دم کھڑا ہو گیا۔
ابو کو فوت ہوئے کافی وقت ہو گیا ہے، اس لیے ایک عورت ہونے کے ناتے امی کو ان کے لن کی کمی تو ضرور محسوس ہو رہی ہو گی، اگر میں اپنی ہی سگی بہن کی کنواری چوت کو چود کر اسے اپنی بہن سے اپنی معشوقہ بنا سکتا ہوں، تو میں اپنی امی کو چود کر ان کی بیوگی کا دکھ کم کیوں نہیں کر سکتا بھلا۔ یہ بات سوچتے ہوئے میرے ذہن میں پہلی بار اپنی امی کے بارے میں ایسا خیال آیا۔ تو شلوار میں ہڑے میرے لن میں مزید سختی آنے لگی
کیا میں ابھی امی کے کمرے میں جاؤں اور ان کے بستر میں گھس کر ان کی چوت میں اپنا لن ڈالوں اور ان کی بیوہ چوت کو پھر سے آباد کر دوں”
اپنے بستر پر بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں یہ خیال آیا۔ تو شلوار کے اوپر سے اپنے لن کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے میں نے سوچا۔
نہیں مجھے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اگر امی کے بارے میں میرا خیال غلط نکلا، تو اس بار امی یقیناً مجھے جان سے مار دیں گی” اپنے ذہن میں امی کی چدائی کا خیال آتے ہی میرے لن کو گرمی تو بہت چڑھی۔ مگر میں نے اپنے آپ کو امی کے کمرے میں جانے سے بمشکل روکا اور پھر اپنے دل کو قابو میں کرتے ہوئے بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا۔
مجھے سوئے ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے کوئی میرے کمرے کا دروازہ کھول کر چپکے سے میرے کمرے میں داخل ہوا ہے۔
رات کے تقریباً 12 بجے اپنے کمرے میں کسی اور شخص کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی میں اپنی نیند سے ایک دم بیدار ہو گیا اور فوراً پوچھا “کون ہے”
“میں ہوں تمہاری امی راحیل” مجھے اپنی نیند سے ایک دم جاگتا دیکھ کر امی نے آہستہ سے کہا۔
آپ اور اس وقت میرے کمرے میں، خیریت تو ہے نا امی جان” رات کے پچھلے پہر امی کو یوں دبے پاؤں میرے کمرے میں آتے دیکھ کر مجھے بہت حیرت تو ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی رات کی تنہائی میں امی کو اپنے کمرے میں موجود پا کر میرے سوئے لن نے ایک بار پھر میری شلوار میں انگڑائی لینا شروع کر دی۔
ہاں تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی بیٹا” امی نے دروازے پر کھڑے کھڑے مجھے جواب دیا۔
اچھا تو آپ نے ساری بات دروازے پر کھڑے کھڑے ہی کرنی ہے، ادھر آئیں اور میرے پاس بیٹھ کر بات کر لیں امی” اپنی امی کو یہ بات کہتے ہوئے میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔
میری بات سن کر امی نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولیں “نہیں میں ادھر ہی ٹھیک ہوں راحیل
امی آپ کا یوں دروازے پر کھڑے رہنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا، آپ میری بات مانیں اور جو بھی بات کرنی ہے ادھر میرے پاس آ کر کریں پلیز” میں امی کے جواب میں بولا۔
میری بات سن کر امی نے چند لمحے کچھ سوچا اور پھر بغیر دوپٹے کے آہستہ آہستہ قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی میرے ساتھ میرے بستر پر آ تو بیٹھیں۔ مگر ان کے چہرے پر بدستور ہچکچاہٹ چھائی ہوئی تھی۔
“جی امی ایسی کون سی بات ہے جسے کرنے کے لیے آپ صبح ہونے کا انتظار نہیں کر سکتی تھیں”
میں نے امی کی لون کی قمیض سے چھلکتے ان کے بھاری مموں پر اپنی نظر جماتے ہوئے پوچھا۔
تو آدھی رات کے وقت اپنی امی کو پہلی بار یوں بغیر دوپٹے کے اپنے ساتھ ایک ہی پلنگ پر بیٹھا دیکھ کر میرے جسم میں گرمی اور لن میں جوش آنے لگا تھا۔
“تمہارے کچن سے اٹھ کر آنے کے بعد سے اب تک میں یہی بات سوچتی رہی ہوں، کہ تم کو اپنی بہن کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا راحیل میری بات کے جواب میں امی نے اپنی نظریں اوپر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا۔ اور مجھ سے ٹیوب ویل پر میری اور مدیحہ کی چدائی کی بات دوبارہ شروع کر دی۔
مگر امی کی بات پر توجہ دینے بجائے مجھے تو اپنے پاس بیٹھی امی کے جسم سے اٹھنے والی ان کے گداز جسم کی بہنی بہنی خوشبو نے بے حال کر دیا۔ اور مدیحہ کے ساتھ ساتھ مجھے اب اپنی امی کے جسم کی بھی طلب ہونے لگی تھی۔
آپ کی بات صحیح ہے، مگر یقین مانیں ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوا وہ سب جوش و جذبات اور بے اختیاری میں ہوا ہے امی جان” امی کی بات سن کر میں نے ایک بار پھر امی کے سراپے پر بھرپور نگاہ ڈالی اور آہستہ سے امی کی بات کا جواب دیا۔
اور ساتھ ہی بے خیالی میں اپنے پاس بیٹھی امی کے ہاتھ میں دوستانہ انداز میں اپنا ہاتھ ڈال کر اپنی امی کے ہاتھ کو اپنی انگلیوں کے پنجے میں جکڑ لیا۔
اُف چھوڑو میرا ہاتھ راحیل” میری اور امی کی ہتھیلی آپس میں ٹچ ہوتے ہی ہم دونوں ماں بیٹے کو ایک کرنٹ سا لگا۔ تو امی نے اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے ایک دم چھڑا لیا۔
بے اختیاری کے بچے، اگر میری جگہ گاؤں کا کوئی اور شخص ڈیرے پر آ کر تم دونوں بہن بھائی کو ٹیوب ویل پر اس حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا، تو جانتے ہو اس بات کا کیا انجام ہونا تھا راحیل” اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے نکالتے ہی امی نے تھوڑا غصے بھرے انداز میں کہا۔
امی آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ہمارے ٹیوب ویل کی حوضی میں کھڑے ہو کر ہمارے کھیتوں میں میلوں تک دیکھا جا سکتا ہے، اور یہی وجہ تھی کہ مدیحہ کے ساتھ حوضی میں نہاتے ہوئے میں اپنے کھیتوں کے چاروں طرف دیکھ بھی رہا تھا، اس لیے اگر گاؤں کی طرف سے کوئی شخص ہمارے ڈیرے کی طرف آتا، تو میں اسے کافی دور سے دیکھ سکتا تھا، مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میری نظروں سے بچ کر آپ کیسے ڈیرے پر آ گئیں امی” میں نے یہ کہتے ہوئے اپنی امی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میری بات سنتے ہی امی کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل سا گیا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ہی امی کی آنکھوں میں مجھے ایک چیز بھی دکھائی دی۔ جو شکیلہ کی چدائی کے بعد میں نے اپنی بہن مدیحہ کی آنکھوں میں بھی دیکھ چکا تھا۔
اور وہ چیز تھی ایک گرم عورت کی جنسی پیاس کی چمک۔
شکیلہ کی چدائی کے بعد اپنی بہن مدیحہ کی آنکھوں کی اس چمک کو پرکھنے میں مجھے تھوڑا وقت لگا تھا۔
