- 33
- 16
- 8
قسط نمبر 11
شاہ نے مندی مندی سی آنکھیں کھولیں تو دیا کو خود کو گھورتے ہوئے پایا
وہی ہوا نا جس کا خدشہ تھا شاہ نے دل میں سوچا اور اٹھ بیٹھا
تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔
دیا نے اس سے سخت لہجے میں پوچھا
تم نے ہی روکا تھا اس لیے رک گیا ۔۔۔۔۔
شاہ نے اطمینان سے جواب دیا
میں نے روکا تھا تو تم کیوں رکے ویسے بھی اس وقت میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی
کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا
تم سب سے صلح کر چکی ہو پھر مجھے ہی کیوں اگنور کرتی ہو مجھ سے برے طریقے
سے پیش آتی ہو آخر کیوں
میں تمھاری بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ہوں اور اب تم نکلو یہاں سے
دیا جزبات سے عاری لہجے میں گویا ہوئی
ایسے تو نہیں جانے والا میں پہلے وجہ بتاو۔۔۔۔۔
شاہ جانے کو تیار نہیں تھا وہ وہی اڑ کر بیٹھ گیا
دیا مسلسل اسے گھور رہی تھی
کوئی وجہ نہیں ہے تم جاو یہاں سے
نہیں جاوں گا پہلے وہ وجہ بتاو۔۔۔۔
میں تم سے نفرت کرتی ہوں ۔۔۔سن لیا اب جاو
تم مجھ سے نفرت نہیں کرتی ہو یہ بات میں جانتا ہوں
میں نے کئی بار تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی ہے جسے تم چھپانے کی کوشش کرتی ہو
کوئی نہیں ہے مجھے تم سے محبت ۔۔۔۔۔۔دیا چیخ ہی پڑی تھی
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہی بات کہو ایک بار ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف اسکے محبت ہی محبت تھی
کیوں نہیں جارہے ہو پلیز چلے جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔
دیا منت بھرے لہجے میں بولی
تم کیوں کر رہی ہو مجھے خود سے دور کیوں خود کو اور مجھے تکلیف دے رہی ہو
مان جاو نا اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو مجھے معاف کر دو
میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں
شاہ نے اسکے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے
شاہ کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں
دیا نے روتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے
میں تمھاری زندگی میں شامل ہو گئی تو تمھاری زندگی مشکل ہو جائے گی
میں آج تک اپنے پاپا کے علاوہ کسی سے کلوز نہیں ہو پائی
اپنی نیچر کی وجہ سے
تم سے دور اس لیے رہتی ہوں تاکہ میری وجہ سے تمھیں مشکل نا ہو
اگر میں نے تم سے رشتہ قائم کر لیا نا تمھیں ایک پل کے لیے بھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی
میں اس معاملے میں ایسی ہی ہوں
تم مجھ سے اکتا جاو گے مجھے چھوڑ دو گے اور میں مر جاو گی اگر ایسا ہوا تو ۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
مجھے کچھ ٹائم چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
تم جاو یہاں سے اس پر پھر کبھی بات کریں گے
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھوڑے بہت اچھے ہیں کیا میں ہارس رائیڈنگ کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔
دیا نے شاہ سے فرمائش کی
تمھیں آتی ہے ہارس رائیڈنگ ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
ہاں آتی ہے تھوڑی بہت ۔۔۔۔۔
دیا اور شاہ نے اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی
آج وہ دونوں فارم ہاوس پر آئے ہوئے تھے
اچھا آو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
شاہ اسے اپنے ساتھ لیے اپنے پسندیدہ گھوڑے کے پاس لے آیا
اسے گھوڑے پر بیٹھا کر خود اسے پیچھے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور گھوڑے کی لگام