لیکن مدیحہ کی چدائی کے بعد آج اپنی امی کی آنکھوں میں بھی جنسی بھوک کی وہی چمک دیکھ کر مجھے سارے معاملے تک پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔
افففففففف اس کا مطلب یہ ہے کہ مدیحہ کی گولیاں اور میرے کنڈومز امی نے آج نہیں پکڑے، بلکہ یہ سب چیزیں کچھ دن پہلے ان کے ہاتھ لگی ہیں، اور ڈیرے پر آج امی کی آمد اتفاقیہ نہیں تھی، بلکہ آج امی جان بوجھ کر ایسے راستے سے ڈیرے پر آئیں تھیں، کہ جہاں سے آتے ہوئے وہ ہماری نظر میں نہ آ سکیں، تاکہ وہ چپ کر اپنے بچوں کی چدائی کا نظارہ کر سکیں” امی کی آنکھوں میں موجود چدائی کی پیاس کو دیکھ کر مجھے ایک ہی لمحے میں نہ صرف سارے معاملے کی سمجھ آ گئی۔
بلکہ مدیحہ اور میری چدائی کا علم ہونے کے باوجود ہم دونوں سے غصہ نہ کرنے کا سبب بھی مجھے پتہ چل گیا۔ اور اسی وجہ سے میرے لن کی گرمی مزید تیز ہوتی چلی گئی۔
لگتا ہے امی کے جسم میں بھی جنسی پیاس کی آگ لگی ہوئی ہے، اس لیے میرے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے جس کا فائدہ اٹھا کر مدیحہ کے ساتھ ساتھ میں اپنی امی کی چوت کا مزہ بھی چکھ سکتا ہوں” رات کی تاریکی میں اپنی امی کے ساتھ ایک ہی بستر پر بیٹھے ہوئے میرے دل میں اس خیال نے جنم لیا۔ تو دل ہی دل میں میں نے اپنے آپ کو آنے والے لمحے کے لیے تیار کر لیا۔
تم کن سوچوں میں پڑ گئے ہو، مجھے جواب دو کہ تم نے اپنی بہن کا پیچھا چھوڑنا ہے کہ نہیں راحیل” میرے پاس بیٹھی امی نے جب مجھے گم سم اپنی سوچوں میں مگن دیکھا تو میری طرف دیکھتی ہوئی بولیں۔
ٹھیک ہے آپ کے کہنے پر میں مدیحہ سے اپنا تعلق ختم کر سکتا ہوں، مگر میرا کیا بنے گا امی جان” یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ کو پاس بیٹھی اپنی امی کی گوشت بھری ران پر رکھ کر شلوار کے اوپر سے اپنی امی کی گداز ران کو اپنے ہاتھ سے ہلکا سا دبایا۔ تو امی کی ران سے نکلنے والی گرمی کی لہر نے میرے پورے وجود کو گرم کر دیا۔
اففففففففف امی کی رانوں میں اتنی گرمی ہے، تو ان کی چوت میں تو پوری آگ ہی لگی ہو گی یار” اپنی امی کی ٹانگ کی تپش کو شلوار کے اوپر سے اپنے ہاتھ پر محسوس کرتے ہی میرے دل میں یہ خیال آیا۔ تو مزے کے مارے میرے ہاتھ کا دباؤ امی کی ران پر بڑھتا چلا گیا۔
ٹھیک ہے میں کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر تمہاری شادی کر دیتی ہوں بیٹا” اپنی ٹانگ پر رکھے ہوئے میرے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے امی نے میری بات کا جواب دیا۔ تو میرا حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے ہاتھ کو امی کی ران پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کر دیا۔
شادی تو ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے میں ابو کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد میں سے اپنا پورا حصہ وصول کرنا چاہتا ہوں امی” امی کی بات کے جواب میں ڈرتے ڈرتے میں بولا۔ اور ساتھ ہی میرے ہاتھ نے اب اپنا رخ آہستہ آہستہ امی کی ران کے اندرونی حصے کی طرف کر لیا۔
امی اپنی ران پر پھرنے والے میرے ہاتھ کی حرکت کو محسوس تو کر رہی تھیں۔
مگر اس کے باوجود انہوں نے مجھے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے میرے ہاتھ کا دباؤ اپنی امی کی ران پر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
اس دوران میں نے محسوس کیا کہ جونہی میرے ہاتھ نے امی کی رانوں کے اندرونی حصے کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ تو میرے ہاتھ کی حرکت سے امی کے جسم میں ایک اکڑ سی بھی آنے لگی تھی۔
اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہونے کی حیثیت سے ابو کی وفات کے بعد سب کچھ تمہارا ہی تو ہے، اس لیے جائیداد سے پورا حصہ وصول کرنے والی تمہاری بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی راحیل” میری بات کے جواب میں امی نے حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
آپ جانتی ہیں کہ باپ کی چھوڑی ہوئی ساری چیزوں پر بیٹے کا حق ہوتا ہے، ویسے تو میں نے ابو کی ساری چیزوں پر اپنا قبضہ پکا کر لیا ہے، مگر ان کی چھوڑی ہوئی سب سے قیمتی چیز ابھی تک میری دسترس سے باہر ہے، اور آج موقع آ گیا ہے کہ میں اس پر بھی اپنا حق جتا لوں امی جان۔
میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ یہ بات کہی اور اپنے ہاتھ کو اپنی امی کی چوت کے نزدیک لے آیا۔
سیدھی سیدھی بات کرو، کیوں پہیلیاں بجھا رہے ہو راحیل۔ اپنی چوت کے انتہائی نزدیک پہنچے ہوئے میرے ہاتھ کی گرمی کو محسوس کر کے امی کی سانسوں میں تیزی آنے لگی۔
اصل میں اپنی بہن مدیحہ کی کنواری چوت کو چود کر مجھے اپنے ہی گھر کی چوت کا چسکا پڑ گیا ہے، اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ اب اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی چوت میں اپنا لن ڈال کر ابو کی ساری جائیداد کا پورا مالک بن جاؤں امی جی۔
یہ بات کہتے ہوئے میں نے امی کی ران پر چلتے ہوئے ہاتھ کو آگے بڑھایا اور شلوار کے اوپر سے اپنی امی کی چوت کو ایک دم اپنی گرفت میں کر لیا۔
میرے ہاتھ نے جونہی پہلی بار اپنی امی کی چوت کو چھوا، تو جذبات کی شدت سے امی کے منہ سے بے اختیاری میں ایک گرم سسکی نکل گئی "اوہہہ"۔
اپنے منہ سے سسکی نکلنے کے باوجود امی نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر اپنی چوت پر جمے ہوئے میرے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے الگ کیا۔ اور ایک دم بستر سے اٹھ کر غصے کے عالم میں بولیں، "اپنی اس گندی حرکت اور اس بکواس پر شرم آنی چاہیے تمہیں راحیل"۔
میں تو امی سے کی جانے والی اس حرکت کے جواب میں امی کی گالیوں اور تھپڑوں کی امید لگائے بیٹھا تھا۔
مگر جب میری اس حرکت کے جواب میں امی صرف زبانی غصہ نکال کر کمرے سے باہر جانے لگیں۔
تو مجھے سمجھ آ گئی کہ امی کی چوت میں جنسی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور اب ان کے منہ پر نظر آنے والا غصہ نقلی ہے۔
اس بات نے میری ہمت مزید بڑھا دی اور اس کے ساتھ ہی میں بھی بستر سے اٹھا۔ اور باہر جاتی اپنی امی کی کمر میں پیچھے سے ہاتھ ڈال کر میں نے ان کو اپنی طرف کھینچ لیا۔
تو میری شلوار میں تنا ہوا میرا لن پیچھے سے امی کی گانڈ کی موٹی موٹی پھاڑیوں میں پھنسنا شروع ہو گیا۔