پکڑ لی
تم کیوں بیٹھے ہو ۔۔۔۔۔۔ دیا نے اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ شاہ سے پوچھا
میرا بھی دل کر رہا تھا ہارس رائیڈنگ کرنے کو
شاہ شوخ لہجے میں گویا ہوا
کسی اور گھوڑے پر بیٹھو میرے ساتھ نہیں
دیا بولی
نہیں میں تو اسی گھوڑے پر بیٹھنا ہے
شاہ نے گھوڑے کو بھاگنا شروع کر دیا
کافی دیر بعد شاہ نے گھوڑا روکا اور خود نیچے اتر کر دیا کو بھی نیچے اتارا
دیا کا منہ بنا ہوا تھا
شاہ اسکا پھولا ہوا منہ دیکھ کر مسکرا دیا
مزا نہیں آیا کیا جو ایسے منہ پھولا رکھا ہے ۔۔۔۔۔
ہوں ۔۔ دیا ہوں کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
شاہ مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ فارم ہاو س سے حیویلی کی طرف جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی
کے آگے دو گاڑیاں آ رکی اور ان کے جانے کا راستہ بند
کر دیا
مجبورا شاہ کو گاڑی روکنا پڑی
ان گاڑیوں نے آٹھ لوگ باہر آئے شاہ کو خطرے کا احساس ہوا
یہ کیا ہو رہا ہے اذلان یہ لوگ کون ہیں اور ہماری طرف کیوں آرہے ہیں
دیا نے اس سے پوچھا
دیا فکر نہیں کرو میں ہو ں نا ۔۔۔۔
شاہ نے فورا گاڑی ریورس کی اور گاڑی بھاگنا شروع کر دی
وہ سب لوگ گاڑی میں سوار ہو کر شاہ کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی گاڑی پر گولیاں چلانے لگے
ایک گولی ان کی گاڑی کے ٹائر میں لگی جس کی وجہ سے گاڑی لڑکھڑا گئی
شاہ نے گاڑی بڑی مشکل سے کنڑول کی
گاڑی روک کر شاہ نے دیا کو اپنے ساتھ لیا اور بھاگنا شروع کر دیا
وہ لوگ بھی ان کا پیچھا کر رہے تھے
دیا اور شاہ جنگل میں پہنچ چکے تھے
دیا درخت پر چڑھنا آتا ہے شاہ نے اس سے پوچھا جو اس وقت ہرنی کے بچے کی طرح سہمی ہوئی تھی
دیا نے نفی میں سر ہلایا
اچھا میری کمر پر چڑھ جاو اور مجھے کس کے پکڑ لو ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی کمر کر چڑھ کے اسکو زور سے پکڑ لیا
شاہ اسے لیے ایک گھنے درخت پر چڑھ گیا جہاں وہ آسانی سے کھڑے ہو سکتے تھے
اور ان لوگوں سے چھپ بھی سکتے تھے
شاہ نے دیا کو درخت کے ساتھ کھڑا کیا اور خود اسکی طرف رخ کیے کھڑا ہو گیا
دیا اس کے چمٹ کر کھڑی تھی
دیا وہ لوگ ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں تم آواز نا نکالنا ورنہ ہم پکڑے جائیں گے
شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی
دیا نے اسکے ساتھ لگے ہی ہاں میں سر ہلایا
شاہ نے اپنا موبائیل سائیلنٹ موڈ پر کیا اور خدا کا شکر بھی کیا کہ اسکا موبائیل
پینٹ کی پاکٹ میں ہی تھا
وہ اکیلا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑ کر ان کا منہ توڑ دیتا پر اس کے ساتھ دیا تھی جس کی وجہ سے اس سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی
وہ لوگ کافی ان کو ڈھونڈتے رہے اور ناکام ہو کر لوٹ گئے
ان کے جانے کے تقریبا آدھا گھنٹا بعد شاہ نے اپنے سیکڑی کو فون کر کے ان لوگوں کا پتا کرانے کا بولا
اور حیویلی فون کر کے ڈرائیور کو فون کر کے گاڑی یہاں لانے کا کہا
اور کتنی دیر یہاں رہنا ہے مجھ سے اور کھڑا نہیں ہوا جا رہا
دیا بولی
چلو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ اسے لیے درخت سے نیچے آ گیا
مجھ سے چلا نہیں جارہا ۔۔۔۔۔۔دیا بے بسی سے بولی
بھاگنے اور اتنی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے دیا کی ہمت جواب دے گئی تھی
شاہ نے اسکی طرف دیکھا جس نے رو رو کر اپنی نکھیں سوجا لی تھیں
شاہ کو ان لوگوں پر بہت غصہ تھا جن کی وجہ سے اسکی دیا
کو اتنی تکلیف سہنی پڑ رہی تھی
شاہ نے اسے اپنے بازوں میں بھر کے چلنا شروع کر دیا
دیا اسکے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی جو اس وقت بہت غصے میں دیکھائی دے رہا تھا
شاہ اسے روڈ تک لے آیا یہاں ڈرائیور گاڑی کے ساتھ موجود تھا
دیا کو گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر بیٹھا کر خود بھی اس
کے ساتھ بیٹھ گیا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا بولا
تم جاو میں ایک کام سے جارہا ہوں رات تک واپس آ جاو گا ۔۔
حیویلی پہنچ کر شاہ اس سے بولا
کہاں جارہے ہو ۔۔۔۔۔۔
بس ہے ایک کام ۔۔۔۔ شاہ نے اسے ٹالا وہ اسے بتا کر اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
تم ان لوگوں کے پیچھے جا رہے ہو نا ۔۔۔۔۔ دیا نے اسکی طرف دیکھا
ہاں ان کا ہی پتا کرنے جا رہا ہوں میں ان کو چھوڑوں گا نہیں ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی ایسا کرنے کی
شاہ غصے سے لال ہو رہا تھا
اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔
کچھ نہیں ہو گا ڈونٹ وری تم جاو ۔۔ شاہ نے اسکا گال تھپتھپایا
دیا اس کے گلے لگ گئی
شاہ نے اسے خود میں بھینچ لیا
بہت ہی غلط وقت چنا ہے تم نے ۔۔۔۔۔ شاہ شوخ لہجے میں بولا
دیا فورا اس سے دور ہوئی اور خود کو ملامت کی کہ کیوں وہ ایسا کر بیٹھی
اللہ حافظ ۔۔۔۔ شاہ مسکراتے ہوئے بولا
اللہ حافظ دھیان رکھنا اپنا ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔
شاہ وہاں سے چلا گیا اور دیا حیویلی کے اندر آ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتاو کس کے کہنے پر تم نےمجھ پر حملہ کیا تھا
شاہ کے ہتھے ان گولوں میں سے ایک لگ گیا تھا جن لوگوں نے اس پر اور دیا پر
حملہ کیا تھا
شاہ نے پہلے اچھی طرح سے اس کی درگت بنائی
جب وہ مار کھا کھا کے نڈھال ہو گیا تب شاہ نے اس سے پوچھا
بولو ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکا منہ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا
جس سے وہ کراہ اٹھا
بتاتا ہوں ۔۔۔ بتاتا ہوں ۔۔ وہ آدمی بولا
شاہ نے اسکا منہ چھوڑ دیا
مجھے بلال صاحب نے بھیجا تھا آپ پر حملہ کرنے لے لیے
اس آدمی نے شاہ کی بات کا جواب دیا
اسکی تو ۔۔۔۔۔ شاہ نے پاس پڑی کرسی کو غصے سے ٹھوکر لگائی
چھوڑ دو اسے شاہ اپنے آدمی سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
شاہ سیدھا بلال کے پاس اس کے گھر پہنچا
گارڈز نے اسے دروازے پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نا رکھا اور انہیں دھکا
دیتا ہوا اندر آ گیا
تم لوگ جاو ۔۔۔بلال نے گارڈز سے کہا جو شاہ کو روکنے اس کے پیچھے آ رہے تھے
گارڈز وہاں سے چلے گئے
شاہ غصے سے بلال کی طرف آیا اور ایک زور کا گھونسا اسکے منہ پر جڑ دیا
بلال دور جا گرا
تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے اوپر حملہ کروانے کی ۔۔۔
شاہ غصے سے دھاڑا
بلال غصے سے اٹھا اور شاہ پر وار کرنا چاہا
تو شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھا
تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا وہ بھی میرے ہی گھر میں ۔۔۔
بلال غصے سے بولا
ہاں میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ شاہ نے ایک اور مکہ اس کے منہ پر مارا
پھر ایک اور مکہ اسکے پیٹ میں مارا
شاہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا
شاہ نے پاگلوں کی طرح بلال کو مارنا شروع کر دیا
بلال شاہ کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا وہ نیچے پڑا ہوا تھا اور شاہ اوپر سے اسے مار رہا تھا