تم پاگل ہو گئے ہو، مجھے جانے دو، مت بھولو میں تمہاری امی ہوں راحیل"۔ میرے لن کی سختی کو اپنی بھاری گانڈ پر محسوس کرتے ہی امی نے اپنے آپ کو میری بانہوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔
امی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ابو کی وفات کے بعد آپ کے جسم کی جنسی پیاس اتنی بڑھ چکی ہے، کہ اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے آپ اپنے ہی سگے بچوں کی چدائی دیکھ دیکھ کر مزے کرتی رہی ہیں"۔ میں نے امی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی گرم زبان سے اپنی امی کی گردن کو چومتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اوپر کیا
اور اپنی امی کی بھاری موٹی چھاتیوں کو قمیض کے اوپر سے اپنے قابو میں کرتے ہی ان کو آہستہ آہستہ دبانا اور مسلنا شروع کر دیا۔
کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم، چھوڑو مجھے راحیل"۔ اپنی بھاری چھاتیوں سے میرے ہاتھوں کے ٹچ ہوتے ہی امی کے جسم کو کرنٹ لگا۔ اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے جسم کو میری قید سے چھڑانے کی کوشش کی۔
آپ بے شک اپنے منہ سے میری کہی گئی بات کا اقرار نہ کریں، مگر آپ کی آنکھوں میں تیرتی جنسی پیاس مجھے بتا چکی ہے، کہ آپ نہ صرف میری اور مدیحہ کی چدائی کو چھپ چھپ کر دیکھتی رہی ہیں، بلکہ آپ کی چوت میں میرے لن کی آگ بھی لگی ہوئی ہے امی جان"۔ میں نے اپنی امی کے موٹے مموں کو اپنے ہاتھوں میں زور سے مسلتے ہوئے یہ بات اپنی امی سے کہی۔
نہیں میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا راحیل، ہٹو پیچھے اور جانے دو مجھے"۔ میری بات کا جواب دیتے ہوئے امی نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔
آپ چاہے جو مرضی کہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے لن کی طلب ہی کی وجہ سے آپ میرے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم کو اپنے ان موٹے مموں کے درمیان رکھنے پر مجبور ہو گئی تھیں امی جی"۔ امی سے بات کہتے ہوئے میں نے اپنے ایک ہاتھ کو امی کے ممے سے ہٹا کر نیچے لایا۔ اور پھر اپنے ہاتھ کو امی کی ایلاسٹک والی شلوار کے اندر ڈال کر اپنی امی کی چوت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اپنی امی کی چوت کی تپش کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر محسوس کرتے ہی مجھے ایسا لگا کہ میں نے کسی تندور میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔
میں نے جونہی امی کی گرم چوت پر ہاتھ رکھ کر اس کے پھدی کے لبوں کو ہاتھ سے مسلا، تو میرے ہاتھ کے دباؤ اور مزے کے مارے امی کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی "ہائے نہیں کرو نہ راحیل"۔
جیسے ہی امی کی سسکاری سنی مجھے جوش آیا اور میں نے اپنا منہ امی کے کان کے پاس لے جا کر بولا۔ "اف آپ کی چوت تو مدیحہ سے بھی زیادہ گرم اور پیاسی ہے، بس آپ مجھے ایک موقع دیں تو میں آپ کی پیاسی چوت میں اپنا لن ڈال کر آپ کی بیوہ زندگی میں پھر سے بہار کر دوں گا امی جان
اپنی امی سے یہ بات کہتے ہوئے میں نے امی کی شلوار میں گھسے ہوئے ہاتھ کو امی کی چوت پر زور زور سے پھیرتا رہا۔
تو میرے ہاتھ کی مہربانی سے امی کی چوت مزید گرم ہو کر اپنا پانی چھوڑنے لگی۔ جس کی وجہ سے امی کی چوت سے بہنے والا یہ پانی ان کی پھدی سے نکل نکل کر امی کی گداز رانوں کو گیلا کرنے لگا۔
امی کی چوت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے چند ہی لمحے بعد میں نے محسوس کر لیا کہ امی کی نام نہاد مزاحمت اب دم توڑ رہی ہے۔
اس لیے اپنی امی کو مزید گرم کرنے کے لیے میں نے اپنی ایک انگلی کو چوت کے دانے پر رکھ کر اسے مسلنا شروع کر دیا۔
تو اس کے ساتھ ہی میرے ہاتھ کے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے امی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا۔ اور پھر اپنی جنسی پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے خودی کے عالم میں آخر کار امی چلّا اٹھیں۔ "اف کیا اب اپنے ہاتھ سے ہی میری چوت کا سارا پانی نکالو گے، یا اپنے لن کا حل چلا کر اپنے ابو کی چھوڑی ہوئی بنجر زمین کو پھر سے آباد بھی کرو گے راحیل
یہ کہتے ہوئے امی نے اپنے جسم کو پیچھے کی طرف دھکیلا۔ اور اپنی گداز گانڈ کو زور زور سے میرے ہیرے ہوئے سخت لن پر رگڑنا شروع کر دیا۔
اوہ میرا لن تو آپ کی پیاسی زمین کو پانی لگانے کے لیے کب سے تیار ہے، بس آپ کی رضا مندی کا انتظار تھا امی جان" امی کی مستی بھری آواز سن کر مجھے بھی جوش آیا۔ اور میں نے ایک ہی جھٹکے میں اپنی امی کی قمیض اور شلوار کو اتار کر انہیں زمین پر پھینک دیا۔
اب امی میرے سامنے اس حالت میں کھڑی تھیں کہ ان کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ ان کے جسم پر صرف ایک برازیئر اور انڈروئیر باقی بچا رہ گیا تھا۔ اور برازیئر اور پینٹی میں ملبوس امی کا گورا دودھ کی طرح صاف جسم میرے لن پر بجلیاں گرا رہا تھا۔
امی کے گرم پیاسے جسم کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے میں نے بھی جلدی سے اپنی شلوار قمیض اتاری اور پھر اپنی امی کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
اوہ ہائے میں آپ کے حسین بدن کے پیچھے پاگل ہو رہا ہوں امی
یہ کہتے ہوئے میں نے پیچھے سے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اپنی امی کی پینٹی میں ڈالا اور اپنی امی کی چوت کے دانے سے کھیلنے لگ گیا۔
ساتھ ہی ساتھ میں نے اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پتھر کی طرح سخت لن پر رکھ دیا اور بولا "دیکھیں میرا لن کیسے بے چین ہو رہا ہے آپ کی چوت میں جانے کے لیے امی
اوہ تمہارے لن کے ساتھ ساتھ میری پھدی بھی بہت مچل رہی ہے تمہارے لن سے چدوانے کے لیے بیٹا" میرے لن کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لیتے ہوئے امی نے کہا۔ اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے میرے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی۔
اب کمرے میں حالت یہ تھی کہ میں امی کے پیچھے کھڑا ہو کر اپنی امی کی پینٹی میں ہاتھ ڈالے ان کی چوت کے لبوں اور پھدی کے چھولے کو اپنے ہاتھ سے رگڑ اور مسل رہا تھا۔
جبکہ میری امی اپنے جوان بیٹے کے موٹے سخت لن کو اپنے ہاتھ میں لے کر مٹھ لگاتے ہوئے مجھے مزہ دے رہی تھیں۔ اور ہم دونوں کے منہ سے مزے بھری سسکاریاں نکل کر کمرے کے ماحول کو مزید رنگین بنا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر مزید اپنی امی کی چوت کو اپنے ہاتھ سے گرم کرنے کے بعد میں نے امی کے برازیئر کی ہک کھول کر اپنی امی کے موٹے بڑے کبوتر (ممے) کو پنجرے کی قید سے آزاد کیا۔ اور ساتھ ہی اپنی امی کی پینٹی بھی اتار کر اپنی امی کو اپنے ہی ہاتھوں مکمل ننگا کر دیا۔
آپ بستر پر گھوڑی بن کر لیٹ جائیں، میں آپ کی چوت کو پیچھے سے چودنا چاہتا ہوں امی جی" اپنی امی کو پورا ننگا کرنے کے بعد میں نے ان کو پیٹ کے بل بستر پر لٹایا۔ تو اس انداز میں امی کی بھاری گانڈ پیچھے سے ہوا میں اٹھ گئی۔
"اف کیا فٹ بال جیسی گول گانڈ ہے آپ کی امی جان"
اپنی امی کی ہوا میں اٹھی ہوئی گانڈ کی دونوں بھاری بھاری پھاڑیوں کو اپنے ہاتھ میں تھام کر زور سے مسلتے ہوئے میں بولا۔
امی کی گانڈ کے پیچھے بیٹھ کر میں نے جونہی امی کی موٹی پھاڑیوں کو اپنے ہاتھ سے کھولا۔ تو امی کی پھولی ہوئی پیاری چوت میری آنکھوں کے سامنے کھلتی چلی گئی
اففف لگتا ہے کہ میرے گھر کی عورتیں اپنی چوت کی صفائی کا بہت خیال رکھتی ہیں” مدیہحہ کی طرح اپنی امی کی بنا بالوں والی چوت کو دیکھ کر میں نے کہا۔
اور ساتھ ہی اپنی انگلی کو تھوک لگا کر اپنی امی کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا
اففف اب ڈال بھی دو نا اپنا لن میری چوت میں، کیوں ترسا رہے ہو اپنی امی کو بیٹا” اپنی پانی چھوڑتی چوت پر میری تھوک بھری انگلی کو محسوس کرتے ہی گھوڑی بنی میری امی کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔
ذرا صبر کریں، کیوں آپ کی چوت کو چودنے سے پہلے میں آپ کی چوت کا ذائقہ چکھنا چاہتا ہوں امی جان” اپنی امی کی بے قراری کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے یہ بات کہی اور ساتھ ہی اپنا منہ کھول کر اپنی امی کی چوت پر اپنی گرم زبان گھما دی۔
چوت چاٹنے کا یہ تجربہ امی کے لیے بالکل نیا تھا۔ اس لیے میری گرم زبان کے چوت سے ٹکراتے ہی امی لذت کے مارے سسکاریاں لینے لگیں اور بولیں “افف تمہارے مرحوم ابو نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں میرے ساتھ کبھی یہ کام نہیں کیا، جو تم میرے ساتھ اس وقت کر رہے ہو راحیل”
“اوہ ابو کا تو مجھے پتہ نہیں، مگر آپ کی چوت کے اس نمکین سواد نے مجھے پاگل کر دیا ہے امی” اپنی امی کی بات کے جواب میں دیوانہ وار اپنی امی کی چوت کو چاٹتے ہوئے میں بھی سسکارا۔
“ہائے آج میرا اپنا بیٹا ہی مجھے جنسی لذت کی نئی دنیا سے روشناس کروا رہا ہے” میری چوت چاٹنے سے بے حال ہوتے ہوئے امی بولیں۔
امی کی ان باتوں نے میری گرم جوشی میں اضافہ کر دیا اور میں کچھ دیر یوں ہی اپنی امی کی چوت کو چاٹ چاٹ کر امی کی چوت کو گیلا کرتا رہا۔
جب میں نے اپنی امی کی چوت کو اچھی طرح سے اپنے لن کے لیے تیار کر لیا، تو میں اٹھ کر اپنی امی کی گانڈ کے پیچھے آیا۔
اور اپنے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی امی کی چوت کے لبوں کے درمیان رگڑا۔
اففف بیٹا” اپنی بیوگی کے اتنے مہینوں بعد آج پہلی بار ایک جوان لن کو اپنی چوت کے لبوں سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے امی زور سے سسکار اٹھیں۔
میرے لیے یہ لمحہ ایک خواب سے کم نہیں تھا کہ میں رات کی تاریکی میں اپنے کمرے میں اپنی ہی سگی امی کی چوت پر اپنے سخت لن کو رگڑ رہا تھا۔ اور میری امی میرے گرم اور سخت لن کو اپنی چوت کے لبوں سے چھوتا ہوا محسوس کر کر مزے سے سسکیاں لے رہی تھیں۔
اس لیے اپنی امی کی چوت پر اپنا لن رگڑتے ساتھ ہی میرے لیے اب اپنی ماں کی چوت سے مزید دور رہنا ناممکن ہو گیا۔
تو اپنے لن کو ہاتھ میں تھامے ایک لمحے کے لیے میں امی کی چوت سے علیحدہ ہوا۔
اور دوسرے ہی لمحے ایک دم آگے کو بڑھتے ہوئے میں نے اپنے لن کو پیچھے سے اپنی والدہ ماجدہ کی اس چوت میں گھسا دیا۔ جس پھدی نے آج سے کئی سال پہلے مجھے اپنی کوکھ سے نکال کر اس دنیا میں جنم دیا تھا۔
اوہ راحیل” میرے لن کے چوت میں گھستے ہی مستی بھری آواز امی کے منہ سے نکلی۔
تو اپنی امی کی گرم سسکی سن کر مزے سے میں بھی سسکار اٹھا “افف فاخرہ”
ہائے پھدی میں لن ڈالتے ہی امی سے ایک دم فاخرہ پراگئے ہو تم تو راحیل” میری کہی ہوئی بات سن کر امی بولیں اور ساتھ ہی اپنی گانڈ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے میرے لن کو اپنی چوت میں پورے کا پورا جذب کر لیا۔
ہاں کیونکہ میرے لن کو چوت میں لیتے ہی امی سے بیوی جو بن گئی ہو آپ، میری فاخرہ بیگم
امی کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے ان کی گانڈ کی بھاری پھاڑیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔ اور اپنی امی کی چوت میں زور زور سے اپنے لن کے جھٹکے مارنے لگا۔
ہائے میں تو لن کا سواد ہی بھول گئی تھی، مگر میری چوت میں اپنا جوان لن ڈال کر تم نے واقعی ہی میری بیوہ چوت کو پھر سے سہاگن کر دیا ہے، اوہ چودو مجھے راحیل، میرے سرتاج
افف تمہاری چوت تو تمہاری بیٹی کی چوت سے بھی زیادہ مزے دار ہے فاخرہ بیگم
اپنی امی کی بات سنتے ہی میں اپنے دونوں ہاتھوں سے امی کے موٹے موٹے سیکسی چوتڑ سختی سے پکڑ کر تیزی سے امی کو چودنے لگا۔
پورے کمرے میں میری اور امی کی لذت بھری آوازیں گونج رہی تھیں۔ “آہ افف افف میں مر گئی افف بیٹا تم بہت اچھی چودائی کرتے ہو، آہ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے اوہ
میں اب طوفانی انداز میں امی کی چوت کو چودنے میں مصروف تھا۔ اور امی بھی اب اپنی گانڈ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے میرے لن کو اپنی چوت میں دبوچے چلی جا رہی تھیں۔
کچھ دیر ایسے ہی گوری بنا کر چودنے کے بعد میں نے امی کی چوت سے اپنا لن نکالا تو میرا لن اپنی امی کی چوت کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔
امی جان، آپ بستر پر سیدھی ہو کر لیٹ جائیں” امی کی چوت سے سے اپنا لن نکال کر میں نے انہیں کمر کے بل سیدھا بستر پر لٹا دیا۔
اففف یہ ہیں نہ وہ ممے، جن کے درمیان آپ نے میرے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم کو چھپا کر رکھا تھا امی جان