اب آئندہ مجھ پر حملہ کروانے سے پہلے سوچ لینا اس بار تو
زندہ چھوڑ رہاہوں آئیندہ نہیں چھوڑوں گا
شاہ غصے سے اسے ٹھوکر مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے ابھی تک نہیں آیا
دیا لاونج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی
کافی دیر وہ اسکا انتظار کرتی رہی پر وہ نا آیا
دیا کی آنکھ لگ گئی وہ صوفے پر سر ٹکا کر سو گئی
شاہ جب حیویلی آیا تو لاونج میں دیا کو صوفے پر سوتے ہوئے پایا
شاہ جو غصے میں تھا دیا کو دیکھتے ہی اسکا سارا غصہ اڑن چھو ہو گیا
وہ مسکراتے ہوئے صوفے کے پاس آیا
اور گھٹنوں کے بل فرش پر دیا کے پاس بیٹھ گیا
شاہ نے دیا کا ایک ہاتھ جو صوفے سے لٹک رہا تھا اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا
شاہ نے اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا
پھر اس نے دیا کے چہرے پر آئے بال ہٹائے
تو دیا ہلکا سا کسمسائی شاہ نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا
کافی دیر شاہ ویسے ہی بیٹھے دیا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکو دیکھتا رہا
شاہ نے دیا کے نرم وملائم گال کو اپنی دو انگلیوں سے چھوا
اور اسکی پیشانی چوم لی
آئی لو یو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو کو اپنے لبوں سے چھوا
اذلان نے اسے اپنی بانہوں بھرا اور اسے اٹھائے
اسکے روم میں لے جا کر اس کے بیڈ پر لیٹا دیا
اور خود اپنے روم میں چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ نے مندی مندی سی آنکھیں کھولیں تو دیا کو خود کو گھورتے ہوئے پایا
وہی ہوا نا جس کا خدشہ تھا شاہ نے دل میں سوچا اور اٹھ بیٹھا
تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔
دیا نے اس سے سخت لہجے میں پوچھا
تم نے ہی روکا تھا اس لیے رک گیا ۔۔۔۔۔
شاہ نے اطمینان سے جواب دیا
میں نے روکا تھا تو تم کیوں رکے ویسے بھی اس وقت میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی
کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا
تم سب سے صلح کر چکی ہو پھر مجھے ہی کیوں اگنور کرتی ہو مجھ سے برے طریقے
سے پیش آتی ہو آخر کیوں
میں تمھاری بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ہوں اور اب تم نکلو یہاں سے
دیا جزبات سے عاری لہجے میں گویا ہوئی
ایسے تو نہیں جانے والا میں پہلے وجہ بتاو۔۔۔۔۔
شاہ جانے کو تیار نہیں تھا وہ وہی اڑ کر بیٹھ گیا
دیا مسلسل اسے گھور رہی تھی
کوئی وجہ نہیں ہے تم جاو یہاں سے
نہیں جاوں گا پہلے وہ وجہ بتاو۔۔۔۔
میں تم سے نفرت کرتی ہوں ۔۔۔سن لیا اب جاو
تم مجھ سے نفرت نہیں کرتی ہو یہ بات میں جانتا ہوں
میں نے کئی بار تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی ہے جسے تم چھپانے کی کوشش کرتی ہو
کوئی نہیں ہے مجھے تم سے محبت ۔۔۔۔۔۔دیا چیخ ہی پڑی تھی
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہی بات کہو ایک بار ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف اسکے محبت ہی محبت تھی
کیوں نہیں جارہے ہو پلیز چلے جاو یہاں سے ۔۔۔۔۔
دیا منت بھرے لہجے میں بولی
تم کیوں کر رہی ہو مجھے خود سے دور کیوں خود کو اور مجھے تکلیف دے رہی ہو
مان جاو نا اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو مجھے معاف کر دو
میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں
شاہ نے اسکے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے
شاہ کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں
دیا نے روتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے
میں تمھاری زندگی میں شامل ہو گئی تو تمھاری زندگی مشکل ہو جائے گی
میں آج تک اپنے پاپا کے علاوہ کسی سے کلوز نہیں ہو پائی
اپنی نیچر کی وجہ سے
تم سے دور اس لیے رہتی ہوں تاکہ میری وجہ سے تمھیں مشکل نا ہو
اگر میں نے تم سے رشتہ قائم کر لیا نا تمھیں ایک پل کے لیے بھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی
میں اس معاملے میں ایسی ہی ہوں
تم مجھ سے اکتا جاو گے مجھے چھوڑ دو گے اور میں مر جاو گی اگر ایسا ہوا تو ۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
مجھے کچھ ٹائم چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں ایسا کچھ چاہتی ہی نہیں
تم اپنی زندگی گزارو اور میں اپنی ہمارے لیے یہی ٹھیک رہے گا
دیا شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا یا تم سے اکتا جاوں گا
مجھے قبول کر لو بدلے میں چاہے ساری عمر اپنے پاس ہی بیٹھائے رکھنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
شاہ اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرے بول رہا تھا
تم جاو یہاں سے اس پر پھر کبھی بات کریں گے
دیا نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور اس سے دور کھڑی ہو گئی
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ۔۔۔۔
پر زیادہ دیر نا کرنا کیا پتا میری زندگی کا میں رہوں یا نا رہوں
شاہ اس سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
دیا اسے جاتا دیکھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھوڑے بہت اچھے ہیں کیا میں ہارس رائیڈنگ کر سکتی ہوں ۔۔۔۔۔
دیا نے شاہ سے فرمائش کی
تمھیں آتی ہے ہارس رائیڈنگ ۔۔۔۔۔ شاہ نے اس سے پوچھا
ہاں آتی ہے تھوڑی بہت ۔۔۔۔۔
دیا اور شاہ نے اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی
آج وہ دونوں فارم ہاوس پر آئے ہوئے تھے
اچھا آو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
شاہ اسے اپنے ساتھ لیے اپنے پسندیدہ گھوڑے کے پاس لے آیا
اسے گھوڑے پر بیٹھا کر خود اسے پیچھے گھوڑے پر بیٹھ گیا اور گھوڑے کی لگام
پکڑ لی
تم کیوں بیٹھے ہو ۔۔۔۔۔۔ دیا نے اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ شاہ سے پوچھا
میرا بھی دل کر رہا تھا ہارس رائیڈنگ کرنے کو
شاہ شوخ لہجے میں گویا ہوا
کسی اور گھوڑے پر بیٹھو میرے ساتھ نہیں
دیا بولی
نہیں میں تو اسی گھوڑے پر بیٹھنا ہے
شاہ نے گھوڑے کو بھاگنا شروع کر دیا
کافی دیر بعد شاہ نے گھوڑا روکا اور خود نیچے اتر کر دیا کو بھی نیچے اتارا
دیا کا منہ بنا ہوا تھا
شاہ اسکا پھولا ہوا منہ دیکھ کر مسکرا دیا
مزا نہیں آیا کیا جو ایسے منہ پھولا رکھا ہے ۔۔۔۔۔
ہوں ۔۔ دیا ہوں کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
شاہ مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ فارم ہاو س سے حیویلی کی طرف جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی
کے آگے دو گاڑیاں آ رکی اور ان کے جانے کا راستہ بند
کر دیا
مجبورا شاہ کو گاڑی روکنا پڑی
ان گاڑیوں نے آٹھ لوگ باہر آئے شاہ کو خطرے کا احساس ہوا
یہ کیا ہو رہا ہے اذلان یہ لوگ کون ہیں اور ہماری طرف کیوں آرہے ہیں
دیا نے اس سے پوچھا
دیا فکر نہیں کرو میں ہو ں نا ۔۔۔۔
شاہ نے فورا گاڑی ریورس کی اور گاڑی بھاگنا شروع کر دی
وہ سب لوگ گاڑی میں سوار ہو کر شاہ کی گاڑی کا پیچھا کرنے لگے اور ان کی گاڑی پر گولیاں چلانے لگے
ایک گولی ان کی گاڑی کے ٹائر میں لگی جس کی وجہ سے گاڑی لڑکھڑا گئی
شاہ نے گاڑی بڑی مشکل سے کنڑول کی