بستر پر سیدھا لیٹتے ہی میری نظر پہلی بار اپنی امی کے بڑے اور بھاری مموں پر پڑی۔ تو میں نے امی کے موٹے مموں کے لمبے نپلز پر اپنی گرم زبان گھماتے ہوئے امی سے پوچھا۔
ہاں اور تمہارے لن کے پانی سے بھرے کنڈوم نے میرے مموں میں بھی اتنی ہی آگ لگائی تھی، جتنی آگ اس وقت تمہارا لن میری پھدی میں لگا رہا ہے راحیل” یہ بات کہتے ہوئے امی نے میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر زور سے دبایا۔ تو امی کا پورا نپل میرے کھلے منہ میں گھستا چلا گیا۔
آپ اپنے ان بڑے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ایک ساتھ ملائیں امی” میں نے اپنی امی کے موٹے مموں کو زبان سے چومتے اور چاٹتے ہوئے کہا۔
وہ کس لیے بیٹا” میری بات سن کر امی نے تھوڑی حیرانی سے مجھ سے پوچھا۔
کیونکہ میں آپ کے ان مموں کو اپنے لن کے ساتھ چود کر آپ کے مموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے میرے لن کے پانی کی اتنی عزت افزائی کی ہے امی جان” میں امی کی بات کا جواب دیتے ہوئے اٹھا اور امی کے پیٹ کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
امی نے میرے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو آپس میں جوڑا۔ تو میرا لن میری امی کے موٹے اور بڑے مموں کی قید میں جکڑا گیا۔
اففف آپ کی چوت کے ساتھ ساتھ آپ کے مموں میں بھی بہت گرمی ہے فاخرہ بیگم” اپنی امی کی چوت کے چھوٹے ہوئے پانی سے بھرا ہوا اپنا سخت اور
جوان لن امی کی گداز چھاتیوں کے درمیان رکھتے ہوئے میں نے کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی جوش سے اپنے لن کو اپنی امی کے موٹے اور بھاری مموں کے درمیان تیزی سے رگڑنا شروع کیا۔
تو میرے لن کی گرمی کے ہاتھوں بے حال ہوتے ہوئے امی نے بھی اپنا منہ کھول دیا۔
جس کی وجہ سے میرے لن کا ٹوپا امی کی گرم زبان سے بھی رگڑ کھانے لگا۔
اففف آپ کے گداز مموں کے ساتھ ساتھ آپ کی گرم زبان بھی میرے لن کو پیار کر رہی ہے امی جی” اپنی امی کی زبان کو اپنے لن کے ٹوپے پر محسوس کرتے ہی میں مزے سے چلایا۔
جب میرا بیٹا اپنی امی کی بیوہ چوت میں دوبارہ سے زندگی کی خوشیاں لا سکتا ہے، تو میں ایک ماں سے اپنی ہی بیٹے کی بیوی بن کر اپنے شوہر کو چدائی کا نیا مزہ کیوں نہیں دے سکتی راحیل جانوں” میری بات کے جواب میں میرے لن پر جوش سے اپنی زبان چلاتے ہوئے امی نے کہا۔
تو اپنی بیوی/امی کی یہ بات سن کر جوش کے مارے میرے لن کی نسیں بھی پھولنے لگیں۔
اور اب میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے موٹے لن کو اپنی امی کے بھاری مموں کے درمیان رگڑنے لگا۔
اففف تم نے آج میری چوت اور میرے مموں کو ایک ساتھ چود کر یہ ثابت کر دیا ہے، کہ والد کے بعد ایک ماں کی چوت اور جسم پر صرف اور صرف اس کے سگے بیٹے کا ہی حق ہوتا ہے راحیل” میرے سخت جوان لن کی گرمی کو اپنے مموں کے درمیان محسوس کرتے ہوئے امی کے منہ سے بے ساختہ سسکیاں نکلنے لگیں۔
ہائے اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا، اس لیے میں آپ کے مموں میں ہی اپنے لن کا پانی چھوڑنے لگا ہوں فاخرہ بیگم”
اپنی امی کی بات سنتے ہی میرے لن کا بند ٹوٹ گیا اور میرے لن سے میرا گرم پانی نکل کر امی کے مموں کے ساتھ ساتھ ان کے منہ میں بھی گرنے لگا۔
اوہ تم نے بچپن میں جن چھاتیوں سے دودھ پیا تھا، آج میری انہی چھاتیوں کے درمیان اپنے لن کا گرم پانی انڈیل کر، تم نے اپنے دودھ کا حق ادا کر دیا ہے میرے بیٹے” میرے لن کا گاڑھا مادہ امی کے بڑے مموں اور کھلے منہ میں گرتے ہی مزے کے ساتھ میرے لن کے نمکین پانی کو چاٹ کر اپنے حلق میں اتارتے ہوئے امی نے کہا
اپنی امی کے مموں کے درمیان اپنے لن کا پانی انڈیلتے ہوئے میری نظر کمرے کے دروازے کی طرف گئی۔
تو مجھے مدیحہ نظر آئی جو دروازے پر بت بن کر کھڑی مجھے اور امی کو حیرانی کے ساتھ دیکھنے میں مصروف تھی۔
ہائے اپنی بہن مدیحہ سے کی گئی بے وفائی پر اب اسے کیا جواب دوں گا میں" رات کے اندھیرے میں اپنی بہن مدیحہ کو یوں اچانک کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر میری اور امی کی چدائی دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میں نے گھبرا کر سوچنے لگا۔ تو پھر دوسرے ہی لمحے میری نظر مدیحہ کے چہرے سے ہٹ کر اس کے جسم پر پڑی۔
اف یہ کیا مدیحہ تو اس وقت نہ صرف مکمل ننگی ہے، بلکہ اسی ننگی حالت میں کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر میری اور امی کی چدائی کو دیکھ کر اتنی گرم ہو چکی ہے، کہ وہ اب اپنی چوت کو اپنے ہی ہاتھ سے مسل کر اپنی چوت میں لگی آگ کو ٹھنڈا بھی کر رہی ہے۔
اپنی بہن کو یوں کمرے کی دیوار کے ساتھ لگ کر میری اور امی کی چدائی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی چوت میں اپنی ہی انگلی مارتے دیکھ کر میں نے سکون کا سانس لیا۔ اور پھر امی سے نظر بچا کر اپنی بہن کو کمرے میں آنے کا اشارہ کر دیا۔
میرے اشارے کو سمجھتے ہی مدیحہ نے ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میری طرف دیکھا اور پھر انکار میں اپنا سر ہلا دیا۔
پلیز" مدیحہ کے انکار کو دیکھ کر میں نے نظروں ہی نظروں میں دوبارہ اپنی بہن سے کمرے میں درخواست کی۔ اور اس کے ساتھ ہی امی کے اوپر سے ہٹ کر بستر پر ان کے برابر لیٹ گیا۔
میری التجا بھری نظروں کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے مدیحہ بت بن کر ادھر ہی کھڑی رہی۔
اور پھر کچھ دیر بعد کسی فیشن شو کے ریمپ پر چلنے والی ماڈل کی طرح اپنی گانڈ مٹکاتی ننگی حالت میں ہی میرے بستر کے قریب آ کر کھڑی ہوئی۔
مدیحہ کے خاموشی سے کمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے پہلے پہل تو امی کی نظر اس پر نہیں پڑی۔
مگر کمرے میں آ کر مدیحہ جونہی بستر کے نزدیک پہنچی تو وہ امی کی نظر میں آ ہی گئی۔
اپنی جوان بیٹی کو یوں ننگی حالت میں ایک دم اپنے سامنے پا کر ایک لمحے کے لیے امی کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ مگر انہیں فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ اس صورتحال میں وہ کیسے ردعمل کریں۔
لیکن جیسے ہی امی کو یہ احساس ہوا کہ مدیحہ کے ساتھ ساتھ وہ بھی تو اس وقت مکمل ننگی حالت میں ہیں۔
تو میرے پہلو میں لیٹی میری امی نے تیزی کے ساتھ لپک کر پاس پڑی بستر کی چادر اٹھائی اور اپنے جسم کو ایک دم ڈھانپنے کی کوشش کی۔