گاڑی روک کر شاہ نے دیا کو اپنے ساتھ لیا اور بھاگنا شروع کر دیا
وہ لوگ بھی ان کا پیچھا کر رہے تھے
دیا اور شاہ جنگل میں پہنچ چکے تھے
دیا درخت پر چڑھنا آتا ہے شاہ نے اس سے پوچھا جو اس وقت ہرنی کے بچے کی طرح سہمی ہوئی تھی
دیا نے نفی میں سر ہلایا
اچھا میری کمر پر چڑھ جاو اور مجھے کس کے پکڑ لو ۔۔۔۔۔
دیا نے اسکی کمر کر چڑھ کے اسکو زور سے پکڑ لیا
شاہ اسے لیے ایک گھنے درخت پر چڑھ گیا جہاں وہ آسانی سے کھڑے ہو سکتے تھے
اور ان لوگوں سے چھپ بھی سکتے تھے
شاہ نے دیا کو درخت کے ساتھ کھڑا کیا اور خود اسکی طرف رخ کیے کھڑا ہو گیا
دیا اس کے چمٹ کر کھڑی تھی
دیا وہ لوگ ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں تم آواز نا نکالنا ورنہ ہم پکڑے جائیں گے
شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی
دیا نے اسکے ساتھ لگے ہی ہاں میں سر ہلایا
شاہ نے اپنا موبائیل سائیلنٹ موڈ پر کیا اور خدا کا شکر بھی کیا کہ اسکا موبائیل
پینٹ کی پاکٹ میں ہی تھا
وہ اکیلا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑ کر ان کا منہ توڑ دیتا پر اس کے ساتھ دیا تھی جس کی وجہ سے اس سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی
وہ لوگ کافی ان کو ڈھونڈتے رہے اور ناکام ہو کر لوٹ گئے
ان کے جانے کے تقریبا آدھا گھنٹا بعد شاہ نے اپنے سیکڑی کو فون کر کے ان لوگوں کا پتا کرانے کا بولا
اور حیویلی فون کر کے ڈرائیور کو فون کر کے گاڑی یہاں لانے کا کہا
اور کتنی دیر یہاں رہنا ہے مجھ سے اور کھڑا نہیں ہوا جا رہا
دیا بولی
چلو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ اسے لیے درخت سے نیچے آ گیا
مجھ سے چلا نہیں جارہا ۔۔۔۔۔۔دیا بے بسی سے بولی
بھاگنے اور اتنی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے دیا کی ہمت جواب دے گئی تھی
شاہ نے اسکی طرف دیکھا جس نے رو رو کر اپنی نکھیں سوجا لی تھیں
شاہ کو ان لوگوں پر بہت غصہ تھا جن کی وجہ سے اسکی دیا
کو اتنی تکلیف سہنی پڑ رہی تھی
شاہ نے اسے اپنے بازوں میں بھر کے چلنا شروع کر دیا
دیا اسکے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی جو اس وقت بہت غصے میں دیکھائی دے رہا تھا
شاہ اسے روڈ تک لے آیا یہاں ڈرائیور گاڑی کے ساتھ موجود تھا
دیا کو گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر بیٹھا کر خود بھی اس
کے ساتھ بیٹھ گیا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا بولا
تم جاو میں ایک کام سے جارہا ہوں رات تک واپس آ جاو گا ۔۔
حیویلی پہنچ کر شاہ اس سے بولا
کہاں جارہے ہو ۔۔۔۔۔۔
بس ہے ایک کام ۔۔۔۔ شاہ نے اسے ٹالا وہ اسے بتا کر اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
تم ان لوگوں کے پیچھے جا رہے ہو نا ۔۔۔۔۔ دیا نے اسکی طرف دیکھا
ہاں ان کا ہی پتا کرنے جا رہا ہوں میں ان کو چھوڑوں گا نہیں ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی ایسا کرنے کی
شاہ غصے سے لال ہو رہا تھا
اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔
کچھ نہیں ہو گا ڈونٹ وری تم جاو ۔۔ شاہ نے اسکا گال تھپتھپایا
دیا اس کے گلے لگ گئی
شاہ نے اسے خود میں بھینچ لیا
بہت ہی غلط وقت چنا ہے تم نے ۔۔۔۔۔ شاہ شوخ لہجے میں بولا
دیا فورا اس سے دور ہوئی اور خود کو ملامت کی کہ کیوں وہ ایسا کر بیٹھی
اللہ حافظ ۔۔۔۔ شاہ مسکراتے ہوئے بولا
اللہ حافظ دھیان رکھنا اپنا ۔۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔
شاہ وہاں سے چلا گیا اور دیا حیویلی کے اندر آ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتاو کس کے کہنے پر تم نےمجھ پر حملہ کیا تھا