مدیحہ باہر کھڑے ہو کر کافی دیر سے ہم دونوں کی چدائی دیکھتی رہی ہے، اور آپ کی بیٹی اب آپ کے جسم کے سارے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے، اس لیے اب اس سے اپنے جسم کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں فاخرہ بیگم" امی کو یوں ایک دم اپنے اوپر چادر لیتے دیکھ کر میں مسکراتے ہوئے بولا۔ اور ساتھ ہی امی کے جسم پر بچھی ہوئی چادر کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر امی کے جسم سے وہ چادر اتار پھینکی۔
اف خدایا، مدیحہ اتنی دیر سے ہم دونوں کو دیکھتی رہی ہے، تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں راحیل" میری بات سنتے ہی امی میری طرف دیکھیں اور اپنے موٹے ننگے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے چھپاتے ہوئے تھوڑا غصے میں بولیں۔
جب آپ چھپ چھپ کر میری اور مدیحہ کی چدائی دیکھتی رہی ہیں، تو اس وقت آپ نے مجھے بتایا تھا، جو اب میں مدیحہ کے بارے میں آپ کو بتاتا امی جان" امی کی بات سنتے ہی میں مسکرایا اور شرارتی انداز میں اپنی امی کو جواب دیا۔
اوہ چونکہ آپ کو اپنے ہی بچوں کی چدائی دیکھنے میں مزہ آتا ہے، اور اسی وجہ سے ٹیوب ویل پر ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے باوجود آپ نے ہمیں کچھ نہیں کہا امی" امی کے متعلق میرے منہ سے نکلنے والے اس راز کو سن کر مدیحہ نے حیرانی سے امی کی طرف دیکھا اور بولی۔
میری بہن کی بات سنتے ہی امی نے شرمندہ نظروں کے ساتھ مدیحہ کی طرف دیکھنا اور شرم کے مارے امی کا منہ لال ہو گیا۔
شرمندہ ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، کیونکہ آج سے آپ دونوں ہی میری عورتیں ہو، اور گھر کے سربراہ کی حیثیت سے آپ دونوں کی جسمانی ضروریات کا ایک ساتھ خیال رکھنا اب میری فرض ہے" امی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھتے ہی میں نے امی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ میں نے اپنی بہن مدیحہ کی طرف اپنا منہ کیا اور بولا "اب ادھر کھڑی کھڑی میرے اور امی کے ننگے جسموں کو ہی دیکھتی رہو گی، یا قریب آ کر مجھے اپنے اس پیاسے جسم کی پیاس بجھانے کا موقع بھی دو گی میری رانی"
"ہائے اس چوت پر اب آپ کا ہی حق ہے، اس لیے اپنی پھدی کو چودنے کا موقع آپ کو نہیں دوں گی تو پھر اور کسے دوں گی بھائی" میری بات سنتے ہی مدیحہ بولی اور پھر بستر پر چڑھ کر بستر پر لیٹی امی کی ٹانگوں کے نزدیک آ بیٹھی۔
مدیحہ کو یوں اپنے اتنے قریب دیکھ کر امی ریلیکس ہونے کی بجائے اور شرما گئیں۔ اور اپنی شرم کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ صرف انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی دونوں ٹانگوں کو ایک ساتھ ملا کر اپنی چوت کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔
امّی کو ابھی تک یوں شرماتے دیکھ کر میں ایک دم جنجلا گیا۔
اس لیے غصے میں آتے ہوئے میں نے آپس میں جڑی ہوئی امّی کی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی کھولا۔ اور امّی کی چوت سے ان کے ہاتھوں
کو بھی ہٹا کر مدیحہ سے بولا، "مدیحہ دیکھو کتنی مزے دار چوت ہے ہماری امّی کی، اُف اس عمر میں بھی امّی کی چوت جوان لڑکیوں کی چوتوں کو پیچھے چھوڑتی ہے
اُففف امّی کی چوت تو واقعی ہی بہت خوبصورت ہے، اسی لیے تو آپ بھی اس کے عاشق بن گئے ہیں بھائی" امّی کی بند ٹانگیں کھلتے ہی جونہی امّی کی چوت پہلی بار مدیحہ کے سامنے پوری طرح عریاں ہوئی۔
تو میری چدائی کی وجہ سے پانی پانی ہوتی اپنی سگی امّی کی پھدی کو دیکھ کر مدیحہ کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اور مزے کے مارے وہ اپنی زبان کو اپنے ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے سسکار اٹھی۔
اپنی امّی کی چوت کو دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے والے مدیحہ کے اس انداز نے میرے ڈھیلے لن میں دوبارہ سے جان پیدا کر دی اور وہ ایک بار پھر سے ہڑ کر کھڑا ہونے لگا۔
تو میں نے بستر پر بدستور اپنی آنکھیں بند کیے لیٹی اپنی امّی پر نظر دوڑائی اور اس کے ساتھ ہی مستی میں آ کر اپنی بہن مدیحہ کے کان میں سرگوشی کی "میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لن سے چدی ہوئی ہماری امّی کی اس پھدی کو میرے سامنے اپنی زبان سے چاٹو میری بہن
میری بات سنتے ہی مدیحہ نے ایک لمحے کے لیے میری طرف دیکھا۔ اور پھر دوسرے ہی لمحے امّی کی کھلی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر اپنی دونوں انگلیوں سے امّی کی چوت کے لب کھول دیے۔
امّی کی چوت کے لبوں کو اپنے ہاتھ سے کھول کر مدیحہ نے اپنا منہ آگے بڑھایا اور امّی کی پنک چوت میں بہتے امّی کی چوت کے نمکین پانی کو اپنی نوکیلی زبان سے چاٹ لیا۔
اوہ، اُففف، ہائے، یہ کیاااااااا کر رہی ہو تم میرے ساتھ مدیحہ" رات کی تاریکی میں اپنے ہی سگے بیٹے کے لن سے چدوانے کے بعد اب اپنی پانی چھوڑتی چوت پر اپنی ہی سگی بیٹی کے گرم لبوں کو محسوس کر امّی نے ایک دم اپنی بند آنکھیں کھولیں اور مزے کے سسکار کر مدیحہ سے کہا۔
ہائے راحیل بھائی سے چدوا کر آپ ان کے لن کا مزہ تو چکھ ہی چکی ہیں، اب آپ اپنی بیٹی کو بھی تو موقع دیں، کہ وہ بھی آپ کی چوت کو اپنے منہ اور زبان سے پیار کر کے آپ سے اپنے پیار کا اظہار کر سکے امّی جان" امّی کی سسکی سنتے ہی مدیحہ نے امّی کی چوت سے اپنا منہ نکال کر انہیں جواب دیا۔
اس کے ساتھ ہی مدیحہ نے اپنے ہاتھ کی تین انگلیاں ایک ساتھ امّی کی چوت کے دانے پر ا نگلی پھیرتے ہوے اپنی انگلی کو امی کی چوت میں ڈالا ور پھر امّی کی چوت کے دانے کو اپنے منہ میں پورا بھر لیا۔
اوہ تم دونوں اپنے لن اور زبان کے مزے دے دے کر مجھے تو پاگل ہی کر دو گے، آہہہ چاٹو اور چاٹو م م بہت مزہ آ رہا ہے مجھے" اپنی چوت میں اندر باہر
ہوتی اپنی سگی بیٹی کی انگلیوں کے ساتھ ساتھ اپنی چوت کے چاولے پر چلتی مدیحہ کی گرم زبان نے امّی کے جسم میں آگ لگا دی۔ تو مزے سے بے حال ہو کر امّی پاگلوں کی طرح بڑبڑانے لگیں۔
اپنی نظروں کے سامنے اپنی بہن کو اپنی ہی سگی امّی کی پیاسی چوت کو یوں دیوانہ وار چٹتے دیکھ کر میرا لن بھی جوش میں پاگل ہونے لگا۔
تو میں امّی کے پہلو سے اٹھ کر بستر پر لیٹی اپنی امّی کے سر کے پیچھے آیا۔ اور پھر پیچھے سے امّی کے سر کے اوپر چڑھ کر اپنے ڈھیلے لن کو امّی کے کھلے لبوں پر پھیرتے ہوئے سسکارا "میرے لن کو اپنے منہ میں لے کر اسے چوسیں اور چوس کر اسے اپنی بیٹی کی چوت کے لیے اچھی طرح سے تیار کریں امّی جان
میری بات سنتے ہی بستر پر لیٹی امّی نے میری آنکھوں میں دیکھا اور پھر اپنا منہ کھول کر اپنی چوت کے پانی سے بھرے میرے لن کا ٹوپا اپنے منہ میں بھر لیا۔
اُففف آپ کی چوت تو چوت، آپ کے تو منہ میں بھی بہت گرمی ہے امّی جان" امّی کے گرم منہ میں اپنے لن کا ٹوپا جاتے ہی مجھے جو مزہ ملا وہ میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر تھا۔
ہائے تمہارا لوڑا بھی تو کتنا گرم اور سخت ہے میرے بیٹے" میرے لن کے ٹوپے کو منہ میں بھرتے ہی امّی کو بھی جوش آیا۔ اور اسی جوش میں انہوں نے میرے لوڑے کو دیوانہ وار چوستے ہوئے میرے لن پر لگے اپنی ہی چوت کے پانی کو اپنے حلق میں اتارنا شروع کر دیا۔
ہائے لگتا ہے آپ ابو کے لن کو کافی چوستی رہی ہیں، اسی لیے تو لن چوسائی میں آپ کو بہت ہی مہارت ہے امّی" امّی کے چوسنے کے مزے سے پاگل ہوتے ہوئے میں نے پوچھا۔
تمہارے ابو نے تو مجھ سے کئی دفعہ لن چوسنے کی فرمائش کی تھی، مگر میں نے اس کام کو گندا سمجھتے ہوئے ہمیشہ ہی انکار کر دیا، لیکن آج تمہارے اس شاندار لن سے چدنے کے بعد مجھے اپنے بیٹے کے آگے انکار کی ہمت نہیں ہوئی راحیل
ہائے میرا لن کتنا خوش نصیب ہے جسے اس کی اپنی سگی امّی کے منہ نے اتنی عزت بخشی ہے" اپنی امّی کی یہ بات سن کر میں مزید جوش میں آ گیا۔
اور اس جوش میں اپنی امی کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے اپنی امی کے منہ کو اس طرح چودنے لگا جیسے وہ امی کا منہ نہیں بلکہ ان کی گرم چوت ہو۔
اب کمرے میں حالت یہ تھی کہ امی کی ٹانگوں کے درمیان لیٹ کر مدیحہ اپنے منہ کے ذریعے اپنی امی کی چوت کا رس پی رہی تھی۔
جب کہ میں امی کے پیچھے سے ان کے سر پر چڑھ کر اپنی امی کے منہ میں اپنا لن پھیلاتے ہوئے اپنی امی کے تنگ اور گرم منہ کے مزے لے رہا تھا۔
اور اپنی چوت پر چلتی اپنی ہی سگی بیٹی کی گرم زبان کے مزے سے بے حال ہو کر امی میرے لن کو کسی لالی پاپ کی طرح چوستی ہوئی خود بھی مزے لے رہی تھیں۔
جب کہ اس دوران "اوہ ہائے اف" قسم کی گرم سسکیاں ہم تینوں کے منہ سے پھوٹ پھوٹ کر کمرے کے ماحول کو مزید رنگین بنا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر اپنی امی سے لن چسوانے کے بعد میرا لن دوبارہ سے اپنی پوری سختی میں آ گیا۔ تو میں نے اپنے لن کو اپنی بہن کی چوت میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا۔
یہ ارادہ کرتے ہی میں نے امی کے منہ سے اپنا لن نکالا۔ اور اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل میں پڑا ہوا کنڈوم کا ایک پیکٹ ہاتھ میں لے کر اسے کھولنے لگا۔
یہ کیا کر رہے ہو راحیل بیٹا" سائیڈ ٹیبل سے کنڈوم کو نکال کر مجھے اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے دیکھ کر امی نے سوال کیا۔
ہائے آپ کی چوت کو چودنے کے بعد اب آپ کی بیٹی کی چوت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا ارادہ ہے، اور مدیحہ کی چوت میں لن ڈالنے سے پہلے کنڈوم اس لیے لگا رہا ہوں، تاکہ مدیحہ پریگننٹ نہ ہو جائے کہیں امی" میں نے کنڈوم کے پیکٹ کو کھولتے ہوئے امی کی بات کا جواب دیا۔
اوہ میں گھر کے صحن میں اپنے پوتے پوتیوں کو کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں، اس لیے آج سے تمہارا کنڈوم استعمال کرنا بند میرے بیٹے" یہ بات کہتے ہوئے امی نے میرے ہاتھ سے کنڈوم چھین کر فرش پر پھینک دیا۔
ہائے امی آپ واقعی ہی چاہتی ہیں کہ مدیحہ میرے بچوں کی ماں بنے" اپنی امی کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے میرے لن میں بجلی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اور میرا لن سانپ کی طرح اپنا پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔
مدیحہ کو چود کر تم نے اپنی بہن کی چوت کا قبضہ تو پہلے ہی حاصل کر لیا ہے، مگر آج سے میں نے تمہاری بہن کی چوت کی رجسٹری بھی تمہارے لن کے نام لکھ دی ہے، اس لیے اب اپنی بہن کے کوکھ میں اپنے لن کا بیج ڈال کر اسے اپنے بچوں کی ماں بنا دو بیٹا" میری بات کا جواب دیتے ہوئے امی نے اپنی گانڈ کو بستر سے اٹھا کر اپنی چوت کو گرم جوشی کے ساتھ مدیحہ کے منہ پر مارا اور مزے سے سسکار اٹھی۔
امی کی بات سنتے ہی میں تیزی سے مدیحہ کے پیچھے آیا اور گھوڑی بنی اپنی بہن کی خوبصورت گانڈ کے درمیان میں اپنا لوڑا رگڑنے لگا
اوہ امی کی باتوں اور آپ کے لن نے میری پھدی میں آگ لگا دی ہے، اس لیے اب جلدی سے میری چوت میں اپنا لن ڈال کر امی کی خواہش کو پورا کر دو بھائی" اپنی گانڈ کی پھاڑیوں میں میرے لوڑے کی گرمی کو محسوس کر کے میری بہن مدیحہ سسکاری۔
اف میرا لوڑا بھی تمہاری چوت سے ملاپ کے لیے بے چین ہو رہا ہے، اس لیے اب میرے لن کے استقبال کے لیے اپنی چوت کو تیار کر لو میری جان اپنی بہن کی بات سنتے ہی میں نے جھٹکا دیا اور امی کے تھوک سے بھرے ہوئے اپنے لن کو گھوڑی بنی اپنی بہن کی چوت میں پیچھے سے گھسا دیا۔
اوہ بھائی کا لوڑا تو پہلے بہت اچھا تھا، مگر بھائی کے لن کو اپنے منہ سے چوسا لگا کر اسے مزید سخت کر دیا ہے، اور اس نوازش کے لیے میری چوت آپ کی بہت ہی شکر گزار ہے امی" بغیر کنڈوم کے میرا ننگا لوڑا جب اپنی بہن کی چوت میں اترا۔
تو میرے گرم لوڑے کو اپنی چوت کی دیواروں کے درمیان سے گزر کر اپنی بچہ دانی کے منہ سے ٹکراتے ہوئے محسوس کر کے میری بہن کے منہ سے سسکی نکل گئی۔
اپنی بہن کی چوت میں اپنا پورا لن ڈالتے ہی میں جوش سے زوردار جھٹکے مارتے ہوئے اپنی بہن کی چوت کو چودنے لگا۔
اف اپنی سگی امی کی چوت کو چٹتے ہوئے، اپنے ہی سگے بھائی کے سخت اور جوان لن سے چدوانے کا موقع کسی قسمت والی بہن کو ہی نصیب ہوتا ہے، اس لیے آج میری چوت کو چود چود کر مجھے اپنے بچے کی ماں بنا دو بھائی" میرے لن کو اپنی چوت کی گہرائی میں تیزی کے ساتھ آتے جاتے محسوس کر کے مدیحہ مزے سے چلا اٹھی۔
ایک تو مدیحہ کی باہر کو نکلی ہوئی دلکش گانڈ کا نظارہ اور اوپر سے اس کی گرم باتوں نے مجھے پاگل کر دیا۔
اس لیے جوش میں آتے ہوئے میں نہ صرف اور تیزی کے ساتھ اپنی بہن کی چدائی میں مصروف ہو گیا۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ میں نے مزے سے پاگل ہوتے ہوئے مدیحہ کے خوبصورت چوتڑوں پر چانٹے مارنا بھی شروع کر دیے۔