شاہ کے ہتھے ان گولوں میں سے ایک لگ گیا تھا جن لوگوں نے اس پر اور دیا پر
حملہ کیا تھا
شاہ نے پہلے اچھی طرح سے اس کی درگت بنائی
جب وہ مار کھا کھا کے نڈھال ہو گیا تب شاہ نے اس سے پوچھا
بولو ۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکا منہ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا
جس سے وہ کراہ اٹھا
بتاتا ہوں ۔۔۔ بتاتا ہوں ۔۔ وہ آدمی بولا
شاہ نے اسکا منہ چھوڑ دیا
مجھے بلال صاحب نے بھیجا تھا آپ پر حملہ کرنے لے لیے
اس آدمی نے شاہ کی بات کا جواب دیا
اسکی تو ۔۔۔۔۔ شاہ نے پاس پڑی کرسی کو غصے سے ٹھوکر لگائی
چھوڑ دو اسے شاہ اپنے آدمی سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
شاہ سیدھا بلال کے پاس اس کے گھر پہنچا
گارڈز نے اسے دروازے پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نا رکھا اور انہیں دھکا
دیتا ہوا اندر آ گیا
تم لوگ جاو ۔۔۔بلال نے گارڈز سے کہا جو شاہ کو روکنے اس کے پیچھے آ رہے تھے
گارڈز وہاں سے چلے گئے
شاہ غصے سے بلال کی طرف آیا اور ایک زور کا گھونسا اسکے منہ پر جڑ دیا
بلال دور جا گرا
تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے اوپر حملہ کروانے کی ۔۔۔
شاہ غصے سے دھاڑا
بلال غصے سے اٹھا اور شاہ پر وار کرنا چاہا
تو شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کچھ بھی کرنے سے باز رکھا
تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا وہ بھی میرے ہی گھر میں ۔۔۔
بلال غصے سے بولا
ہاں میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ شاہ نے ایک اور مکہ اس کے منہ پر مارا
پھر ایک اور مکہ اسکے پیٹ میں مارا
شاہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا
شاہ نے پاگلوں کی طرح بلال کو مارنا شروع کر دیا
بلال شاہ کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا وہ نیچے پڑا ہوا تھا اور شاہ اوپر سے اسے مار رہا تھا
اب آئندہ مجھ پر حملہ کروانے سے پہلے سوچ لینا اس بار تو
زندہ چھوڑ رہاہوں آئیندہ نہیں چھوڑوں گا
شاہ غصے سے اسے ٹھوکر مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے ابھی تک نہیں آیا
دیا لاونج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی
کافی دیر وہ اسکا انتظار کرتی رہی پر وہ نا آیا
دیا کی آنکھ لگ گئی وہ صوفے پر سر ٹکا کر سو گئی
شاہ جب حیویلی آیا تو لاونج میں دیا کو صوفے پر سوتے ہوئے پایا
شاہ جو غصے میں تھا دیا کو دیکھتے ہی اسکا سارا غصہ اڑن چھو ہو گیا
وہ مسکراتے ہوئے صوفے کے پاس آیا
اور گھٹنوں کے بل فرش پر دیا کے پاس بیٹھ گیا
شاہ نے دیا کا ایک ہاتھ جو صوفے سے لٹک رہا تھا اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا
شاہ نے اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا
پھر اس نے دیا کے چہرے پر آئے بال ہٹائے
تو دیا ہلکا سا کسمسائی شاہ نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا
کافی دیر شاہ ویسے ہی بیٹھے دیا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکو دیکھتا رہا
شاہ نے دیا کے نرم وملائم گال کو اپنی دو انگلیوں سے چھوا
اور اسکی پیشانی چوم لی
آئی لو یو جان اذلان ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو کو اپنے لبوں سے چھوا
اذلان نے اسے اپنی بانہوں بھرا اور اسے اٹھائے
اسکے روم میں لے جا کر اس کے بیڈ پر لیٹا دیا
اور خود اپنے روم میں چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