اب میں اپنی بہن کی چوت کو زور سے چودتے ہوئے اپنے لن کے ہر دھکے پر طاقت کے ساتھ مدیحہ کے چوتڑوں پر تھپڑ بھی مار رہا تھا۔
جس کی وجہ سے میرے ہر تھپڑ پر مزے اور تکلیف سے تڑپ کر مدیحہ کے منہ سے چیخ نکل جاتی۔ اور مزے سے پاگل ہوتے ہوئے وہ آگے سے اپنے منہ کو اپنی امی کی چوت میں زور سے گھسا دیتی
جس کی وجہ سے امی کو مزید مزہ آتا اور وہ بھی مستی میں سسکیاں لینے لگتیں۔
کیونکہ مدیحہ کے چوتڑ کافی بھاری تھے۔ اس لیے ان پر تھپڑ مارنے کی وجہ سے کافی تیز آواز پیدا ہو رہی تھی۔
اپنی بہن کے گداز چوتڑوں پر بار بار تھپڑ مارنے کی وجہ سے چند ہی سیکنڈز میں مدیحہ کے گورے گورے چوتڑ سوج کر لال ہو گئے۔
افف کیا تم اکیلی ہی امی کی چوت کا مزہ لیتی رہو گی، یا مجھے بھی اپنی امی کی پھدی کا سواد چکھنے کا موقع دو گی مدیحہ" اپنی بہن کی چوت میں پیچھے سے زور دار گھسے مارتے مارتے میں ایک دم آگے کو جھکا۔ اور امی کی چوت سے مدیحہ کے منہ کو ہٹا کر اپنا منہ اپنی امی کی چوت پر رکھ دیا۔
اور پھر اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں اور زبان سے اپنی امی کا موٹا پھدا بھی چوسنے میں مصروف ہو گیا۔
افف اپنی بیوی کی چوت کو چودنے کے ساتھ ساتھ اپنی ساس کی پھدی کو اپنی گرم زبان سے مزہ دینے کے تمہارے اس انداز نے یہ ثابت کر دیا ہے، کہ تم واقعی ہی میرے گھر داماد بننے کے قابل ہو راحیل بیٹا" مدیحہ سے اپنی چوت چٹوانے کے بعد اپنی پھدی پر میری گرم زبان محسوس کرتے ہی امی نے جوش سے اپنی گانڈ اٹھا کر میرے منہ پر رگڑی اور مزے سے چیخ پڑیں۔
اپنی بہن کو چودتے ہوئے مجھے اب کافی وقت ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے میں اب فارغ ہونے کے بہت نزدیک پہنچ چکا تھا۔
اس لیے اپنی بہن کی چوت میں اپنے لن کو ڈالتے ہوئے میں نے اپنی تمام طاقت سے ایک آخری دھکا مار کر اپنے لن کا آخری انچ بھی جڑ تک مدیحہ کی چوت میں اتارا۔
تو اس کے ساتھ ہی میرے لن نے میری بہن کی چوت میں اپنا پانی گرا کر مدیحہ کی پھدی می لن کی سفید منی کا سیلاب بنانا شروع کر دیا۔
میرے لن کے گرم مادے کو اپنی چوت کی گہرائیوں میں گرتے ہوئے محسوس کر کے مدیحہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ اور اپنے منہ کو امی کی پھدی پر زور سے دباتے ہوئے میری بہن چلا اٹھی "اوہ آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی فارغ ہو گئی ہوں بھائی
ادھر میرے لن اور مدیحہ کی چوت نے اپنا اپنا پانی خارج کیا۔ تو امی کی چوت پر لگنے مدیحہ کے منہ کی زور دار رگڑ نے اپنا کام دکھا دیا اور ہمارے ساتھ ساتھ امی کی پھدی بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی۔
اب حالت یہ تھی کہ گوری بنی مدیحہ کی چوت کو پیچھے سے چودتے ہوئے میں اپنی بہن کی کوکھ میں اپنے لن سے گاڑھے سفید کم کی پچکاریاں نکالتے ہوئے اپنی بہن مدیحہ کی چوت کو بھر رہا تھا۔
جب کے امی کی ٹانگوں کے درمیان بستر پر لیٹ کر مدیحہ نہ صرف اپنی چوت کا پانی بھی چھوڑ رہی تھی۔
بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی امی کی چوت سے بہنے والے امی کی پھدی کے نمکین لعاب کو چوس کر اپنے حلق میں اتار رہی تھی۔
جب کم کا آخری قطرہ بھی میرے لن سے نکل کر مدیحہ کی سیکسی چوت کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ تو میں نڈھال ہو کر امی اور مدیحہ کے برابر میں ہی بستر پر لیٹ گیا۔
میں چاہتی ہوں کہ اب تم جلد از جلد ساری زمین جائیداد کو بیچ دو راحیل" اپنی بہن کی چوت سے اپنا لن نکال کر میں جونہی بستر پر کمر کے بل لیٹا۔ تو امی نے اپنی بکھری سانسوں کو سنبھالتے ہوئے مجھ سے کہا۔
ساری جائیداد بیچ دوں، مگر کیوں امی جی" مدیحہ کی زور دار چدائی کی وجہ سے اپنے چہرے پر آنے والے پسینے کو ہاتھ سے پونچھتے ہوئے میں نے امی سے سوال کیا۔
وہ اس لیے کہ اپنے ابو کی وفات کے بعد تم نے نہ صرف اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی زمین کو صحیح طریقے سے سنبھالا ہے، بلکہ اپنی بہن اور اپنی ماں کی چوت کو چود کر، یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ اپنے ابو کی ساری جائیداد کے اصل وارث تم ہی ہو، اسی لیے اب میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنی ساری جائیداد بیچ کر ہم دونوں ماں بیٹی کو کسی دوسرے شہر لے جاؤ، اور پھر میرا گھر داماد بن کر میری اور میری بیٹی کی چوت کو اپنے لن سے چود کر ہم دونوں ماں بیٹی کو مزے دو میری بات کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے امی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔
اوہ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی امی جان" اپنی امی کی یہ بات سنتے ہی مجھے جوش آیا۔
پھر میں بستر سے ایک دم اٹھا اور اپنی امی کو اپنی بانہوں میں لینے کے ساتھ ہی ان کے گداز لبوں کو اپنے منہ میں بھر کر مزے سے چوسنے لگا۔
افف آپ کی یہ بات سن کر میری چوت پھر سے پانی پانی ہونے لگی ہے، کہ اب ہم دونوں ماں بیٹی اپنے ہی بھائی اور بیٹے کی بیویاں بن کر ان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں گی امی جان
امی کی بات سن کر مدیحہ بھی بستر سے اٹھی اور امی کے موٹے مموں پر اپنا منہ رکھ کر اپنی امی کے لمبے نپل کو مزے سے چوستے ہوئے بولی۔
اس رات کے ایک مہینے کے بعد ہی ہم لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر گاؤں سے کراچی شفٹ ہو گئے۔ جہاں میں اور مدیحہ میاں بیوی بن کر ایک ساتھ رہنے لگے
میری بہن مدیحہ میری بیوی بننے کے بعد بہت ہی خوش تھی۔ اور اس خوشی میں اپنی ٹانگوں کو کھولے بستر پر پڑی رہتی اور دن رات دل کھول کر مجھ سے اپنی پھدی مرواتی۔
اپنی بہن سے کی جانے والی اس چودا ی کا صلہ میری بہن مدیحہ نے مجھے ایک بہت ہی پیاری سی بچی کی شکل میں کراچی آنے کے تقریباً 8 مہینے بعد دے دیا۔
اب میں ہر روز رات کو اپنی امی اور بہن کی چدائی ایک ساتھ ایک ہی بستر پر کر کے نہ صرف اپنی امی اور بہن کی پھدیوں کو اپنے لن سے ٹھنڈا کرتا ہوں۔
بلکہ ان دونوں کی چوتوں کو بھی ایک ساتھ چوس کر اپنے منہ سے اپنی امی اور بہن کی چوتوں کو مزہ بھی دیتے ہوئے اپنے آپ سے یہی کہتا رہتا ہوں۔
واہ میری قسمت
ختم شد